البم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

البم شخصی خاکوں پر مبنی پاکستان سے 1981ء شائع ہونے والی اردو زبان کی کتاب ہے جسے مشہور ترقی پسند شاعر فارغ بخاری نے تحریر کیا ہے۔

پس منظر[ترمیم]

خاکہ نگاری کسی انسان کے بارے ایک ایسی تحریر ہوتی ہے جس میں ایک شخصیت کے گفتار و کردار کا اس انداز سے مطالعہ کیا جاتا ہے کہ وہ شخص ایک زندہ آدمی کی طرح تخیل کے سہارے متحرک ہو کر چلتی پھرتی روتی ہنستی اور اچھے برے کام کرتا نظرآئے۔ جتنے جانداز اور بھر پور انداز سے شخصیت ابھر ے گی اتنا ہی خاکہ کامیاب نظرآئے گا۔ خاکہ نگاری ایک بہت مشکل صنف ادب ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی خاکہ نگاری کو بال سے باریک، تلوار سے تیز صراط مستقیم کا نام دیتے ہیں اور محمد طفیل اسے ایک ایسی تلوار سمجھتے ہیں جس خود لکھنے والا بھی زخمی ہوتا ہے۔ “

اردو ادب میں خاکہ نگاری زیادہ قدیم نہیں لیکن اس کی ابتدائی شکل مختلف تذکروں اور بالخصوص محمد حسین آزاد کی کتاب ” آب حیات“ میں نظرآتی ہے۔ اس کے بعد ایک بھر پور خاکہ” نذیر احمد کی کہانی“ فرحت اللہ بیگ کا کارنامہ ہے۔ لیکن اتنی عمدہ ابتداءہونے کے باوجود آج خاکہ نگاری کی وہ شکل نظر نہیں آتی۔ جو جیتے جاگتے انسان کو ہمارے سامنے لا سکے۔ اس ليے اردو ادب میں خاکہ نگاری ایک ایسی صنف ہے جس میں بہت زیادہ کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس صنف ادب میں اس کمی کی وجہ صرف یہ ہے کہ خاکہ نگار شخصیت کا نہ تو تفصیلی مطالعہ کرتا ہے اور نہ ہی مبالغہ آمیز واقعات سے گریز کرتا ہے۔ اس شخصیت کی خلوت اور جلوت کی مثالیں بھی بہت کم ملتی ہے۔ بلکہ شخصیت اُس طرح پیش ہوتی ہے جس طرح خاکہ نگار چاہتا ہے۔ اور اس طرح شخصیت کے خدوخال نمایاں نہیں ہو پاتے اور خاکہ تشنہ رہ جاتا ہے۔

فارغ بخاری خاکہ نگاری پر طبع آزمائی کرنے والوں میں سے صوبہ سرحد کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ پشاور کی ادبی حلقوں کی فعال شخصیت تھے اور ”سنگ میل“ جیسے ادب رسالہ کے ایڈیٹر بھی تھے۔ اُن کے ادبی کارنامے اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فارغ بخاری کا مزاج خاکہ نگاری کے ليے زیادہ موزوں نہیں اس کے باوجو البم کے کئی خاکے قابل تعریف ہیں۔ ان کی عمدگی کا یہ ثبوت ہے کہ خاکہ نگاری کی تاریخ میں انھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اُن خاکوں کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے بڑے لوگوں کی عظمت کا اعتراف کھلے دل سے کیا ہے اوریہ خود ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ خاکہ نگاری کے سلسلے میں اُن کی دوکتابیں البم(1973اور دوسراالبم1986کے عنوان سے شائع ہوئیں۔

”البم “کے زیادہ تر خاکے کرداری ہیں۔ یہ 21 خاکوں پر مشتمل ایک مختصر کتاب ہے جسے ہم خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ تاثراتی رپورٹ کے زمرے میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ البم کے خاکوں کا انداز کچھ ایسا ہے جسے اُدھیڑ عمر شخص اپنا پرانا البم کھولے اور ایک ایک دوست کو دیکھ کر پرانی یادیں تازہ کرے۔ اس مقصد کے ليے انھوں نے ہر شخصیت کے ليے ایک نام رکھ چھوڑا ہے جو اسم بامسمٰی ہے۔ اس طرح نام کوہی دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فار غ بخاری شخصیت کے کس پہلو کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے خاکوں کا اسلوب رواں دواں ہے۔ اگرچہ بعض الفاظ کی تکرار اور بعض مستقل جملے ہر خاکے میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود اسلوب کی چاشنی اپنی جگہ موجود ہے۔ کچھ خاکوں میں فارغ بخاری کا فن نہایت نکھر کرسامنے آیا ہے۔ لیکن یہ وہی خاکے ہیں جن میں پیش کردہ شخصیت کو انھوں نے قریب سے دیکھا ہے۔ ورنہ تو اُن کے ہاں جلوت کی مثالیں زیادہ اور خلوت کی کم ملتی ہیں۔ زیتون بانو، خاطر غزنوی، احمد فراز اور رضا ہمدانی کے خاکے اس زمرے میں آتے ہیں۔ جہاں انھوں نے شخصیت کو خلوت اور جلوت میں پرکھا ہے۔

تنقیدی جائزہ[ترمیم]

کاکا جی[ترمیم]

البم کا سب سے پہلا خاکہ ”کاکاجی“ کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے۔ یہ خاکہ صنوبر حسین کاکا جی کا ہے۔ جسے ہم کرداری خاکہ کہہ سکتے ہیں۔ خاکہ نگاری کے ليے موضوع بننے والی شخصیت سے اُنس، محبت اور ہمدردی ضروری ہے۔ لیکن اس خاکے میں فارغ بخاری صنوبر حسین سے بے حد متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ خاکے کی ابتداءہی کچھ یوں کرتے ہیں۔

” میں نے ذہنی اور نظریاتی معاشقے کیے ہیں۔ سفید ریش بزرگوں کو ایک محبوبہ کی طرح چاہا ہے۔ اُن سے پیار کیا ہے۔ ان پر جان چھڑکی ہے۔ “

اس شدید رغبت نے صنوبر حسین کوبحیثیت انسان ابھرنے نہیں دیا۔ یہ درست ہے کہ ”کاکا جی “ پیار و محبت، گفتارو کردار کے غازی تھے۔ عالم فاضل تھے۔ حریت پسند تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی تھے اور اس میں چند بشری کمزوریاں بھی ہوں گی۔ جن کا شائبہ تک اس خاکے میں موجود نہیں۔ صنوبر کاکا جی کاخاکہ بنا کر اُن کے دلچسپ مشاغل کا ذکر کرتے ہوئے خاکہ نگاری کے اسلوب میں ہلکے ہلکے مزاح کی چاشنی کو سمویا گیا ہے۔ صنوبر کاکاجی رباب سے عشق رکھتے تھے۔ اور جب جیل جاتے تو رباب ساتھ لے جاتے۔ رہا ہوتے وقت رباب جیل میں چھوڑ آتے کہ روز روز کون ساتھ لائے۔ اسی طرح اُن کی شخصیت کی عظمت کو اجاگر کرنے کے ليے جن نمائندہ واقعات کا سہارا لیا گیا ہے۔ وہ نہایت برمحل اور برجستہ ہے۔ مثلاً صنوبر کاکاجی جب کسی کی غلطی کی نشان دہی کرتے توسامنے والے کو شرمندہ نہ کرتے بلکہ ندامت سے بچانے کے ليے بات یوں بناتے۔

”میں بھی ایک عرصے تک اس تلفظ کو یوں استعمال کرتا رہا بعد میں کسی استاد نے بتایا کہ اس کو اس طرح ادا کرنا چاہیے۔ “

کیمیا گر[ترمیم]

فارغ بخاری اپنے خاکوں میں بڑے اور اہم واقعات کا انتخاب ضروری نہیں سمجھتے بلکہ معمولی اور روزمرہ چھوٹے چھوٹے مشاہدات اور واقعات کو منتخب کرکے شخصیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ البم کے دوسرے خاکے میں امیر حمزہ شنواری کا ذکر”کیمیا گر “ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ یہ خاکہ بھی کرداری ہے۔ اور عقیدت و محبت کے جذبے کے تحت لکھا گیا ہے۔ لیکن اس خاکے میں فارغ بخاری محض جذبات کے رو میں نہیں بہتے اور نہ بے جا تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ بلکہ خود حمزہ خان کی شخصیت جس اسلوب اور بیان کا تقاضا کرتی ہے فارغ بخاری نے اُسے خوبی سے اپنایا ہے۔ حمز ہ خان شنواری ایک وسیع المشرب شاعر او ر تخلیق کار تھے۔ اُن کے گردشاعروں، ادیبوں، مجذوبوں اور مذہبی مکتب فکر کے لوگوں کا مجمع لگا رہتا تھا۔ اور اس کی وجہ حمزہ خان کی شخصیت کی کشش تھی۔ یہ خاکہ پڑھتے ہوئے حمزہ خان کی علمیت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ اور خاکہ نگار کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ شخصیت کے اس پہلو پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اور زندگی کے دوسرے پہلوئوں پر زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ چنانچہ اس خاکے کے ذریعے ہماری ملاقات ایک دانش ور، مفکر اور عالم فاضل حمزہ خان سے ہوتی ہے۔

صحیح بخاری[ترمیم]

صحیح بخاری کے عنوان سے پطرس بخاری کا خاکہ”البم “ کا تیسرا خاکہ ہے۔ جسے ہم توصیفی خاکہ کہہ سکتے ہیں۔ پطرس بخاری باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ اور اُن کی شخصیت کے اسی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس خاکہ کا اسلوب شوخ اور مزاح کی چاشنی ليے ہوئے ہے۔ پطرس کو اپنے عہد میں بھی خوب پزیرائی ملی اور آج بھی انھیں چاہا جاتا ہے۔ یہ اعزاز بہت کم فنکاروں کو اُن کی زندگی میں ملتا ہے۔ فارغ بخاری اس حقیقت کی نشان دہی کچھ ایسے دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے ہیں،

” مرنے کے بعد توخیراس کی تعریف و توصیف ہونی ہی تھی۔ ستم تو یہ ہے کہ زندگی میں بھی ا س بھلے آدمی کے خلاف کسی کو زبان کھولنے کی توفیق نہ ہوئی۔ اور ہر شخص اس کے حق میں ”نقوش “‘ کا پطرس نمبر ثابت ہوا۔ “

اس خاکے میں پطرس کی شخصیت سے فارغ بخاری کو زیادہ واقفیت نہیں اور وہ سنی سنائی باتوں کو موضوع بناتے ہیں۔ پطرس کی شخصیت کی بجائے اُن کی فنی عظمت پر زیادہ بات کی گئی ہے۔ اس طرح یہ خاکہ ایک تنقیدی مضمون معلوم ہوتا ہے۔

ناخن کا قرض[ترمیم]

”ناخن کا قرض“ کے عنوان سے ایک نیا خاکہ سعادت حسن منٹو کا ہے اس خاکے میں منٹو کی شخصیت کے نمایاں پہلو روز مرہ زندگی کے نمائند ہ واقعات کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اُن کی شراب نوشی کی عادت کوانہوں نے نہ صرف تفصیلاً بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی شخصیت کے اس منفی پہلو کو اُن کے زندگی کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے ایک خاص واقعہ کو موضوع بنایا ہے کہ جب منٹو کو ایک محفل میں پشاور بلایا گیا تو شراب نوشی کی وجہ سے سامعین کو بے حد مایوس کیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ اس کا تاثر قاری کے ذہن پرمنفی ہو سکتا تھا۔ لیکن اس تاثر کو معتدل کرنے کے ليے فارغ بخاری لکھتے ہیں۔

” لیکن منٹو کی فنی عظمت پر اس سے کوئی حرف نہیں آتا۔ وہ فرشتہ نہیں تھا انسان تھا۔ نہ ہی اُس نے کبھی فرشتہ ہونے کا دعوی ٰ کیا۔ وہ کوئی با ت چھپا تا نہ تھا۔ اتنا بے رحم حقیقت پسند تھا کہ اپنی کمزوری ہتھیلی پر ليے پھرتا تھا۔ “

رضا ہمدانی[ترمیم]

اسی طرح ایک دوسرا خاکہ اُن کے قریب ترین اور عزیز دوست رضاہمدانی کا ہے۔ فارغ بخاری نے رضا ہمدانی کو درونِ خانہ دیکھا اور پرکھا۔ ”البم “ میں شامل دیگر شخصیات کے مقابلے میں انھوں نے صرف رضا ہمدانی کا قریبی مطالعہ کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ رضا ہمدانی کو زندہ جاوید پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ یہ ایک رخی خاکہ ہے محض رضا ہمدانی کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔ انھوں نے اپنے دوست کو بحیثیت انسان نہیں دیکھا نہ پیش کیا ہے بلکہ بحیثیت دوست دیکھا ہے اور یہ خامی رضا ہمدانی کی شخصیت کو اُبھرنے نہیں دیتی۔

فنی جائزہ[ترمیم]

اسم بامسمٰی[ترمیم]

”البم“ میں موجود ہر شخصیت کو ایک عمدہ نام سے نوازا گیا ہے۔ اور شخصیت کو اسم با مسمٰہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً پطرس بخاری کو صحیح بخاری، فیض کو کم آمیز، رضا ہمدانی کو فرشتہ، احمد فراز کو دشمن جاں، کشور ناہید کو گرل فرینڈاور زیتون بانوکو بھابی جیسے ناموں سے نوازا گیا ہے۔ ان ناموں کی وجہ سے خاکوں کا عنوان پر کشش بھی ہوگیاہے اور شخصیت کا مجموعی تاثر بھی سامنے آیا ہے۔

اپنی شخصیت[ترمیم]

فارغ بخاری البم کے خاکوں میں خود اپنی شخصیت کو بھی نظر انداز نہیں کرتے لیکن وہ فنکار انہ نرگسیت کا شکار نہیں وہ ایک متوازن انسان تھے۔ اور یہی اعتدال اُن کے فن سے جھلکتا ہے۔ وہ نہ صرف شخصیت کے بڑے پن کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ نہایت واضح انداز میں اپنی شخصیت پر اُن لوگوں کے اثرات کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ بڑے لوگ اپنے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے لوگوں پر ذہنی، جذباتی اور محسوساتی اثرات چھوڑتے ہیں۔ اسی ليے کہا جاتا ہے کہ کئی کتب کے پڑھنے سے بہتر ہے کہ کسی عالم کی صحبت اختیار کی جائے۔ فارغ بخاری بھی ایسی صحبتوں سے لطف اُٹھاتے رہے ہیں اوراُن کے خاکوں میں اس کی جھلک موجودہے۔

دلچسپ واقعات[ترمیم]

فارغ بخاری نے صوبہ سرحد کے ادبی حلقوں میں بھر پور وقت گزارا ہے وہ ان ادبی حلقوں کے روح رواں تھے۔ اس ليے اُس وقت کے دلچسپ واقعات کا عنصر بڑھ جاتا ہے۔ اُن واقعات کی شمولیت سے خاکوں میں نہ صرف دلچسپی کا عنصربڑھ جاتا ہے بلکہ مزاح کو بھی تحریک ملتی ہے۔ ”کمپیوٹر “ شوکت واسطی کے خاکے میں لکھتے ہیں۔

”شوکت یاروں کا یار ہے۔ مخلص ہمددرد، قدر شناس، طنز و مزاح کا لگائی بجھائی میں اپنے ایک منفرد مکتب فکر کا بانی ہے۔ رقابت کے ایام میں ہم ایک دوسرے کے جلسوں کو ناکام بنانے کے ليے شامیانوں کی رسیاں کاٹتے، جلسہ گاہوں میں ربڑ کے سانپ اور بارودی پٹاخے چھوڑنے کی طفلانہ حرکتیں کرتے تھے۔ “

البم میں شامل چند شخصیات کو ابھارنے کے ليے اُن کے قریبی دوستوں مثلاً ضیاءجعفری کے خاکے میں خود فارغ بخاری کی ذات دیکھی جا سکتی ہے۔

تاثراتی خاکے[ترمیم]

فارغ بخاری کے خاکوں میں زیادہ تر تاثراتی اور کردار ی خاکے ہیں۔ لیکن شخصیت کا احترام اور محبت کی وجہ سے وہ زیادہ تر تعریف و توصیف کرتے نظر آتے ہیں۔ ماسوائے چند ایک خاکوں کے باقی سب میں سنی سنائی باتوں پر اعتبار کیا ہے۔ اور یہ بات قابل گرفت ہے۔ بعض خاکے مثلاً فراز، خاطر غزنوی اور منٹو کے خاکے جن میں شخصی کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ فنی عظمت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ وہ عمدہ ہیں۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی اور ان کے والہانہ عقیدت چھپائے نہیں چھپتی۔ اور وہ ایسی شخصیات کی فنی، فکری عظمت کے ساتھ ساتھ کرداری عظمت کے ترانے بھی گاتے ہیں۔ اُن کی نظریاتی عقیدت کی ضمن میں فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر کے خاکے بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔

فارغ بخاری کے پاس شخصیت کو پرکھنے کے خود ساختہ پیمانے ہیں۔ وہ حفیظ جالندھری اور فیض احمد فیض کی شخصیات کا مطالعہ کرتے وقت کردار کی عظمت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فیض، حفیظ سے بڑی شخصیت کے مالک ہیں۔

خامیاں[ترمیم]

اردو ادب میں خاکہ نگاری کی صنف اسی ليے بھی نہیں پنپ سکی کیونکہ خاکہ نگاری سنی سنائی باتوں اور واقعات پر یقین رکھتا ہے۔ اور انھیں بیان کر ڈالتا ہے۔ بعض اوقات یہ واقعات مبالغہ آمیز بھی ہوتے ہیں۔ فارغ بخاری بھی کچھ خاکوں میں اس کمزوری کا شکار ہے ہیں۔ اور انھوں نے شخصیت کو پرکھنے کے ليے صرف واقعات پر انحصار کیا ہے۔ بعض اوقات فارغ بخاری کو شخصیات کو بیان کرنے میں دشواری رہی ہے۔ اور اسے قاری محسوس کرتا ہے۔ اس دشواری پر قابو پانے کے ليے انھوں نے شخصیت کے احباب کا ذکر کیا ہے جو قاری پر گراں گزرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات پس منظر کے ذریعے پیش منظر کو واضح کیا جاتا ہے۔ فارغ بخاری نے اس تکنیک سے کام لیا ہے۔ اس کی مثالیں ضیاءجعفری اور رضا ہمدانی کے خاکوں میں ملتی ہیں۔

اسلوب[ترمیم]

فارغ بخاری کے جملوں میں بانکپن اور تابناکی ہے۔ جس کی تازگی کو قاری اور نقاد دونوں محسوس کرتے ہیں۔ اُن کے جملوں میں سوچ فکر کی وجہ سے فن نکھر جاتا ہے۔ مثلاً امیر حمزہ شنواری کو ”کیمیا گر “ جیسے نام سے نوازنے کے بعد اُن کے مذہبی عقائد کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں کہ ” عموماً یہ ہوتا ہے کہ مفکر مذاہب کی خاک چھان کر الحاد تک پہنچتا ہے اس کے برعکس حمزہ خان نے الحاد کی راہ سے ہو کر مذہب تک رسائی حاصل کی ہے۔

ایک اور جگہ لکھتے ہیں،

” جس طرح زیادہ فاصلے میں نظر کام نہیں کرتی۔ اسی طرح انتہائی قربت میں بھی نگاہ ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ “

مجموعی جائزہ[ترمیم]

بہر حال فنی لوازمات میں بیان اور فکری لحاظ سے تمام نمائندہ پہلوئوں سمیت البم کو خاکہ نگاری کی تاریخ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کئی اہم شخصیات کے اُن پہلوئوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ جن سے ہم پہلے واقف نہ تھے۔ اور خاکہ نگاری کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ ہمیں شخصیت کے نئے نئے پہلوؤں سے روشناس کرائے۔ البم کے سارے خاکے محسوساتی اور مشاہداتی سطح پر بڑے لوگوں کے خدوخال واضح کرنے کی کوشش معلوم ہوتے ہیں۔ بحیثیت ایک خاکہ نگار فارغ کو سب نے سراہا ہے اور خاکہ نگاری کی تعریف میں اُن کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں خاطر غزنوی لکھتے ہیں کہ، ”فارغ بخاری نے جدید خاکہ نگاروں کی صف میں ایک اہم اور قابل قدر مقام حاصل کیا ہے۔ خاکہ نگاری کی تاریخ میں اُن کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ “

حوالہ جات[ترمیم]