ابو عبیدہ بن جراح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ابوعبیدہ ابن الجراح سے رجوع مکرر)
ابو عبیدہ ابن جراح

(عربی: أبو عبيدة بن الجراح)

عامر بن عبد الله بن الجراح بن ہلال بن اہيب بن ضبہ بن الحارث بن فہر بن مالك بن النضر بن كنانہ بن خزيمہ بن مدركہ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان القرشی الفہری المكی۔

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 583ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 639ء (55–56 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات طاعون[2]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن غور الأردن
شہریت خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب امین الامت
رشتے دار والد عبد الله بن الجراح بن ہلال:
والدہ: اميمہ بنت عثمان بن جابر
عملی زندگی
نسب الفہری القرشی
فرمان نبوی إن لكل أمة أمينا وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح
اہم واقعات فتح الشام کے چار رہنماؤں میں سے ایک
خصوصیت غزوہ احد، عشرہ مبشرہ، امین امت
پیشہ عينہ عمر قائدا عاما على جيوش شام
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر،  جنگ یرموک  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقبرہ - ابو عبیدہ ابن الجراح

ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ (40ق.ھ / 18ھ) جنہیں دربار رسالت سے امین الامت کا خطاب ملا قبیلہ فہر سے متعلق تھے۔ جو قریش کی ایک شاخ تھی۔ اصل نام عامر بن عبد اللہ تھا۔آپ خاندان قریش کے بہت ہی نامور اور معزز شخص ہیں ۔ فہر بن مالک پر ان کا خاندانی شجرہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خاندان سے مل جاتا ہے ۔ یہ بھی ”عشرہ مبشرہ ”میں سے ہیں ۔ ان کا اصلی نام ”عامر ”ہے ۔ ابو عبیدہ ان کی کنیت ہے اور ان کو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے امین الامّۃ کا لقب ملا ہے ۔ ابتدائے اسلام ہی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو آپ فوراً ہی اسلام قبول کر کے جاں نثاری کے لیے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو گئے ۔ ہجرت مدینہ کے وقت عمر 40 سال تھی۔ بالکل ابتدائی زمانے میں مشرف باسلام ہوئے۔ دیگر مسلمانوں کی طرح ابتدا میں قریش کے مظالم کا شکار ہوئے۔ حضور سے اجازت لے کر حبشہ ہجرت کر گئے لیکن مکی دور ہی میں واپس لوٹ آئے۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چند روز قبل اذن نبی سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور حضور کی آمد تک قباء میں قیام کیا۔ مواخات مدینہ میں معزز انصاری صحابی ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے بھائی بنائے گئے۔ بے مثال خدمات اسلام کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جن صحابہ کو دنیا میں جنت کی بشارت دی ان سے ایک ہیں۔ جنگ بدر وغیرہ تمام اسلامی جنگوں میں انتہائی جاں بازی کے ساتھ کفار سے معرکہ آرائی کرتے رہے۔ جنگ احد میں لوہے کی ٹوپی کی دو کڑیاں حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے رخسار منور میں چبھ گئی تھیں ۔ آپ نے اپنے دانتوں سے پکڑ کر ان کڑیوں کو کھینچ کر نکالا۔ اسی میں آپ کے اگلے دو دانت ٹوٹ گئے تھے۔ بہت ہی شیر دل ، بہادر، بلند قامت اور بارعب چہرے والے پہلوان تھے۔ 18ھ میں بمقام اردن طاعونِ عمواس میں وفات پاگئے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مقام بیسان میں دفن ہوئے ۔ بوقت وفات عمر شریف اٹھاون برس تھی ۔ [3] [4]

نام و نسب و خاندان[ترمیم]

عامر نام، ابو عبیدہ کنیت، امین الامۃ لقب، گووالد کا نام عبد اللہ تھا لیکن دادا کی طرف منسوب ہوکر ابن الجراح کے نام سے مشہور ہوئے ، سلسلہ نسب یہ ہے عامر بن عبد اللہ بن الجراح ابن ہلال بن اُہیب بن ضبہ بن الحارث بن الفہر القرشی الفہری ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب پانچویوں پشت میں فہر پر حضرت سرورِ کائنات سے مل جاتا ہے۔ ماں بھی اسی فہری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اصحاب سیر کی تحقیق کے مطابق مسلمان ہوئیں۔[5][6][7] [5][8]

اسلام[ترمیم]

حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ و دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے، اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم ارقم بن ابی ارقم کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔[9] [10][11] [10][12]

غزوات[ترمیم]

مشرکین قریش نے مدینہ پہنچنے کے بعد بھی مسلمانوں کو چین سے بیٹھنے نہ دیا،اور مبازرت طلبی کرکے میدانِ جنگ کی دعوت دی ، چنانچہ غزوۂ بدر اس سلسلہ کی پہلی کڑی تھی،حضرت ابو عبیدہ ؓ شجاعت جانبازی کے ساتھ اس جنگ میں سرگرم پیکار ہوئے۔ ان کے والد عبد اللہ بھی اس وقت تک زندہ تھے اور کفار کی طرف سے لڑنے آئے تھے،انھوں نے تاک تاک کر خود اپنے لخت جگر کو نشانہ بنانا چاہا،حضرت ابو عبیدہ ؓ تھوڑی دیر تک طرح دیتے رہے، لیکن جب دیکھا کہ وہ باز نہیں آتے تو بالآخر جوشِ توحید نسبی تعلق پر غالب آگیا اور ایک ہی ہاتھ میں ان کا کام تمام کر دیا، درحقیقت یہ والہانہ جوش اور مذہبی دارفتگی کی نہایت سچی مثال تھی جس میں ماں، باپ، بھائی، بہن ،غرض تمام رشتہ دار بالکل ایک اجنبی دشمن کی طرح نظر آتے ہیں، چنانچہ قرآن پاک نے اس انقطاع الی اللہ کی ان الفاظ میں داددی۔ "لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَاءَہُمْ اَوْ اَبْنَاءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْoاُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ"[13] تم نہ پاؤ گے اس قوم کو جو خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لائی کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے مخالفین سے محبت رکھتے ہوں گے گو وہ ان کے باپ، بیٹے ، بھائی یا ان کے کنبہ کے ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ مسلمان ہیں جن کے دلوں کے اندر خدا نے ایمان نقش کر دیا ہے اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ غزوۂ احد میں آنحضرت کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا اور زرہ کی دوکڑیاں چبھ گئیں تھیں جس سے سخت تکلیف ہوئی تھی،حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے دانت سے پکڑ کر کھینچا اگرچہ ان کڑیوں نے نکلتے نکلتے ان کے دو دانت شہید کر دیے ، لیکن رسول اللہ کی خدمت گزاری میں دو دانت کیا جان بھی نثار ہو جاتی تو پروا نہ تھی۔[14] غزوۂ خندق ،اور بنو قریظہ کی سرکوبی میں بھی سرگرم پیکار تھے، پھر میں جب قبیلہ ثعلبہ اور انصار نے قحط زدہ ہوکر اطراف مدینہ منورہ میں غارت گری شروع کی تو بارگاہ رسالت سے ان کی سرکوبی پر مامور ہوئے، چنانچہ انھوں نے ربیع الثانی کے مہینے میں چالیس آدمیوں کے ساتھ ڈاکوؤں کے مرکزی مقام ذی القصہ پر چھاپہ مار کر ان کو پہاڑوں میں منتشر کر دیا اور ایک شخص کو گرفتار کرکے لے آئے جس نے مدینہ منورہ پہنچ کر بطیب خاطر اسلام قبول کر لیا۔[15]

اسی سال بیعت رضوان میں شریک ہوئے، بلکہ مقامِ حدیبیہ میں قریش مکہ سے جو عہد نامہ طے پایا اس پر ان کی شہادت بھی تھی،[16] پھر میں خیبر کی فتح کشی میں رسول اللہ کے ہمرکاب ہوئے اور اس کی فتح میں شجاعت و بہادری کے ساتھ حصہ لیا ان مہمات سے فارغ ہوکر سرورِ کائنات نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک جمعیت کے ساتھ ذات السلاسل کی طرف روانہ فرمایا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لیے انھوں نے دربارِ رسالت سے کمک طلب کی آنحضرت نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی زیر امارت دو سو جنگی بہادر روانہ فرمائے اس امدادی فوج کی ہمت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ شامل تھے،غرض جب یہ فوج حضرت عمرو بن العاص ؓ کی فوج سے مل گئی تو قدرۃ امامت و سپہ سالاری عام کی بحث پیدا ہوئی ،ظاہر ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جلاتِ شان و علو مرتبت کے مقابلہ میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو اس اشرف گرامی کا استحقاق نہ تھا؛ تاہم ان کے ضد اور اصرار سے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اطاعت کا طوق خود اپنے گلے میں ڈال لیا اور نہایت کامیابی کے ساتھ حملہ کرکے غنیم کو زیر و زبر کر دیا۔[17]

رجب المرجب میں ایک دوسری مہم خود حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت ساحلی علاقہ کی طرف روانہ کی گئی؛ تاکہ قریشی قافلوں کی نقل وحرکت کا پتہ چلائیں اور سامانِ رسد میں صرف کھجوریں ساتھ کردی گئیں،یہاں تک کہ جب یہ سرمایہ ختم ہونے لگا تو چند دنوں تک صرف ایک ایک کھجور پر قناعت کرنا پڑی ، لیکن خدائے پاک نے بہت جلد یہ مصیبت دور کردی اور سمندر کے کنارے ایک ایس عظیم الشان مچھلی مل گئی کہ مجاہدین نے عرصہ تک اس پر گذر اوقات کی اور کامیابی کے ساتھ مدینہ منورہ واپس آئے۔[18] پھر اسی سال مکہ فتح ہوا پھر حنین اور طائف کی جنگیں پیش آئیں،حضرت ابو عبیدہ ؓ ان تمام معرکوں میں جانبازی کے ساتھ پیش پیش رہے۔ [19][20][19][21][22] [23][24][25][26][27][28]

متفرق خدمات[ترمیم]

جنگی مہمات کے علاوہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بعض دوسری اہم خدمتیں بھی سپرد ہوئیں ، مثلا میں اہل نجران نے بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر ایک معلم دین کی درخواست کی جو مذہبی تعلیم و تلقین کے سوا ان کے جھگڑوں کو بھی فیصل کرے، آنحضرت نے فرمایا "ابو عبیدہ اُٹھ" جب وہ کھڑے ہوئے تو اہل نجران سے مخاطب ہوکر فرمایا یہ امت کا امین ہے اس کو تمھارے ساتھ کرتا ہوں ۔[29] آنحضرت نے اہل بحرین سے مصالحت کرلی تھی اور علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین کا امیر مقرر کیا تھا، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ ایک دفعہ وہاں سے جزیہ کی رقم لانے پر مامور ہوئے جب لے کر مدینہ پہنچے تو اس روز نماز صبح میں انصار ؓ کا غیر معمولی مجمع ہوا آنحضرت نے تبسم ہو کر فرمایا شاید تم لوگوں کو ابو عبیدہ بن جراح کے آنے کی اطلاع ہو گئی ہے، لوگوں نے عرض کیا ‘ہاں یارسول اللہ’ سرور عالم ﷺ نے فرمایا بشارت ہوکہ آج تمھیں خوش کر دوں گا؛لیکن خدا کی قسم میں تمھارے فقر و افلاس سے نہیں ڈرتا؛ بلکہ مجھے ڈر ہے کہ پہلی قوموں کی طرح تمھارے اوپر بھی دنیا کشادہ ہو جائے گی اور جس طرح ان کو منافست باہمی اور حسد و طمع سے ہلاک کر دیا ہے،تمھیں بھی ہلاک کرے گی۔[30] 10ھ میں رسول اللہ ﷺ حجۃ الوادع کے لیے تشریف لے گئے، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہمرکاب تھے، اس سفر سے واپس آنے کے بعد آنحضرت نے وفات پائی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا جھگڑا پیدا ہو گیا، لیکن صلحائے امت کی کوشش سے بہت جلد فرو ہو گیا،اس آتش خرمن سوز کے بجھانے میں امین امت کی کوشش بھی کسی سے کم نہ تھیں،چنانچہ انھوں نے انصار ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا۔ یا معشر الانصار انکم کنتم اول من نصر فلاتکونوااول من غیر۔[31] اے گروہِ انصار تم نے سب سے پہلے امدادو امانت کاہاتھ بڑھایا تھا،اس لیے تم ہی سب سے پہلے افتراق واختلاف کے بانی نہ ہو جاؤ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خود ان کے نام کو پیش کرکے فرمایا،دیکھو یہ عمر بن الخطاب موجود ہیں،جن کی نسبت رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ان کی ذات سے خدا نے دین کو معزز کیا ہے، یہ دیکھو ابو عبیدہ بن الجراح ؓ موجود ہیں جن کو امین الامت کا خطاب عطا کیا گیا ہے ان دونوں میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کرلو، لیکن ان دونوں بزرگوں نے بالاتفاق صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں اپنے استحقاق سے انکار کیا اور بڑھ کر سب سے پہلے بیعت کر لی ۔[32] اس کے بعد تمام مہاجرین وانصار بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے اور فتنہ کا ابرِ تاریک افق اسلام سے چھٹ گیا۔[33] [34][35]

شام کی سپہ سالاری[ترمیم]

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسند نشینی کے بعد 13ھ میں ملک شام پر کئی طرف سے لشکر کشی کا اہتمام کیا،حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کو حمص پر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو دمشق پر شرجیل کو ارون پر عمروبن العاص ؓ کو فلسطین پر مامور کیا اور ہدایت کی کہ جب سب ایک جگہ مجتمع ہو جائیں تو ابو عبیدہ بن جراح ؓ سپہ سالار عام ہوں گے۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب عرب کی سرحد سے باہر نکلے تو کثیر التعداد رومی فوجوں کا سامنا ہوا یہ دیکھ کر انھوں نے تمام اسلامی فوجوں کو یکجا کر لیا اور دربارِ خلافت سے مزید کمک طلب کی،چنانچہ حضرت خالید بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو عراق کی مہم پر مامور تھے،دربارِ خلافت کے حکم سے راہ میں چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑتے ہوئے شامی فوج سے آکر مل گئے اور متحد فوج نے بصریٰ، فحل اور اجنادین کو فتح کرکے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ [36][37] [36][38]

فتح دمشق[ترمیم]

دمشق کا محاصرہ جاری تھا کہ خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ابتدائی حکومت میں خالد بن ولید ؓ بیدار مغزی اور حسنِ تدبیر کے ساتھ فصیل پھاند گئے اور شہر میں داخل ہوکر دروازے کھول دیے،حضرت ابو عبیدہ ؓ اپنی فوج کے ساتھ تیار کھڑے تھے، فوراً اندر گھس گئے،عیسائیوں نے یہ رنگ دیکھا تو مصلحت اندیشی کے ساتھ اسلامی سپہ سلار اعظم سے مصالحت کرلی،حضرت خالد بن ولید ؓ کو خبرنہ تھی،وہ شہر کے دوسرے حصہ میں سرگرم پیکار تھے،عیسائی آکر ملتجی ہوئے کہ ہم کو خالد بن ولید ؓ سے بچائیے، وسط بازار میں دونوں آدمیوں کا سامنا ہوا،حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے صلح کرلی،مفتوحہ حصہ کو بھی صلح میں رکھا اور اس پر صلح کے شرائط جاری کیے۔ [39][40][41][42][43]

معرکہ فحل[ترمیم]

دمشق فتح کر کے اسلامی فوجیں آگے بڑھیں اور مقام فحل میں خیمہ افگن ہوئیں،رومیوں کا پڑاؤ فحل کے سامنے مقام ہسیان میں تھا ، انھوں نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس مصالحت کا پیام بھیجا اور گفت وشنید کے لیے ایک سفیر بلایا، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل ؓ اس عہدہ پر مامور ہوئے،لیکن یہ سفارت بے نتیجہ رہی اور رومیوں نے براہِ راست حضرت ابو عبیدہ ؓ سے گفتگو کرنے کے لیے قاصد بھیجا، جس وقت وہ پہنچا تو یہ دیکھ کر متحیر رہ گیا کہ یہاں پر ایک ادنی واعلی ایک ہی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے اور افسری اور ماتحتی کی کوئی تمیز نظر نہیں آتی آخر اس نے گھبراکر پوچھا کہ تمھارا سردار کون ہے؟ لوگوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کی طرف اشارہ کیا،اس وقت وہ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے، اس نے متعجب ہوکر کہا کیا درحقیقت تم ہی سردار ہو؟ فرمایا ہاں" قاصد نے کہا " تمھاری فوج کو دو اشرفیاں فی کس دیں گے،تم یہاں سے چلے جاؤ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے ا نکار فرمایا اور قاصد کے تیور دیکھ کر فوج کو تیاری کا حکم دے دیا، غرض دوسرے دن جنگ شروع ہوئی،حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ ایک ایک صف میں جاکر کہتے تھے۔ عباداللہ استوجبوا من اللہ النصر بالصبرفان اللہ مع الصابرین خدا کے بندو! صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ خود فوج میں تھے اور دانشمندی کے ساتھ سب کو لڑا رہے تھے،یہاں تک کہ مسلمانوں کی قلیل تعداد نے رومیوں کی پچاس ہزار باقاعدہ فوج کو شکست دے دی اور ضلع اردن کے تمام مقامات فرزندانِ توحید کے زیر نگین ہو گئے۔[44][45]

فتح حمص[ترمیم]

یہاں سے چھوٹے چھوٹے مقات فتح کرتے ہوئے حمص کی طرف بڑھے اور محاصرہ کا سامان پھیلا دیا، اہل حمص کچھ عرصہ تک کمک کی امید پر مدافعت کرتے رہے ،لیکن جب ہرطرف سے مایوسی ہوئی تو انھوں نے خود بخود شہر حوالہ کر دیا،[46] ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے یہاں عبادہ بن صامت ؓ کو چھوڑ کر لاذقیہ کا رخ کیا اور راہ میں شیراز، حماۃ، معرۃ النعمان اور دوسرے مقامات میں اسلامی جھنڈا گاڑتے ہوئے منزل مقصود پر دم لیا۔ لاذقیہ نہایت مستحکم مقام تھا، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اس کو فتح کرنے کی ایک نئی تدبیر اختیار کی،یعنی میدان میں بہت سے پوشیدہ غار کھدوائے اور محاصرہ اٹھا کر حمص کی طرف روانہ ہو گئے شہر والوں نے جو مدت کی قلعہ بندی سے تنگ آگئے اس کو تائید غیبی خیال کیا اور اطمینان کے ساتھ شہر پناہ کا دروازہ کھول کر کاروبار میں مصروف ہو گئے،لیکن حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ اس رات کو اپنے سپاہیوں کے ساتھ پلٹ کر غاروں میں چھپ رہے تھے،صبح کے وقت نکل کر دفعۃ شہر میں گھس گئے اور آسانی کے ساتھ اسلام کا علم بلند کر دیا۔[47] [48][49]

یرموک کی فیصلہ کن جنگ[ترمیم]

رومیوں کی متواتر ہزیمتوں نے ان کے آتشِ غیظ و غضب کو بھڑکا دیا اور ہرقل شہنشاہ روم کی دعوت پر تمام اطرافِ ملک سے ٹڈی دل فوج مجتمع ہو گئی، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خود شامی امرا اور رؤساء نے جو باوجود مذہبی اختلاف کے ان کے اخلاق کے گرویدہ ہو گئے تھے۔ تمام واقعات کی اطلاع دی انھوں نے اچھی طرح سے غنیم کی تیاریوں کی تحقیقات کرکے اپنے ماتحت افسروں کو جمع کیا اور ایک پرجوش تقریر کے بعد اس مہیب سیلاب کے روکنے کے متعلق مشورہ طلب کیا، یزید بن ابی سفیان ؓ نے کہا میرے رائے یہ ہے کہ عورتوں اور بچوں کو شہر میں چھوڑ کر ہم لوگ مقابلہ کے لیے نکلیں اس کے ساتھ خالد ؓ اور عمرو بن العاص ؓ کو لکھا جائے کہ دمشق اور فلسطین سے چل کر مدد کو آئیں، شرجیل بن حسنہ نے کہا یزید کی رائے یقینا مخلصانہ ہے، لیکن ہم کو اپنا ننگ وناموس شہر کے عیسائی باشندوں کے رحم پر نہ چھوڑنا چاہیے، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، تو پھر سر دست اس کی تدبیر یہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شہر بدر کر دیں، شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر کہا اے امیر یہ صریحاً نقصِ عہد ہوگا تجھ کو ہرگز اس کا حق نہیں ہے، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے فوراً اپنی غلطی تسلیم کر لی اور بالآخر بحث و مباحثہ کے بعد یہ رائے قرار پائی کہ مفتوحہ ممالک چھوڑ کر تمام فوجیں دمشق میں جمع ہوں، غرض اس قرارداد کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں سے جو کچھ جزیہ یا خراج لیا تھا واپس کر دیا اور فرمایا کہ یہ تمھاری حفاظت کا معاوضہ تھا، لیکن جب ہم پر سردست، اس سے عاجز ہیں تو پھر ہم کو اس سے مستفید ہونے کا کوئی استحقاق نہیں ہے،چنانچہ کئی لاکھ رقم جو وصول ہوئی تھی سب واپس کردی گئی، عیسائیوں پر اس قدر حق پسندی وانصاف کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ "خدا تم کو پھر واپس لائے۔[50]

دمشق میں جب اسلامی فوجیں مجتمع ہوگئیں تو حضرت ابو عبیدہ ؓ نے آگے بڑھ کر یرموک کے میدان میں (جو جنگی ضروریات کے لحاظ سے نہایت مناسب موقع تھا) مورچہ جمایا ،اسی اثناء میں اُردن سے حضرت عمرو بن العاص ؓ کا خط پہنچا کہ آپ کی معاونت نے اس علاقہ پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے اور ہر طرف بغاوت و شورش پھیل گئی ہے، حضرت ابو عبیدہ ؓ نے جواب میں لکھا کہ ہم کو مصلحۃ پیچھے ہٹنا پڑا تاکہ تمام منتشر قوت مجتمع ہو جائے، بہرحال تم اپنی جگہ جمے رہو، میں عنقریب آکر تم سے ملتا ہوں۔ مسلمانوں کے پیچھے ہٹ آنے سے رومیوں کی ہمت بڑھ گئی اور ایک عظیم الشان جمعیت کے ساتھ یرموک پہنچ کر مسلمانوں کے مقابلہ میں خیمہ زن ہوئے؛ تاہم جو عربی تلوار کا مزہ چکھ چکے تھے وہ دل سے صلح کے متمنی تھے،سپہ سالار اعظم باہان کی بھی یہی خواہش تھی، غرض جارج نامی ایک رومی قاصد اسلامی لشکر گاہ میں پہنچا کہ کسی مسلمان سفیر کو ساتھ لے جائے، اس وقت شام ہو چکی تھی ، ذرا دیر کے بعد مغرب کی نماز شروع ہوئی، مسلمانوں کے مؤثر طریقہ عبادت خشوع وخضوع اور محویت و استغراق نے اس پر عجیب وغریب کیفیت طاری کی،وہ استعجاب کے ساتھ دیکھتا رہا، یہاں تک کہ جب نماز ہو چکی تو اس نے حضرت ابو عبیدہ ؓ سے چند سوالات کیے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں۔ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ اِلَّا الْحَقَّo اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللہِ وَکَلِمَتُہٗo اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ[51] اے اہل کتاب اپنے دین میں زیادہ غلو نہ کرو اور خدا کی طرف حق کے سوا غلط باتیں نہ منسوب کرو حقیقت میں مسیح بن مریم خدا کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اس نے ان کی طرف ڈال دیا تھا۔ لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلہِ وَلَا الْمَلٰئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ[52] مسیح بن مریم اور ملائکہ مقربین کو خدا کی بندگی میں عار نہیں ہے۔

جارج نے ان آیتوں کا ترجمہ سنا تو بے اختیار پکار اُٹھا ، بے شک عیسیٰ علیہ السلام کے یہی اوصاف ہیں اور درحقیقت تمھار ا پیغمبر سچا ہے، یہ کہہ کر بطیب خاطر مسلمان ہو گیا، وہ اپنی قوم میں واپس جانا نہیں چاہتا تھا،لیکن حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بد عہدی کا گمان نہ ہو واپس جانے پر مجبور کیا اور فرمایا کہ کل جو سفیر یہاں سے جائے گا اس کے ساتھ چلے آنا۔[53] غرض دوسرے روز حضرت خالد ؓ سفیر بنا کر بھیجے گئے؛ لیکن اس سفارت کا بھی اس کے سوا کوئی نتیجہ نہ نکلا کہ دونوں فریق اور بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو گئے ؛کیونکہ مسلمانوں کی صرف دو شرطیں تھیں جو ہر موقع پر پیش کی جاتی تھیں اور اس میں تغیر و تبدل قطعاً ناممکن تھا یعنی "اسلام""یا جزیہ" دوسری طرف رومی جو اپنی شہنشاہی کے نشہ میں سرشار تھے ایسے شرائط کا سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے، بہرحال جنگ شروع ہوئی اور گو مسلمان تعداد میں صرف تیس بتیس ہزار تھے تاہم افسران فوج کی دانش مندی، فنِ سپہ گری کی واقفیت اور خود سپاہیوں کے غیر معمولی جوش نے غنیم کے پاؤں اکھاڑ دیے، اس جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تقریباً ستر ہزار رومی کھیت رہے، مسلمان بھی کم و بیش تین ہزار شہید ہوئے، جن میں ضرار بن ازور ؓ، ہشام بن العاص ، ابان بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ جیسے جنگ آزما افسر بھی تھے۔ فتح یرموک کے بعد تمام ملک شام مسلمانوں کے خیر مقدم کے لیے تیار تھا،حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حمص پہنچ کر حضرت خالد ؓ سیف اللہ کو قنسرین روانہ کیا اورخود حلب کی طرف بڑھے، یہ دونوں مقامات آسانی کے ساتھ مفتوح ہو گئے، چند دنوں کے بعد اہل انطاکیہ نے بھی سپر ڈال دی، غرض بیت المقدس کے سوا تمام شام پر آسانی کے ساتھ قبضہ ہو گیا۔[54][55] [54][56][57][58]

بیت المقدس[ترمیم]

ہم پہلے لکھے آئے ہیں کہ فلسطین کی مہم عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد تھی، چنانچہ وہ بڑے بڑے شہر فتح کر کے عرصہ سے بیت المقدس کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو اپنی مہم سے فرصت ہوئی تو وہ بھی اس فوج سے آملے، عیسائیوں نے ایک عرصہ کی قلعہ بندی سے تنگ آکر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے لیے یہ شرط لگائی کہ امیر المومنین خود یہاں آکر اپنے ہاتھ سے معاہدہ صلح لکھیں، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہکو خط لکھ کر اس شرط سے مطلع کیا اورملک شام تشریف لانے کی دعوت دی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر مقام جابیہ پہنچے، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماتحت افسروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا، بیت المقدس کے نمائندے بھی یہیں پہنچے اور معاہدہ صلح ترتیب پانے کے بعد اس مقدس شہر پر قبضہ ہو گیا۔[59][60][61]

رومیوں کی آخری کوشش[ترمیم]

شام جیسے سرسبز و شاداب ملک کا ہاتھ سے نکل جانا رومیوں کے لیے سخت سوہان روح تھا، انھوں نے جزیرہ اور آرمینیا والوں کی امداد سے ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی کی اور ایک عظیم الشان جمعیت کے ساتھ حمص کی طرف بڑھے۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے بھی ادھر ادھر سے فوجیں جمع کیں اور دربار خلافت کو تمام واقعات سے مطلع کیا، چنانچہ امیر المومنین کے حکم سے عراق سے ایک بہت بڑی کمک پہنچ گئی اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اس عظیم الشان قوت کے ساتھ رومی سیلاب کو روکنے کے لیے آگے بڑھے، میدان جنگ میں پہنچ کر باقاعدہ صف آرائی کی اور ایک پرجوش مؤثر تقریر کے بعد فرمایا، مسلمانو آج جو ثابت قدم رہ گیا اور اگر زندہ بچا تو ملک ومال ہاتھ آئے گا اور مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی، میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ"جو شخص مرے اور مشرک ہوکر نہ مرے وہ ضرور جنت میں جائے گا،اس زمانہ میں اسلام کا ہر ایک فرزند جوش ملی اور غیرت دینی کا مجسم پتلا تھا،اس تقریر نے اور بھی گرما دیا، غرض! مجاہدین نے اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور مرج الدیباج تک بھاگتے چلے گئے، اس طرح رومیوں کی آخری کوشش بھی نا کام رہی اور پھر انھیں کبھی پیش قدمی کا حوصلہ نہ ہوا۔[62]

امارت[ترمیم]

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ دمشق کے امیر یا والی مقرر ہوئے تھے،لیکن 17ھ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو معزول کر کے یہ عہدہ بھی حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو تفویض کیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دمشق سے روانہ ہونے لگے تو انھوں نے لوگوں سے کہا، تمھیں خوش ہونا چاہیے کہ امینِ امت تمھار والی ہے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں کہا میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ خالد ؓ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، غرض اسی لطف و محبت کے ساتھ امارت یا ولایت کا چارج لینے کے بعد ملکی انتظامات میں مصرورف ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انتظامی حیثیت سے ملک شام میں جو مختلف اصلاحیں جاری کیں،ان میں سے اکثر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے عمل میں آئیں، 18ھ میں جب عرب میں قحط پڑا تو نہایت سرگرمی کے ساتھ شام سے چار ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے بھیجے[63] اشاعت اسلام کا بھی ان کو خاص خیال تھا،چنانچہ قبیلہ تنوخ، بنوسلیج اور عرب کے دوسرے بہت سے قبائل جو مدت سے شام میں آباد ہو گئے تھے اور عیسائی مذہب کے پیرو تھے، صرف ابو عبیدہ بن جراح ؓ کی کوشش سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، بعض شامی اور رومی عیسائی بھی ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام لائے۔[64][65]

طاعونِ عمواس[ترمیم]

18ھ میں تمام ممالک مفتوحہ میں نہایت شدت کے ساتھ طاعون کی وبا پھیلی خصوصاً شام میں اس نے بہت نقصان پہنچایا، یہاں تک کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود تدبیر انتظام کے لیے دار الخلافہ چھوڑ کر مقام سرع پہنچے، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے سرداروں نے یہاں استقبال کیا،عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شدت کی کیفیت سن کر پہلے مہاجرین ؓ اور پھر انصار ؓ سے مشورہ طلب کیا، سب نے مختلف رائیں دیں، اس کے بعد مہاجرین فتح سے جو عموماً قریش کے بوڑھے تجربہ کار لوگ تھے مشورہ چاہا، انھوں نے ایک زبان ہوکر کہا سرِدست یہاں سے لوگوں کا منتقل ہو جانا مناسب ہوگا، چنانچہ عمر بن خطاب ؓ نے منادی کرادی کہ میں کل صبح واپس جاؤں گا، سب ساتھ چلیں،چونکہ حضرت ابو عبیدہ ؓ نہایت شدت کے ساتھ تقدیر کے قائل تھے، اس لیے ان کو یہ حکم ناگوار ہوا اور آزادی کے ساتھ کہا "افرارا من قدر اللہ" یعنی تقدیر الہیٰ سے بھاگتے ہو، حضرت عمرؓ عموماً حضرت ابو عبیدہ ؓ کی رائے سے اختلاف ظاہر کرنا ناپسند کرتے تھے،اس لیے انھوں نے کہا کاش! تمھارے سوا کوئی دوسرا یہ جملہ کہتا ،ہاں تقدیر الہی سے بھاگتا ہوں لیکن تقدیر الہیٰ کی طرف۔[66] غرض حضرت عمر ؓ مدینہ واپس آئے اور حضرت ابو عبیدہ ؓ کو خط لکھ کر بلایا کہ کچھ دنوں کے لیے یہاں چلے آؤ، تم سے کچھ کام ہے،حضرت ابو عبیدہ ؓ اس طلبی کا مقصد سمجھ گئے اور لکھا کہ جو مقدر ہے وہ ہوگا میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لیے یہاں سے ٹل نہیں سکتا، حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ وہ کسی طرح ٹلنے کا نام نہیں لیتے تو پھر بتاکید لکھا کہ فوج کو لے کر کسی بلند اور صحت بخش مقام کی طرف چلے جاؤ، اس وقت جہاں پڑاؤ ہے وہ نہایت نشیبی اور مرطوب جگہ ہے،حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اس حکم کی تعمیل کی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتخاب پر جابیہ اُٹھ گئے۔[67][68] [69]

وفات[ترمیم]

جابیہ پہنچ کر ابو عبیدہ بن جراح ؓ طاعون میں مبتلا ہوئے، جب مرض کی زیادہ شدت ہوئی، تو حضرت معاذ بن جبل ؓ کو جو ان کے اسلامی بھائی تھے اپنا جانشین کیا اور لوگوں کو جمع کرکے ایک نہایت مؤثر تقریر کی، آخر میں فرمایا، صاحبو یہ مرض خدا کی رحمت اور تمھارے نبی کریم ﷺ کی دعوت ہے،پہلے بہت سے صلحائے روزگار اس میں جاں بحق ہو گئے ہیں اور اب عبیدہ ؓ بھی اپنے خدا سے اس سعادت میں حصہ پانے کا متمنی ہے۔[70] نماز کا وقت آیا تو حضرت ابو عبیدہ ؓ نے اپنے جانشین کو نماز پڑھانے کا حکم دیا، ادھر نماز ختم ہوئی اور اُدھر راضی برضائے الہی یعنی ابو عبید بن الجراح ؓ امین الامت نے داعیِ حق کو لبیک کہا، حضرت معاذ بن جبل نے تجہیز و تکفین کا سامان کیا اور حاضرین کے سامنے ایک مؤثر پردرد تقریر کے بعد کہا"صاحبو! آج تم سے ایک شخص ایسا اُٹھ گیا کہ خدا کی قسم میں نے اس سے زیادہ صاف دل، بے کینہ، سیر چشم، عاقبت اندیش، باحیا اور خیر خواہِ خلق کبھی نہیں دیکھا، پس خدا سے اس کے لیے رحم و مغفرت کی دعا کرو"۔[71]

18ھ اٹھاون(58) برس کی عمر میں یہ تاریخ ساز شخصیت مالک حقیقی سے جا ملی ۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ بن جراح نے اٹھاون(58) برس کی عمر پائی اور اس قلیل عرصہ میں اپنے حیرت انگیز کارناموں کا منظر دیکھا ۔ [72][73] [74] .[75][76]

اخلاق و عادات[ترمیم]

حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحیفہ اخلاق میں خدا ترسی، اتباعِ سنت ، تقویٰ، زہد، تواضع، مساوات اور ترحم کے ابواب نہایت روشن ہیں۔ خوفِ خدا کا یہ حال تھا کہ محض معمولی واقعات ان کے لیے سرمایہ عبرت بن جاتے اور اکثر خدا کی ہیبت و جلال کو یاد کر کے جشم پرنم ہو جاتے تھے،ایک دفعہ ایک شخص ان کے گھر آیا دیکھا تو زار و قطار رو رہے ہیں اس نے متعجب ہو کر پوچھا، ابو عبیدہ ؓ خیر ہے؟ یہ رونا دھونا کیسا؟ کہنے لگے ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے آیندہ فتوحات اور تمول کا ذکر کرتے ہوئے شام کا تذکرہ فرمایا اور کہا، ابو عبیدہ! رضی اللہ عنہ اگر اس وقت تک تمھاری عمر وفا کرے تو تمھارے لیے صرف تین خادم کافی ہوں گے ایک خاص تمھاری ذات کے لیے ایک تمھارے اہل و عیال کے لیے اور ایک سفر میں ساتھ جانے کے لیے اسی طرح سواری کے تین جانور کافی ہیں،ایک تمھارے لیے ایک غلام کے لیے ایک اسباب وسامان کے لیے، لیکن اب دیکھتا ہوں تو میرا گھر غلاموں سے اور اصطبل گھوڑوں سے بھرا ہوا ہے آہ! میں رسول اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ شخص میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوگا جو اسی حال میں ملے گا جس حال میں میں اسے چھوڑ جاؤں گا۔[77] ہادیٔ دین کی اطاعت محبت اور خدمت گزاری میں امین امت سے زیادہ کون پیش پیش رہتا؟ واقعہ بدر میں باپ کو قتل کیا، رسول برحق کی راحت رسانی کے لیے دو دانت شہید کیے، غزوۂ ذات السلاسل میں عمرو بن العاص ؓ سے اختلاف ہوا تو صرف اس لیے طوقِ اطاعت گلے میں ڈال لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتفاق باہمی کی ہدایت کی تھی اور فرمایا کہ میں تمھاری اطاعت نہیں کرتا؛ بلکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر گردن جھکا تا ہوں۔[78] امین اُمت کا آخری لمحہ حیات بھی اطاعتِ رسول میں گذرا، شام میں طاعون کی شدت ہوئی تو بڑے بڑے ثابت قدم بزرگوں کے پاؤں ڈگمگا گئے، لیکن انھوں نے صرف اس وجہ سے ٹلنے کا نام نہ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھاگنے کی ممانعت کی تھی،حضرت ابو عبیدہ ؓ زہد و بے نیازی کے بادشاہ تھے،ان کی نظر میں دنیا اور اس کی نعمتیں ایک حقیر ذرہ سے بھی زیادہ بے وقعت تھیں، شام کی آب و ہوا نے بڑے بڑے صحابہ کے طرزِ معاشرت کو بدل دیا تھا، چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سفرِ شام کے موقع پر افسروں کو پر تکلف قبائیں اور زرق برق پوشاک پہنے دیکھا تو اس قدر غصہ ہوئے کہ گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگریزے اٹھا کر ان کی طرف پھینکنے لگے کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اختیار کر لیں،لیکن حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ جس حال میں ملے وہ وہی عرب کی سادگی تھی،بدن پر سادہ کپڑے اور سواری میں اونٹنی جس کی نکیل بھی معمولی رسی کی تھی، حضرت عمر بن خطاب ؓ ان کے قیام گاہ پر تشریف لائے تو وہاں اس سے بھی زیادہ سادگی تھی،یعنی ڈھال،تلوار اور اونٹ کے کجاوہ کے سوا کوئی سامانِ راحت نہ تھا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کاش تم ضروری سامان تو فراہم کر لیتے، اس بے نیاز عالم نے جواب دیا"امیر المومنین ہمارے لیے بس یہی ہے"۔[79] ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس چارسو دینار اور چار ہزار درہم بطور انعام بھیجے، انھوں نے تمام رقم فوج میں تقسیم کردی اور اپنے لیے ایک حبہ بھی نہ رکھا، حضرت عمرؓ نے سنا تو فرمایا الحمد للہ کہ اسلام میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔[80]

امین امت کی خاکساری اور تواضع کا اس سے اندازہ ہوگا کہ انھوں نے باوجود سپہ سالار اعظم ہونے کے جاہ و حشم سے کبھی سرورکار نہ رکھا، رومی سفراء جب کبھی اسلامی لشکر گاہ میں آئے تو انھیں ہمیشہ سردارِ فوج کی شناخت میں دقت پیش آئی، ایک دفعہ ایک رومی قاصد آیا، وہ یہ دیکھ کر متحیر ہو گیا کہ یہاں سب ایک ہی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں، بالآخر اس نے گھبرا کر پوچھا تھا سردار کون ہے؟ لوگوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کی طرف اشارہ کیا، دیکھا تو ایک نہایت معمولی وضع قطع کا عرب فرشِ خاک پر بیٹھا ہے۔ مساواتِ اسلامی کا حددرجہ خیال تھا، ان کے لشکر گاہ میں ایک معمولی مسلمان سپاہی کو بھی وہی عزت حاصل تھی جو ایک بڑے سے بڑے سردار کو ہو سکتی ہے،ایک دفعہ ایک مسلمان نے غنیم کے ایک سپاہی کو پناہ دی،حضرت خالد بن ولیدؓ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس کے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ؛لیکن سپہ سالارِ اعظم حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے فرمایا ہم اس کو پناہ دیتے ہیں؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان سب کی طرف سے پناہ دے سکتا ہے۔[81] ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خلق و ترحم تمام خلق اللہ کے لیے عام تھا، شام میں ان کی شفقت اور رعایا پروری نے عیسائیوں کو بھی مرہونِ منت بنارکھا تھا، وہاں عیسائیوں کو نماز کے وقت ناقوس بجانے کی اور عام گذرگاہوں میں صلیب نکالنے کی سخت ممانعت تھی، لیکن انھوں نے عرضی پیش کی کہ کم سے کم سال میں ایک دفعہ عید کے روز صلیب نکالنے کی اجازت دی جائے، حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے خوشی کے ساتھ یہ درخواست منظور کرلی اس رواداری کا یہ اثر ہوا کہ شامی خود اپنے مذہب رومیوں کے دشمن ہو گئے اور خوشی کے ساتھ جاسوسی اور خبر رسانی کے فرائض انجام دینے لگے۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کی خانگی زندگی کے حالات نامعلوم ہیں تاہم اس قدر یقینی ہے کہ جذبہ انقطاع الی اللہ نے بیوی بچوں سے غیر معمولی شغف پیدا ہونے نہ دیا۔[82][83][84][85] .[86]

حلیہ[ترمیم]

حلیہ یہ تھا، قد لمبا، جسم نحیف و لاغر،چہرہ کم گوشت، سامنے کے دو دانت خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قربان ہو گئے تھے، ڈاڑھی گھنی نہ تھی،اور بعض روایات کے مطابق خضاب استعمال کرتے تھے۔ [87]}} .[88][89][90][91]

اولاد و ازواج[ترمیم]

حضرت ابو عبیدہ ؓ کی صرف دو بیویوں سے اولاد ہوئی، ہند بنت جابر سے یزید اور درجا سے عمیر پیدا ہوئے، لیکن دونوں لاولد فوت ہوئے۔[92] .[93] .[94]


مزار - ابو عبیدہ ابن الجراح

حدیث میں ذکر[ترمیم]

ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔[95]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عنوان : Абу Убайда ибн аль-Джаррах
  2. عنوان : Исламский энциклопедический словарьISBN 978-5-98443-025-8
  3. (اکمال فی اسماء الرجال، ص608)
  4. صحيح البخاري، كتاب فضائل الصحابة، باب مناقب أبي عبيدة بن الجراح رضي الله عنه آرکائیو شدہ 2017-12-12 بذریعہ وے بیک مشین
  5. ^ ا ب أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، دار القلم، دمشق، الطبعة الأولى، 1418هـ-1997م، ص46 آرکائیو شدہ 2019-12-16 بذریعہ وے بیک مشین
  6. الإصابة في تمييز الصحابة، ابن حجر العسقلاني، دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى، ج3 ص475 آرکائیو شدہ 2016-09-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  7. جمهرة أنساب العرب، ابن حزم الأندلسي، موقع الوراق آرکائیو شدہ 2016-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
  8. دار الأرقم بن أبي الأرقم أول مركز إسلامي انطلقت منه الدعوة إلى الله، الإسلام سؤال وجواب آرکائیو شدہ 2018-01-19 بذریعہ وے بیک مشین
  9. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : 1298)
  10. ^ ا ب أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص47-48 آرکائیو شدہ 2019-12-16 بذریعہ وے بیک مشین
  11. سيرة ابن هشام، تحقيق مصطفى السقا، الطبعة الثانية، ج1 ص252 آرکائیو شدہ 2017-08-15 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  12. سير أعلام النبلاء، الذهبي، مؤسسة الرسالة، الطبعة الثالثة، ج1 ص8 آرکائیو شدہ 2017-08-05 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  13. (مجادلہ:22)
  14. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث:298)
  15. (ابن سعد حصہ مغازی:62)
  16. (ابن سعد ایضاً
  17. (ابن سعد صفحہ 95)
  18. (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ سیف الجرا)
  19. ^ ا ب أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص71-73
  20. أنوار الفجر في فضائل أهل بدر، السيد بن حسين العفاني، دار ماجد عسيري، الطبعة الأولى، ج1 ص458 آرکائیو شدہ 2020-01-10 بذریعہ وے بیک مشین
  21. انظر أيضاً: هل يصح خبرُ قتلِ أبي عبيدة بنِ الجراحِ لوالده؟ - صيد الفوائد آرکائیو شدہ 2018-01-19 بذریعہ وے بیک مشین
  22. موقف قتل أبي عبيدة بن الجراح لأبيه يوم بدر - موقع قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-10-15 بذریعہ وے بیک مشین
  23. أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص79
  24. سير أعلام النبلاء، الذهبي، أبو عبيدة بن الجراح "نسخة مؤرشفة"۔ 22 مايو 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مايو 2020 
  25. فضائل الصحابة، محمد حسن عبد الغفار، المكتبة الشاملة، ج8 ص4 آرکائیو شدہ 2016-09-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  26. الطبقات الكبرى، ابن سعد، أبو عبيدة بن الجراح، رقم الحديث: 4175 آرکائیو شدہ 2018-01-19 بذریعہ وے بیک مشین
  27. خطط الشام، محمد بن عبد الرزاق بن محمد، مكتبة النوري، دمشق، الطبعة الثالثة، ج1 ص98 آرکائیو شدہ 2016-09-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  28. السيرة النبوية لابن هشام، مؤسسة علوم القرآن، ص80 آرکائیو شدہ 2017-08-25 بذریعہ وے بیک مشین
  29. (بخاری قصہ اہل نجران)
  30. (بخاری کتاب الرفاق باب یایخدر من زہرۃ الدنیا)
  31. (بخاری کتاب الرفاق باب مایخدرمن زہرۃ الدنیا)
  32. (بخاری کتاب الرفاقا)
  33. السيرة الحلبية، علي بن برهان الدين الحلبي، الجزء الرابع، سرية أبي عبيدة بن الجراح رضي الله تعالى عنه إلى ذي القصة أيضاً "نسخة مؤرشفة"۔ 5 أغسطس 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مايو 2020 
  34. صحيح البخاري، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب غَزْوَةُ سِيفِ الْبَحْرِ، 4039 آرکائیو شدہ 2018-01-19 بذریعہ وے بیک مشین
  35. السنن الكبرى، البيهقي، دار الكتب العلمية، الطبعة الثالثة، ج9 ص422 آرکائیو شدہ 2020-01-10 بذریعہ وے بیک مشین
  36. ^ ا ب أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص140-149
  37. انظر أيضاً: صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلّم في لبنان - جمعية مكارم الأخلاق الإسلامية آرکائیو شدہ 2016-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
  38. جمهرة خطب العرب في عصور العربية الزاهرة، أحمد زكي صفوت، المكتبة العلمية، بيروت، ج1 ص200 آرکائیو شدہ 2017-08-14 بذریعہ وے بیک مشین
  39. أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص154-155
  40. انظر أيضاً: فتح الشام - ملفات متنوعة - طريق الإسلام آرکائیو شدہ 2019-04-10 بذریعہ وے بیک مشین
  41. فتوحات الشام في عهد أبي بكر الصديق (2 - 2) - موقع قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-12-21 بذریعہ وے بیک مشین
  42. أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص179
  43. رسالة عمر بن الخطاب إلى أبي عبيدة بن الجراح - ويكي مصدر "نسخة مؤرشفة"۔ 4 يونيو 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مايو 2020 
  44. أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص181-182
  45. معركة فحل مهدت الطريق أمام المسلمين لانتصار اليرموك - جريدة الاتحاد آرکائیو شدہ 2016-09-16 بذریعہ وے بیک مشین
  46. (ابن اثیر جلد 2 صفحہ 381 وفتوح البلدان صفحہ 137)
  47. (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 138)
  48. أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص183-185
  49. انظر أيضاً: فتح دمشق - موقع قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-12-26 بذریعہ وے بیک مشین
  50. (فتوح البلدان :143،144)
  51. (نساء:171)
  52. (نساء:172)
  53. (طبری کے نزدیک جارج خالد ؓ کی کوششوں سے اسلام لایا)
  54. ^ ا ب أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص186-191
  55. الخلفاء الراشدون مواقف وعبر، عبد العزيز الحميدي، دار الدعوة، طبعة 1426هـ - 2005م، ص367 آرکائیو شدہ 2020-01-10 بذریعہ وے بیک مشین
  56. الاستعداد لمعركة اليرموك - موقع قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-09-23 بذریعہ وے بیک مشین
  57. ناصر بن محمد الأحمد - أبو عبيدة عامر بن الجراح آرکائیو شدہ 2016-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
  58. تحفة الأحوذي، محمد بن عبد الرحمن بن عبد الرحيم المباركفوري، دار الكتب العلمية، ص399 آرکائیو شدہ 2016-08-29 بذریعہ وے بیک مشین
  59. (فتوح البلدان :145)
  60. أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص205
  61. فتح القدس - موقع قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-12-16 بذریعہ وے بیک مشین
  62. مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، علي بن أبي بكر الهيثمي، كتاب الجنائز، 3860 "نسخة مؤرشفة"۔ 23 أكتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مايو 2020 
  63. (طبری : 2577)
  64. أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص225-226
  65. دخول عمر بن الخطاب القدس واستكمال فتح الشام - موقع قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-12-14 بذریعہ وے بیک مشین
  66. (مسلم باب الطاعون)
  67. (فتح الباری :1/159)
  68. صحيح البخاري، كتاب الطب، باب ما يذكر في الطاعون آرکائیو شدہ 2016-08-29 بذریعہ وے بیک مشین
  69. سير أعلام النبلاء، الذهبي، الصحابة رضوان الله عليهم، أبو عبيدة بن الجراح، ص10 آرکائیو شدہ 2017-08-26 بذریعہ وے بیک مشین
  70. (مسندل :1/196)
  71. (اصابہ :4/12)
  72. البداية والنهاية، ابن كثير، دار عالم الكتب، 1424هـ - 2003م، ج10 ص42 "نسخة مؤرشفة"۔ 11 سبتمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 أغسطس 2016 
  73. الكامل في التاريخ، ابن الأثير، دار الكتاب العربي، 1417هـ - 1997م، ج2 ص377 آرکائیو شدہ 2016-08-19 بذریعہ وے بیک مشین
  74. تاريخ الطبري، دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى، ج2 ص488 آرکائیو شدہ 2017-08-04 بذریعہ وے بیک مشین
  75. فتح الباري، ابن حجر العسقلاني، ج10 ص199 "نسخة مؤرشفة"۔ 10 سبتمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 أغسطس 2016 
  76. تفسير الألوسي، شهاب الدين السيد محمود الألوسي، دار إحياء التراث العربي، ج28 ص97 آرکائیو شدہ 2016-08-29 بذریعہ وے بیک مشین
  77. (مسند:1/196)
  78. (مسند:1/196)
  79. (اصابہ:4/12)
  80. (طبقات ابن سعد قسم اول جز وثالث : 301)
  81. (مسند:1/195)
  82. صحيح البخاري، 3534 آرکائیو شدہ 2017-12-12 بذریعہ وے بیک مشین
  83. صحيح مسلم، 2419 آرکائیو شدہ 2016-08-29 بذریعہ وے بیک مشین
  84. فتح الباري شرح صحيح البخاري، ابن حجر العسقلاني، دارالريان للتراث، 1407هـ - 1986م، ج3 ص117 آرکائیو شدہ 2017-12-12 بذریعہ وے بیک مشین
  85. أمين الأمة، سهام عبيد - طريق الإسلام آرکائیو شدہ 2018-07-08 بذریعہ وے بیک مشین
  86. فتح الباري شرح صحيح البخاري، ابن حجر العسقلاني، ج3 ص118 آرکائیو شدہ 2016-09-11 بذریعہ وے بیک مشین
  87. حياة الصحابة، محمد يوسف الكاندهلوي، مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى، ج3 ص309 آرکائیو شدہ 2016-09-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
  88. أبو عبيدة عامر بن الجراح، محمد حسن شراب، ص285
  89. سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج1 ص23 آرکائیو شدہ 2017-08-26 بذریعہ وے بیک مشین
  90. الطبقات الكبرى، ابن سعد، ج3 ص316 آرکائیو شدہ 2020-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  91. أبو نعيم الأصبهاني۔ معرفة الصحابة۔ الأول۔ دار الوطن۔ صفحہ: 148 
  92. نسب قريش، مصعب الزبيري، الموسوعة الشاملة، ج1 ص147 آرکائیو شدہ 2020-08-16 بذریعہ وے بیک مشین
  93. سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج1 ص8 آرکائیو شدہ 2017-08-26 بذریعہ وے بیک مشین
  94. أسد الغابة في معرفة الصحابة، ابن الأثير، دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى، ج3 ص125 آرکائیو شدہ 2017-08-13 بذریعہ وے بیک مشین
  95. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713