آسیہ بیگم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آسیہ بیگم

معلومات شخصیت
پیدائش 13 نومبر 1951ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پٹیالہ،  پنجاب  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 مارچ 2013ء (62 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کینیڈا  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ادکارہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں شریف بدمعاش،  چترا تے شیرا،  جگا گجر،  مولا جٹ،  وحشی گجر،  بہرام ڈاکو،  قانون شکن،  دیس پردیس،  یہ آدم  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آسیہ بیگم (انگریزی: Asiya) کی پیدائش 1951ء میں کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں "پری چہرہ" کے نام سے مشہور آسیہ کا اصل نام فردوس تھا، ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم انسان اور آدمی سے کیریئر کا آغاز کیا، ہدایت کار رنگیلا کی فلم "دل اور دنیا "میں آسیہ نے اندھی لڑکی کا کردار اس خوبصورتی سے نبھایا ہے جو مدتوں یاد رکھا جائے گا، آسیہ کا انتقال 9 مارچ 2013ء کو کینیڈا میں ہوا۔

ذاتی زندگی[ترمیم]

اداکارہ آسیہ کا گھریلو نام فردوس اکرام تھا۔ 1947ء میں ان کے گھر والے پیٹالہ (بھارت) سے ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔ آسیہ 1951ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے نیو ٹاؤن اسکول سے میٹرک کیا۔ فلموں میں اداکاری کا شوق نہیں تھا لیکن رقص اور گائیکی کا شوق ضرور تھا۔ابتدائی فنی زندگی میں ریڈیو آرٹسٹ کے طور پرپروگرام کرنے لگیں ۔ رقص کی باقاعدہ تربیت غلام حسین جونا گڑھی سے حاصل کی۔ اس وقت وہ فردوس جونیئر کے نام سے نجی محفلوں میں پرفارم کرتی تھیں۔ 1970ء کا ذکر ہے جب فوٹو گرافر نبی احمد نے ان کی کچھ تصاویر بنائیں جنہیں ریاض شاہد نے دیکھا۔ وہ ان دنوں اپنی نئی رنگین تاریخی فلم ’’غرناطہ‘‘ کے لیے نئے چہرے کی تلاش میں تھے انھیں یہ چہرہ پسند آیا اور معروف صحافی الیاس رشیدی نے بھی ان کی سفارش کی لہٰذا ریاض شاہد نے آسیہ کو اپنی فلم میں کاسٹ کر لیا اور فردوس کو آسیہ کا نام صرف اس لیے دیا کہ ’’فردوس‘‘ نام کی اداکارہ پہلے سے فلموں میں کام کر رہی تھیں۔ ’’غرناطہ‘‘ کی شوٹنگ کا آغاز ہوا۔ فلم کے سیٹس حبیب شاہ نے ایورنیو اسٹوڈیوز میں لگائے تھے اور ریاض شاہد ڈائریکٹر آف سنیما ٹوگرافر بابر بلال کے ساتھ کیمرے کی آنکھ سے آسیہ کو دیکھ رہے تھے۔آسیہ کیمرے کے سامنے خوبصورت لباس میں ملبوس خواب گاہ کے سین میں گانے کے لیے رقصاں تھیں۔ گانے کے بول تھے ’’آرا ت بھی ہے ، مقدر بھی ہے، ستارے بھی ہیں‘‘ آسیہ کی بھر پور پرفارمنس اور رقص سے ریاض شاہد ان کی صلاحیتوں کے معترف ہو گئے ۔ ریاض شاہد اس کردار کے لیے پہلے اداکارہ عالیہ کو لینا چاہتے تھے لیکن فلم ’’دھی رانی‘‘ کی کام یابی کے بعد عالیہ سے وقت نہ مل سکا اور یہ کردار آسیہ کے حصے میں آگیا۔

فلمی کیریئر[ترمیم]

ہدایت کار شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم’’انسان اور آدمی‘‘ میں (طلعت حسین) کے ساتھ ہیروئن کاسٹ کر لیا اس فلم میں محمد علی اور زیبا کا مرکزی کردار تھا۔ یہ فلم چند ماہ میں مکمل کرکے نمائش کے لیے پیش کردی گئی۔ فلم بے حد کامیاب رہی اور گولڈن جوبلی سے ہم کنار ہوئی۔ اس کے ساتھ ہدایت کار عزیز میرٹھی کی فلم ’’یادیں‘‘ میں محمد علی اور زیبا کے ساتھ اور ہدایت کار رضا میر کی فلم ’’پرائی آگ‘‘ میں بھی آسیہ کو کاسٹ کر لیا گیا جس میں ندیم اور شمیم آرا مرکزی کرداروں میں تھے لیکن انھیں ان دونوں فلموں سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔ 1971ء میں ہدایت کار کے خورشید کی کامیاب نغماتی فلم ’’چراغ کہاں روشنی کہاں‘‘ میں آسیہ نے کلب ڈانسر کا کردار ادا کیا جس میں ندیم اور شبنم مرکزی کرداروں میں تھے مگر انھیں اصل شہرت اداکار و ہدایت رنگیلا کی اردو فلم ’’دل اور دنیا‘‘ سے ملی جس میں انھوں نے ایک نابینا لڑکی کا کردار ادا کیا جو سڑکوں اور گلیوں، بازاروں میں پھولوں کے گجرے بیچ کر اپنی گذر اوقات کرتی ہے اس فلم میں آسیہ ہیروئن تھیں اور ان کا ڈبل کردار تھا۔ ایک طرف رنگیلا اور دوسری طرف حبیب ان کے ہیرو تھے ان پر گلوکارہ رونا لیلی کی آواز میں گانا ’’چمپا اور چنبیلی یہ گلیاں نئی نویلی ‘‘ آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بعد وہ فلم ‘’ میں اکیلا‘‘ اور ’’ میں بھی تو انسان ہوں‘‘ میں اداکار شاہد کے مقابل ہیروئن آئیں ’’میں بھی تو انسان ہوں‘‘ کا مرکزی کردار ادا کار رنگیلا نے بڑی کامیابی کے ساتھ ادا کیا اور شاہد اور آسیہ پر ایک مقبول گیت پکچرائز کیا گیا جس کے بول تھے ’’ جب بھی سنوں میں تیری بانسریا‘‘ یہ گانا رجب علی اور رونا لیلی کی آوازوں میں تھا۔ اپنی فنی زندگی کے دو برس بعد آسیہ نے پہلی بار کراچی میں ہدایت کار رفیق علی راکھن کی فلم’’پازیب‘‘ میں اداکار ندیم کے مقابل ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ یہ ایک بلیک اینڈ وہائٹ فلم تھی جو رنگین فلموں کا دور شروع ہونے کی وجہ سے بری طرح ناکام ہو گئی تھی۔ اس دوران ہدایت کار حسن طارق کی فلم ’’امرائو جان ادا‘‘ میں آسیہ نے رانی (امرائو جان) کی ہم جولی طوائف کا کردار نبھایا۔ فلم میں رونالیلی کی آواز اور نثار بزمی کی کم پوزیشن میں ایک بڑا ہی خوب صورت مجرا ’’مانے نہ بیری بلما‘‘ پر آسیہ نے رانی اور زمرد کے ساتھ بہترین رقص پیش کیا۔ اس دوران آسیہ کی پہلی پنجابی فلم ’’پنوں دی سسّی‘‘ میں انھوں نے سسی (سنگیتا) کی سہیلی کا کردار ادا کیا۔ معیاری فلم ہونے کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کرسکی ۔ ہر برس آسیہ کی فلموں کی تعداد بڑھنے لگی۔ اپنی فلمی زندگی کے چوتھے سال ان کی فلموں کی تعداد گیارہ ہو گئی جس میں ہدایت کار رنگیلا کی فلم ’’دو رنگیلے‘‘ ہدایت کار راکھن کی فلم ’سہرے کے پھول‘‘ اور ہدایت کا رطیب زیدی کی فلم ’’بے ایمان‘‘ کامیاب رہیں۔ فلم سہرے کے پھول میں آسیہ نے ندیم کی محبوبہ اور قوی خان کی بیوی کا یادگار کردار ادا کیا۔ لہری کی مزاحیہ اداکاری اور شیون رضوی کا مہدی حسن کی آواز میں گانا’’ آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر مجھ کو‘‘ آج بھی سماعتوں میں رس گھولتا ہے۔ بھارت سے آئے ہوئے معروف ہدایت کار رفیق علی (راکھن) کی آسیہ کے بارے میں رائے تھی کہ ایسی اداکارائیں رو ز روز پیدا نہیں ہوتیں، یہ فن کی دیوی ہے۔ ہدایت کار الطاف حسین کی پنجابی فلم ’’چار خون دے پیاسے ‘‘ میں آسیہ نے پہلی بار عین جوانی میں ینگ ٹو اولڈ کردار ادا کیا ۔ اس فلم میں یہ افضل خان کی ماں بنی تھیں۔ یہ فلم اداکار مصطفیٰ قریشی کی پہلی پنجابی فلم بھی تھی اور بے حد کامیاب رہی تھی۔ 1974ء میں آسیہ کی اکیس فلمیں ریلیز ہوئیں کسی بھی اداکارہ کی پانچویں سال اتنی زیادہ فلمیں ریلیز ہونا یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہدایت کاروں کے لیے کتنی اہم ہے۔ اردو اور پنجابی کی کئی کام یاب فلمیں آسیہ کے حصے میں آئیں جن میں ہدایت کار ایم اے رشید کی گولڈن جوبلی فلم ’’تم سلامت رہو‘‘ میں ان کے مقابل محمد علی اور وحید مراد نے ہیرو کے کردار ادا کیے۔ فلم ’’نمک حرام‘‘ میں مزاحیہ اداکار منور ظریف کی جوڑی بے حد پسند کی گئی۔ فلم ’’تم سلامت رہو‘‘ میں آسیہ پر فلم بند نور جہاں کی آواز میں گانا ’’محبت زندگی ہے اور تم میری محبت ہو‘‘ بہت مشہور ہوا۔ آسیہ نے جہاں اردو فلموں کے اداکار محمد علی، وحید مراد، ندیم، کے مقابل کام کیا وہیں وہ پنجابی فلموں کے اداکار سدھیر، سلطان راہی، اقبال حسن، یوسف خان کے ساتھ بھی پسند کی گئیں۔ ان کی مشہور پنجابی فلموں میں لاٹری، غلام، جیرا بلیڈ، نوکر ووہٹی دا، ہاشو خاں، یار مستانے، کے بعد سلطان راہی اور آسیہ کی جوڑی بے حد مشہور ہوئی۔ سلطان راہی کے ساتھ کئی کامیاب فلموں میں آئیں جن میں طوفان، جگا گجر، قانون، لاہوری بادشاہ، وحشی جٹ اور خاص کر فلم ’’مولا جٹ‘‘ کے بعد ان کی جوڑی سلطان راہی کے سا تھ لازم و ملزوم ہو گئی اور یہ جب تک فلموں میں کام کرتی رہیں سلطان راہی کی ہیروئن رہیں۔ فلمی دنیا میں اپنے عروج کے دور میں شادی کرلی اور بنکاک شفٹ ہوگئیں۔ اس کے بعد یہ کینیڈا چلی گئیں۔ آسیہ نے اپنے 10 سالہ فلمی کیرئر میں 28 ،اردو فلموں اور تقریباً 150 پنجابی فلموں میں کام کیا۔

حالات زندگی[ترمیم]

آسیہ نے کئی سال قبل اپنے عروج کے دور میں ایک بزنس مین سے اچانک شادی کر کے شوبز کی دنیا چھوڑ دی تھی اور وہ پاکستان سے باہر جا کر کینڈا میں مقیم ہو گئی تھیں جہاں وہ اپنے شوہر اور چار بچوں کے ہمراہ خوش وخرم ازدواجی زندگی گزار رہی تھیں۔

وفات[ترمیم]

پاکستانی فلموں میں ہیروئن کا کردار ادا کرنے والی یہ خوش شکل اور اسمارٹ اداکارہ بیماری سے مقابلہ نہ کرسکی اور بالآخر 9 مارچ 2013ء کو 62 سال کی عمر میں کینڈا میں انتقال کرگئی۔ ۔کینڈا میں اداکارہ آسیہ کے انتقال کرجانے کی افسوسناک خبر جب پاکستان پہنچی تو یہاں کے فلمی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی کہ لولی وڈ کی ایک اور مقبول اور کامیاب اداکارہ بالکل غیر متوقع طور پر اچانک داغ مفارقت دے کر اس جہان فانی سے کوچ کرگئی اور یوں فن کی دنیا کا ایک اور ستارہ آسمان فلم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔ فلمی دنیا کے مشہور ہدایتکاروں اور فنکاروں نے اداکارہ آسیہ کے اچانک انتقال کر جانے پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے جن شاندار الفاظ میں اس بے مثال فنکارہ کی فنی صلاحیتوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ اداکارہ آسیہ کے فن و شخصیت کی ہر دلعزیزی اور فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]