احمد سرہندی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امام ربانی

شیخ احمد الفاروقی السرہندی

 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (انگریزی میں: Ahmad Sirhindi ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 26 جون 1564ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرہند-فتح گڑھ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات منگل 28 صفر 1034ھ/ 10 دسمبر 1624ء
(عمر: 60 سال 6 ماہ 14 دن شمسی)
روضہ شریف، نزد بستی پٹھاناں، گردوارہ فتح گڑھ صاحب سے مشرقی جانب۔ موجودہ سرہند-فتح گڑھ، ضلع فتح گڑھ صاحب، پنجاب، بھارت
سرہند-فتح گڑھ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت
مغلیہ سلطنت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب تصوف[1]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد خواجہ محمد معصوم  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ باقی باللہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ امام،  الٰہیات دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی،  عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل شریعت،  اسلامی فلسفہ،  تصوف  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر الغزالی، محمد الباقی باللہ

شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی (مکمل نام:شیخ احمد سر ہندی ابن شیخ عبد الا حد فاروقی) (پیدائش: 26 جون 1564ء— وفات: 10 دسمبر 1624ء) دسویں صدی ہجری کے نہایت ہی مشہور عالم و صوفی تھے۔ جو مجدد الف ثانی اور قیوم اول سے معروف ہیں۔[2] آپ کے مشہور خلیفہ سید آدم بنوری ہیں۔

زندگی[ترمیم]

آپ کی ولادت جمعۃ المبارک 14 شوال971 ھ (یہی خواجہ باقی باللہ کا سال ولادت ہے)بمطابق 26 مئی 1564ء کو نصف شب کے بعد سرہند شریف ہندوستان میں ہوئی۔[3] آپ کے والد شیخ عبد الاحد ایک ممتاز عالم دین تھے اور صوفی تھے۔ صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فن حدیث حاصل کیا۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اپنے والد سے پائی، سلسلہ قادریہ کی اور سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم دہلی جاکر خواجہ باقی باللہ سے حاصل کی۔ 1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم، شام، ماوراء النہر اور افغانستان وغیرہ تمام عالم اسلام کے مشائخ علما اور ارادتمند آکر آپ سے مستفید و مستفیض ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ نے استعمال کیا۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے۔ آپ کو مرشد کی وفات (نومبر 1603ء) کے بعد سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی کا شرف حاصل ہوا اور آخری عمر تک دعوت وارشاد سے متعلق رہے سرہند میں بروز سہ شنبہ 28 صفرالمظفر 1034؁ھ بعمر 62 سال اور کچھ ماہ وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔[4]

مجدد کا لقب[ترمیم]

بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ہزار سال کے بعد تجدید دین کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مجددمبعوث فرماتا ہے۔ چنانچہ علما کا اتفاق ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بعد دوسرے ہزار سال کے مجدد آپ ہی ہیں اسی لیے آپ کو مجدد الف ثانی کہتے ہیں۔

دیگر القابات[ترمیم]

بارگاہ فلک رفعت، آرام گاہ عالی مرتبت، دربار گوہر بار، مزار، اعلیٰ عظیم البرکت، قیوم ملت، خزینۃ الرحمۃ، محدث رحمانی، غوث صمدانی، امام ربانی، المجدد المنور الف ثانی، ابو البرکات شیخ بد ر الدین احمد فاروقی، نقشبندی، سرہندی۔[5]

شریعت کی پابندی[ترمیم]

مجدد الف ثانی مطلقاً تصوف کے مخالف نہیں تھے۔ آپ نے ایسے تصوف کی مخالفت کی جو شریعت کے تابع نہ ہو۔ قرآن و سنت کی پیروی اور ارکان اسلام پر عمل ہی آپ کے نزدیک کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ آپ کے مرشد خواجہ رضی الدین محمد باقی با اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان میں تصوف کا نقشبندی سلسلہ متعارف کرایا اور آپ نے اس سلسلہ کو ترقی دی۔

بدعات کا رد[ترمیم]

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں بہت سی ہندوانہ رسوم و رواج اور عقائد اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ اسلام کا تشخص ختم ہو چکا تھا اور اسلام اور ہندومت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں بدعات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

اہل تشیع کا رد[ترمیم]

ردِ روافض برصغیر میں اہل تشیع کے خلاف لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔ اس میں شیخ احمد سرہندی لکھتے ہیں:

"علمائے ماوراء النہر نے فرمایا کہ جب شیعہ حضرات شیخین، ذی النورین اور ازدواج مطہرات کو گالی دیتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں تو بروئے شرع کافر ہوئے۔ لہذا بادشاہِ اسلام اور نیز عام لوگوں پر بحکم خداوندی اور اعلائے کلمة الحق کی خاطر واجب و لازم ہے کہ ان کو قتل کریں، ان کا قلع قمع کریں، ان کے مکانات کو برباد و ویران کریں اور ان کے مال و اسباب کو چھین لیں۔ یہ سب مسلمانوں کے لیے جائز و روا ہے"[6]۔

البتہ چونکہ شیخ احمد سرہندی کا اس وقت معاشرے پر اتنا اثر نہ تھا، مغل دور کا ہندوستان صلح کل پر کاربند رہا۔ آپ کے خیالات آپ کی وفات کے سو سال بعد شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان نے زیادہ مقبول بنائے۔شاہ ولی الله نے شیخ احمد سرہندی کی کتاب "رد روافض" کا عربی میں ترجمہ بعنوان"المقدمۃ السنیہ فی الانتصار للفرقۃ السنیہ"کیا[7]۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ 1820ء میں شروع ہوا جب سید احمد بریلوی نے اپنے مجاہدین کو امام بارگاہوں پر حملے کے لیے ابھارا۔ پروفیسر باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:

” دوسری  قسم کے امور  جن سے سید احمد بریلوی   شدید پرخاش رکھتے تھے ، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:

’ایک سچے مومن کو  طاقت کے استعمال کے ذریعے  تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔

سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں  نے ، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں  ہزاروں کی تعداد میں  تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے  جلائے جانے کاذکر کیا ہے“[8]۔

قید و بند کی صعوبت[ترمیم]

مجدد الف ثانی کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے دور ابتلا سے بھی گذرنا پڑا۔ بعض امرا نے مغل بادشاہ جہانگیر کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور یقین دلایا کہ آپ باغی ہیں اور اس کی نشانی یہ بتائی کہ آپ بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ آپ کو دربار میں طلب کیا جائے۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو دربار میں طلب کر لیا۔ آپ نے بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہ کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا:

سجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جا سکتا۔

بادشاہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ شیخ جھک جائیں لیکن مجدد الف ثانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض امرا نے بادشاہ کو آپ کے قتل کا مشورہ دیا۔ غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ آپ کو گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔ آپ نے قلعے کے اندر ہی تبلیغ شروع کر دی اور وہاں کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔ قلعہ میں متعین فوج میں بھی آپ کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ بالآخر جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ کو رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو اپنے لشکر کے ساتھ ہی رکھا۔


تصنیفات[ترمیم]

  1. اثبات النبوۃ
  2. رسالہ تہلیلیہ
  3. رد روافض
  4. شرح رباعیات
  5. معارف لدنیہ
  6. مبدا و معاد
  7. مکاشفات عینیہ
  8. مکتوبات امام ربانی
  9. رسالہ جذب و سلوک
  10. تعلیقات عوارف المعارف
  11. رسالہ آداب المریدین
  12. رسالہ اثبات الواجب
  13. رسالہ علم حدیث
  14. رسالہ حالات خواجگان نقشبند

ان تصانیف میں اول الذکر آٹھ کتابیں طبع ہو چکی ہیں باقی تصانیف کا ذکر تذکروں میں ملتا تو ہے لیکن نایاب ہیں۔[9]

انتقال[ترمیم]

ایک دن بیماری کے دوران میں فرمایا:

  • آج ملاوی کنت سون سکھی سب جگ دیواں ہار (ترجمہ:آج دوست کا روز وصال ہے اے محبوب میں تمام دنیا کو اس نعمت پر قربان کرتا ہوں)۔ بروز منگل 28 صفر 1034ھ مطابق 10 دسمبر 1624ء کو وصال فرمایا اورسر ہند میں طلوع ہونے والا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ کامزار پرانوار سرہند شریف (انڈیا)میں مرکزِ انوار وتجلیات ہے۔[10][11]

اولاد و امجاد[ترمیم]

مجدد الف ثانی کے سات بیٹے اور تین صاحبزادیاں تھیں جن کے نام یوں ہیں:

صاحبزادگان[ترمیم]

صاحبزادیاں[ترمیم]

  • بی بی رقیہ بانو
  • بی بی خدیجہ بانو
  • بی بی ام کلثوم

سلسلہ شیوخ[ترمیم]

سلسلہ قادریہ[ترمیم]

سلسلہ نقشبندیہ[ترمیم]

خلفاء[ترمیم]

بے شمار سالکین نے شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل کیا۔ منقول ہے کہ آپ کے مریدوں کی تعداد نو لاکھ کے قریب تھی اور تقریباً پانچ ہزارخوش نصیب حضرات کو آپ سے اجازت و خلافت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ چند خلفا کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. الحاج خضر خان افغان بہلول پوری (متوفی 1035ھ/1625ء)
  1. الحاج محمد فرگنی
  2. حاجی حسین
  3. حافظ محمود لاہوری
  4. خواجہ ہاشم برہانپوری (متوفی 1054ھ/1644ء)
  5. خواجہ محمد سعید (بسر) (متوفی 1070ھ/1660ء)
  6. خواجہ شاہ محمد یحیی (بسر) (متوفی 1096ھ/1685ء)
  7. خواجہ محمد صادق (بسر) (متوفی 1025ھ/1616ء)
  8. خواجہ محمد صدیق کشمی دہلوی (متوفی 1051ھ/1642ء)
  9. خواجہ عبد اللہ خورد (متوفی 1075ھ/1665))
  10. خواجہ عبیداللہ کلاں (متوفی 1074ھ/1664ء)
  11. خواجہ محمد معصوم (بسر) (متوفی 1079ھ/1668ء)
  12. خواجہ محمد فرخ (بسر) (متوفی 1025ھ/1616ء)
  13. سید باقر سارنگ پوری
  14. سید حسین مانک پوری
  15. سید مبارک شاہ بخاری
  16. سید محب اللہ مانک پوری (متوفی 1058ھ/1648ء)
  17. شیخ آدم بنوری (متوفی 1054ھ/1644ء)
  18. شیخ احمد استمبولی حنفی فقیہ یمنی شافعی
  19. شیخ احمد دیبنی (دیو بندی)
  20. شیخ بدیع الدین سہارنپوری (متوفی 1042ھ/1633ء)
  21. شیخ حامد بہاری
  22. شیخ حسن برکی (متوفی 1046ھ/1637ء)
  23. شیخ حمید بنگالی (متوفی 1050ھ/1642ء)
  24. شیخ داؤد سانکی
  25. شیخ زین العابدین
  26. شیخ سلیم بنوری
  27. شیخ طاہر بدخشی (متوفی 1047ھ/1637ء)
  28. شیخ طاہر لاہوری (متوفی 1047ھ/1637ء)
  29. شیخ عبد الہادی فاروقی بدایونی (متوفی 1041ھ/1629ء)
  30. شیخ عبد الحی حصاری (متوفی 1070ھ/1660ء)
  31. شیخ عبد الرحیم برکی
  32. شیخ عبد العزیز نحوی مغربی مالکی یا حنبلی
  33. شیخ عبد القادر انبالوی
  34. شیخ علی المحقق مالکی مدنی
  35. شیخ علی طبری شافعی مالکی
  36. شیخ عیسی مغربی محدث
  37. شیخ فضل اللہ برہانپوری
  38. شیخ کریم الدین بابا حسن ابدالی (متوفی 1050ھ/1640ء)
  39. شیخ محمد مدنی
  40. شیخ محمد مری
  41. شیخ مزمل پورپی (متوفی 1026ھ/1617ء)
  42. شیخ نور محمد پٹنی
  43. شیخ نور محمد بہاری
  44. شیخ یوسف برکی (متوفی 1034ھ/1624ء)
  45. شیخ یوسف برکی
  46. عثمان یمنی شافعی
  47. قاضی تولک بخاری
  48. مرشد میر زمان بیگ
  49. مولانا احمد برکی (متوفی 1026ھ/1617ء)
  50. مولانا امان اللہ لاہوری (متوفی 1031ھ/1622ء)
  51. مولانا بدرالدین سرہندی
  52. مولانا حسن بخاری
  53. مولانا حمید الدین احمد آبادی
  54. مولانا صادق کابلی (متوفی 1018ھ/1609ء)
  55. مولانا صفر احمد رومی حنفی
  56. مولانا عبد الغفور سمرقندی
  57. مولانا عبد الواحد لاہوری
  58. مولانا غازی نو گجراتی
  59. مولانا فرخ حسین ہروی (متوفی 1068ھ/1657ء)
  60. مولانا قاسم علی
  61. صوفی قربان قدیم
  62. صوفی قربان جدید ارکنجی
  63. مولانا محمد ہاشم (خادم )
  64. مولانا محمد صالح کولابی (متوفی 1038ھ/1628ء)
  65. مولانا محمد یوسف سمرقندی (متوفی 1024ھ/1613)
  66. مولانا یار محمد جدید بخشی طالقانی
  67. مولانا یار محمد قدیم بخشی طالقانی (متوفی 1046ھ/1637ء)
  68. میر محمد نعمان اکبرآبادی (متوفی 1058ھ/1648ء) [12]

مجدد الف ثانی اور اقبال[ترمیم]

حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ ۔ مجدد الف ثانی ۔ علامہ اقبال کے نزدیک ہندوستان میں جن اولیائے کرام نے اسلام کی تبلیغ کو عملی جامہ پہنایا اُن میں آپ کا نام سرِ فہرست ہے۔ علامہ اقبال کو آپ سے دلی عقیدت تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال نے آپ کی بے باکی کو خوب سراہا اورکہا:

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار

وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں

اللہ نے بر و قت کیا جس کو خبردار

اقبال نے بالِ جبریل کی نظم ’پنجاب کے پیرزادوں سے‘ کے عنوان سے آپ کی شخصیت کو اُجاگر کیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی شاعری اور نثر دونوں میں آپ کے افکار کی ترجمانی کی ہے۔ آپ کا مزار سرہند (بھارت) میں ہے.

(تحریروتحقیق: میاں ساجد علی‘ علامہ اقبال سٹمپ سوسائٹی)

بيرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ https://ia802807.us.archive.org/25/items/THETHEOLOGICALTHOUGHTOFFAZLURRAHMANTHESISBYAHADMAQBOOLAHMED/THE-THEOLOGICAL-THOUGHT-OF-FAZLUR-RAHMAN-THESIS-BY-AHAD-MAQBOOL-AHMED.pdf — صفحہ: 21
  2. مختصر تذکرہ
  3. جہان امام ربانی، اقلیم اول، ص 328،امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی
  4. مجدد الف ثانی ص: 233، بحوالہ زبدۃالمقامات وحضرات القدس
  5. جہان امام ربانی، اقلیم اول، ص 389،امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی
  6. شیخ احمد سرہندی، ردِ روافض، صفحہ 35، مدنی کتب خانہ، گنپت روڈ، لاہور۔
  7. مخطوطات > المقدمة السنية في الانتصار للفرقة السنية https://makhtota.ksu.edu.sa/makhtota/4583/10#.YAGj7-hKhPa  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  8. B. Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900", p. 58, Princeton University Press, 1982
  9. جہان امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، اقلیم پنجم صفحہ 95 ، امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی پاکستان
  10. سیرت مجدد الف ثانی، ص262
  11. "انتقالِ پرملال"۔ 03 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2017 
  12. تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرھند شریف مولف محمد نذیر رانجھا صفحہ 435 تا 438