انقلاب ایران

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(انقلاب اسلامی ایران سے رجوع مکرر)
Iranian Revolution
بسلسلہ the constitutionalization attempts in Iran and the سرد جنگ
Mass demonstrations at College Bridge, تہران
تاریخ7 January 1978 – 11 February 1979
(لوا خطا ماڈیول:Age میں 521 سطر پر: attempt to concatenate local 'last' (a nil value)۔)
مقام
وجہ
مقاصدOverthrow of the پہلوی خاندان
طریقہ کار
اختتام
تنازع میں شریک جماعتیں
مرکزی رہنما
ایران کا پرچم محمد رضا شاہ پہلوی
Directors of SAVAK:
روح اللہ خمینی
متاثرین
see Casualties of the Iranian Revolution
  1. Regency Council was practically dissolved on 22 January 1979, when its head resigned to meet روح اللہ خمینی.
  2. Imperial Iranian Army revoked their allegiance to the throne and declared neutrality on 11 February 1979.
  3. Prime Minister of the Interim Government.
  4. Head of Revolutionary Council.

انقلابِ ایران یا انقلاب اسلامی ایران کی اصطلاح 1979ء میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
اس انقلاب کی قیادت ایرانی رہنما آیت اللہ خمینی نے کی۔ انقلاب سے ایران میں محمد رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا اسلامی جمہوریہ ایران وجود میں آیا۔ جس کے پہلے رہبر معظم (سپریم لیڈر) آیت اللہ خمینی بنے۔ اسلامی انقلاب دنیا بھر میں ایک ایسا نظام ایجاد کرنے کی کوشش میں ہے جس کی بنیادمذہب پر ہے [1]

فکر امام خمینی رح[ترمیم]

حضرت امام خمینی رح دنیا کو اسلامی نظریہ حیات کو اپنانے کی تاکید کرتے تھے اور اسے صرف جہان اسلام کے لیے مخصوص خیال نہیں کرتے تھے - انھوں نے مغربی طرز زندگی کی نفی کی اور مغربی طور طریقوں کو انسان کی نجات کے لیے ناکافی جانا - اسی دوران مسلمانوں میں سے بہت سے مفکرین کے نزدیک اس طرح کے نظریات کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی - گذشتہ پانچ یا چھ صدیوں میں امام خمینی رح وہ واحد رہبر ہیں جنھوں نے نہ صرف انقلاب کے متعلق نظریاتی تھیوری بیان کی اور اس کو عملی جامعہ بھی پہنایا - تاریخ میں ایسے کم ہی لوگ ملتے ہیں جو یہ بھی لکھیں کہ کیسے اور کیونکر انقلاب لایا جائے اور پھر خود میدان عمل میں شامل ہو کر اپنی کہی باتوں کو سچ کر دکھائیں - حقیقت میں نظر و عمل کا جوڑ اسلامی انقلاب کو لانے میں امام خمینی رح کی کامیابی کے اہم دلائل ہیں - مطلوبہ معاشرے میں تحریک پیدا کرنے کے لیے دین سے رہنمائی حاصل کرنا امام خمینی اور اسلامی انقلاب کے اسلامی بیداری کی تحریکوں پر اہم ترین اثرات ہیں جبکہ اس سے قبل یہ تحریکیں لبرالیزم اور کمیونزم کے غبار سے آلودہ تھی - بہت ہی کم لوگ ایسے تھے جو انقلاب لانے کے لیے دین پر یقین رکھتے تھے - امام خمینی رح کی رہنمائی نے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی اور ان پر یہ واضح ہو گیا کہ اصل قدرت اللہ تعالی کی ذات ہے اور اس کی مدد اور اس کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرکے انسان اپنے دنیاوی حقوق کو بھی حاصل کر سکتا ہے - امام خمینی رح نے تمام جہان اسلام اور کمزور اقوام پر یہ واضح کر دیا کہ مشروعیت، مقبولیت، سادہ زندگی، انسانوں کی نجات ،ثقافتوں کی نجات اور نظر و عمل کی ترکیب سازی صرف اور صرف دین الہی کے راستے پر چلنے سے ہی ممکن ہے - وہ دین جو تمام جہان کے لیے جامعہ ہے - دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت امام خمینی رح اور ایران کے اسلامی انقلاب نے بڑے اچھے انداز میں رہتی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ نجات کا واحد راستہ اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ممکن ہے اور یہ وہ راز ہے جومسلکی لحاظ سے گمراہ اور تھکی ہوئی دنیا کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہے -

انقلاب اسلامی ایران کے خصوصیات[ترمیم]

انقلاب اسلامی ایران جو 1357 ش )1979ء (میں حضرت امام خمینی رح کی رہبری میں کامیابی سے ہمکنار ہوا اکثر صاحبان نظر، دانشوروں اور بالخصوص اس کے اصلی معمار کی نظر می کچھ دنیادی خصوصیات اور امتیازات کا حامل[2] ہے جو اس کو دوسرے انقلابات سے ممتاز کرتے ہیں کہ ہم اس مقالے میں بعض اہم خصوصیات[3] کا ذکر کر رہے ہیں :

دینی رجحان[ترمیم]

انقلاب اسلامی ایران کی ایک اہم خصوصیت اس کا خدا محور[4] ہونا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کے قانون اساسی کی 56 ویں بند میں ہم ملاحظہ کرتے ہیں : عالم اور انسان پر حاکمیت مطلق خدا کی ہے اور اسی نے انسان کو اس کی اجتماعی تقدیر پر حاکم بنایا ہے۔ بانی انقلاب اسلامی ایران کے وصیت نامہ میں اس سلسلے میں اس طرح آیا ہے : ہم جانتے ہیں کہ اس عظیم انقلاب نے جو ستمگروں اور جہاں خواروں کے ہاته کو ایران سے دور کر دیا ہے وہ الہی تائیدات کے زیر سایہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ اگر خداوند متعال کی تائید پر نہ ہوتی ممکن نہ تها کہ ایک)36 ملیون(تین کروڑ 60 لاکھ پر مشتمل آبادی اسلام اور روحانیت مخالف پروپیگنڈوں کے باوجود بالخصوص اس آخری صدی میں ایک ساتھ قیام کرے اور پورے ملک میں ایک رائے ہو کر حیرت انگیزاور معجزہ آساقربانی اور نعرہ اللہ اکبر کے سہارے خارجی اور داخلی طاقتوں کو بے دخل کر دے۔ بلا تردید اس مظلوم دبی کچلی ملت کے لیے خداوند منان کی جانب سے یہ ایک تحفہ الہی اور ہدیہ غیبی ہے۔ (صحیفہ امام، ج21، ص401)

انقلاب کا عوامی ہونا[ترمیم]

دوسرے انقلابات میں بهی انقلاب کا عوامی ہونا دکهائی دیتا ہے لیکن انقلاب اسلامی ایران میں یہ صفت زیادہ، آشکار اور نمایاں ہے۔ اس انقلاب میں زیادہ تر لوگ میدان میں آئے اور شاہی حکومت کی سرنگونی اور اسلامی نظام کی برقراری کا مطالبہ کیا۔ فوجی، کاریگر، مزدور، کسان، علما و طلاب اسٹوڈنٹس، معلم، غرض ملک کے ہر طبقہ کے لوگ اس انقلاب میں حصہ دار اور شریک تهے۔ انقلاب کے عوامی ہونے کی یہ صفت بہت ہی نمایاں ہے۔ دوسرے انقلابات میں زیادہ تر فوجیوں اور پارٹیوں کا ہاته رہا ہے جنھوں نے مسلحانہ جنگ کرکے کام کو تمام کیا ہے اور عوام نے ان کی حمایت کی ہے لیکن ہمارے انقلاب میں سارے لوگ شریک رہے ہیں اور پورے ملک میں پوری قوت کے ساتھ رضا شاہ پہلوی کا مقابلہ کیا۔

رہبری و مرجعیت[ترمیم]

انقلاب اسلامی ایران کی ایک اہم خصوصیت جس کا سرچشمہ انقلاب کا الہی ہونا ہے، دین اور علما دینی کا انقلاب کی رہبری اور ہدایت کرنا ہے۔ دوسرے سارے انقلاب ایک طرح سے دین و مذہب کے مقابلے میں تهے لیکن یہ انقلاب علمائے دین کی ہدایت و رہبری سے آغاز ہوا او رانجام کو پہنچا ہے۔ ان میں سرفہرست امام خمینی رح تهے جو بلند ترین دینی منصب یعنی مرجعیت کے حامل تهے۔ آپ کی رہبری نمایاں خصوصیات کی حامل تهی جن میں سے بعض کو ہم ہدیہ قارئین کر رہے ہیں :

  1. امام خمینی (رح )ایک دینی مرجع ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع اور زبردست عوامی حمایت کے بهی مالک تهے۔
  2. آپ نے 15/جون کے قیام کی بنیاد رکھ کر اور اس جانسوز حادثہ میں اپنی جلاوطنی کے زمانہ میں بے نظیر مدیریت اور شجاعت کا مظاہرہ کرکے اپنی سیاسی اور انقلابی رہبری کا لوہا منوایا۔
  3. آپ نے انقلاب کا نقشہ اور منصوبہ بهی بنایا اور اس کے بانی، مدیر اور مجری بهی تهے۔

اصالت[ترمیم]

انقلاب اسلامی ایران کی اصالت کے دو پہلو ہیں : نظری اور عملی۔ نظری اور فکری پہلو میں ِ اس انقلاب کے اہداف و مقاصد اور افکار و نظریات خارجی نہ تهے خود ایرانی تاریخ اور ایرانیوں کی پیداوار تهے۔ اسلام اور عقائد اسلامی کو ایرانیوں نے چودہ سو برس پہلے قبول کیا تها اور اس مدت میں اسلام اور اسلامی عقائد ہماری قومیت اور تہذیب و ثقافت کے ایک اصلی اور اساسی عنصر میں تبدیل ہو گئے اور عملی پہلو میں ایرانی عوام اپنی قدرت و طاقت کے بل پر مغرب ومشرق یا ہمسایہ ممالک سے مالی اور اسلحوں کی مدد کے بغیر خدا کی ذات پر تکیہ کیا اور شمشیر پر خون کی کامیابی کا نعرہ لگاتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

انقلاب کا اسلامی یعنی دینی ہونا[ترمیم]

ایرانی انقلاب کی سب سے پہلی شرط اسلام ہے اور یہ اس کے طرز تفکر، ماہیت اور اغراض و مقاصد کی وجہ سے ہے۔ اس انقلاب کے رہبر ایک روحانی تهے جو مرجعیت دینی کے منصب پر تهے، اس کی تنظیم و ترتیب حوزہ علمیہ دینی کے ہزار سالہ مرکزی ادارہ کے ذریعے ہوئی۔ عوام اور اس انقلاب کے بانیوں کا مقصد اسلام اور قوانین اسلامی کی حاکمیت اور استبداد داخلی اور استبداد عالمی کے چنگل سے رہائی تها۔ لہذا شرائط انقلاب ایران میں دین اسلام کی اساسی نقش کی وجہ سے یہ انقلاب صفت اسلامی سے متصف ہوا۔

انقلاب کا عاشورائی مقصد[ترمیم]

بہت سارے دانشوروں کی نگاہ میں جنھوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب و علل پرنظریہ پردازی کی ہے کہ مذہب سب سے قوی اور اصلی ترین محرک اور سبب ہے جس نے انقلاب کی پیدائش اور اس کی کامیابی میں سب سے اہم رول ادا کیا ہے اور اسی طرح انقلاب اسلامی ایران کس طرح برپا ہوا اس کے سلسلے میں رائج سیاسی ادبیات، نعروں، تقریروں اور رہبران تحریک کے بیانات کا مطالعہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ مذہبی عناصر کے درمیان سے عاشورائی تہذیب اورامام حسین علیہ السلام کی نہضت کا اس انقلاب میں بڑا ہاته ہے۔ شہادت طلبی، باطل سے ہمیشہ ٹکراؤ طاغوت سے پیکار، رضائے پروردگار کی پیروی، مصالح مسلمین، نظارت عمومی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی عاشورائی خصوصیات نے انقلاب اسلامی پر بہت گہرا اثر چہوڑا ہے۔ عاشورائی تہذیب کے گوناگوں اثرات کو رہبر انقلاب کی فکر ان کے عمل کو انقلابی افراد کے اہداف و مقاصد اور مقابلہ کی روش میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

مقاصد کو اجاگر کرنے والے نعرے[ترمیم]

سادہ اور عوامی شکل میں ہر انقلاب کی ماہیت اور روش کا اندازہ اس کے نعروں سے ہوتا ہے اور نعرے بہت پہلے سے اہداف کی شناسائی اور لوگوں کے مطالبات کو پہچنوانے اور منوانے کا ذریعہ رہے ہیں۔ ایرانی عوام کے نعرے جو ان کے مطالبات کو بیان کرتے ہیں ذیل کے چار اصلی عناوین میں خلاصہ ہوتے ہیں : 1۔ استقلال بلاتردیدظالم شاہی حکومت کے خلاف ہوئے مقابلوں میں لوگوں کا سب سے بنیادی نعرہ استقلال طلبی تها۔ شاہ کے زمانے کا ایران علاقہ میں محافظ دستہ کے حکم میں امریکا اور مغرب کے لیے کام کرتا تها۔ قانون سرمایہ داری جو حکومت نے پیش کیا اور اس وقت کی قومی مجلس عاملہ نے اس کو تصویب کیا اس سے امریکی مشیر کاروں کو تحفظ ملا، تاکہ وہ کسی اضطراب اور وحشت کے بغیر ایران کے اندر عوام کی عمومی ثروت و اموال کو لوٹ لیں۔ شاہ کی فوج بهی مکمل طورپرامریکی جنرل کے اختیار میں تهی اور اس کا اپنا کوئی ارادہ نہ تها، استقلال اور آزادی ایرانی عوام کے لیے انقلاب اسلامی کا بہت بڑا تحفہ تهی، یہی وجہ ہے کہ جمہوری اسلامی ایران کااساسی قانون اپنے متعدد بند میں واضح الفاظ میں استقلال پر زور دیتا ہے اور آج بلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایران آزادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے اچها ملک شمار ہوتا ہے۔ 2۔ آزادی آزادی آخری دو صدیوں میں عوامی مطالبات کے زمرے میں ہمیشہ انقلابوں اور تحریکوں کے اہداف و مقاصد میں سرفہرست ایران کی استقلال طلبی اور آزادی خواہی رہی ہے۔ ظالم اور ڈکٹیٹر شاہ پہلوی نے اضطراب اور گهٹن کا ماحول بنا کر ایرانی قوم کو معمولی آزادی سے بهی محروم کر دیا تهااور اس جگہ پرقید خانے راہ حق میں جہاد کرنے والوں سے بهرے ہوئے تهے اور مجلسیں اور کٹه پتلی حکومتیں یکے بعد دیگرے آتی جاتی رہتی تهیں اور اس درمیان جس چیز کی کوئی اہمیت نہ تهی وہ قانون اور عوام کا کردارتها۔ شاہ کی ہر طرح سے حمایت کرنے کے لیے ایران میں 28/مرداد 1332ه ش)10/اگست 1953م( کی بغاوت کے بعد امریکا اور انگلینڈ کی ہدایت کے مطابق فوجی حکومت تشکیل پائی اوراس نے آزادی اور مجاہدین راہ حق کو کچلنے اور پسپا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ایسے گهٹن کے ماحول میں ایرانی عوام نے جمہوری اسلامی کے ہمراہ آزادی اور "استقلال" کا نعرہ بلند کیا۔ 3۔ جمہوری اسلامی شہید آیۃ اللہ مطہری کا خیال تها کہ "جمہوری" حکومت کی شکل ہے اور اس کا اسلامی ہونا ادارہ ملک کے مفہوم کی نشان دہی کرتا ہے۔ جمہوری اسلامی نے 98فیصد سے زیادہ ایرانی عوامکے ووٹ سے شاہی سلطنت کی جگہ لی۔ امام خمینی رح نے اس دن کو عید کا دن اعلان کیا اور اپنے پیغام میں فرمایا: تمھیں وہ دن مبارک ہو جس دن تم نے جوانوں کی شہادت اور طاقت فرسا مصیبتوں کے بعد دیو صفت دشمن اور فرعون وقت کو زمیں بوس کر دیا اور اس کو ایران سے فرار کرنے پر مجبور کر دیا اور اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے بهاری اکثریت سے شاہی سلطنت کی جگہ جمہوری اسلامی کو بٹها کر حکومت عدل الہی کا اعلان کیا، ایسی حکومت جس میں سب کو ایک ہی نظر سے دیکها جائے گا اور عدل الہی کا سورج سب پر یکساں نورافشانی کرے گا اورقرآن و سنت کی باران رحمت سب پر یکساں نازل ہوگی۔ )صحیفہ امام، ج6، ص453( نہ شرقی نہ غربی کا اہم نعرہ گویا ملک کے داخلی امور میں غیروں کے تسلط کی نفی ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ جمہوری اسلامی کی نہ غربی نہ شرقی نعرہ کے ضمن میں خارجہ پالیسی مندرجہ ذیل چند اصول پر استوار ہے : ہرطرح کی تسلط جوئی اور تسلط پذیری کی نفی: ہمہ جانبہ استقلال اور ملک کی سرزمین اور سرحدوں کی حفاظت، تمام مسلمانوں کے حقوق کا دفاع، سامراجی اغیار سے کوئی عہد و پیمان نہ کرنے کا عہد، جنگ نہ کرنے والی حکومتوں سے صلح آمیز روابط، ہر اس معاہدہ پر پابندی جو اغیار کے تسلط کا موجب ہو اور دنیا کے کسی بهی گوشہ و کنار میں موجود مستکبرین عالم کے مقابلے میں مستضعفین عالم کے حق طلب مقابلہ کی حمایت، ایسی سیاست اپنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران میں استعماری طاقتوں سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور اغیار سے جنگ کرنے اور سامراج مخالف تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑی۔

خدا کی حاکمیت کی طرف رحجان[ترمیم]

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہاں پر اسلامی نظام کی تشکیل ہوئی -عراق کے اسلامی انقلاب کی مجلس کے ایک رہبر نے اس بارے میں یوں کہا : ہم اس وقت کہتے تھے کہ اسلام ایران میں کامیاب ہو گیا ہے اور اس کے بعد جلد ہی عراق میں بھی کامیاب ہو گا - اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس سے سبق حاصل کریں اور اسے اپنی مشق کا حصہ بنا لیں - دوسرے الفاظ میں اسلامی انقلاب نے تقریبا ڈیڑھ بلین مسلمانوں کو جگایا اور انھیں کرہ زمین پر اللہ کی حاکمیت کے زیر سایہ حکومت تشکیل دینے کے لیے متحرک کیا - یہ عمل اساس نامے، معاصر سیاسی اسلامی تحریکوں کے گفتار و عمل میں مختلف صورتوں میں قابل مشاھدہ ہے - اسلامی حکومت کے قیام کے لیے متحرک مسلمانوں کی خواہش مختلف طریقوں سے پوری ہوئی ہے - جیسے بعض اسلامی جماعتوں نے امام خمینی رح کی اسلامی حکومت کی کتب ( مثلا الیسار الاسلامی مصر ) کا ترجمہ کرکے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی پیروی کرکے ( مانند جبھہ نجات اسلامی الجزایر ) ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لیے اپنی خواہش اور دلچسپی کا اظہار کیا ہے[5] - آیت اللہ محمد باقر صدر جنگ تحمیلی کے شروع ہونے سے قبل اس کوشش میں تھے کہ عراق کی رژیم کو سرنگوں کرکے وہاں پر اسلامی جمہوریہ ایران کی طرز پر ایک اسلامی حکومت تشکیل دی جائے جو ولایت فقیہ کی بنیاد پر ہو - بعض دوسری اسلامی تحریکیں بھی اصل ولایت فقیہ کو تسلیم کرتے ہوئے اسلامی انقلاب ایران کی رہبری کی پیروی کرتی ہیں - یہ دو طرح کے گروہ ہیں - ایک وہ گروہ جو مذھبی اور عقیدتی لحاظ سے اسلامی انقلاب کے رہبر کی تقلید کرتا ہے جیسے لبنان میں تحریک امل جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جو سیاسی اور مذھبی لحاظ سے رہبر انقلاب اسلامی ایران کا تابع ہے جیسے لبان میں حزب اللہ -

بعد از انقلاب[ترمیم]

خواتین[ترمیم]

ایران کا پرچم قبل از 1979ء ایران میں خواتین ایران کا پرچم آج
42.33% خواندگی (15–24)[6] 98.52%
69.42% خواندگی (>15)[6] 80.66%
48,845 طالبات[7] 2,191,409
122,753 فارغ التحصیل[8] 5,023,992
2.4% فارغ التحصیل (%)[8] 18.4%
19.7 شادی وقت عمر[9] 23.4

عورت انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور ضروری حصّہ ہے جو معاشرے کی تشکیل اور بہتری میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے - معاشرے کی ترقی کے لیے عورت اور مرد دونوں کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے جس کے بعد معاشرہ ایک فلاحی راستے کی طرف گامزن ہوتا ہے - اس سارے عمل میں عورت کا کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اس کی صلاحیتوں سے بھی جدید دور میں کسی کو انکار نہیں ہے - اسلامی انقلاب، اس طراوت و نشاط کی پہلی کرن ہے اور مرد و عورت سب پر خداوند عالم کی رحمت و معنویت کی زندہ نشانی ہے - اسلامی انقلاب نے سیرت حضرت ختمی مرتبت اور امیر المومنین علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی و پیروی میں تمام خواتین کو اُن کے عظیم و بلند مقام پر فداکار اور محبت نچاور کرنے والی ماوں، صابر، مونس و غمخوار بیویوں، استقامت اور قدم جما کر (میدان جنگ سمیت تمام محاذوں پر لڑنے والی) مجاہدہ خواتین کی صورت میں پرورش دی ہے - آج کی ایرانی عورت کو ہر لحاظ سے معاشرے میں عزت و احترام حاصل ہونے کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں ترقی کرنے کے یکساں مواقع میسر ہیں - ایران میں 1979ء میں عظیم اسلامی انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں اس ملک میں اسلامی حکومت قائم ہوئی- اس کے بعد معاشرے میں بنیادی تبدیلی آئی اس کے اثرات خواتین پر بھی پڑے عورت کے رجحانات میں تبدیلی آئی؛ وہ فکری، علمی، ثقافتی اور اجتماعی مسائل کی ترقی کے راستے پر گامزن ہونے لگی؛ حضرت امام خمینی (رہ) نے اسلامی انقلاب کے انہی ابتدائی دنوں میں معاشرے میں مسلمان خواتین کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا[10] : "اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں ترقی کریں - اسلام نے عورت کو جاہلیت کی خرابیوں سے بچایا - اسلام یہ چاہتا ہے جیسے مرد اہم کاموں کو سر انجام دیتا ہے عورت اس طرح انجام دے - اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت اپنی حیثیت اور قدر و منزلت کو محفوظ رکھے - اسلام نے عورت کی جو خدمت کی ہے اس کا سراغ کہیں اور نہیں ملتا ہے -" حضرت امام خمینی (رہ) کے ارشادات نے ایرانی عورت میں ایک نئی روح پھونک دی اور اس نے سیاسی، اجتماعی سرگرمیوں میں شرکت کو اپنی مقبولیت کا ثبوت دینے کے لیے بہتریں طریقہ سمجھا- انقلاب کے دوران بھی خواتین نے بہت شاندار حصہ لیا- وہ اسلامی حکومت کے لیے بے چین تھیں - وہ اس دن کا انتظار کرتی تھیں کہ اپنے رہبر کی قیادت میں اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا اظہار کریں - اس دن کو پانے کے لیے وہ انقلاب کے جلوسوں میں نعرے لگاکر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تھیں - خواتین نے اپنی صلاحیتوں کو وسعت دینے کے لیے اپنی اجتماعی سرگرمیوں کو علم و دانش کے چراغ سے سجایا اور یوں عورت کی الہی فطرت اور پہچان سب پہلوۆں میں نمایاں ہوتی گئی - ایران کے اسلامی جمہوریہ کا آئین، اسلام کے قانون سے پھوٹا ہے - اسی بنا پر حکومت نے اپنے قوانین میں خواتین کے سارے اسلامی حقوق کو مدنظر رکھا ہے - ایران کی اسلامی قومی اسمبلی میں معاشرے میں خواتین کی سرگرمیوں کے بارے میں انتہائی مفید قوانین منظور کیے گئے ہیں - اس قانون سے خواتین کو کافی حمایت ملی- خاص طور پر بے کس اور بے سہارا عورتوں کے لیے کافی سہولتیں پیدا ہوئی ہیں - اسلامی جمہوریہ ایران کے عظیم رہبر حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں [11]:"اسلام نے عورت پر پردے کو فرض قرار دیا ہے کیونکہ وہ ایک آزاد انسان ہے اور اس طرح وہ پاک و صحت مند ماحول میں اپنے معاشرتی فرائض کو انجام دے سکتی ہے -" آج کی ایرانی خواتین کے لیے مثالی نمونہ مغربی عورت نہیں بلکہ سب سے بہترین آئیڈیل حضرت فاطمہ زہرا(س) ہیں -

نگار خانہ[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. دنيا ميں مثالي مذھبي انقلاب
  2. اسلامی انقلاب کی اعلی خصوصیات
  3. انقلاب اسلامی ایران کے خصوصیات
  4. انقلاب اسلامی ایران کی منفرد خصوصیات
  5. خدا کي حاکميت کي طرف رحجان
  6. ^ ا ب "Iran – Literacy rate"۔ indexmundi.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2016 
  7. "World Bank: Iran, Islamic Rep.: Student enrollment, tertiary, female"۔ 27 اکتوبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2016 
  8. ^ ا ب Statistical Centre of Iran (2011). Selected findings on 2011 Population and Housing Census. Teheran: Iranian ministry of the Interior, p. 35.
  9. Statistical Centre of Iran (2011). Selected findings on 2011 Population and Housing Census. Teheran: Iranian ministry of the Interior, p. 32.
  10. انقلاب اسلامی ایران اور خواتین ( حصّہ سوّم )
  11. انقلاب اسلامی ایران اور خواتین ( حصّہ ششم )