المنصور باللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
المنصور باللہ
(عربی میں: المنصور بالله الفاطمي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 913ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رقادہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 24 مارچ 953ء (39–40 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مہدیہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت فاطمیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد معز الدين الله  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد محمد قائم بامراللہ  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان فاطمی  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر معلومات
پیشہ امام  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو طاہر اسمعیل المنصور باللہ اپنے باپ محمد القائم بامر اللہ کی موت کے بعد تیسرا فاطمی خلیفہ اور اسمعیلیوں کا تیرھواں امام 334ھ میں بنا ۔

ابو یزید کی بغاوت کا خاتمہ[ترمیم]

ابو یزید خارجی کی بغاوت جاری تھی اور اس نے سوسہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ چونکہ یہ ساحلی مقام تھا اس لیے منصور نے ایک زبردست جنگی بیڑا دشتیق کاتب اور یعقوب بن اسحق کی سرکردگی میں سوسہ روانہ کیا کہ محصورین کو رسد فراہم کی جاسکے۔ پھر اسنے اپنے غلام جوذر کو مہدیہ کا والی بنا کر خود ابو یزید خارجی کے مقابلے کے لیے نکلا۔ ابو یزید خارجی اس کا مقابلہ نہ کرسکا اور قیران بھاگ گیا۔ قیروان کے لوگوں نے ابو یزید کو قیروان میں داخل نہیں ہونے نہیں دیا۔ وہ سبتہ کی طرف بھاگا۔ منصور نے قیروان کے باشندوں کو امان دی اور ابو یزید کے بچوں کی نگہداشت کی اور ان کی تنخوائیں جاری کیں۔ ابو یزید پھر واپس قیروان واپس آیا اور کوشش کی کہ منصور کے لشکر کا مقابلہ کرے۔ فریقین میں کئی لڑائیاں ہوئیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ 335ھ میں منصور نے ایک بڑا لشکر ترتیب دیا۔ بربر کو میمنہ پر کتامیوں کو میسرہ پر خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ قلب میں ٹہرا اور اپنے لشکر کے ساتھ ابو یزید کے لشکر پر ٹوٹ پڑا۔ اس موقع پر اس نے خود لڑائی میں حصہ لیا۔ ابو یزید کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ نکلا۔ یہ جنگ بہت خون ریز تھی اور اس لڑائی کے بعد ابو یزید کی قوت بہت کم ہو گئی اور اس کے بہت سے ساتھی منصور سے مل گئے۔ ابو یزید کچھ عرصہ روپوش رہا۔ پھر بنی بزال کے ساتھ منصور کے سے نبرد آزما ہوا معتدد لڑائیوں کے بعد بنو کتامہ کے قلعے میں ایک لڑائی میں سخت زخمی ہونے کے بعد گرفتار ہوا اور اپنے زخموں کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی ۔

حمید بن بضلیتن کی بغاوت[ترمیم]

حمید کے بعد حمید بن بضلتین نے بغاوت کی۔ یہ اندلس کے اموی خلیفہ کی طرف سے دعوت کرتا تھا۔ 336ھ میں اس نے تاہرت کا محاصرہ کر لیا۔ منصور اس کے مقابلے کے لیے خود نکلا اور اسے شکست دی ۔

صقیلہ[ترمیم]

منصور کے ابتدائی زمانے میں یہاں کے عہدے دار آپس میں لڑنے لگے۔ منصور نے یہاں امیر حسن بن علی کلبی کو صقیلہ کا والی مقرر کیا۔ اس کے حسن انتظام سے صقیلہ کا بہترین اور مبارک ترین دور شروع ہوا۔ یہ والی بنو کلب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے عہد میں صقیلہ نے تہذیب تمذن کے ہر شعبہ میں نمایاں ترقی کی۔ جسے فریڈرک ثانی نے ایک خاص سانچے میں ڈھالا۔ اس والی نے اپنی دانشمندی اور مصلحت اندیشی سے عربوں اور بربریوں میں اتحاد پید اکیا ۔

وفات[ترمیم]

منصور نے سات سال حکومت کرنے کے بعد 341ھ میں سردی کھانے سے وفات پائی ۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر
المنصور باللہ
پیدائش: 913ء وفات: 19 مارچ 953ء
شاہی القاب
ماقبل  فاطمی خلیفہ
17 مئی 946ء– 19 مارچ 953ء
مابعد