روح اللہ خمینی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(آیت اللہ خمینی سے رجوع مکرر)
روح اللہ خمینی
(فارسی میں: روح الله موسوی خمینی ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

مناصب
رہبر معظم ایران (1 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
3 دسمبر 1979  – 3 جون 1989 
 
سید علی خامنہ ای 
معلومات شخصیت
پیدائش 17 مئی 1900ء[1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خمین[8]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 جون 1989ء (89 سال)[9]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تہران  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دورۂ قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن حرم سید روح اللہ خمینی  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت حزب جمہوری اسلامی  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ خدیجہ ثقفی (1929–3 جون 1989)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد مصطفیٰ خمینی،  احمد خمینی  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ سید حسین طباطبایی بروجردی،  فضل الله نوری  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص آیت اللہ منتظری  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان[8]،  شاعر،  مذہبی رہنما،  آخوند،  الٰہیات دان[8]،  متصوف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی[10]،  عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں کشف‌ اسرار  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں انقلاب اسلامی ایران،  ایران عراق جنگ  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سید روح اللہ موسوی خمینی المعروف امام خمینی ایران کے اسلامی مذہبی رہنما اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی تھے۔ آپ ایران کے پہلے رہبر معظم ایران ہیں۔

وہ گذشتہ 80 سالوں میں ایران کے پہلے رہنما تھے جنھوں نے اس دنیا کو قدرتی موت کے ساتھ الوداع کہا تھا۔

ان سے پہلے ایرانی حکومت کے سربراہوں کو یا تو جلاوطنی کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا یا ان کا قتل ہوا تھا۔ جب خمینی کی موت ہوئی تو حکومت ایران نے انھیں اسلام کے پیغمبر حضرت محمد اور ان کے بعد آنے والے اماموں کے بعد سب سے دینی شخص قرار دیا تھا۔[11]


1953ء میں رضا شاہ کے حامی جرنیلوں نے قوم پرست وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ کر تودہ پارٹی کے ہزاروں ارکان کو تہ تیغ کر دیا تو ایرانی علما نے درپردہ شاہ ایران کے خلاف مہم جاری رکھی اور چند سال بعد آیت اللہ خمینی ایرانی سیاست کے افق پر ایک عظیم رہنما کی حیثیت سے ابھرے- آپ کے خاندان نے کشمیر سے ایران ہجرت کی اور خاندان کی نسبت سید علی ہمدانی سے ملتی ہے۔

حالات زندگی[ترمیم]

آیت اللہ العظمٰی امام روح اللہ موسوی خمینی 24 ستمبر 1902ء کو خمین میں پیدا ہوئے جو تہران سے تین سو کلومیٹر دور ہے

امام خمینی 24 ستمبر سنہ 1902 کو ایران کے شہر خمین میں پیدا ہوئے۔ خمینی کم لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے تھے۔ [11]

ابتدائی حالات[ترمیم]

ایران، عراق اور اراک (ایران کا ایک شہر) میں دینی علوم کی تکمیل کی۔

انھوں نے چھ سال کی عمر سے قرآن پڑھنا شروع کیا۔ بعد میں انھوں نے قم شہر میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔[11]

عملی و سیاسی زندگی[ترمیم]

خمینی نے آیت اللہ بننے کے بعد ایران کے شاہ اور امریکا کے ساتھ ان کے تعلقات پر تنقید شروع کر دی، جس کی وجہ سے شاہ نے انھیں ملک بدر کر دیا۔

شاہ ایران کے قوانین[ترمیم]

28 اكتوبر 1964ء كا ذكر ہے شاہ كى حكومت نے اىک قانون كى منظورى دى جس كے تحت امرىكى فوجى مشن كے افراد كو سفارتكاروں كے ہم پلہ وہ حقوق دیے گئے جو ویانا كنونشن كے تحت سفارتكاروں كو حاصل ہیں اس كے معنى یہ ہیں کہ امرىكى جو چاہیں کرتے رہیں ان پر اىرانى قانون لاگو نہ ہو گا – اگلے دن امام خمینى نے مدرسہ فىضىہ قم مىں وہ شہرہ آفاق تقرىركى جو اىک عظىم انقلاب كا دىباچہ بن گئى انھوں نے کہا:

مىرا دل درد سے پھٹا جا رہا ہے میں اس قدر دل گرفتہ ہوں کہ موت كے دن گن رہا ہوں اس شخص (اشارہ: محمد رضا شاہ پہلوی ) نے ہمیں بىچ ڈالا ہمارى عزت اور ایران كى عظمت خاک میں ملا ڈالی،اہل ایران كا درجہ امریكى كتے سے بھى كم كر دیا گیا ہے اگر شاہ ایران كى گاڑی كسى امریكى كتے سے ٹکرا جائے تو شاہ كو تفتىش كا سامنا ہو گا لىكن كوئى امریكى خانساما شاہ ایران یا اعلى ٰترىن عہدے داروں كو اپنى گاڑی تلے روند ڈالے تو ہم بے بس ہوں گے، آخر كیوں ۔۔؟ كیونكہ ان كو امریكى قرضے كى ضرورت ہے- اے نجف، قُم،مشہد، تہران اور شیراز كے لوگو! میں تمہیں خبردار كرتا ہوں یہ غلامى مت قبول كرو كیا تم چپ رہو گے اور كچھ نہ کہو گے ؟ کیا ہمارا سودا كر دیا جائے اور ہم زبان نہ كھولىں۔۔۔۔؟؟؟

گرفتاری و جلا وطنی[ترمیم]

اس تقرىر نے تخت شاہی کو ہلا كر ركھ دىا پورا اىران ارتعاش محسوس كرنے لگا سات دن بعد امام خمینى كو گرفتار كركے تہران کے مہر آباد ہوائى اڈے سے جلا وطن كر دىا

آیت اللہ وہاں سے ترکی چلے گئے۔ اس کے بعد وہاں سے پہلے وہ عراق اور پھر فرانس گئے۔[11]


امام ایک سال ترکی میں رہے اور 4 اکتوبر 1965ء میں نجف اشرف چلے گئے۔ عراق کی سرزمین بھی آپ کے لیے تنگ ہو گئی تو 6 اکتوبر 1978ء کو فرانس منتقل ہو گئے۔ اور پیرس کے قریب قصبہ نوفل لوش تو میں سکونت اختیار کی۔ جلاوطنی کے اس سارے عرصے میں شاہ ایران کے خلاف تحریک کی ’’ جس میں ملک کے تمام محب وطن عناصر شامل تھے‘‘ رہنمائی کرتے رہے۔

ایران کے شاہ کو اقتدار سے ہٹایا[ترمیم]

ایران میں سنہ 1979 کے اوائل میں جو افراتفری پھیل گئی تھی اس کی وجہ سے معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، تیل کی پیداوار شدید متاثر ہوئی تھی اور ملک کا دار الحکومت تہران بائیں بازو اور دائیں بازو کے درمیان خونریز لڑائیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس دور میں ایران کے شاہ کو اقتدار سے ہٹانا خمینی کی ایک بڑی سیاسی کامیابی تھی۔[11]

17 جنوری 1979ء کو شاہ ایران ملک سے چلے گئے۔

وطن واپسی[ترمیم]

امام خمینى جب 1 فرورى 1979ء كو سولہ سالہ جلا وطنى كے بعد وطن واپس لوٹے تو تہران کے مہر آباد ہوائى اڈے سے بہشت زہرا كے قبرستان تک لاكھوں ایرانیوں نے ان كا استقبال كیا

خمینی پیرس سے تہران روانہ ہوئے[ترمیم]

یکم فروری سنہ 1979 کی رات ایک بجے چارٹرڈ بوئنگ 747 طیارے 'دی مے فلاور' نے پیرس کے ہوائی اڈے سے تہران کے لیے پروواز کیا۔ اس پر ایران کے شاہ کے خلاف انقلاب کے ہیرو آیت اللہ روح اللہ خمینی سوار تھے۔ 16 سال جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے خمینی اپنے وطن واپس آ رہے تھے۔

طیارے میں سوار مسافروں کی کل تعداد 168 تھی۔ اس پرواز میں کوئی خاتون یا بچہ اس خوف سے شامل نہیں کیا گیا تھا کہ ہوائی جہاز پر حملہ ہو سکتا ہے۔ یہ خدشہ بالکل بے بنیاد بھی نہیں تھا۔[11]

خمینی کے استقبال کے لیے بھیڑ امڈ پڑی[ترمیم]

لاكھوں ایرانیوں نے ان كا استقبال كیا -بعض لوگوں نے یہ تعداد 1 كروڑ سے بهى زىادہ لكهى ہے یہ بهى عجیب دن تها شاہانہ جاہ و جلال ركهنے والا اىک حكمران امریكہ كى بهرپور سرپرستى اىک بڑى سپاہ اور ساواک جیسى خونخوار ایجنسى كے باوجود اىک خرقہ پوش كے ہاتهوں شكست كها كر ملک سے فرار ہو چكا تها اس كى نامزد كردہ حكومت خزاں رسیدہ پتے كى طرح كانپ رہى تهى شاہ پور بختىار تمام تر كاغذى اختىارات كے باوجود ردى كے كاغذ كا اىک پرزہ بن چكا تها جو كسى لمحے کوڑا دان كا رزق بننے والا تها۔

ان کی آمد تک شاہ کے دور کے وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ انھیں نظر انداز کرتے ہوئے خمینی نے مہدی بازارگان کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔

محمد ہیکل لکھتے ہیں: 'بختیار نے پورے ملک میں کرفیو نافذ کر دیا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ وہ اقتدار پر قابض ہے۔ خمینی نے جب یہ سنا تو ایک کاغذ نکالا اور اس پر فارسی میں لکھا: 'کرفیو کی پیروی نہ کریں۔'

اس کاغذ کے ٹکڑے کو ہر ٹیلی ویژن چینل پر دکھایا گیا۔ اس کے فوراً بعد لوگ کرفیو کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ جنرل غرابگی نے نو منتخب وزیر اعظم بزرگان کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا نمائندہ بھیجیں تاکہ میں فوج کا کنٹرول ان کے حوالے کر سکوں۔[11]

جنرل نصیری کو گولی ماری[ترمیم]

12 فروری کی رات پہلے جنرل نصیری، شاہ کے خاص الخاص اور ان کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سواک کے سربراہ نصیری کو مارا پیٹا گیا اور پھر انھیں جنرل ربی، ناجی اور خولروداد کر ساتھ 15 فروری کی رات ایک اسکول کی چھت پر گولی مار دی گئی۔خمینی نے صادق خلخیلی کو مقدمے کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔ اس نے خلخیلی کو ہدایت کی کہ ان لوگوں کی باتوں کو سنیں اور 'اس کے بعد ان سب کو جہنم واصل کریں۔'ان جرنیلوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسکول کی چھت پر لے جایا گیا جہاں انھیں ایک ایک کر کے گولی مار دی گئی۔ جب خمینی کو ان کی موت کی خبر ملی تو وہ لاشوں کو دیکھنے کے لیے خود تنگ سیڑھیوں سے چڑھ کر چھت پر گئے اور ایک منٹ تک وہاں رہے۔ اس کے بعد ان لاشوں کی فلم بناکر ایرانی ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔[11]

شاہ نے قم كے حوزہ علمیہ فیضیہ كى آواز دبانے كے لیے كیا کیا جتن نہ کیے كون كون سے مظالم نہ توڑے لیكن امام خمینى كى آواز نہ دبائى جا سكى امریكہ كى گود مىں بیٹها بادشاہ اہل ایران كى خودى اور ان كى زندگیوں سے كهىل رہا تها امام خمینى كچھ وقت قم میں گزارنے کے بعد تہران آئے تو کہا میں عوام کے درمیان کسی سادہ سے گھر میں رہوں گا حجت الاسلام سید مہدى نے بارگاہ حسینیہ جماران سے متصل اپنا گھر پیش كیا امام خمینى نے کہا میں كرائے كے بغىر نہیں رہوں گا 80 ہزار اىرانى رىال ىعنى تقرىباً 650 روپے ماہانہ كرایہ مقرر ہوا جنورى 1980ء سے 3 جون 1989ء تک امام اسى كواٹر نما گھر میں مقىم رہے یہ وہ دور تها جب ایران میں ان كى فرمانروائى تھی ان كے اشارہ ابرو كے بغىر ایک پتا بهى حركت نہ كرتا تها ایران كے انقلاب كى سارى صورت گرى اسى حجرے میں ہوئى۔ آپ کا انقلاب اسلامی اس بات کی واضح دلیل تھی کہ آپ کچھ کر گزرنے والے انسان تھے۔ جس چیز کا عزم فرماتے اسے پورا کرنے کے لیے رکاوٹوں کے ہونے باوجود بلا جھجھک اس میں کود پڑتے اور جان کی بازی لگانے سے کبھی نہ ڈرتے تھے ان کے قول اور فعل میں تضاد بالکل نہ تھا یہاں تک فرانس والے وعدے کو عالم اسلام کے ہر فرد نے دیکھا جب اسے ہر سال حج کے موقع پر اخبارات کی شہ سرخیوں میں درج ڈیل باتیں ملاحظہ کرنی پڑیں:

  • 10,000 دس ہزار ایرانیوں کا خانہ کعبہ کے سامنے مظاہرہ۔
  • کئی ہزار ایرانی مردوں اور عورتوں نے مسجد نبوی کے سامنے امریکا مردہ باد کے نعرے لگائے۔
  • تین سو ایرانیوں کو حج کے موقع پر نعرہ بازی کے جرم میں سعودی عرب سے نکال دیا گیا۔
  • ایک لاکھ ایرانیوں نے خانہ کعبہ کے سامنے مظاہرہ کیا۔[12]

اسلامی جمہوری ایران اور ولایت فقیہ[ترمیم]

امام خمینی نے ایرانی شاہی نظام کو ختم کر کے اسلامی نظام کی بنیاد رکھی۔ اسلامی نظام ولایت فقیہ کے نظریہ پر قائم ہوا۔

صوفیا کی نجاست کا فتویٰ[ترمیم]

آیۃ اللہ العظمیٰ خمینی نے آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی (متوفیٰ 1919ء) کی کتاب العروۃ الوثقی پر حاشیہ لگایا ہے۔ اس کے صفحہ 37 پر بصورت مشروط وہ صوفی جو وحدت الوجود کے قائل اور اس کے بعض لوازمات سے ملتزم ہوں، ان کی نجاست کا حکم لگایا گیا ہے:

القائلین بوحدۃ الوجود من الصوفيّۃ إذا التزموا بأحکام الإسلام، فالأقوی عدم نجاستہم إلّا مع العلم بالتزامہم بلوازم

ترجمہ: ”وحدت الوجود کے قائل صوفیا اگر احکامِ اسلام کے پابند ہوں تو بہتر یہی ہے کہ ان کو نجس نہ سمجھا جائے، مگر یہ کہ ان کے اس کے لوازمات میں مبتلا ہو جانے کا علم ہو جائے۔“

لوازمات کی وضاحت کرتے ہوئے آیۃ اللہ العظمیٰ خمینی حاشیے میں لکھتے ہیں کہ:

إن كانت مستلزمۃ لإنکار أحد الثلاثۃ [13]

ترجمہ: ”اگر یہ عقیدہ تین چیزوں (الوہیت، توحید یا رسالت) میں سے کسی ایک کے انکار کا موجب ہو تو صوفی نجس سمجھا جائے گا۔“

وفات[ترمیم]

کینسرکی وجہ سے ان کا انتقال 3 جون 1989ء میں ہوا۔ تہران کے قریب دفن ہوئے۔

جنازے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت[ترمیم]

آپ کے جنازے میں تقریبا ایک کروڑ لوگوں نے متواتر تین روز تک شرکت کی۔ [14]

اس وقت ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ تہران کی فائر بریگیڈ کو لوگوں پر پانی کی بارش کرنی پڑی تاکہ وہ گرمی اور دم گھٹنے سے بیہوش نہ ہو جائیں۔

بالآخر ان کی میت کو ہجوم سے بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر میں منتقل کرنا پڑا۔ لیکن جیسے ہی ہیلی کاپٹر اترا، ہجوم نے آگے بڑھ کر خمینی کی لاش کو قبضے میں لے لیا۔

لوگوں میں ان کے سفید کفن کا ٹکڑا حاصل کرنے کا مقابلہ شروع ہو گیا تاکہ وہ اسے یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھ سکیں۔

ایرانی میڈیا نے بتایا کہ خمینی کو سپرد خاک کیے جانے کے دوران تقریباً دس ہزار افراد زخمی ہوئے اور درجنوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑی۔

[11]

مکتوبات خمینی[ترمیم]

  • شرح دعای سحر
  • شرح حدیث رأس الجالوت
  • حاشیہ امام بر شرح حدیث رأس الجالوت
  • التعلیقہ علی الفوائد الرضویہ
  • شرح حدیث جنود عقل و جہل
  • مصباح الہدایۃ الی الخلافۃ و الولایۃ
  • تعلیقات علی شرح فصوص الحکم و مصباح الانس
  • شرح چہل حدیث (اربعین حدیث)
  • سرالصلوۃ
  • آداب نماز (آداب الصلوۃ)
  • رسالہ لقاءاللہ
  • حاشیہ بر اسفار
  • کشف الاسرار
  • انوار الہدایہ فی التعلیقہ علی الکفایہ 2 جلد
  • بدایع الدرر فی قاعدہ نفی الضرر
  • الرسائل العشرہ
  • رسالہ الاستصحاب
  • رسالہ فی التعادل و التراجیح
  • رسالہ الاجتہاد و التقلید
  • مناہج الوصول الی علم الاصول 2 جلدی
  • رسالہ فی الطلب و الارادہ
  • رسالہ فی التقیہ
  • رسالہ فی قاعدہ من ملک
  • رسالۃ فی تعیین الفجر فی اللیالی المقمرہ
  • کتاب الطہارۃ - 4 جلد
  • تعلیقۃ علی العروۃ الوثقی
  • المکاسب المحرمہ 2 جلد
  • تعلیقہ علی وسیلۃ النجاۃ
  • رسالہ نجاۃ العباد
  • حاشیہ بر رسالہ ارث
  • تقریرات درس اصول آیۃ اللہ العظمی بروجردی
  • تحریر الوسیلہ 2 جلد
  • ترجمہ تحریر الوسیلہ 4 جلد
  • کتاب البیع - 5 جلد
  • حکومت اسلامی یا ولایت فقیہ
  • کتاب الخلل فی الصلوۃ
  • جہاد اکبر یا مبارزہ با نفس
  • رسالہ توضیح المسائل
  • مناسک حج «احکام مطابق با فتاوای حضرت امام خمینی»
  • تفسیر سورہ حمد
  • استفتائات 3 جلد
  • دیوان شعر
  • سبوی عشق
  • رہ عشق
  • بادہ عشق
  • نقطہ عطف
  • محرم راز
  • مقام رہبری در فقہ اسلامی با استفادہ از کتاب البیع
  • مسائل امر بہ معروف و نہی از منکر از تحریر الوسیلہ
  • مسئلہ قضاوت از کتاب تحریر الوسیلہ
  • جہاد نفس از کتاب اربعین حدیث
  • رابطہ نیت و اخلاص از کتاب اربعین حدیث
  • صحیفہ امام «مجموعہ آثار امام خمینی » 22 جلد
  • صحیفہ نور
  • وصیت نامہ
  • لمحات الاصول
  • کوثر 3 جلد
  • منشور روحانیت
  • وعدہ دیدار
  • فریاد برائت
  • آوای توحید

عکس[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

سیاسی عہدے
ماقبل 
قائم
رہبر معظم ایران
1979–1989
مابعد 

حوالہ جات[ترمیم]

  1. NE.se ID: https://www.ne.se/uppslagsverk/encyklopedi/lång/ruhollah-khomeyni — بنام: Ruhollah Khomeyni — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Nationalencyklopedin
  2. فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/10150 — بنام: Ayatollah Ruhollah Khomeini — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. ڈسکوجس آرٹسٹ آئی ڈی: https://www.discogs.com/artist/2736451 — بنام: Ruhollah Khomeini — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11907692p — بنام: Ruhollah Khomeyni — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. Diamond Catalogue ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/16052 — بنام: Rūḥ Allāh al-Ḫumaynī
  6. Proleksis enciklopedija ID: https://proleksis.lzmk.hr/26882 — بنام: Ruholah Musavi Homeini (Khomeini) — عنوان : Proleksis enciklopedija
  7. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000015491 — بنام: Ruhollah Khomeini — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  8. ^ ا ب عنوان : Хомейни Рухулла
  9. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11907692p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  10. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11907692p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  11. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح بی بی سی ہندی، نئی دہلی (04-Jun-2023)۔ "جب امام خمینی کے کفن کے ٹکڑے یادگار کے طور پر رکھنے کے لیے لوگوں میں مقابلہ شروع ہو گيا"۔ بی بی سی اردو۔ BBC اردو 
  12. جنگ اخبار، 3ستمبر، 1984ء
  13. آیۃ اللہ العظمیٰ خمینی، تعلیق بر عروةالوثقی، ص 37، باب نجاسات، موسسة تنظيم و نشر آثار الإمام الخمينى، تهران، 1422 ہجری قمری۔
  14. عرفان صدىقى روزنامہ جنگ - كالم ىہ خرقہ پوش

بیرونی روابط[ترمیم]