اسلامی قانون وراثت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اسلام سے پہلے کے زمانے میں عرب میں ورثہ صرف مردوں میں تقسیم ہوتا تھا۔[1][2] اسلام ہر وارث کا حصہ مقرر کرتا ہے اور وراثت کی بنیاد قریبی رشتہ داری قرار دیتا ہے نہ کہ ضرورت مند کی ضرورت۔ قریبی رشتہ داری سے مراد خون کا رشتہ یا نکاح کا رشتہ ہے۔

سنی عقیدے کے مطابق قرانی احکامات پرانے عرب دستور کو رد نہیں کرتے بلکہ انھیں صرف بہتر بناتے ہیں تا کہ عورتوں کو بھی وراثت میں شامل کیا جائے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق چونکہ قران نے پرانے عرب دستور کی تائید نہیں کی ہے اس لیے اسے مکمل طور پر مسترد کر کے نیا قرانی طریقہ اپنانا چاہیے۔

پس منظر[ترمیم]

رسول اللہ کے پاس حضرت سعد بن الربيع کی بیوہ نے شکایت کی کہ میرا شوہر آپ کے ہمراہ غزوہ احد میں شریک تھا اور شہید ہو گیا۔ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے چچا انھیں کچھ نہیں دے رہے۔ اگر ان لڑکیوں کے پاس کچھ نہیں ہو گا تو ان کی شادی نہیں ہو سکے گی۔ اس پر آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ کے حکم پر ورثہ کا دو تہائی حصہ سعد بن الربيع کی بیٹیوں کا اور آٹھواں حصہ بیوہ کا قرار پایا اور لگ بھگ 20 فیصد حصہ چچاوں میں تقسیم ہوا۔[3]

ورثہ تقسیم کرنے سے پہلے[ترمیم]

کفن دفن کے اخراجات نکال لیے جائیں۔
سارے قرضے اتار دیے جائیں جس میں ادھار، مہر، زکوۃ اور چھوڑے ہوئے روزوں کا کفارہ شامل ہے۔

ہبہ۔ کوئی بھی چیز کسی کو بھی دینے کی آزادی۔ زندگی میں دی گئی چیز واپس نہیں لی جا سکتی۔
وصیت۔ یہ زبانی بھی ہو سکتی ہے اور تحریری بھی- یہ ورثے کی کل مقدار کا ایک تہائی تک ہو سکتی ہے۔ یہ مرنے کے بعد ہی دی جاتی ہے اور وارثوں کو نہیں مل سکتی۔

ورثے کی تقسیم[ترمیم]

  • مرد اور عورت دونوں حقدار ہوتے ہیں۔
  • متوفی سے پہلے مرا ہوا فرد متوفی کا وارث نہیں ہوتا۔
  • عموماً مرد کا حصہ عورت کے حصے کا دگنا ہوتا ہے۔ (مردوں پر مہر اور خاندان کی کفالت و حفاظت کی ذمہ داری ہوتی ہے)
  • قران نے چھ طرح کا حصہ مقرر کیا ہے یعنی 1/8, ¼, ½, 1/6, 1/3, 2/3
  • کبھی کبھی ایک وارث کی موجودگی سے دوسرے وارث کے حصے پر فرق پڑتا ہے۔ اسے حجاب کہتے ہیں۔
  • ورثہ کم ہو یا زیادہ تقسیم کرنا لازم ہے۔
  • اگر کوئی وارث ورثہ تقسیم ہونے سے پہلے مر جائے تو اس کا حصہ اس کے وارثوں کو ملتا ہے۔[4]

سگے بھائی کو سگی بہن سے دگنا ملتا ہے اسی طرح سگے پوتے کو سگی پوتی سے دگنا ملتا ہے۔ ایک باپ سے ہونے والے سوتیلے بھائی بہنوں میں بھی بھائی کو بہن سے دو گنا ملتا ہے مگر ایک ماں سے سوتیلے بھائی بہن (uterine brother and uterine sister) کو برابر برابر ملتا ہے۔

اسلامی قانون وراثت میں متوفی کے بیٹے/بیٹی کا حق پہلے ہے پھر متوفی کے باپ کا پھر متوفی کے بھائی یا بھتیجوں کا اور پھر متوفی کے چچا کا۔
ایک بھی سگا یا سوتیلا بھائی (باپ کی طرف سے ) موجود ہو تو کسی سگے یا سوتیلے چچا کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
لیکن اگر سوتیلا بھائی ماں کی طرف سے ہے تو چچا بھی ورثے میں حقدار ہو سکتے ہیں۔

مستقل وارث[ترمیم]

ان کو ہر صورت میں حصہ ملتا ہے بشرطیکہ یہ متوفی کی وفات کے وقت زندہ ہوں۔

غیر مستقل وارث[ترمیم]

انھیں بعض صورت حال میں حصہ ملتا ہے اور بعض صورت حال میں نہیں ملتا۔

قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار کو حصہ نہیں ملتا جیسے بیٹے کی موجودگی میں پوتوں کا حصہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح باپ کی موجودگی میں بھائی کو حصہ نہیں ملے گا کیونکہ بھائی سے رشتہ باپ کے ناطے ہوتا ہے۔ اسی طرح ماں کی موجودگی میں نانی اور دادی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور باپ کی موجودگی میں دادا یا دادی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لیکن باپ کی موجودگی اور ماں کی عدم موجودگی میں نانی کا حصہ ممکن ہے۔

اگر ایک بھی بیٹا زندہ ہے تو کسی دوسرے مرے ہوئے بیٹے کے بچوں ( یتیم پوتوں /پوتیوں) کو حصہ نہیں ملتا۔[5] عرب رواج کے مطابق چچا بھتیجوں کی کفالت اور حفاظت کا ذمہ دار ہوتا تھا۔

اگر مرنے والے یا والی کا کوئی بھی وارث زندہ نہیں ہے تو سارا ورثہ غلاموں کو ملے گا۔ اور اگر کوئی غلام بھی نہیں ہے تو سارا ورثہ بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا۔ اگر مرنے والے نے کسی کے حق میں وصیت کی ہے (جو ورثے کے ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہو سکتی) تو اسے وصیت شدہ حصہ ادا کر کے باقی حصہ بیت المال میں جمع کرا دیا جائے گا۔

نانا صرف اُس صورت میں وارث ہوتا ہے جب نہ کوئی دوسرا وارث زندہ ہو نہ ہی کوئی غلام۔ اگر غلام موجود ہو تو نانا کو کچھ نہیں ملتا اور سب کچھ غلام کو ملتا ہے۔ نواسہ نواسی بھی اپنے نانا یا نانی کے وارث نہیں ہوتے۔ لیکن نانی بعض صورت حال میں وارث ہوتی ہے۔ اگر دادا کی ماں اور نانی دونوں غیر مستقل وارثین میں شامل ہوں تو نانی کو حصہ ملتا ہے اور دادا کی ماں کو نہیں ملتا کیونکہ دادا کی ماں سے رشتہ ایک نسل زیادہ دور کا ہے۔

بہو کا اپنے ساس سسر کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ساس سسر بھی بہو کے وارثین میں شامل نہیں ہوتے۔

اگر وارثین میں صرف ماں اور دادی شامل ہوں تو پورا ورثہ ماں کو ملتا ہے اور دادی کو کچھ نہیں ملتا کیونکہ دادی سے رشتہ ایک نسل زیادہ دور کا ہے۔ لیکن اگر وارثین میں صرف باپ اور نانی شامل ہوں تو نانی کو ماں کی جگہ چھٹا حصہ ملتا ہے اور باپ کو باقی 5/6 حصہ ملتا ہے۔
اگر وارثین میں صرف نانی اور دادی شامل ہوں تو دونوں کو آدھا آدھا ورثہ ملتا ہے۔ ایسی صورت حال میں نانا، ماموں، خالہ اور ان کی اولادوں کو کچھ نہیں ملتا۔

غیر مستقل وارثین درج ذیل ہیں :

قرآنی وارث[ترمیم]

قرآنی وارث (اصحاب الفروض) سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جنہیں اگر حصہ ملنا ہو تو وہ حصہ قرآن نے طے کر دیا ہے۔ قران میں نو طرح کے رشتہ داروں کا حصہ بیان کیا گیا ہے۔ فقہی قیاس کی بنیاد پر تین مزید رشتہ داروں کا اضافہ کرتے ہیں۔ اس طرح کل بارہ رشتہ دار قرآنی وارث ہوتے ہیں۔ بیٹا وارث ہوتا ہے مگر قرآنی وارث نہیں کیونکہ قرآن نے بیٹے /بیٹوں کا حصہ طے نہیں کیا۔

قرانی وارث میں سے آٹھ عورتیں ہیں باقی چار مرد ۔
  • بیوی
  • بیٹی (بشرط بیٹے کی عدم موجودگی)
  • پوتی یا پڑپوتی (قیاس کی بنیاد پر )
  • سگی بہن
  • سگے باپ سے سوتیلی بہن
  • سگی ماں سے سوتیلی بہن
  • سگی ماں سے سوتیلا بھائی
  • ماں
  • نانی (قیاس کی بنیاد پر )
  • باپ
  • دادا پردادا یا اس سے بھی اوپر کا کوئی دادا۔ (قیاس کی بنیاد پر )
  • شوہر

ان کو جب حصہ ملنا ہوتا ہے تو ان کا حصہ قران میں طے شدہ ہے۔ پھر بچے ہوئے مال سے دوسروں کو حصہ ملتا ہے مثلاً بیٹوں کو۔

یتیم پوتے کی وراثت[ترمیم]

یتیم پوتے کی وراثت کے حوالے سے کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ علما ایسے یتیم پوتوں (جن کا باپ دادا کی زندگی میں وفات پا گیا ہو،) کو دادا کا بعیدی رشتے دار قرار دیتے ہوئے وراثت سے خارج سمجھتے ہیں۔ کچھ علما نے یتیم پوتے کو دادا کی وراثت میں حق دار بتایا ہے۔ محمد اکبر نے اپنی تحریر وراثت کے چند پہلو[6] میں یتیم پوتے کے حق وراثت کے لیے قرآنی دلائل دیے ہیں۔

شرائط[ترمیم]

  • وارث کا مرنے والے /والی کی موت کے وقت زندہ ہونا ضروری ہے۔
  • طلاق کے بعد نہ بیوی پرانے شوہر کی وارث رہتی ہے نہ شوہر پرانی بیوی کا وارث ہوتا ہے۔ لیکن بچے اب بھی باپ اور ماں دونوں کے وارث ہوتے ہیں۔ اگر عدت کی مدت پوری نہ ہوئی ہو تو طلاق شدہ بیوی بھی وارث مانی جاتی ہے۔
  • بچوں کا سوتیلے باپ یا سوتیلی ماں کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح باپ ماں سوتیلے بیٹے یا بیٹی کے وارث نہیں ہوتے۔ لیکن سوتیلے بھائی بہن وارث ہو سکتے ہیں۔
  • لے پالک بچے کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔
  • ناجائز اولاد کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ کنیز سے ہونے والی اولاد جائز اور وارث ہوتی ہے۔
  • اگر بیوی نکاح سے پہلے حاملہ ہو گئی اور بچہ نکاح کے بعد 6 ماہ کے اندر پیدا ہوا تو یہ بچہ ناجائز ہو گا اور وارث نہیں ہو گا۔[7]
  • غلام کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ آزاد شدہ غلام وارث ہو سکتا ہے۔ (کوئی وارث نہ ہونے کی صورت میں غلام آزاد ہو جاتا ہے۔ )
  • کنیز اگر متوفی کے بچے کی ماں ہو تو بھی اسے وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔[8]
  • اگر بیوی حاملہ ہے تو پیٹ میں موجود بچے کا بھی وراثت میں حصہ ہوتا ہے بشرطیکہ وہ زندہ پیدا ہو۔
  • بیٹے کی موجودگی میں اس کے بچوں (پوتے پوتی) اور بیٹی کی موجودگی میں اس کے بچوں (نواسے نواسی) کو حصہ نہیں ملتا۔
  • کافر کو مسلمان اور مسلمان کو کافر کی وراثت ممکن نہیں ہے۔ حنفی فقہ میں مسلمان کافر کا وارث ہو سکتا ہے۔
  • قتل عمد کی صورت میں قاتل اگر مقتول کا وارث بھی ہے تو اسے حصہ نہیں ملے گا۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
  • قتل خطا کی صورت میں قاتل کو خون بہا (دیت) میں سے حصہ نہیں ملے گا-[9]

استثنائی اشیاء[ترمیم]

اگر مرحوم کی تدفین کے اخراجات اور قرض ادا ہو چکے ہیں تو مرحوم کا قرآن، تلوار اور انگوٹھی اور اس کے پہننے کے کپڑے اس کے سب سے بڑے بیٹے کو دیے جائیں گے۔

ورثے کی تقسیم کے بعد[ترمیم]

ورثے کی تقسیم کے بعد کچھ نہیں بچنا چاہیے۔
اگر کچھ بچتا ہے اور کوئی بیٹا بھی نہیں ہے تو یہ قریب ترین رشتہ دار جو مرد ہو اس کو ملے گا۔
اگر سارے حصے مل کر موجودہ ورثے سے بھی زیادہ ہو جائیں تو ہر وارث کا حصہ ایک ہی تناسب سے کم ہو جائے گا۔ (ایک ہی مقدار سے کم نہیں ہو گا)

بچوں کا حصہ[ترمیم]

بیٹے کی موجودگی میں بیٹی کا حصہ مقرر نہیں ہوتا بلکہ ہر بیٹے کا حصہ ہر بیٹی کے حصے کا دگنا ہوتا ہے۔
اگر مرنے والے /والی کی دو یا زیادہ بیٹیاں ہیں اور کوئی بیٹا نہیں ہے تو ورثے کا دو تہائی ان میں برابر برابر بانٹ دیا جائے گا۔ لیکن اگر ایک ہی بیٹی ہے تو اسے آدھا ورثہ ملے گا۔ ( نسا 11 )
اگر بیٹی نہیں ہے تو یتیم پوتی بیٹی کی جگہ حقدار ہو گی۔ پوتے پوتی کا ذکر قران میں نہیں ہے مگر سنی فقہا اتفاق رائے سے انھیں وارث تصور کرتے ہیں۔ اگر متوفی کی ایک بیٹی اور ایک یتیم پوتی ہے تو بیٹی کو آدھا اور پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا۔ یہ کل ملا کر دو تہائی ہوتا ہے۔
دو یا زیادہ بیٹیوں کی موجودگی میں یتیم پوتی/ پوتیوں کا بالکل حصہ نہیں ہوتا۔
اگر یتیم پوتے بھی وارث ہیں تو پوتے کو پوتی کا دگنا ملے گا۔
نواسے نواسی کو اپنے نانا نانی کی وراثت نہیں ملتی کیونکہ عربوں میں وراثت مرد کی نسل سے چلتی ہے عورت کی نسل سے نہیں۔
اگر مرنے والے /والی کا ایک ہی بیٹا ہے اور کوئی دوسرا وارث نہیں ہے تو اسے پورا کا پورا ملے گا۔ لیکن اگر کوئی اور وارث بھی ہے تو اس/ ان کا حصہ نکالا جائے گا۔

والدین کا حصہ[ترمیم]

اگر متوفی (مرنے والے / والی) کی اولاد یا پوتے پوتی ہیں تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ ( یعنی والدین میں مرد کو عورت کا دگنا نہیں ملے گا)۔ بقیہ بچوں اور دوسرے وارث (بیوی یا شوہر) میں تقسیم ہو گا۔

اور اگر متوفی کی اولاد یا پوتے پوتی نہیں ہیں اور دوسرا کوئی وارث (بیوی یا شوہر) بھی نہیں ہے تو ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دو تہائی ملے گا۔

اگر متوفی کی اولاد نہیں ہے اور بہن بھائی ہیں (چاہے وہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے ) تو ماں کا حصہ چھٹا ہوتا ہے۔

ماں کا حصہ ماں نہ ہونے پر نانی کو اور باپ کا حصہ باپ نہ ہونے پر دادا کو ملتا ہے۔

شوہر بیوی کا حصہ[ترمیم]

اگر بیوی مر جائے اور اس کے بچے یا یتیم پوتے پوتیاں نہ ہوں (کسی بھی شوہر سے ) تو شوہر کو آدھا ورثہ ملے گا۔ لیکن اگر اس عورت کے بچے یا یتیم پوتے پوتیاں ہوں تو شوہر کو چوتھائی ورثہ ملے گا۔

اگر شوہر کا انتقال ہو جائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو تو ورثہ کا چوتھائی بیوی کو ملے گا اور اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو چوتھائی ورثہ ان میں برابر برابر تقسیم ہو گا۔
لیکن اگر شوہر کی کوئی اولاد ہے تو بیوی کا حصہ آٹھواں رہ جائے گا۔

بھائی بہن کا حصہ[ترمیم]

متوفی کے دونوں والدین اگر زندہ ہوں تو متوفی کے بہن بھایئوں کو حصہ نہیں ملتا۔

اگر کسی مرد یا عورت کے نہ بچے ہوں اور نہ والدین (یعنی کلالہ ہو) تو ایک بھائی اور/ یا ایک بہن ( جن کی ماں ایک اور باپ مختلف ہوں) دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا ( یعنی مرد کو عورت کا دگنا نہیں ملے گا) اور اگر دو سے زیادہ ہوں تو ایک تہائ ورثہ میں سے برابر برابر تقسیم ہو گا ۔ اگر صرف دو بھائی (بہن کوئی نہیں) یا دو بہنیں (بھائی کوئی نہیں) ہوں تو بھی دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا۔ النسا 12

اگر کسی مرد یا عورت کے نہ بچے ہوں اور نہ والدین (یعنی کلالہ ہو) اور ایک ہی بھائی ( باپ کی طرف سے ) ہو تو بھائی کو پورے کا پورا ورثہ ملے گا۔ (سورہ نسا آیت 176 )

اگر کسی مرد یا عورت کے نہ بچے ہوں اور نہ والدین (یعنی کلالہ ہو) اور ایک ہی بہن ( باپ کی طرف سے ) ہو تو بہن کو آدھا ورثہ ملے گا۔ (سورہ نسا آیت 176 )

اگر کسی مرد یا عورت کے نہ بچے ہوں اور نہ والدین (یعنی کلالہ ہو) اور دو یا دو سے زیادہ بہنیں ( باپ کی طرف سے ) ہوں تو دو تہائ ورثہ ان میں برابر برابر تقسیم ہو گا۔

قرانی حوالہ[ترمیم]

مردوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو کچھ کہ (ان کے ) والدین اور اقربا (پیچھے) چھوڑ جائیں۔ اور (اسی طرح) عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں جو (ان کے ) والدین اور اقربا چھوڑ جائیں اس ترکہ میں سے خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ (ہر حال میں یہ) حصہ مقرر شدہ ہے۔ (سورۃ النساء۔ آیت 7 )

قران کی صرف تین آیتیں ورثہ کی تقسیم کی تفصیل بتاتی ہیں۔ وہ یہ ہیں۔

“تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور (صرف) والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہو گی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تماری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقینًا سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔ ” (سورۃ النساء آیت11)

جو مال تمھاری عورتیں چھوڑ مریں اس میں تمھارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سے جو چھوڑ جائیں ایک چوتھائی تمھارا ہے اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں یا قرض کے بعد اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمھاری اولاد نہ ہو پس اگر تمھاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ یا قرض کے بعد اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی یہ میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا اور اس میت کا ایک بھائی یا بہن ہے تو دونوں میں سے اُس ایک کا چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں وصیت کی بات جو ہو چکی ہو یا قرض کے بعد بشرطیکہ اوروں کا نقصان نہ ہو یہ الله کا حکم ہے اور الله جاننے والا تحمل کرنے والا ہے (سورۃ النساء آیت 12)

وہ تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں - کہہ اللہ تمھیں کلالہ ( والدین اور اولاد کے بغیر ) کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی مرد مر جائے جس کی اولاد نہ ہو مگر اس کی ایک بہن ہو تو اسے ترکے کا نصف ملے گا اور ( اگر بہن پہلے مرے تو ) وہ ( مرد ) خود اس کا وارث ہو گا اگر اس کی بہن کی اولاد نہ ہو۔ اور اگر وہ دو عورتیں ہوں تو ان کے لیے ترکے کا دو تہائی ہو گا۔ اور اگر بھائی بہنوں میں کئی مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کی مانند ہو گا۔ اللہ تم پر واضح کرتا ہے تا کہ تم بھٹک نہ جاؤ اور اللہ ہر بات کو جانتا ہے۔ (سورۃ النساء آیت 176)[10]

دقت[ترمیم]

اسلامی وراثت کے قوانین قرانی احکامات پر مبنی ہیں۔ قرآن مجید نے عربوں کے جزوی قدیم رواج کو قائم رکھا اور باقی کو منسوخ فرما کر نئے احکامات جاری کیے ہیں۔ ابتدا میں کبھی کبھی ان قوانین کو سمجھنے میں مشکل صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر مسلمان فقہا نے اس سلسلے میں ہر اشکال دور فرما دیا ہے۔ مثال کے طور پر دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک عورت کا انتقال ہوا جس کے پیچھے شوہر، ماں، دو سگے اور دو سوتیلے (ماں سے) بھائی تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرانی وارثوں کو ان کا حصہ دیا یعنی شوہر کو آدھا، ماں کو چھٹا حصہ اور دونوں سوتیلے بھائیوں کو ملا کر ایک تہائی۔ دونوں سگے بھائی جنہیں پرانے عرب قانون کے مطابق ساری جائداد ملنی تھی انھیں کچھ بھی نہیں ملا کیونکہ کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ ( اگر دو سوتیلے بھائیوں کی بجائے دو سوتیلی بہنیں ہوتیں تو بھی انھیں کل ملا کر ایک تہائی ہی ملتا اور سگے بھائیوں کے لیے کچھ نہ بچتا)۔ دونوں سگے بھائیوں نے اعتراض کیا کہ ہماری ماں اور سوتیلے بھائیوں کی ماں تو ایک ہی تھی پھر کیوں انھیں حصہ ملا اور ہمیں نہیں۔ خلیفہ حضرت عمر نے اس اعتراض کو تسلیم کیا اور نیا فیصلہ صادر کیا کہ ایک تہائی میں دو نہیں چاروں بھائیوں کا حصہ ہو گا۔

اسی طرح اگر ایک عورت مر جائے اور وارثوں میں شوہر اور باپ ماں ہوں تو شوہر کو آدھا اور ماں کو ایک تہائی ملے گا اور اس طرح بچنے والا چھٹا حصہ باپ کو ملے گا یعنی ماں کا آدھا۔ خلیفہ حضرت عمر نے علما کے مشورہ کے بعد تسلیم کیا کہ باپ کا حصہ ماں کے حصے کا دگنا ہونا چاہیے۔

مثالیں[ترمیم]

  • اگر ایک شخص کا ورثہ ایک لاکھ روپیہ ہے اور وارثوں میں بیٹا بیٹی اور بیوی ہیں تو بیوی کو آٹھواں حصہ یعنی 12500 روپے ملیں گے اور پھر بچے ہوئے 87500 روپوں کے تین حصے ہوں گے۔ بیٹے کو دو حصے یعنی 58333 اور بیٹی کو ایک حصہ یعنی 29166 روپے ملیں گے۔
  • اگر کسی خاتون کا ورثہ ایک لاکھ روپیہ ہے اور وارثوں میں بیٹا بیٹی اور شوہر ہیں تو شوہر کو چوتھائی حصہ یعنی 25000 روپے ملیں گے اور پھر بچے ہوئے 75000 روپوں کے تین حصے ہوں گے۔ بیٹے کو دو حصے یعنی 50000 اور بیٹی کو ایک حصہ یعنی 25000 روپے ملیں گے۔
  • اگر ایک شخص کا ورثہ ایک لاکھ روپیہ ہے اور وارثوں میں بیٹا بیٹی بیوی باپ اور ماں ہیں تو بیوی کو آٹھواں حصہ یعنی 12500 روپے ملیں گے باپ اور ماں دونوں کو چھٹا چھٹا حصہ یعنی باپ کو 16666 اور ماں کو 16666روپے ملیں گے اور پھر بچے ہوئے 54166 روپوں کے تین حصے ہوں گے۔ بیٹے کو دو حصے یعنی 36111 اور بیٹی کو ایک حصہ یعنی 18055 روپے ملیں گے۔ یہاں چونکہ باپ زندہ ہے اس لیے دادا دادی اور بھائی بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔
چونکہ بیٹا زندہ ہے اس لیے بھائی بہن اور پوتے پوتی کو کچھ نہیں ملے گا۔
چونکہ ماں زندہ ہے اس لیے دادی اور نانی کو کچھ نہیں ملے گا۔
بیٹی زندہ ہو یا مردہ، نواسے نواسی کو کچھ نہیں ملتا۔
  • اگر ایک کلالہ شخص کا ورثہ ایک لاکھ روپیہ ہے اور وارثوں میں ایک بیوی اور باپ کی طرف سے ایک بھائی اور ایک بہن ہیں تو بیوی کو چوتھائی حصہ یعنی 25000 روپے ملیں گے اور پھر بچے ہوئے 75000 روپوں کے تین حصے ہوں گے۔ بھائی کو دو حصے یعنی 50000 اور بہن کو ایک حصہ یعنی 25000 روپے ملیں گے۔ ایک باپ سے ہونے والے سگے اور سوتیلے بھائی بہن کے لیے یہی حصہ ہے مگر اگر یہ بھائی اور بہن دونوں ماں کی طرف سے ہیں تو بیوی کا حصہ تو 25000 ہی رہے گا مگر اب بھائی اور بہن دونوں کو 37500 اور 37500 روپے ملیں گے۔ سگے بھائی کی موجودگی میں اسی باپ سے سوتیلے بھائی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا مگر مشترک ماں سے سوتیلے بھائی کا حصہ چھٹا ہوتا ہے۔ باقی بچا ہوا سگے بھائی کا ہوتا ہے۔
  • اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے جس کے والدین بھی مر چکے ہوں اور بیٹے بیٹیاں بھی، مگر پوتا یا پوتی زندہ ہوں تو انھیں بھی وراثت ملتی ہے (لیکن نواسے یا نواسی کو نہیں ملتی)۔ ایسی صورت حال میں اگر شوہر ایک لاکھ روپے چھوڑ کر مرے تو بیوی کو آٹھواں حصہ (12500 روپے) اور باقی سب (87500 روپے) پوتے پوتی کو ملیں گے (پوتے کو پوتی سے دو گنا)۔ لیکن اگر بیوی ایک لاکھ روپے چھوڑ کر مرے تو شوہر کو چوتھائی (25000 روپے) اور باقی سب (75000 روپے) پوتے پوتی کو ملیں گے (پوتے کو پوتی سے دگنا)۔ ایسی صورت میں متوفی کے بھائی بہن کو کچھ نہیں ملے گا یعنی کلالہ کا اطلاق نہیں ہو گا۔
  • اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے جس کا نہ کوئی شریک حیات زندہ ہو نہ ہی والدین اور بیٹے بیٹیاں۔ بس ایک (یا زائید) پوتا اور بھائی بہن زندہ ہوں تو پوری وراثت پوتے (پوتوں) کو ملتی ہے اور مرنے والے/والی کے بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملتا۔ لیکن اگر پوتے کی بجائے پوتی ہو تو پوتی کو آدھی وراثت ملتی ہے اور باقی آدھی بھائی بہنوں میں تقسیم ہوتی ہے (بھائی کو بہن کا دگنا)۔ اگر پوتا نہ ہو اور دو یا زیادہ پوتیاں ہوں تو ورثہ کا دو تہائی پوتیوں میں تقسیم ہوتا ہے اور بقیہ ایک تہائی بھائی بہنوں کو ملتا ہے (بھائی کو بہن کا دگنا)۔
  • اگر کسی شخص کے وارثوں میں صرف دو بیٹیاں، بیوی، ماں اور ایک سگا بھائی موجود ہوں تو دونوں بیٹیوں کو دو تہائی (یعنی ہر بیٹی کو ایک تہائی)، بیوی کو آٹھواں حصہ، ماں کو چھٹا حصہ اور سگے بھائی کو چوبیسواں حصہ ملے گا۔ لیکن اگر وارثوں میں ایک بیٹا بھی شامل ہو تو صورت حال کافی بدل جاتی ہے۔ بیٹے کی موجودگی میں مرنے والے کی بیوی اور ماں کے حصے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی مگر بھائی کو اب کچھ نہیں ملتا۔ اب بیٹے کا حصہ ہر بیٹی کے حصے کا دُگنا ہو جاتا ہے۔
  • اگر ایک شخص کے وارثوں میں صرف ایک بیٹا اور ماں (یا باپ) موجود ہوں تو ماں (یا باپ) کو قرآنی وارث ہونے کی وجہ سے چھٹا حصہ ملتا ہے اور باقی بچا سب کچھ بیٹے کا ہوتا ہے۔
  • اگر ایک شخص کے وارثوں میں صرف ایک بیٹی اور ماں موجود ہوں تو بیٹی کا حصہ آدھا اور ماں کا حصہ چھٹا ہونا چاہیے۔ لیکن اس طرح ایک تہائی حصہ بچ جاتا ہے جس کا بظاہر کوئی وارث نہیں۔ ایسی صورت میں "رد" کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ بچا ہوا حصہ بیٹی اور ماں میں اس طرح تقسیم ہوتا ہے کہ بیٹی کا حصہ 50 فیصد سے بڑھ کر 75 فیصد اور ماں کا حصہ تقریباً 17 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر بیٹی ایک کی بجائے دو ہوتیں تو ہر بیٹی کا حصہ 33 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد اور ماں کا حصہ تقریباً 17 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہو جاتا۔
  • اگر ایک شخص کے وارثوں میں صرف ایک بیٹی اور باپ موجود ہوں تو بیٹی کا حصہ آدھا اور باپ کا حصہ چھٹا ہونا چاہیے مگر اسلامی قوانین کے تحت مرد ہونے کی وجہ سے باپ کو بچا ہوا سب کچھ بھی مل جاتا ہے یعنی کُل ورثے کا نصف بیٹی کو ملتا ہے اور باقی نصف باپ کو۔ اسی طرح اگر بیٹی ایک کی بجائے دو ہوتیں تو ہر بیٹی کو ایک تہائی اور باپ کو بھی ایک تہائی ملتا۔
  • اگر ایک ایسی عورت مر جائے جس کے نہ باپ ماں زندہ ہوں نہ کوئی اولاد۔ اور وارثوں میں صرف شوہر اور دو بہنیں موجود ہوں تو اسلامی قانون کے مطابق شوہر کا حصہ آدھا اور دونوں بہنوں کا حصہ دو تہائی ہونا چاہئیے۔ لیکن یہ مجموعہ کل ورثے سے لگ بھگ 16 فیصد زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر وارث کا حصہ ایک ہی نسبت سے کم کر دیا جاتا ہے۔ اب شوہر کو 50 فیصد کی بجائے 42.86 فیصد اور ہر بہن کو ایک تہائی کی بجائے 28.57 فیصد ملتا ہے۔

حقائق[ترمیم]

  • سوئیڈن میں تیرہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی عیسوی تک وراثت میں ہر بیٹے کا حصہ ہر بیٹی سے دگنا ہوتا تھا۔ اس سے قبل وہاں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوا کرتا تھا۔
  • انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے مغربی علاقے میں رہنے والے مینانگ کابو قبیلے کے افراد کٹر مسلمان ہونے کے باوجود ماں اور نانی سے وراثت کا سلسلہ جوڑتے ہیں اور ان کے قدیم رواج کے مطابق ماں کی زمین اور جائداد بیٹی کو ملتی ہے۔ انھیں یہ بات اسلام کے منافی محسوس نہیں ہوتی۔[11]
  • قدیم اسرائیل میں سب سے بڑے بیٹے کو باقی ہر بیٹے سے دگنا ورثہ ملتا تھا۔
  • مارکوپولو نے مرتے وقت (جنوری 1324ء میں) وصیت کی تھی کہ اس کے تاتار غلام پیٹر کو آزاد کر دیا جائے اور اسے 100 وینس کے دینار دیے جائیں۔[12]
  • بہت سے ممالک میں حکومت بھی وارثوں کی طرح حصہ دار ہوتی ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اسلام کے قانونِ وراثت کا امتیاز
  2. قانون وراثت۔۔۔اسلام سے قبل
  3. ISLAMIC LAW OF SUCCESSION
  4. Laws of Inheritance in Islam
  5. یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ​[مردہ ربط]
  6. وراثت کے چند پہلو
  7. "سوال نمبر: 153716 دار العلوم دیوبند انڈیا"۔ 27 مارچ 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2023 
  8. http://www.muslimpersonallaw.co.za/Inheritance%20&%20Its%20Distribution%20in%20Islaam.pdf
  9. The Rules of Inheritance
  10. سورۃ النساء آیت 176 کے مختلف ترجمے[مردہ ربط]
  11. "StateMaster - Encyclopedia: Inheritance"۔ 27 مئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2010 
  12. "Marco Polo", The New Encyclopædia Britannica Macropedia, 9 (15 ed.), Encyclopædia Britannica, Inc, 2002, ISBN 978-0-85229-787-2 صفحہ 573

بیرونی روابط[ترمیم]