احمد بن حنبل

یہ بہترین مضمون ہے۔ مزید تفصیل کے لیے یہاں طق کریں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(امام احمد بن حنبل سے رجوع مکرر)

امام  ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی
(عربی میں: أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَل ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
احمد بن حنبل کا اسم خطاطی

معلومات شخصیت
پیدائش 23 نومبر 780ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد، خلافت عباسیہ، عراق
وفات جمعہ 12 ربیع الاول 241ھ/ 2 اگست 855ء ( 77 سال)
بغداد، خلافت عباسیہ، عراق
مدفن احمد بن حنبل مسجد،  الرصافہ (عراق)  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل عرب
فقہی مسلک اجتہاد
اولاد عبد اللہ بن احمد بن حنبل،  صالح بن احمد بن حنبل  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد
والدہ صفیہ بنت میمونہ بنت عبد الملک شیبانیہ  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ محمد بن ادریس شافعی،  سفیان بن عیینہ،  عبد الرزاق بن ہمام،  ابو یوسف[1]،  یحییٰ بن معین،  بہز بن اسد،  ابوداؤد طیالسی،  حسین بن علی الجعفی،  عبدالرحمن دارمی،  عبد الرحمن بن مہدی،  ابراہیم بن سعد،  يحيىٰ القطان،  وکیع بن جراح،  یزید بن ہارون،  ولید بن مسلم،  اسحاق بن راہویہ  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص عبد اللہ بن احمد بن حنبل،  عثمان بن سعید الدارمی،  محمد بن اسماعیل بخاری،  ابو زرعہ الرازی،  ابو القاسم بغوی،  مسلم بن حجاج،  ابو داؤد،  ابراہیم بن اسحاق حربی،  حنبل بن اسحاق،  ابو بکر مروذی،  ابو بکر الاثرم،  حرب بن اسماعیل کرمانی،  بقی بن مخلد،  صالح بن احمد بن حنبل  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث،  فقیہ،  عالم،  مفسرِ قانون[2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی[3][4]،  فارسی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ،  علم حدیث،  اسلامی عقیدہ،  اسلام[5]،  قانون[5]،  شریعت[5]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مسند احمد بن حنبل،  العقیدہ (کتاب)  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر محمد بن ادریس شافعی، سفیان بن عیینہ، عبد الرزاق بن ہمام
متاثر محمد بن اسماعیل بخاری،[6] یحییٰ بن معین، ابراہیم بن یعقوب جوزجانی[7]،ابن جوزی، ابو الوفاء بن عقیل، ابن تیمیہ،عبد القادر جیلانی، ابو اسماعیل عبد اللہ انصاری، ابن قیم الجوزیہ، ابن قدامہ

ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی ذہلی (پیدائش: نومبر 780ء— وفات: 2 اگست 855ء) فقیہ، محدث، اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ایک مجتہد اور فقہ حنبلی کے بانی تھے۔ امام احمد کی پوری زندگی سنتِ رسول سے عبارت ہے، وہ در حقیقت امام فی الحدیث، امام فی الفقہ، امام فی القرآن، امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع اور امام فی السنه کے عالی مقام پر فائز رہے۔[8]

وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی و علمی لگاؤ تھا، اس لیے امت سے امام اہل السنت و الجماعت کا لقب پایا۔ زہد و استغناء ایسا مثالی تھا کہ جذبۂ جہاد سے ہر وقت معمور رہتے۔ ان کے والد فوج کے ایک سپاہی تھے، جو جوانی میں ہی انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر دو برس کی تھی۔ اُن کی والدہ نے تربیت و تعلیم کی ذمہ داری نبھائی اور ابتدائی تعلیم بغداد میں ہی دلائی۔[9] امام احمد امام شافعی کے شاگرد تھے۔ آپ کا شمار اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں ہوتا تھا۔ انھوں نے مسند کے نام سے حدیث کی کتاب تالیف کی، جس میں تقریباً چالیس ہزار احادیث شامل ہیں۔ امام شافعی کی طرح امام احمد کی مالی حالت بھی کمزور تھی۔ لوگ انھیں بے شمار تحائف اور ہدیہ پیش کرتے، لیکن آپ سب کچھ بانٹ دیتے اور اس میں سے کچھ بھی اپنے اوپر صرف نہ کرتے۔[10]

امام احمد نوجوان ہی تھے، مگر اپنے زمانہ میں امام المحدثین خیال کیے جاتے تھے اور مشائخ کے حلقے میں بہت ہی عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ امام احمد نے درس دینا شروع کیا مگر واثق کی خلافت کے زمانے میں مجبوراً انھوں نے درس بند کر دیا۔[11]

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بسلسلہ شرعی علوم
علم فقہ


نام اور نسب[ترمیم]

احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اَسد بن اِدریس بن عبد اللہ بن اَنس بن عوف بن قاسط بن مازن بن شیبان بن ذہل بن ثعلبہ بن عکابہ بن صعب بن علی بن بکر بن وائل بن قاسط بن ہنب بن اَقصی بن دعمی بن جدیلہ بن اسد بن ربیعہ بن نزار بن معد بن عدنان بن اَد بن اَدد بن الہمیسع بن حمل بن النبت بن قیدار بن اِسماعیل بن اِبراہیم خلیل۔ ابو عبد اللہ الشیبانی ثم المروزی ثم البغدادی۔[12]

ابو بکر بیہقی نے اس کتاب جسے انھوں نے مناقب احمد میں تالیف کیا ہے، اپنے شیخ ابو عبد اللہ الحاکم مؤلف المستدرک سے روایت کر کے اس طرح ان کے نسب کو بیان کیا ہے۔ امام احمد کے بیٹے صالح سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے بیان کیا کہ میرے والد نے اس نسب کو میری ایک کتاب میں دیکھا تو فرمایا تو اس سے کیا کر رہا ہے؟ اور نسب کا انکار نہ کیا۔[13]

ولادت اور بچپن[ترمیم]

مشہور روایات اور امام احمد کے فرزندان صالح بن احمد اور عبد اللہ بن احمد کے بیانات کے مطابق امام احمد بن حنبل کی پیدائش ربیع الاول 164ھ مطابق نومبر 780ء میں ہوئی۔ عبد اللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ: ”میں نے اپنے والد سے سنا، آپ فرمایا کرتے تھے کہ: میں 164ھ کے ربیع الاول میں پیدا ہوا ہوں۔“ اِس شہادت کے بعد کوئی دوسری تاریخ کا اِمکان باقی نہیں رہ جاتا کیونکہ اپنی تاریخ ولادت امام احمد کو یاد تھی۔ آپ کی پیدائش بغداد میں ہوئی تھی۔ آپ کی والدہ گرامی جب مرو سے جہاں آپ کے والد مقیم تھے، بغداد آئیں تو آپ شکم مادر میں تھے۔ ایک ضعیف روایت کے مطابق آپ مرو میں پیدا ہوئے۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ امام احمد کی پیدائش بغداد میں ہوئی۔[14] ان کے والدین نے اپنا وطن خراسان ترک کر کے بغداد میں سکونت اختیار کی۔ یہاں آنے کے چند ماہ بعد امام احمد پیدا ہوئے۔ وہ خالص عرب ہیں۔ ان کے والد تیس سال کی عمر میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ والد کی وفات کے بعد امام احمد کی پرورش اور نگہداشت اُن کی والدہ کے کندھوں پر آن پڑی۔ خود احمد بن حنبل کا بیان ہے کہ میں نے اپنے باپ دادا میں سے کسی کو نہیں دیکھا۔[10] ابتدائی تعلیم بغداد میں ہوئی۔ پندرہ برس کی عمر میں انھوں نے حدیث کی تعلیم شروع کی اور اپنے استاد سے تین ہزار سے زائد حدیثیں پڑھیں۔

تعلیم و سماعت حدیث[ترمیم]

16 برس کی عمر میں انھوں نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ ابو یوسف کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ 180ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھر حجاز آمد و رفت رہی اور علما حجاز سے علم سیکھتے رہے۔ 196ھ میں یمن جاکر عبد الرزاق الصنعانی سے احادیث سنیں۔ یہاں یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ بھی ان کے شریک درس رہے۔ وہ کوفہ بھی گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پزیر رہے سر کے نیچے سونے کے لیے اینٹ رکھا کرتے۔ کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لیے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔ شافعی خود فرماتے ہیں انھوں نے مجھ سے مصر آنے کا وعدہ کیا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے نہیں آ سکے شاید وجہ بے زری ہوگی۔ بایں ہمہ وہ تقریباً سارے اسلامی ممالک میں گھومے اور اپنے وقت کے بیشتر مشائخ سے احادیث حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہارون الرشید کی طرف سے یمن کا قاضی بننے کی پیش کش ہوئی جسے انھوں نے قبول نہ کیا۔ 199ھ میں شافعی جب دوسری بار بغداد آئے تو احمد سے انھوں نے کہا: ”اگر تمھارے پاس، کوئی صحیح حدیث حجاز، شام یا عراق کہیں کی ہو مجھے مطلع کرو۔ میں حجازی فقہا کی طرح نہیں ہوں جو اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی احادیث کو غیر مصدقہ سمجھتے ہیں۔“ اس وقت احمد کی عمر 36 برس کی تھی۔[9]

طرز معاشرت[ترمیم]

احمد بن حنبل بے انتہاد سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ تھوڑی کاشتکاری کرتے جو غلہ پیدا ہوتا وہ ضروریات کے لیے کافی سمجھتے۔ غلہ کی زکوٰۃ برابر سالانہ ادا کیا کرتے۔

اسحاق بن ابراہیم نے احمد کے کھانے کو دیکھا دو ٹکڑے روٹی، تھوڑی ککڑی کی ترکاری اور خفیف سا نمک تھا۔ اسحاق یہ دیکھ کر بہت متعجب ہوئے۔

احمد کے صاحبزادے عبد اللہ کہتے ہیں میرے والد اکثر فرمایا کرتے کہ ”اللہ ابو الہیثم پر رحم فرمائے۔ اللہ ابو الہیثم کے گناہوں کو بخش دے!!“ میں نے پوچھا، ابو الہیثم کون؟ فرمایا جس دن جلاد مجھ کو دُرے مارنے لے جا رہے تھے۔ ایک شخص مجھے راستے میں ملا اور مجھ سے کہا کہ میں مشہور چور ہوں۔ بارہا میں نے چوری کی۔ بے انتہا سزا پائیں، کم سے کم اٹھارہ ہزار دُرے تو میری پیٹھ پر پڑے ہوں گے، مگر میں اپنی عادت سے باز نہ آیا۔ جب قید خانہ سے چھوٹتا تو سیدھا چوری ہی کے واسطے جاتا۔ محض دنیا کے لیے میں نے دُروں کو برداشت کر لیا۔ تم دین کی خاطر اور اللہ کی محبت میں دروں کی پروا نہ کرنا۔[15]

اساتذہ[ترمیم]

ان کے اساتذہ کی ایک خاصی تعداد ہے جن سے وہ فقہ و حدیث کا علم حاصل کرتے رہے۔ ان میں قاضی ابو یوسف، محمد بن ادریس شافعی، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی، اسماعیل بن علیہ، ابو داؤد طیالسی اور وکیع بن جراح جیسی نابغہ روزگار شخصیات ہیں جو اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے نہ صرف روایت و درایت حدیث میں سب سے آگے ہیں بلکہ فقاہت کے اعتبار سے بھی وہ اجتہاد کے مقام کو پہنچتے ہیں۔ احمد نے حدیث حفظ کی اور جمع بھی کی۔ اس ذوق نے انھیں اپنے وقت کا امام حدیث اور مجتہد بنا دیا۔ ابراہیم بن اسحاق الحربی کہتے ہیں: ”میں نے احمد کو دیکھا یوں لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں علم اولین و آخرین جمع کر دیا ہے۔“ محمد بن ادریس شافعی فرماتے ہیں: ”میں جب بغداد سے نکلا تو اپنے پیچھے سب سے زیادہ متقی اور فقیہ انسان احمد بن حنبل ہی کو چھوڑا۔“[16]

تلامذہ[ترمیم]

بہت سے علما نے ان سے علم حاصل کیا۔ خصوصیت کے ساتھ ان سے فقہ اور اجتہادات کو اخذ کرنے والے 120 سے زیادہ فقہا شاگرد ہیں۔ جنھوں نے اپنے شیخ کی فقہ اور اجتہادات کو سارے عالم میں پھیلایا۔ ان میں ان کے اپنے بڑے فرزند صالح بن احمد ہیں جنھوں نے اپنے والد سے علم فقہ و حدیث کو حاصل کیا اور دیگر اساتذہ سے بھی وہ مستفید ہوئے۔ ابو بکر الاثرم نے بھی احمد سے بہت سے فقہی مسائل روایت کیے ہیں اور بہت سی احادیث بھی۔ ایک اور شاگرد عبد الملک المیمونی جو ان کی صحبت میں بیس سال سے زائد عرصہ تک رہے۔ ان کے شاگردوں میں یہ بہت جلیل القدر شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح محمد بن اسماعیل بخاری، مسلم بن الحجاج اور ابو داؤد بھی ان کے تلمذ پر متفخر تھے۔[17]

بلاواسطہ تلامذہ[ترمیم]

مؤلفین صحاح ستہ میں امام محمد بن اسماعیل بخاری، امام مسلم بن حجاج اور امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث امام احمد بن حنبل کے بلاواسطہ شاگرد تھے۔[18]

بالواسطہ تلامذہ[ترمیم]

امام ابو عیسیٰ ترمذی احمد بن حسن ترمذی کے واسطہ سے امام ابو عبد الرحمان احمد بن شعیب نسائی عبد اللہ بن احمد بن حنبل کے واسطہ سے اور امام ابن ماجہ امام محمد بن یحییٰ کے واسطہ سے احمد بن حنبل کے شاگرد تھے۔[19]

فضل و کمال[ترمیم]

فقہ میں امام احمد کا مقام[ترمیم]

فقہی کتب کی تصنیف سے اجتناب[ترمیم]

امام احمد نے فقہ میں اگرچہ کوئی کتاب نہیں لکھی بلکہ وہ اِس کام سے منع کیا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو فقہ کی کتبِ مُدَوَّنہ کے مطالعہ سے بھی روکتے تھے۔ اِس اندیشہ کے پیشِ نظر کہ مباداء لوگ حدیث سے بے نیازی برتنے لگیں۔ تاہم اُن کے فقہی مسائل اُن کے اصحاب کی روایت سے مُدَوَّن ہوئے ہیں۔ انھوں نے نصوص و فتاویٰ کی بڑی تعداد مبسوط و ضخیم کتابوں میں نقل کیے ہیں[20]۔ احمد بن حنبل بلند پایہ محدث، فقیہ اور مجتہد تھے۔ اور ان تمام اوصاف سے متصف تھے جو ایک امامِ حدیث و فقہ میں ہونے چاہئیں۔[21]

حافظہ[ترمیم]

ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ چار برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا تھا۔[21]

امام احمد بن حنبل کا طریق درس یہ تھا کہ روایات کو حدیث کی کتاب سے دیکھ کر پڑھتے اور قدر احتیاط کرتے کہ زبانی روایت بیان نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ احمد بن حنبل کو تمام روایات حفظ تھیں اور اپنے زمانہ میں حدیث کے سب سے بڑے حافظ خیال کیے جاتے تھے۔[22]

عدالت و ثقاہت[ترمیم]

ان کی عدالت و ثقاہت حفظ و ضبط اور امانت و دیانت پر اربابِ سیر اور ائمہ حدیث کا اتفاق ہے۔ علمائے اسلام ان کو ثقہ و ضابط کہا ہے۔ ابن سعد نے ان کو ثقہ و ثابت و صدوق لکھا ہے۔[21]

نقد و تمیز[ترمیم]

فن جرح و تعدیل میں بھی امام احمد کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ وہ صرف حدیثوں کے ناقل ہی نہ تھے، بلکہ صحیح اور ضعیف روایات میں تمیز کا ان کو مکمل ملکہ حاصل تھا۔ امام شافعی ان کے استاد تھے اور وہ بھی ان کے فہم و بصیرت کے قائل تھے۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”جب کوئی روایت آپ کے معیار پر صحیح و ثابت اتر جائے تو مجھے بھی بتلا دیں، میں اس کو بے تکلف قبول کرلوں گا۔“[21]

مرجعیت و مقبولیت[ترمیم]

شہرت و ناموری سے دور رہنے کے باوجود عالمِ اسلام کا گوشہ ان کے آورہ شہرت سے خالی نہیں تھے۔ حافظ ابن کثیر اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ : ”عنفوانِ شباب ہی میں ان کو پوری شہرت حاصل ہو گئی تھی اور بڑھاپے میں تو ہر جگہ ان کا نام روشن ہو گیا تھا۔“[23] شیخ الاسلام ابن تیمیہفرماتے ہیں کہ ”امامت و سیادت احمد بن حنبل کے نام کا جزو ہو گئی تھی۔“[24][25]

اخلاق و عادات[ترمیم]

اخلاق و عادات کے اعتبار سے احمد بن حنبل اپنی مثال آپ تھے۔ زہد و ورع، تقویٰ و طہارت اور عبادت و ریاضت میں بہت زیادہ آگے تھے۔[26]

حلم[ترمیم]

حلم ایک ایسا وصف ہے، جس سے تمام انبیائے کرام متصف تھے اور آخری پیغمبر محمد میں یہ وصف بدرجہ اتم موجود تھا۔ احمد بن حنبل میں بھی یہ وصف بہت زیادہ تھے۔ جب معتصم نے ان مصائب و آلام میں مبتلا کیا، تو اس وقت ان کا گزران بہت زیادہ مشکل ہو گیا اور نان و شبینہ تک کے محتاج ہو گئے۔ ان کے عقیدت مندان کو ہزاروں روپے پیشکش کرتے تھے۔ لیکن انھوں نے کسی بھی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور پیشکش قبول کرنے والوں کا مستحسن الفاظ میں شکریہ ادا کرتے تھے۔[26]

استغناء[ترمیم]

امام احمد استغناء کے وصف سے بہت زیادہ متصف تھے۔ تاریخ میں ان کے استغناء کے بہت سے واقعات درج ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے: ایک تاجر نے کچھ مال خریدا اور اس کے منافع میں امام احمد کو بھی شامل کر لیا۔ چنانچہ وہ منافع سے ان کے حصہ کے دس ہزار درہم لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں اور اس کے لیے دعا کی۔[27]

زہد و ورع[ترمیم]

امام احمد کی زندگی زہد و ورع اور توکل میں یکتائے روزگار تھے۔ انھوں نے پوری زندگی سلاطینِ وقت کا عطیہ قبول نہیں کیا۔ امام احمد کا قول ہے کہ: ”میرا وہ دن خوشبوؤں سے لبریز ہوتا ہے، جس دن میرا ہاتھ خالی ہو۔“ اور یہ بھی فرمایا: ”آخرت کے کھانوں اور لباس کے مقابلہ میں دنیا کے کھانوں اور لباس کی کیا حیثیت ہے اور دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے۔“[27]

جود و سخا[ترمیم]

وہ جود و سخا کے وصف سے بہت زیادہ متصف تھے۔ تاریخ میں ان کی سخاوت کے بہت واقعات درج ہیں۔ جو شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوتا، اس کو کبھی خالی ہاتھ واپس نہ کرتے تھے۔ ہارون مستملی بیان کرتے ہیں کہ ”میں ایک دفعہ امام احمد کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کی خدمت عرض کیا میرا ہاتھ خالی ہے میری کچھ مدد فرمایئے، انہون نے اسی وقت مجھ کو پانچ درہم دیتے ہوئے کہا میرے پاس اس وقت یہی پانچ درہم تھے۔“[27]

تواضع و انکسار[ترمیم]

امام احمد نہایت متواضع و منکسر المزاج تھے۔ وہ اپنے علم و فضل پر کبھی فخر نہ کرتے تھے۔ مسجد سے سب آخر میں باہر جاتے۔ ان کے تلمیذِ رشید یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: ”میں نے احمد بن حنبل جیسا نہیں دیکھا۔ میں پچاس برس ان کی خدمت میں رہا۔ انھوں نے کبھی ہمارے سامنے اپنی اصلاح وغیرہ پر کبھی فخر نہیں کیا۔[28][29]

عزلت نشینی[ترمیم]

احمد بن حنبل شہرت سے کنارہ کش رہتے۔ عزلت نشینی اور تنہائی کی زندگی کو ترجیح دیتے تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ”عزلت نشینی سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور عوام الناس سے دور رہنے سے قلب کو سکون ملتا ہے۔“[30]

اتباع سنت[ترمیم]

احمد بن حنبل سنتِ رسول کے اس قدر شیدائی تھے اور آثارِ نبوی سے اس قدر لگاؤ تھا اور سلف صالحین کے اتباع کے ساتھ انھیں اس قدر تعلقِ خاطر تھا کہ وہ ان کی اشاعت و حفاظت کے لیے مجسمہ استقامت بنے ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا خاص مقصد ہی سنتِ نبوی کی حمایت و تائید اور بدعات و محدثات کا ابطال تھا۔ خلاف سنت کاموں کو دیکھ کر بہت برہم ہوتے تھے اور سنت کی خلاف ورزی کرنے والوں نشست و برخاست کو ناپسند کرتے تھے۔ اپنے کسی عمل کا خلافِ سنت ہونے کا علم ہو جاتا تو فوراً اس سے باز آ جاتے تھے۔ مرض الموت میں شدتِ الم سے کراہنا، اس لیے پسند نہیں کیا کہ وہ خلافِ سنت ہے۔ وہ اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ ”اللہم امتنا علی الاِسلام و السنۃ (اے اللہ اسلام اور سنت پر ہمارا خاتمہ کر۔)“[31]

تقویٰ[ترمیم]

ابو بکر البیہقی لکھتے ہیں کہ امام احمد اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے پیچھے نماز نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی ان میں سے کسی کے گھر کھانا کھاتے۔ وجہ یہ تھی کہ ان دونوں نے بادشاہی مناصب قبول کر رکھے تھے۔ بڑے تاجر آ کر آپ کی خدمت میں دینار پیش کرتے مگر بالکل قبول نہ کرتے۔ یمن میں طالب علمی کے دوران ان کی مالی حالت بہت کمزور تھی ان کے شیخ عبد الرزاق نے اس خبر پر جب خاموشی سے ان کی مٹھی میں کچھ دینا چاہا تو لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ”اللہ میری ضروریات پوری کر دیتا ہے۔“ ان کی صحبت لوگوں کو آخرت یاد دلا دیتی۔ دنیاوی باتوں میں بالکل نہیں الجھتے تھے۔ ایک مرتبہ ان سے پوچھا گیا متوکل کون ہوتا ہے؟ اس کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:” جو غیر اللہ سے ہر قسم کی توقعات ختم کر دے۔“ دلیل پوچھی گئی تو فرمایا: ”سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب منجنیق پر چڑھائے گئے تو جبریل نے آکر مدد کے لیے کہا تو فرمایا: ”ہاں مدد تو چاہیے مگر تم سے نہیں۔ جبریل علیہ السلام نے عرض کی تو آپ اسی سے کہیے جس سے آپ کہنا چاہتے ہیں۔“ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ”میرے لیے وہی امر پسندیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ ہے۔“ وہ فرمایا کرتے: ”فقر ایک ایسا عظیم مرتبہ ہے جسے اکابر کے سوا اور کوئی نہیں پا سکتا۔“ اپنی دعاؤں اور سجدوں میں اکثر گڑگڑاتے اور فرماتے: ”اے اللہ! اگر گناہ گاران امت محمدیہ کا تو کوئی فدیہ چاہتا ہے تو مجھی کو ان کا فدیہ بنا لے۔“[32]

عبادات و اعمال[ترمیم]

عبادت و ریاضت میں بھی احمد بے مثال تھے۔ نماز با جماعت ادا کرتے تھے۔ ان کا قول ہے کہ اذان سے پہلے نماز کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ جماعت کا اس قدر اہتمام تھا کہ فتنہ ”خلقِ قرآن“ کے سلسلہ میں ان کو کوڑے مارے گئے، جس سے تمام بدن لہو لہان ہو گیا۔ اس وقت بھی انھوں نے ابن سماعہ کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ نوافل بھی بہت زیادہ پڑھتے تھے۔ تہجد کی نماز ساری عمر ادا کی اور اس میں ناغہ نہیں کیا۔[33]

عبد اللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میرے والد رات دن میں تین سو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ آخر میں تازیانے کی ضربوں سے بے حد کمزور ہو گئے تھے۔ پھر بھی رات دن میں ڈیڑھ سو رکعت پڑھا کرتے، سات دن میں ایک قرآن مجید ختم کرتے۔ بعد نمازِ عشا تھوڑی دیر سو رہتے۔ پھر اٹھ کر صبح تک نماز پڑھا کرتے تھے۔[34]

تلاوتِ قرآن سے بہت زیادہ شغف تھا۔ اللہ سے بہت زیادہ دعا کرتے تھے۔ استغناء و گرایہ زاری ان کے معمولات میں داخل تھے۔ صدقات و خیرات بھی بہت کرتے تھے۔ روزوں کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ قید خانہ میں سحری کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے پانی سے روزہ رکھتے تھے۔ آخرت کے تصور اور مواخذہ الہی سے ان کا دل ہر وقت لرزہ براندام رہتا تھا۔ ان کی مجلسوں میں اکثر قیامت کے موضوع پر گفتگو ہوتی تھی۔[33]

وہ بے انتہا تنہائی پسند تھے۔ صرف جماعت کی نماز کے واسطے باہر تشریف لاتے یا جنازے کی شرکت یا مریض کی عیادت کے واسطے جاتے۔ بازاروں بازاروں میں گھومنے کو ناپسند فرماتے۔ طرطوس اور یمن پیدل تشریف لے گئے۔ پانچ مرتبہ حج ادا کیا۔ جن میں سے تین حج پیدا کیے اور ہر حج میں بیس درہم خرچ کیے۔[34]

ابن ادریس شافعی کا خواب[ترمیم]

محمد بن ادریس شافعی جب مصر تشریف لے گئے تو وہاں ان سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواب میں فرمایا کہ احمد بن حنبل کو بشارت دو کہ اللہ قرآن کے بارے میں ان کو آزمائش میں ڈالے گا۔ ربیع بن سلیمان فرماتے ہیں کہ ابن ادریس شافعی نے ایک خط لکھ کر مجھے حوالہ کیا اور مجھ سے فرمایا کہ فوراً عراق جا کر اس خط کو امام احمد کو دو۔ مجھے خط پڑھنے کی ممانعت فرمائی۔ میں نے خط لیا اور عراق پہنچا اور مسجد میں فجر کے وقت احمد بن حنبل سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ نماز کے بعد میں نے احمد بن حنبل کو سلام کیا اور ابن ادریس شافعی کا خط پیش کیا۔ خط پاتے ہی احمد بن حنبل مجھ سے ابن ادریس شافعی کے متعلق پوچھنے لگے اور دریافت کیا کہ آپ نے خط کو دیکھا؟ میں نے جواب دیا نہیں۔ خط کی مہر توڑی اور پڑھنا شروع کیا اور آبدیدہ ہو کر کہنے لگے: ”میں امید کرتا ہوں اللہ شافعی کے قول کو سچا کر دکھائے۔“[35]

ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ خط میں کیا لکھا ہے؟ فرمایا: ابن ادریس شافعی نے رسول اللہ کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے دیکھا کہ اس نوجوان ابو عبد اللہ احمد بن حنبل کو بشارت دو کہ اللہ عزوجل دین کے بارے میں اس کو آزمائش میں ڈالے گا اور اس کو مجبور کیا جائے گا کہ قرآن کو مخلوق تسلیم کرے مگر اس کو چاہیے کہ ایسا نہ کرے جس پر اس کے تازیانے لگائے جائیں گے آخر اللہ عزوجل اس کا ایسا عَلم بلند کرے گا جو قیامت تک نہیں لپیٹا جائے گا۔[36]

ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اللہ احمد بن حنبل سے عرض کیا کہ اس بشارت کی خوشی میں جناب مجھے کیا انعام عطا فرماتے ہیں؟ ان کے جسم پر اس وقت دو کپڑے تھے۔ احمد بن حنبل نے ایک کپڑا مجھے مرحمت فرمایا۔ خط کا جواب لے کر میں ابن ادریس شافعی کی خدمت میں حاضر ہوا اور تمام واقعہ بیان کیا۔ شافعی نے پوچھا وہ کپڑا کہاں ہے؟ میں نے پیش کیا۔ ابن ادریس شافعی نے فرمایا کہ میں نہ تو آپ سے اس کو قیمتاً طلب کرتا ہوں، نہ ہدیۃً، البتہ اتنا چاہتا ہوں کہ آپ اس کپڑے کو پانی میں تَر کے اس کا متبرک پانی مجھے دیں۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ امام شافعی نے اس کو ایک برتن میں رکھ لیا اور روزانہ اپنے رُخسار پر اس کو تبرکاً مَل لیتے تھے۔[37]

فتنہ خلقِ قرآن[ترمیم]

مسئلہ خلق قرآن کا فتنہ 212ھ بمطابق 827ء سے شروع ہوا۔ چھ برس تک خلیفہ مامون الرشید اسی شش و پنج میں تھا کہ آیا اس کو تمام مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دے۔ آخر کار اس کی شمشیر استبداد نے اس مسئلہ کو بجر تسلیم کرانا چاہا۔ محدثین کی ایک بڑی جماعت دینِ اسلام کے لیے سب طرح کے مصائب و تکالیف برداشت کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئی۔ مامون نے یحییٰ بن اکثم قاضی القضاۃ کو 217ھ میں معزول کیا اور ان کی جگہ احمد بن داؤد معتزلی کو قاضی القضاۃ مقرر کیا۔ اس معتزلی کی رائے سے بہت سے علمائے حق قید ہوئے، بہت سے جلا وطن کیے گئے، بعض خاک و خون میں تڑپے اور بہتوں کے قدم جادہ ثبات ڈگمگا بھی گئے۔[38]

خلیفہ مامون نے معتزلی علما کے اکسانے پر علمائے امت کو ایک خط لکھا جس میں قرآن کو مخلوق اور محدث ماننے کی بہ جبر دعوت تھی۔ انکار کی صورت میں سختیاں شروع کر دیں، معاش بند کر دیا اور سخت سزاؤں کی دھمکی بھی دی۔ بہت سے جبراً قائل ہو گئے کہ قرآن مخلوق ہے۔ مگر احمد اور محمد بن نوح نیشاپوری نے اس نظریے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ آزمائش کے اس مرحلے پر دونوں ثابت قدم رہے بلکہ کندن بن کر نکلے اور بڑا رتبہ بھی پایا مگر درجہ بدرجہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد انھیں ازبر تھا: ”یہ دنیا ہمیشہ مصائب اور فتنے دکھایا کرتی ہے۔ بعد کے ادوار میں مصائب کی شدت تیز تر ہوگی۔“ خلیفہ مامون نے سب علما کو بلا بھیجا۔ کمزور لوگ حکومت کی سطوت اور قہر کے آگے گردن خم کر بیٹھے احمد اور محمد بن نوح نے جب نہ مانا تو دونوں حضرات کو اونٹ پر سوار کر کے مامون کے ہاں لے جایا گیا۔ راستہ میں ایک بدو نے نصیحت کرتے ہوئے کہا: ”آپ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے جا رہے ہیں۔ سب کی نظر آپ پر ہے۔ اللہ آپ مسلمانوں کو رسوا نہ کیجیے گا۔ اللہ آپ کا دوست ہے صبر کیجیے گا۔ جنت آپ اور آپ کے شہید ہونے کی دیر تک ہے۔ موت تو بہرحال آنی ہے اس فتنہ میں آپ اگر کامیاب ہو گئے تو دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔“ احمد فرماتے ہیں کہ ”یہ نصیحتیں میرے دل کو لگ گئیں اور میں نے مامون کے خیالات کی نفی کا پورا عزم کر لیا۔“ مامون کے ہاں جب یہ دونوں حضرات پہنچے تو قریب ہی ایک جگہ میں انھیں ٹھہرا دیا گیا۔ خادم نے اطلاع دی کہ مامون نے رسول اللہ سے قرابت کا واسطہ دے کر قسم کھالی ہے: ”اگر احمد نے خلق قرآن کا اقرار نہ کیا تو اسی تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔“ امام احمد نے یہ سنتے ہی گھٹنے زمین پر ٹیک دیے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور عرض کی: ”خدایا! اس فاجر کو تیرے حلم نے بہت مغرور کر دیا ہے کہ وہ اب تیرے دوستوں پر بھی تلوار اٹھاتا ہے۔ خدایا! اگر تیرا کلام غیر مخلوق ہے تو تو مجھے اس پر ثابت قدم رکھ میں اس کے لیے ہر مصیبت سہنے کو تیار ہوں۔“ اسی رات صبح ہونے سے پہلے مامون کا انتقال ہو گیا۔ مگر المعتصم خلیفہ بن گیا۔ اس طرح المعتصم، مامون سے بھی زیادہ اس نظریے کے لیے سخت گیر ثابت ہوا۔ اس نے احمد بن حنبل کو دیگر قیدیوں کے ساتھ بیڑیاں باندھ کر ایک کشتی میں پایہ تخت بغداد بھیج دیا۔ محمد بن نوح راستہ میں ہی انتقال کر گئے۔ احمد جب بغداد پہنچے تو پاؤں میں بوجھل بیڑیاں تھیں جن کی وجہ سے چلنا دشوار تھا اور وہ سخت علیل ہو گئے۔ قید خانہ میں ڈال دیے گئے اور 30 ماہ قید میں رہے۔ پھر المعتصم کے پاس انہی بیڑیوں میں لائے گئے۔ سُر من رأی (گلبرگ) میں ایک کمرہ میں بند کر دیا گیا۔ جس میں اندھیرا ایسا تھا کہ کوئی چیز نظر نہ آتی۔ انھوں نے رب کے حضور نماز شکرانہ ادا کی۔[39] امام احمد فرماتے ہیں:

”المعتصم کے پاس اسی حالت میں مجھے لے جایا گیا۔ میں نے سلام کے بعد گفتگو کی اور کہا کہ آپ کے نانا محترم کا کیا پیغام تھا؟“ المعتصم باللہ نے کہا ”لا الہ الا اللہ کی طرف۔“ تھوڑی گفتگو کے بعد المعتصم نے عبد الرحمن معتزلی کو کہا کہ ان سے پوچھو۔ عبد الرحمن نے مجھ سے کہا: ”قرآن کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟“ میں چپ رہا۔ لیکن المعتصم نے اصرار کیا جواب دو تو میں نے کہا: ”باری تعالیٰ کے علم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ اس نے جواب نہ دیا۔“ میں نے کہا: ”قرآن اللہ کا علم ہے اور جس نے اللہ کے علم کو مخلوق کہا اس نے کفر کیا۔“ کفر کے لفظ سے یہ جماعت بڑی سیخ پا ہوئی اور المعتصم سے کہا: ”دیکھیے اس نے آپ کو اور ہم سب کو کافر کہہ دیا۔“ مگر المعتصم نے توجہ نہ دی۔ پھر عبد الرحمن نے سوال کیا: ”یہ بتاؤ ایک زمانہ تھا جب اللہ تھا اور قرآن نہ تھا۔“ میں نے جواباً کہا: ”کیا ایسا تھا کہ خدا تھا اور اس کا علم نہ تھا؟ عبد الرحمن چپ ہو گیا۔“ بہرحال وہ جو دلائل دیتے میرے سوال یا جواب میں وہ خاموش ہوتے رہے اور بدتمیزی و بدکلامی بھی کرتے رہے۔ اور خلیفہ کو بہکاتے بھی۔ میں کہتا: ”دین کی بنیاد کتاب و سنت کے علاوہ کسی تیسری چیز پر نہیں ہے۔“ مگر احمد بن ابی داؤد کہتا: ”بحث کا دار و مدار نقل کے علاوہ عقل پر بھی ہونا چاہیے۔“ اسی طرح دوسرے اور تیسرے دن گفتگو ہوتی رہی۔ (آخری دن امام احمد کی آواز ان سب کی آوازوں سے بھاری اور اونچی رہی جو معتزلی فقہا اور قضاۃ کی تھی، وہ لا جواب رہے۔) اور خلیفہ مجھے یہی کہتا رہا کہ ”تم میرے مسلک کی تائید کرو میں تمہیں مقرب خاص بنا لوں گا۔“ میں نے یہی کہا: ”اگر کوئی دلیل قرآن و حدیث سے پیش کر دیجیے تو میں ماننے کو تیار ہوں۔“ بعد ازاں خلیفہ نے میرے ہاتھ پاؤں بندھوا دئیے اور مجھے کوڑے برسوائے۔ میں بار بار بے ہوش ہوا۔ جب پہلا کوڑا برسا میں نے ”بسم اللہ“ کہا۔ جب دوسرا پڑا تو ”لا حول ولا قوۃ اِلا بِاللہ“ کہا اور جب تیسرا پڑا تو کہا: ”قل لن یصیبنا اِلا ما کتب اللہ لنا۔“ بے ہوش ہوتا تو چھوڑ دیا جاتا۔ ہوش میں آتا تو دوبارہ مارنا شروع کردیتے۔ میں جلد بے ہوش ہونے لگا تو المعتصم ڈر گیا کہ کہیں اب یہ فوت ہی نہ ہو جائیں۔ اس نے ضرب بند کرا دی۔ جب ہوش آیا تو المعتصم کے ایک کمرہ میں ہی خود کو بغیر سلاسل کے آزاد پایا۔ یہ واقعہ 25 رمضان 221ھ کا ہے۔ مجھے گھر پہنچانے کا خلیفہ نے حکم دیا۔ راستہ میں اسحاق بن ابراہیم کے ہاں ٹھہرے۔ کہتے ہیں کہ میں صائم تھا۔ کپڑے خون آلود تھے اسی حالت میں نماز ادا کی۔ ابن سماعہ نے کہا کہ ”آپ نے خون کے کپڑوں میں نماز ادا کی؟۔“ میں نے کہا: ”ہاں! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خون بہنے کی حالت میں نماز ادا تھی اور ان کے زخم کا خون فوارہ کی صورت میں نکل رہا تھا۔“[40]

احمد بن حنبل کو کوڑوں کے ضرب کی وجہ سے ہاتھ اور ہونٹوں پر سردی کا اثر تا وفات رہا۔

معتصم کے بعد الواثق باللہ کا دور آیا۔ اس نے اعتزال نوازی کی حد کر دی۔ اس نے بھی امام احمد کو بہت زیادہ پریشان کیا۔ واثق کے عہد میں قیصرِ روم کے ساتھ جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ اس نے حکم دیا کہ ”جو مسلمان قیدی قرآن کے مخلوق ہونے کو تسلیم کرے، اسے آزاد کرا لیا جائے اور جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے، اسے دوبارہ قیصر کے حوالے کر دیا جائے۔“ واثق کے انتقال کے بعد متوکل خلیفہ ہوا۔ احمد پر جو پابندیاں عائد تھیں وہ سب ختم کر دی گئیں اور انھیں رہا کر دیا گیا۔ 232ھ میں فتنہ خلق قرآن ختم ہوا اور متوکل نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ امام احمد بن حنبل درس و تدریس کی مسند پر رونق افروز ہوئے۔ ان کی پیرانہ سالی، زہد و ورع، تقویٰ و طہارت، زہد و قناعت اور آفات و مصائب کی برداشت نے ان کا مقام و مرتبہ بہت زیادہ کر دیا تھا۔[8]

خراج عقیدت[ترمیم]

  • علی بن مدینی نے آزمائش کی اس گھڑی پر ان کی ثابت قدمی پر کہا: ”اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دو بندوں کی وجہ سے بڑی عزت عطا فرمائی۔ ابو بکر صدیق سے جو یوم الردہ (جنگ یمامہ) کے دن ثابت قدم رہے۔ اور احمد سے جنھوں نے محنہ (آزمائش) کے موقع پر اسلام کو سرفراز فرمایا۔“[41]
  • بشر الحافی نے فرمایا: ”امام احمد نے اس امت میں نبوت کے فرائض سر انجام دیے ہیں۔“[41]
  • ابو الولید الطیالسی نے کہا: ”اگر احمد بنو اسرائیل میں پیدا ہوتے تو کچھ بعید نہ تھا کہ وہ نبی ہوتے۔“[41]

عقیدہ[ترمیم]

امام احمد ٹھوس اسلامی عقائد کے قائل تھے۔ قرآن پر کسی چیز کو مقدم نہ کرتے۔ اسے غیر مخلوق بلکہ لوح محفوظ میں جو کچھ ہے وہ بھی غیر مخلوق قرار دیتے۔ اس کے بعد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرتبہ ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے ساتھ صحابہ و تابعین کے آثار بھی قابل قبول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ لائے ہیں اس کی تصدیق اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع میں ہی نجات ہے۔ قضا و قدر، خیر و شر سب اللہ کی جانب سے ہیں۔ اگر کسی نے فرض کو سستی و لا پروائی سے ترک کر دیا تو اللہ کو اختیار ہے بخش دے یا اسے عذاب دے۔ ایمان، قول و عمل اور دلی تصدیق کا نام ہے۔ میزان حق ہے۔ صراط حق ہے۔ جنت ودوزخ برحق ہیں۔ عیسیٰ بن مریم کا نزول برحق ہے۔ حوض حق اور شفاعت بھی حق ہے۔ عرش و کرسی برحق ہیں۔ ملک الموت پر میرا ایمان ہے۔ دجال یقیناً آئے گا۔ عیسیٰ ابن مریم دنیا میں آئیں گے اور باب لد پر دجال کو قتل کریں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ابو بکر جیسا کوئی نہیں۔ ان کے بعد عمر جیسا، ان کے بعد عثمان جیسا اور ان کے بعد علی جیسا کوئی نہیں۔ بغیر ولی نکاح صحیح نہیں۔ متعہ (وقتی نکاح) قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ وغیرہ[41]

ازواج و اولاد[ترمیم]

امام احمد نے اپنی زندگی میں یکے بعد دیگرے تین نکاح کیے۔ پہلی بیوی کا نام عباسہ بنت فضل تھا۔ ان کے بطن سے ان کے صاحبزادے صالح پیدا ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ریحانہ سے نکاح کیا۔ ان کے بطن سے عبد اللہ پیدا ہوئے۔ ریحانہ کے انتقال کے بعد ایک لونڈی خریدی اور اس کو اپنے عقد میں داخل کیا۔ اس کے بطن سے پانچ لڑکے حسن، حسین، (دونوں جڑواں تھے اور بچپن میں وفات پا گئے،) پھر حسن، محمد، سعید اور ایک لڑکی زینب پیدا ہوئیں۔[42]

وفات[ترمیم]

241ھ ربیع الاول میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے، تو خلیفہ المتوکل نے ابن ماسویہ طبیب کو ان کے علاج کے لیے بھیجا۔ اس نے تشخیص کے بعد تجویز کیا، لیکن وہ علاج کروانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ طبیب نے خلیفہ کو یہ رپورٹ پیش کی کہ انھیں کوئی بیماری نہیں ہے، صرف خوراک استعمال نہ کرنے سے کمزوری میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ عام طور پر روزے سے ہوتے ہیں اور زیادہ عبادت اور ذکر و اذکار مشغول رہتے ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ وہ اچھی خوراک استعمال کریں۔ خلیفہ متوکل طبیب کی یہ بات سن کر خاموش ہو گیا۔ 9 روز طبیعت زیادہ خراب رہی۔[43] وفات سے قبل امام احمد نے وصیت لکھی اور کی بھی۔ جس کے الفاظ یہ تھے:

شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یہ وصیت ہے جو احمد بن حنبل نے کی ہے: وہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہی اکیلا ہے اس کی ولایت وعبادت میں کوئی شریک نہیں اور یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جنہیں اللہ نے ہدایت اور دین حق دے کے بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام مذاہب پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناگوار ہو۔ اور میں اپنے اہل اور قرابت داروں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس کی حمد و ثنا بیان کریں اور اہل اسلام کی جماعت کی خیر خواہی کریں اور میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے رسول ہونے پر دل و جان سے راضی ہوں۔[41]

وفات سے قبل اپنا وضو کرایا اور ہر حصے کو اچھی طرح دھلوایا۔ پیر کی انگلیوں کا خلال تک کیا۔ درمیان میں اللہ کا ذکر کرتے رہے جب وضو مکمل ہوا تب فوت ہو گئے۔ تاریخ 12 ربیع الاول اور سال 241ھ تھا۔ جمعہ کا دن تھا۔ عمر تقریباً 77 برس تھی۔ تجہیز و تکفین سب کچھ اولاد نے خرید کر کی۔ امام ابن حنبل کے جنازہ میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد مختلف بیان کی جاتی ہے۔ پروفیسر ابو زہرہ مصری نے یہ تعداد 8 لاکھ لکھی ہے۔[44] عبد الرشید عراقی نے یہ تعداد 8 لاکھ مرد اور 60 عورتیں لکھی ہے[45] جن میں اکثریت اہل علم کی تھی۔[حوالہ درکار] دیگر نے 25 لاکھ، 18 لاکھ (ان لوگوں کو نہیں شامل کیا گیا جو کشتیوں پر تھے) اور 15 لاکھ بتایا ہے۔[46][47][48] امام احمد کی وفات کے دن تقریبا 20 ہزار عیسائیوں، یہودیوں اور موغیوں نے اسلام قبول کیا۔[48][49] علما اس وقت کہا کرتے تھے: بیننا وبین القوم الجنائز (ہمارے اور دوسروں کے درمیان میں جنازے ہی تو فرق کیا کرتے ہیں)۔[50] امیرِ بغداد محمد بن عبد اللہ طاہر نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔[51]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عنوان : Ахмад ибн Ханбал
  2. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=pna20221139239 — اخذ شدہ بتاریخ: 20 دسمبر 2022
  3. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb145609516 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  4. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=pna20221139239 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
  5. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=pna20221139239 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
  6. "CLASSICAL BOOKS / Hadeeth / Saheeh al-Bukhaaree (al-Jaami' as-Saheeh)"۔ Fatwa-online.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2010 
  7. ʻAbd al-ʻAlīm ʻAbd al-ʻAẓīm Al-Bastawī (1990)۔ Al-Imām al-Jūzajānī wa-manhajuhu fi al-jarḥ wa-al-taʻdīl۔ Maktabat Dār al-Ṭaḥāwī۔ صفحہ: 9 
  8. ^ ا ب سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 21
  9. ^ ا ب ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 166
  10. ^ ا ب ابو زہرہ، احمد بن حنبل ص: 81-147
  11. سیرت امام اہل سنۃ و الجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہُ اللہ تعالیٰ از شیخ علی جواد، ص 17
  12. البدایہ و النہایہ از ابن کثیر ج 10، ص 396
  13. البدایہ و النہایہ از ابن کثیر ج 10، ص 396
  14. ابو زہرہ، حیات امام احمد بن حنبل، ص 64
  15. سیرت امام اہل سنۃ و الجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہُ اللہ تعالیٰ از شیخ علی جواد ص 46
  16. ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 166 – 167
  17. ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 167
  18. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 46
  19. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 46  – 47
  20. حیات امام احمد بن حنبل، صفحہ49-50 ۔
  21. ^ ا ب پ ت سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 47
  22. سیرت امام اہل سنۃ و الجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہُ اللہ تعالیٰ از شیخ علی جواد ص 19
  23. البدایہ و النہایہ از ابن کثیر، ج 10، ص 227
  24. تذکرۃ الحفاظ از شمس الدین الذہبی، ج 1، ص 131
  25. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 47  – 48
  26. ^ ا ب سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 48
  27. ^ ا ب پ سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 48  – 49
  28. محدثین عظام اور ان کے علمی کارنامے از تقی الدین ندوی مظاہری ص 125
  29. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 49  – 50
  30. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 50
  31. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 50  – 51
  32. ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 167 – 168
  33. ^ ا ب البدایہ و النہایہ از ابن کثیر ج 10، ص 339
  34. ^ ا ب سیرت امام اہل سنۃ و الجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہُ اللہ تعالیٰ از شیخ علی جواد ص 47
  35. سیرت امام اہل سنۃ و الجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہُ اللہ تعالیٰ از شیخ علی جواد ص 22
  36. سیرت امام اہل سنۃ و الجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہُ اللہ تعالیٰ از شیخ علی جواد ص 22  – 23
  37. سیرت امام اہل سنۃ و الجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہُ اللہ تعالیٰ از شیخ علی جواد ص 23
  38. سیرت امام اہل سنۃ و الجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہُ اللہ تعالیٰ از شیخ علی جواد ص 23  – 24
  39. ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 168
  40. ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 169
  41. ^ ا ب پ ت ٹ ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 170
  42. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 60
  43. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 60 – 61
  44. مصری، پروفیسر ابو زہرہ، امام احمد بن حنبل، ص 64
  45. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 61
  46. ابن عساکر (2013)۔ Tarikh madinat dimashq wa-dhikr fadliha wa-tasmiyat man hallaha min al-amathil.۔ [Place of publication not identified]: Turath For Solutions۔ ISBN 9957-65-832-8۔ OCLC 927110359 
  47. Muḥammad ibn Aḥmad Dhahabī (1984)۔ Sīr al-a’lām al-nublā’ (بزبان عربی)۔ 25۔ Beirut  ج 11 ص 339-40، 343
  48. ^ ا ب Melchert, Christopher. (2006)۔ Ahmad ibn Hanbal۔ Oxford: Oneworld۔ صفحہ: 16۔ ISBN 978-1-4356-8400-3۔ OCLC 291195390 
  49. Ludwig W. Adamec (2009)، Historical Dictionary of Islam، Scarecrow Press، صفحہ: 136–137، ISBN 0-8108-6161-5 
  50. ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 170 – 171
  51. طبقات الشافعیہ از تاج الدین السبکی ج 1، ص 203