ابو یوسف یعقوب المنصور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ابو یوسف یعقوب المنصور (1160ء تا 23 جنوری 1199ء) خلافت موحدین کا تیسرے خلیفہ تھا جس نے اپنے والد ابو یعقوب یوسف کی جگہ تخت سنبھالا۔ اس نے 1184ء سے 1199ء تک حکومت کی۔ وہ موحدین کا سب سے مشہور حکمران تھا۔

جنگ ارک[ترمیم]

یعقوب کو سب سے زیادہ شہرت اس فتح کی وجہ سے ملی جو اس نے شمالی اندلس کے مسیحی حکمران الفانسو پر جنگ ارک میں حاصل کی۔ الفانسو ہشتم اور امیر یعقوب کے درمیان 5 سال کے لیے صلح کا ایک معاہدہ ہو گیا تھا لیکن الفانسو نے معاہدہ توڑ کر اسلامی علاقے پر حملہ کیا۔ یعقوب کو جب اطلاع ہوئی تو وہ مراکش سے اندلس پہنچا اور 8 جولائی 1195ء کو ارک کے مقام پر الفانسو کو ویسی ہی زبردست شکست دی جیسی 100 سال پہلے یوسف بن تاشفین جنگ زلاقہ میں دے چکا تھا۔

اس کے بعد یعقوب نے الفانسو کے دار الحکومت طلیطلہ کا محاصرہ کر لیا۔ شہر فتح ہونے کے قریب تھا کہ الفانسو نے اپنی بوڑھی ماں کو امیر یعقوب کے پاس بھیج کر معافی مانگی۔ یعقوب اپنے دشمن کی بوڑھی ماں کی درخواست رد نہ کرسکا اور 10 سال کے لیے صلح کرکے واپس ہو گیا۔ اس طرح یعقوب المنصور کی رحم دلی کی وجہ سے طلیطلہ کا تاریخی شہر دوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آنے سے رہ گیا۔

اس فتح کے بعد یعقوب نے المنصور باللہ کا لقب اختیار کیا۔

شخصیت[ترمیم]

یعقوب کی زندگی عام بادشاہوں کی طرح نہیں تھی بلکہ وہ سادہ زندگی گذارتا، معمولی کپڑے پہنچا، پانچوں وقت کی نماز عام مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرتا تھا۔ اسے انصاف کا اتنا خیال تھا کہ ہر راہ چلتے فریادی کے لیے سواری روک لیتا۔

اس کے عہد میں علما فقہا اور محدثین کے وظیفے مقرر تھے۔ اس نے کئی سڑکیں تعمیر کرائیں اور جگہ جگہ سرائیں بنوائیں۔

اس نے اپنی سلطنت میں مدرسے اور شفاخانے بھی قائم کیے۔ ان میں مراکش کا شفا خانہ بہت شاندار تھا۔ یعقوب ہر نماز جمعہ کے بعد خود اس عظیم شفا خانے کا معائنہ کرتا اور مریضوں سے مل کر ان کی عیادت کرتا۔

تعمیرات[ترمیم]

یعقوب کو عمارتیں بنانے کا بھی بہت شوق تھا۔ اس کے عہد میں ایسی عمارتیں بنائی گئیں کہ اس کی نظیر شمالی افریقہ کی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ ان میں سب سے شاندار عمارت مراکش کی جامع کتبیہ ہے۔ اس مسجد کا مینار ساڑھے تین سو فٹ اونچا ہے۔ اس مسجد کے چند سال بعد دہلی میں قطب مینار تعمیر کیا گیا لیکن کتبیہ کا یہ مینار اس سے بھی سو فٹ اونچا ہے۔ یہ مسجد اور مینار آج بھی قائم ہے۔ یہ مسجد کتبیہ اس لیے کہلاتی ہے کیونکہ اس کے نیچے کتابوں کی دکانیں تھیں۔ اس زمانے میں مراکش میں لکھنے پڑھنے کا شوق انتہا درجے تک پہنچا ہوا تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کتابوں کی ان دکانوں کی تعداد ڈھائی سو تھی۔

جامع کتبیہ کی ایک دلچسپ چیز اس کا مقصورہ ہے۔ معماروں نے یہ مقصورہ اس طرح بنایا تھا کہ منصور کے مسجد میں داخل ہوتے ہی نمودار ہوجاتا اور جب وہ واپس چلا جاتا تو مقصورہ غائب ہوجاتا اور مسجد کی دیوار پہلے کی طرح برابر ہوجاتی۔

یعقوب نے اشبیلیہ کی مسجد میں بھی مینار کا اضافہ کیا۔ یہ مینار آج کل جیرالڈا کہلاتا ہے۔ اس کی بلند بھی تقریباً 320 فٹ ہے اور یہ دنیا کے خوبصورت ترین میناروں میں شمار ہوتا ہے۔

انھوں نے رباط میں دنیا کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا لیکن انتقال کے باعث یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا اور صرف برج حسن اور ابتدائی تعمیر مکمل ہو سکی۔

یعقوب بھی عبد المومن اور یوسف کی طرح علما اور فضلا کا بڑا قدر دان تھا۔ ابن طفیل اور ابن رشد کا تعلق اسی کے دربار سے تھا۔ ان کے علاوہ اس دور کا مشہور ادیب اور شاعر ابوبکر بن زہر بھی اس کے دربار سے وابستہ تھا۔

انتقال[ترمیم]

امیر یعقوب سلطان صلاح الدین ایوبی کا ہمعصر تھا اور اس زمانے میں ساری دنیا میں سوائے سلطان صلاح الدین کے کوئی اور حکمران ان خوبیوں میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔

یہ اچھا حکمران 15 سال حکومت کرنے کے بعد 23 جنوری 1199ء کو مراکش میں انتقال کرگیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 40 سال تھی۔

جانشیں[ترمیم]

یعقوب کے بعد اس کا بیٹا الناصر تخت پر بیٹھا۔ اس کا عہد بھی بڑی خوش حالی کا زمانہ تھا لیکن اس کو 609ھ میں اندلس میں معرکہ العقاب میں مسیحیوں کے مقابلے میں ایسی شکست ہوئی کہ موحدین کا زور ٹوٹ گیا۔ اگلے سال الناصر کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد موحدین کا زوال شروع ہو گیا۔

پیشرو:
ابو یعقوب یوسف
موحدین
977–997
جانشیں :
محمد الناصر

مزید پڑھیے[ترمیم]

جنگ ارک