امیر حمزہ خان شنواری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امیر حمزہ خان شنواری
تفصیل=
تفصیل=

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1907ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لنڈی کوتل   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 18 فروری 1994ء (86–87 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

امیر حمزہ شنواری، پشتو میں غزل کے اہم شاعر۔ بابائے عزل۔ 1907ء میں خیبر ایجنسی لوراگئی لنڈی کوتل میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام میر باز خان تھا۔ اسلامیہ کالجیٹ ہائی اسکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور ریلوے میں ملازمت کر لی۔ 1930ء میں والد کے انتقال پر سرکاری ملازمت ترک کر دی اور روحانی پیشوا سید عبد الستار بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور انہی کی ہدایت پر اردو میں فکر سخن (پہلے اردو میں شاعری کرتے تھے) چھوڑ کر پشتو شاعری شروع کی۔

پشتو ادب[ترمیم]

ہم عصر شاعروں کے ساتھ مل کر بزم ادب قائم کی۔ جس کی جناب سے عظیم شاعررحمان بابا کا عرس تواتر سے منایا جانے لگا۔ 1950ء میں اس بزم کو اولسی ادبی جرگہ میں ضم کر دیا گیا جس کے صدر امیر حمزہ منتخب ہوئے۔ رفیق غزنوی نے پشتو فلم سازی کی ابتدا کی تو پہلی پشتو فلم لیلیٰ مجنوں کے گانے اور مکالمے انھوں نے لکھے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے بہت سے معاشرتی اور اصلاحی ڈرامے لکھے۔ پشتو غزل کو جدید رجحانات سے روشناس کرایا۔ پشتو نثر میں بھی بہت کچھ لکھا۔ ان کی معروف تصانیف میں نوئے پختون، نوئے چپئے(ناول) غزونئے مجموعہ کلام، دزڑہ آواز نعتیہ کلام، تجلیات(نثر)، د خوش حال بابا یوہ شعرہ (نثر)۔ ذوند (نثر)۔ سفرنامہ افغانستان (نثر)۔ اس کے علاوہ جاوید نامہ اور ارمغان حجاز کا پشتو ترجمہ بھی کیا۔

نمونہء کلام[ترمیم]

ستا پہ اننګو کې د حمزہ د وینو سره دي
تۀ شوې د پښتو غزله ځوان زۀ دې بابا کړم

خون بھرا ہے تیرے رخساروں میں میر حمزہ کا
تم جوان اے غزلِ پشتو اور میں بن گیا پیر

  1. ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/1753763 — بنام: Amīr Ḥamzah Ḥamzah Shinwārī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی: https://id.loc.gov/authorities/no96006940 — اخذ شدہ بتاریخ: 8 دسمبر 2019 — ناشر: کتب خانہ کانگریس