اظہار وارثی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اظہار وارثی
پیدائشمحمد اظہار وارثی
21 نومبر 1940ء
محلہ براھمنی پورہ شہر بہرائچ، یوپی، انڈیا
وفات21 اگست 2018ء
محلہ براھمنی پورہ شہر بہرائچ، یوپی، انڈیا
آخری آرام گاہقبرستان چھوٹی تکیہ بہرائچ، یوپی، انڈیا
پیشہادب سے وابستگی،
زباناردو
قومیتبھارتی
نسلبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیمکامل
مادر علمیگورنمنٹ انٹر کالج بہرائچ ،جامعہ اردو علی گڑھ
اولادچار دحتران
رشتہ دارحکیم اظہر وارثیؔ

دستخط100px
ویب سائٹ
https://www.facebook.com/izhar.warsi.90 فیس تک صفحہ

اظہار وارثیؔ کی پیدائش21 نومبر، 1940ء میں حکیم اظہر وارثی کے یہاں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حکیم اظہر وارثی اور والدہ کا نام کنيز سکینہ تھا۔ اظہار صاحب کے دادا حکیم صفدر وارثی اور والد حکیم اظہر وارثی شہر کے مشہور معالجین میں شمار ہوتے تھے۔ حکیم صفدر صاحب حاجی وارث علی شاہ کے مرید تھے اور حاجی وارث علی شاہ پر ایک کتاب لکھی جس کا نام جلوہٗ وارث ہے۔ یہ کتاب اردو میں ہے۔ اظہار صاحب کے والد حکیم اظہر استاد شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ اظہار صاحب سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ آپ کی ایک خاص بات ہے آپ صرف شعر لکھتے ہیں کسی مشاعرہ میں پڑھنے نہیں جاتے۔

ادبی سفر و خدمات[ترمیم]

آپ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں۔ آپ اردو شاعری میں نئے نئے تجربات کرنے کے لیے مشہور اور معروف ہیں۔ آپ نے اردو شاعری کی تمام اصناف میں اپنے کلام کا جادو بکھیرا اورکئی نئ قسمیں ایجاد کیں۔ آپ نے 11 اصناف میں شاعری کی ہے۔ 1) غزل 2) نظم، نظم کی مشہورقسمیں ہیں (ا) پابند نظم (ب) آزاد نظم (ج) معرا نظم (د) نثری نظم۔۔ 3) رباعی 4) قطعات 5) ثلاثی 6) ماہئے 7) ہائکو 8) دوہے 9) بروے کو اردو میں رائج کیا 10)۔ سانیٹ (14مصرعوں کی نظم انگرزی میں ہوتی ہے۔ ) 11) ترایلے (یہ فرانسیسی زبان میں 8 مصرعوں کی ہوتی ہے)۔

پروفیسر مغنی تبسم اظہار وارثی کے بارے میں لکھتے ہے کہ

اظہار وارثی جدید دور کے ایک اہم نمائندہ شاعر ہیں۔انہوں نے نظم ،غزل،رباعی،قطعہ،دوہا،ماہیا،ثلاثی،ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ان میں پر صنف کو کامیابی سے برتا ہے اور اس کا حق ادا کیا ہے۔اظہار وارثی ایک باشعور اور حساس فن کار ہے ۔اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات کے علاوہ عالمی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ان حالات اور مسائل پر کبھی بہ راہِراست اور کبھی استعاروں اور کنایوں میں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔جن نظموں میں بہ راہِ راست خیالات اور جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ان کو احساس کی شدت نے اثر انگیز بنا دیا ہے۔ اظہار وارثی کی اس نوع کی نظموں میں ’سوچ‘،’دشمنی کیوں‘،’دیوار‘،’جڑواں نظمیں ‘،’وعدوں کاموسم‘،اور ’میں نہیں جانتا‘،’بچے مفلس‘کے قابل ذکر ہیں۔
اظہار وارثی صاحب کے ساتھ اثر بہرائچی

پروفیسر قمر رئیس اظہار وارثی کے بارے میں لکھتے ہے کہ

اظہار وارثی کے موضوعات اور سروکارو ں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔اس سے اہم بات یہ ہے کہ اظہار وارثی کی تخلیقی سوچ روایتی شاعری کے رموز علائم پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ ہر تجربہ کی مناسبت سے نئے شعری اظہارات اور علائم تراشتی ہے اور اس طرح اپنے اسلوب کی ایک نئی پہچان بنانے کا جتن کرتی ہے۔ ؂
حدود جاں میں بگولا سا ایک اٹھتا تھا

زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں سے رشتہ تھا

مجھی میں گم تھا کہیں روشنی کا وہ بادل

تمام شب جو مرے دشت جاں پہ برسا تھا

کھلے تو ٹوٹ پڑیں ہر طرف سے کشتی پر

چھپے ہوئے کئی طوفان ،بادبان میں ہیں

جہاں میں اپنی حیات کیا ہے ثبات کیا ہے

شجر سے ٹوٹا جو کوئی پتا تو میں نے جانا

اظہار وارثی کے اشعار میں داخلی اور خارجی حقائق کی ترسیل کا اہم وسیلہ ایک روشن رمزیاتی فضا ہے جس میں ہلکا ساابہام بھی قاری کی تخیل کو متحرک کرکے معنوی گر ہیں کھولنے پر اکساتا ہے۔ان میں بعض جدید ی شعرا کی طرح ایشی تجریدی کیفیت نہیں ہوتی جو شعر کو گورکھدھندہ بنا دے۔اسی طرح جذبہ واحساس کی پیکرتراشی میں بھی اظہار وارثی کے یہاں ایک خاص تازگی اور طرفگی کا احساس ہوتا ہے۔

اسوچ کا گھر مہک رہا ہے ابھی

جیسے آکرکوئی گیا ہے ابھی

ایاد ماضی آج کاغم کل کا خواب

سوچ کا اک سلسلہ ہے اور میں

اہم شخصیات سے رابطہ[ترمیم]

پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر مغنی تبسم حیدرآباد، پروفیسر وہاب اشرفی پٹنہ، پدم سری شمش الرحمن فاروقی، پروفیسر سید امین اشرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے آپ کی کتابوں پر تبصرے لکھے۔ شوق بہرائچی، رفعت بہرائچی، وصفی بہرائچی، شفیع بہرائچی، جمال بابا، عبرت بہرائچی، محمد نعیم اللہ خیالی، محسن زیدی، ساگرمہدی،اثر بہرائچی،ایمن چغتائی نانپاروی،واصف القادری،لطیف بہرائچی،اطہر رحمانی نعمت بہرائچی واغیرہ آپ کے ہمعصراور ساتھیوں میں ہیں۔

تصانیف[ترمیم]

اظہار وارثی کے اب تک 5 مجموعے کلام شائع ہوئے ہیں۔

  • کبتورسبز گنبد کے مطبوعہ 2001
  • کستِ خیال مطبوعہ 2008
  • سونچ کی آنچ مطبوعہ 2009
  • بوند بوند شبنم مطبوعہ 2013
  • شبِ تنہائی کا چاند مطبوعہ2017

اور ایک کتاب آپ کی شخصیت پر2017 میں شائع ہوئی ہے اظہار وارثی شخصیت اور فن[1] کے نام سے جسے شارق ربانی نے ترتیب دیا ہے۔

اعزازات[ترمیم]

اردو اکادمی اترپردیش، انجمن ترقی پسند مصنفین نے آپ کو اعزازات اور اسناد سے سرفراز کیا ہے۔ ڈی۔ ایم۔ بہرائچ اور دیگر ادبی تنظیموں نے بھی آپ کو اعزازات اور سند سے سرفراز کیاہے۔ آپ کا جشن بھی منایا گیا، 9 جون 1979کو نگر پالیکا بہرائچ کے ہال میں جس میں ہندوستان کے نامور شعرا نے شرکت کی تھی۔ خاص مہمانوں میں حسرت جے پوری، غلام ربانی تاباں، خمار بارابنکی، معین احسن جذبی، ناظر خیامی، ہلال سیوہاروی، ایم۔ کوٹہوری راہی اور بیگم بانو دراب وفائ وغیرہ تھے۔ کیفی اعظمی صاحب کو بھی شرکت کرنی تھی پر فالج ہونے اور ڈاکٹروں کے منع کر دینے کی وجہ سے شرکت نا کر سکے تو اپنے پیسے لوٹادیئے۔ پروگرام کی نظامت ثقلین حیدرکلکتہ نے کی تھی۔

اظہار وارثی کے اعزازات
اظہار وارثی کی کتاب کی رسم اجرا دہلی غالب اکادمی میں پروفیسر قمر ریئس اور ڈاکڑ سہیل احمد صدیقی

وفات[ترمیم]

اظہار ؔوارثی صاحب کا انتقال21 اگست 2018ء کو بوقت 4 بجے کے قریب ہوا۔آپ کی نماز جنازہ 22 اگست 2018ءبعد نماز عید الضحیٰ مسجد چھوٹی تکیہ بہرائچ میں ہوئی بعد نماز قبرستان چھوٹی تکیہ میں ہی آپ کی تدفین آپ کے والد حکیم اظہر ؔوارثی کے قریب میں ہوئی۔جس میں بڑی تعداد میں عوام و خاص نے شرکت کی جن میں آپ کے داماد پروفیسرسہیل صابر (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،اظہار وارثی صاحب کے شاگرد مشہور شاعر اثر بہرائچی،مشہور ترجمہ نگار محمد حسنین ،شاعر جواد وارث،شارق ربانی ،صحافی شاداب حسین ،عالم سرحدی،راشد راہی ، جنید احمد نور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

نمونہ کلام[ترمیم]

میں سمندر ہوں میری سمت ہے ندیوں کا سفر

تم نے دیکھا ہے کہیں مجھ کو بھی آتے جاتے

دوہے[ترمیم]

شاخ شاخ چہم چہم کرے پروہ کی پاذیب

پیڑ پیڑ کے سر چڑھا برکھا رت آسیب

انسانوں کے بیچ کیسا یہ سنجوگ

شیشے کے کچھ آدمی پتھر کے کچھ لوگ

ذات پات پوچھے نہیں دیکھے رنگ نہ روپ

چاند لٹاي چاندنی سورج باٹے دھوپ

لوک غزل

اظہار وارثی بہرائچی

میٹھی بانی بول کبیرا

کانوں میں رس گھول کبیرا

چھپے ہوئے ہیں اصلی چہرے

چٹرھے ہیں سب پر خول کبیرا

آج کی باتیں آج کے وعدے

ڈھول کے اندر پول کبیرا

بند ہر اک دھنوان کی مٹھی

خالی ہر کشکول کبیرا

دشمن کے شبد انگارے بھی

اپنے گلوں میں تول کبیرا

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "भरत में नेपाली साहित्यकारों द्वारा पुस्तक बिमोचन | Himalini.com-hindi magazine ||madhesh khabar:Himalini first hindi magazine of Nepal brings news in hindi from Nepal,madhesh ..."۔ 10 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2021 

روزنامہ ہندوستان میں شائع ارٹیکل کے مطبوعات برائے اردو ادب اور بہرائچ

بیرونی روابط[ترمیم]