ابوبکر البغدادی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابوبکر البغدادی
(عربی میں: أبو بكر البغدادي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: إبراهيم عواد إبراهيم علي البدري السامرائي ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 28 جولا‎ئی 1971ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سامراء   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 اکتوبر 2019ء (48 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات خودکش دھماکا [2]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات خود کشی   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بے وطنی (2004–2019)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بالوں کا رنگ سیاہ   ویکی ڈیٹا پر (P1884) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت عراق اور الشام میں اسلامی ریاست   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن عراق اور الشام میں اسلامی ریاست   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ بغداد (2002–2006)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیم شریعت   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ڈاکٹریٹ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ امام ،  عسکری قائد ،  دہشت گرد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک سلفی جہادیت   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری القاعدہ ،  عراق اور الشام میں اسلامی ریاست   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ امیر   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں عراقی جنگ ،  شامی خانہ جنگی ،  عراقی خانہ جنگی (2014ء–تاحال) ،  لیبیا کی خانہ جنگی   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ابو بکر البغدای

ابراہیم عواد ابراہیم علی البدری السامرائی جو ابو بکر البغدادی کے نام سے معروف ہے، موجودہ بعض عراقی و شامی علاقوں پر قابض عراق اور الشام میں اسلامی ریاست نامی تنظیم و ریاست کے سربراہ تھے۔ ان کو اکثر ان کی کنیت ابوبکر البغدادی سے بولایا جاتا ہے اور خود کو امیر المومنین اور خلیفہ ابراھیم بھی کہلاتے تھے۔ 29 جون 2014 کو عراق اور الشام میں اسلامی ریاست کا پہلا خلیفہ ہونے کا دعوی کیا۔ ان کے سخت نظریات اور اسلام کو بطور سخت تشخص دینے کے سبب اسلامی دنیا اور مغربی ممالک میں میں ان پر سخت تنقید کی گئی۔

ان کو گرفتاری کے صورت یا مارنے کے لیے امریکا نے دس ملین ڈالر انعام رکھا، تاریخ امریکا نے اس وقت سب سے زیادہ انعام ایک القاعدہ کے سربراہ ایمن الزاوھری کے سر پہ زیادہ انعام رکھا ہے جو 26 ملین ہے اور اس کے بعد ابوبکر البغدادی پہ جو دس ملین ہے۔

ابتدائی زندگی

ابوبکر البغدادی کے نام سے مشہور ابراہیم عواد ابراہیم البدری 28 جولائی 1971ء کو عراق کے شہر سامراء میں ایک متوسط طبقے کے سُنی گھرانے میں پیدا ہوئے۔[3] ان کے خاندان کو اپنی پرہیزگاری کے سبب جانا جاتا تھا[4] اور ان کے قبیلے کا دعویٰ تھا کہ وہ پیغمبر اسلام کی آل میں سے تھے، تاہم اس کا کوئی ثبوت نہ مل سکا۔[4] کہا جاتا ہے کہ ان کے والد اور دادا کسان تھے۔[4] نوجوانی میں بغدادی کو قرآن کی قرات کا شوق تھا اور وہ اسلامی قوانین کی پاسداری میں نہایت احتیاط برتتے تھے۔ ان کے خاندان میں انھیں ”مؤمن“ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ اپنے رشتے داروں کو اپنے سخت معیار پر پورا نہ اترنے پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ بغدادی نے مذہب میں اپنی دلچسپی یونیورسٹی میں بھی جاری رکھی۔ انھوں نے سنہ 1996ء میں جامعہ بغداد سے اسلامی علوم میں گریجویشن کی اور پھر عراق کی جامعہ صدام برائے اسلامی علوم (موجودہ جامعہ النہرین) سے 1999ء اور 2007ء میں قرآنی علوم میں بالترتیب ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی۔

2004ء تک بغدادی اپنی دو بیویوں اور چھ بچوں کے ساتھ بغداد کے الطوبجی علاقے میں رہائش پزیر تھے۔ وہ مقامی مسجد میں علاقے کے بچوں کو قرآن پڑھاتے رہے جہاں وہ اس کے فٹ بال کلب کے بھی اِسٹار کھلاڑی تھے۔ جب بغدادی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اسی دوران ان کے چچا نے اہھیں اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے قائل کیا۔ وہ جلد ہی اسلام پسند تنظیم کے اندر موجود کچھ انتہائی قدامت پسند اور متشدد عناصر کی طرف راغب ہو گئے اور سنہ 2000ء تک انھوں نے سلفی جہادی نظریہ کو اپنا لیا تھا۔

القاعدہ سے روابط

سنہ 2003ء میں امریکا کی زیرِ قیادت عراق پر یلغار کے کچھ ماہ کے اندر ہی بغدادی نے جنگجو گروہ جیشِ اہل السنہ والجماعۃ نامی تنظیم کے قیام میں کردار ادا کیا۔ فروری 2004ء میں امریکی افواج نے بغدادی کو فلوجہ میں گرفتار کر کے کیمپ بوکا میں قید کر دیا جہاں وہ 10 ماہ تک رہے۔ دورانِ قید بغدادی نے خود کو مذہبی معاملات کے لیے وقف کر دیا اور وہ نمازیں پڑھاتے، جمعے کا خطبہ دیتے اور قیدیوں کے لیے کلاسیں منعقد کرتے۔ ان کے ایک ساتھی قیدی کے مطابق بغدادی کم گو تھے مگر وہ قید خانے میں جہاں صدام کے سابق حامی اور عسکریت پسند قید تھے، وہاں مخالف گروہوں کے درمیان میں سے اپنا راستہ بڑی آسانی سے بنا لیتے تھے۔

بغدادی نے ان میں سے کئی کے ساتھ اتحاد بنائے اور دسمبر 2004ء میں وہاں سے رہا ہوجانے کے بعد بھی ان سے رابطے قائم رکھے۔ اپنی رہائی کے بعد بغدادی نے عراق میں القاعدہ (اے کیو آئی) کے ایک ترجمان سے رابطہ کیا۔ یہ تنظیم القاعدہ سے ملحق ایک مقامی تنظیم تھی جسے ابو مصعب الزرقاوی نامی اردن کے ایک باشندے چلاتے تھے۔ بغدادی کا مذہب پر عبور دیکھتے ہوئے اس ترجمان نے انھیں دمشق جانے کے لیے قائل کیا جہاں ان کی ذمہ داری یہ یقینی بنانا تھی کہ اے کیو آئی کا پروپیگنڈا انتہائی قدامت پسند اسلام کے اصولوں کے مطابق رہے۔ الزرقاوی جون 2006ء میں ایک امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے اور ان کی جگہ ایک مصری شہری ابو ایوب المصری نے لی۔ اسی برس اکتوبر میں مصری نے اے کیو آئی تحلیل کر کے عراق میں شدت پسند گروہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ (عراق کی دولت اسلامیہ) کی بنیاد رکھی۔ اس گروہ نے نجی طور پر القاعدہ سے وابستگی جاری رکھی۔

خلافت کا اعلان

2012ء میں شام میں خانہ جنگی تیز ہو گئی۔ بغدادی نے اپنی تنظیم کا کچھ حصہ شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا۔ 2013ء بغدادی اپنی مکمل جماعت کے ساتہ شام گیا اور شامی شہر رقہ پر کنٹرول کرنے کے بعد بڑی تیزی سے شام و عراق کا ایک بہت بڑا رقبہ اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ آخرکار موصل میں 29 جون 2013ء مطابق 1 رمضان 1435ھ کو بغدادی نے ایک وڈیو کے ذریعہ اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔

طرز حکمرانی

ابوبکر البغدادی کو اس کے لوگوں نے ایک طریقہ کار کے تحت باقاعدہ اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ داعش کے اہم ترین رہنماؤں کی مجلس نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کا دعوی ہے کہ ہم نے بغدادی کو اسی طرح خلیفہ منتخب کیا ہے۔ جس طرح خلفاء راشدین کو صحابہ کرام نے کیا تھا۔ ابوبکر البغدادی نے اپنے زیر اثر علاقوں کو ولایتوں (صوبوں) میں تقسیم کیا ہے۔ ہر ولایت پر والی یا گورنر مقرر کیا۔ الرقہ دار الخلافہ تھا۔ فوج کا جرنیل بغدادی نے ابو عمر الشیشانی کو مقرر کیا اور داعش کا ترجمان ابو محمد العدنانی الشامی کو مقرر کیا۔ ابوبکرالبغدادی خود کو "امیرالمومنین" کہلاتے تھے۔ اس نے فوج، تعلیم، صحت، صدقات، مال اور ہر شعبے کے لیے الگ الگ "دیوان" مقرر کیے۔ جنگجوؤں اور دیگر تنظیم کے ارکان کے لیے باقائدہ تنخواہیں مقرر کی گئیں۔[حوالہ درکار]

قید

ابوبکر البغدادی 2005ء تا 2009ء چار سال کے عرصہ تک ایران کے زیرتسلط عراق کے علاقے ام القصر کے نذدیک واقع بوکا جیل میں قید و بندکی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔

خودکشی

بغدادی کے ٹھکانے پر امریکی افواج نے حملہ کیا تھا جس پر بغدادی نے تین بچوں کے ہمراہ ایک نہ ختم ہونے والی سرنگ میں خود کو دھماکے خیز مواد سے اُڑا لیا تھا جب کہ ان کی دو بیویوں نے بھی خود کو اُڑا لیا تھا اور ان کے 4 ساتھی مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے اور کئی نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔[5]

تنقید

  • امریکی حکام کا نے اگست 2015 میں دعوی کیا کہ 26 سالہ امریکی خاتون سماجی کارکن کائلہ مولر کو شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے سربراہ ابو بکر بغدادی نے تسلسل سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا[6] ۔

سعودی عرب کے مفتی اعظم اور کئی علما بغدادی کو خارجی قرار دے چکے ہیں۔ تجزیہ نگار انھیں موساد کا ایجنٹ قرار دیتے رہے۔ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشاف کے مطابق بغدادی اصل میں اسرائیلی شہری تھے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. ISIS leader al-Baghdadi confirmed dead after apparent suicide during U.S. operation: sources — اخذ شدہ بتاریخ: 28 اکتوبر 2019 — شائع شدہ از: 27 اکتوبر 2019
  2. La Vanguardia اور La Vanguardia — اخذ شدہ بتاریخ: 28 اکتوبر 2019
  3. "Abu Bakr al-Baghdadi"۔ Counter Extremism Project 
  4. ^ ا ب پ Hosken 2015, p. 122.
  5. http://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/World/516124
  6. "'ابوبکر بغدادی نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا'"۔ بی بی سی