قانون مجالس ہند، 1892ء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قانون مجالسِ ہند، 1892ء[1]
باب55 & 56 Vict. c. 14
Other legislation
قانون منسوخGovernment of India Act 1915
حیثیت: Repealed

قانون مجالس ہند 1892ء برطانوی ہند میں برطانوی پارلیمان کا ایک قانون تھا جس کے ذریعہ قانون ساز اسبلمیوں میں ارکان کی تعداد میں اضافہ مقصود تھا۔ چونکہ قانون مجالس ہند 1861ء سے ہندوستانی شہری مطمئن نہیں تھے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت ہند بھی مقامی حکومت کے خلاف اپنے حقوق میں مزید اضافہ چاہتی تھی اس کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ ہندوستانیوں کو حکومت میں لینا چاہتی تھی جو اس وقت کے حالات میں حکومت کو ضروری محسوس ہو رہا تھا۔ انگریز تاجروں کو اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے کچھ نمائندگی درکار تھی، یہی وجہ تھی کہ وہ قانون ساز اسمبلی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ چاہتے تھے لہذا حکومت ہند کی تجاویز کے مطابق 1892ء کا قانون بنایا گیا۔

پس منظر[ترمیم]

وائسرائے ہند لارڈ لٹن نے اپنے سخت اقدامات سے مقامی آبادی کے اندر جو رد عمل پیدا کیا تھا، غربت و افلاس قحط اور اظہار رائے پر پابندیوں نے اِس میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔

دسمبر1882ء میں لارڈ رِپن وائسرائے ہند نے وزیر اُمورِ ہند کو خط لکھا

ایک تحریک شروع ہوچکی ہے جو ہر سال تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی، یہ صورت حال ایسی ہے کہ جس میں حکومت (بالخصوص آمرانہ حکومت) کے راستے میں شدید مشکلات حائل ہوجاتی ہیں بہت تیز اقدام خطرناک ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اِس نئی ترقی کی روح کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جائے کہ اِس کو صحیح راستے پر ڈالا جاسکے اور ایک طرف اس سے ملک کے لیے تمام ممکن فوائد حاصل کیے جائیں اور دوسری طرف اِس کو جبر یا عدم توجہگی کے ذریعہ شدید سیاسی خطرہ نہ بنایا جائے۔

کانگریس کے مطالبات[ترمیم]

وائسرائے ہند لارڈ رپن اور اُس کے ہم خیال لبرل انگریزوں نے بالخصوص عوام کے جذباتِ نفرت کو انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل کے ذریعے ایک "سیفٹی وَالو" مہیا کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ خطرناک اور دھماکا خیز بغاوت سے بچا جا سکے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے ابتدائی اجلاسوں میں انگریز مشرانی نے مقامی قائدین کو "دستوری جدوجہد" کے راستہ پر ڈال دیا چنانچہ کانگریس کے پہلے اجلاس میں ہی صدر شری اُومیش چندر بُنَیرجی نے اُمورِ حکومت میں مقامی آبادی کا مناسب حصہ دینے کا مطالبہ کیا اور یہ اعلان کیا کہ اُن کے مطالبات کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ انگریز سرکار کے وفادار نہیں ہیں۔

کانگریس کے دوسرے اجلاس 1886ء میں صدرِ مجلس دادا بھائی نوروجی نے قانون ساز مجالس میں منتخب عنصر شامل کرنے کا مطالبہ کیا اور اعلان کیا کہ کونسلوں میں شامل ہندوستانی ارکان ہمارے اصل نمائندے نہیں ہیں۔ کانگریس نے اپنی ایک قرارداد میں کونسل کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کا بھی مطالبہ کیا اور یہ بھی تقاضا کیا کہ پنجاب اور شمال مغربی صوبہ میں بھی کونسلیں قائم کی جائیں۔ کانگریس نے کونسلوں کے اختیارات میں وُسعت کی بھی درخواست کی۔

وفد کی تشکیل اور انگلستان روانگی[ترمیم]

ان اصلاحات کا مطالبہ کرنے کے لیے 1890ء میں ایک وفد بھی انگلستان بھیجا گیا جس کے اراکین نے برطانوی قائدین سے درخواست کی کہ ہندوستان کی مجالس میں نصف ارکان ہندوستانی ہونے چاہئیں۔ کانگریس کے سرپرست انگریزوں نے ایک طرف کانگریس سے یہ مطالبات پیش کروائے اور دوسری طرف انگلستان میں لبرل پارٹی کے قائدین کے ذریعے اصلاحات کے لیے فضا ہموار کی۔ اِس طرح 1892ء میں قانون مجالس ہند یعنی انڈین کونسلز ایکٹ 1892ء منطور ہو گیا۔ (قانون مجالس ہند 1892ء ملکہ وکٹوریہ کی تخت نشینی کے 55 ویں سال منظور ہوا)

حکومت ہند کا رویہ[ترمیم]

حکومت ہند بھی اِنہی اصلاحات و مقاصد کی حامی تھی۔ حکومت ہند کا خیال تھا کہ قانون ساز کونسلوں میں منتخب عنصر کی موجودگی سے وہ بہت سے معاملات میں وزیر اُمورِ ہند کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ یورپی افراد کے تجارتی مفادات جو روز بہ روز ہندوستان میں بڑھتے جا رہے تھے وہ اِس بات کے متقاضی تھے کہ یورپی افراد کو کونسلوں میں نمائندگی دی جائے تاکہ وہ اپنے نقطہ نظر کو پیش کرسکیں اِس طرح تعلیم یافتہ ہندوستانی ہندوستان میں تجارتی مفادات اور ہندوستان میں برطانوی ملازمین کی اکثریت نے مل کر اِس بات پر اتفاق رائے کر لیا کہ 1861ء کے قانون مجالس ہند یعنی انڈین پینل کوڈ 1861ء کو بُنیادی طور پر ہی تبدیل کر دیا جائے۔

اہم دفعات[ترمیم]

  • گورنر جنرل اپنی کونسل میں انتظامی ارکان کے علاوہ کم از کم 10 اور زیادہ سے زیادہ 16 ارکان نامزد کرے گا، اِن ارکان میں سے کم از کم 2/5 کا غیر سرکاری ہونا ضروری ہے۔ نامزد ارکان مختلف اداروں کی نمائندگی کریں گے، متعلقہ ادارے انھیں منتخب کریں گے وہ صرف اِس صورت میں کونسل کے رکن بن سکیں گے جب گورنر جنرل انھیں نامزد کرے، گویا مختلف ادارے اپنے نمائندوں کا نام نامزدگی کے لیے تجویز کریں گے مثلاً چاروں صوبوں کی کونسل کا ایک ایک نمائندہ اور کلکتہ چیمبر آف کامرس کا ایک نمائندہ گورنر جنرل کونسل کا رکن نامزد کیا جاتا تھا۔
  • مدراس،یوپی اور بمبئی کے صوبوں کے گورنر جنرل اپنی کونسل میں انتظامی ارکان کے علاوہ کم از کم 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 اراکین نامزد کریں گے، بنگال اور شمال مغربی صوبہ کے لیفٹینینٹ گورنر بھی اپنی کونسلوں میں زیادہ سے زیادہ 20 اور کم سے کم 15 اراکین نامزد کریں گے یہ نامزد اراکین مختلف میونسپل کمیٹیوں اور چیمبرز آف کامرس کے مشورہ سے نامزد ہوں گے۔
  • ایکٹ میں انتخاب کا لفظ استعمال کیے بغیر نامزد اراکین کے متعلق یہ طے کر دیا گیا کہ اُن کی نامزدگی مختلف اداروں کی سفارش سے ہوگی جس کا مطالبہ عملاً بالواسطہ انتخابات تھا بعض نشستیں بڑے زمینداروں کے لیے مخصوص کردی گئیں گویا تمام وہ طبقات جن کے مفادات کے تحفظ کا مسئلہ تھا نمائندگی کا حق قرار دیے گئے یہ منتخب اراکین اُس وقت تک اپنی نشست پر نہیں بیٹھ سکتے تھے جب تک گورنر جنرل یا گورنر یا لیفٹیننٹ گورنر جس کی کونسل کے وہ رکن منتخب ہوں، اُن کی نامزدگی نہ کر دے۔
  • صوبائی اور مرکزی کونسلوں کو بعض شرائط کے تحت بجٹ پر بحث کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ بجٹ پر شق وار رائے شماری نہیں کروائی جاتی تھی، بلکہ پورے بجٹ پر بجٹ کے بعد بحث ہوتی تھی۔ اور چونکہ کونسلو٘ں میں سرکاری عنصر اکثریت سے موجود تھا اِس لیے بجٹ کا منظور ہوجانا طے شدہ امر تھا۔
  • کونسلوں کے اراکین کو عوامی مفاد کے مسائل پر سوالات پوچھنے کا حق دے دیا گیا۔ ایسے ہر سوال کا کم از کم 6 دن پہلے آنا ضروری تھا۔ گورنر جنرل یا گورنر یا اُس کے انتظامی ارکان جواب دینے سے انکار بھی کرسکتے تھے، جواب ملنے کے بعد ضِمنی سوال پوچھنے کا حق حاصل نہ تھا۔

1861ء کے ایکٹ کے تحت ہندستانی عوام کو بہت کم اختیارات دیے گئے ان اختیارات کو مقامی باشندوں نے دلی طور پر نامنظور کیاچنانچہ حکومت برطانیہ نے انیسویں صدی کے اخیر میں1861ء کے ایکٹ میں کچھ ترامیم وتبدیلیاں کرکے نیا قانون نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جس میں نامزد اراکین کے ساتھ ساتھ انتخاب کی بات کی گئی۔ قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ قانون 1892ء میں ہندوستان میں نافذ کیا گیا۔ اس قانون کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔

قانون مجالس ہند1892ء کے اہم نکات[ترمیم]

1:گورنر جنرل کواختیار دیا گیا کہ وہ اپنی کونسل کے منتظم اراکین کے علاوہ کم ازکم 10 اور زیادہ اے زیادہ 16ارکان نامزد کرسکتاتھا۔ ان اراکین میں 40فی صد غیر سرکاری جبکہ 60فی صد سرکاری اراکین ہوں گے۔
2:نامزد اراکین مختلف داروں (میونسپل کمیٹی،چیمبر آف کامرس،یونیورسٹی)سے منتخب شدہ ہوں گے یہ افراد اس وقت تک کونسل میں شامل نہیں ہوں گے جب تک گورنر جنرل ان کی منظوری نہ دے۔
3:گورنر جنرل کو اختیار دیا گیا کہ وہ کسی شخص کو ناپسندیدہ قرار دے کر انتخابات سے روک سکتاتھا۔
4: مدراس اور ممبئی کے گورنر کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی کونسل کے منتظم اراکین کے علاوہ کم ازکم 8 اور زیادہ سے زیادہ20ارکان نامزد کرسکتاتھا۔
5:بنگال ،یوپی اورصوبہ سرحد کے لیفٹینٹ گورنر وں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی کونسل کے منتظم اراکین کے علاوہ کم ازکم15 اور زیادہ سے زیادہ 20ارکان نامزد کرسکتاتھا۔
6: صوبائی کونسل کے اراکین کے لیے لازم ہے کہ انھیں کوئی ادارہ منتخب کرے مثلاً میونسپل کمیٹی،چیمبر آف کامرس،یونیورسٹی وغیرہ مگر حتمی منظوری گورنر دے گا۔
7: کچھ نشستیں مخصوص افراد کے لیے تھیں مثلاًزمین دار ،تعلیم یافتہ ،سرکاری عہدوں سے ریٹائرافسران۔
8: صوبائی و مرکزی قانون ساز اداروں میں غیر سرکاری اراکین کوبجٹ کے بارے بحث کرنے کا حق دیا گیا مگربحث مکمل بجٹ کے لیے تھی کسی ایک یا ایک سے زائد شقوں کے لیے نہیں تھی۔ اس کے بعد رائے شماری کی جاتی تھی تاکہ بجٹ کومنظور کیاجائے چونکہ کونسل میں سرکاری اراکین زیادہ ہوتے تھے اس لیے بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
9: صوبائی و مرکزی قانون ساز اداروں میں غیر سرکاری اراکین کو سوالات کا حق دیا گیا مگر سوالات چھ روز قبل پیش کیے جائیں۔ گورنر جنرل،صوبائی گورنریا کونسلز کے انتظامی اراکین جواب دینے یا نہ دینے کے لیے پابند نہ تھے جس قسم کا جواب مل جاتا وہ حتمی ہوتا تھا۔ خاص طور پر سرکاری افسروں نے سوالات کے جوابات کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کیا۔
10: ووٹرز یا رائے دہندگان کے لیے شرائط عائد کی گئیں مثلاً تعلیم ،زمین داری،سرکاری عہدہ دار یا سرکاری عہدہ سے ریٹائرڈ افراد۔
11: گورنر جنرل کو اختیار دیا گیا کہ وہ ہندوستان میں قانون سازی کے لیے کسی مرکزی قانون یا صوبائی قانون کو رد یا مسترد کرنے کرسکتاتھا۔ آرڈیننس جاری کرنے کا حق رکھتا تھا۔ یہ آرڈیننس چھ ماہ کے لیے قانون کا درجہ رکھتے تھے۔ ان وسیع وعریض اختیارات کی وجہ سے گورنر جنرل اور گورنروں کی حیثیت آمرانہ تھی جس کی وجہ سے کونسلزکے اراکین کی حیثیت بے معنی اور بے عمل ہوجاتی تھی۔

تنقیدی جائزہ[ترمیم]

اگر تاریخ کا طالب علم ان نکات کا جائزہ لے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ قانون مجالس ہند 1892ء سے ہندوستانیوں کو کچھ حاصل نہ ہواجو افراد کونسلوں میں منتخب کیے گئے وہ انگریزوں کے وفادار تھے انھیں عوامی مسائل کا کسی قسم کا ادراک نہیں تھا اس کے علاوہ سرکاری اراکین کی کثیر تعداد سے انگریز انتظامیہ ہر بات منوالیتی تھی۔ نامزد اراکین ریاستوں کے سربراہ،جاگیرداریا حکومت کے ریٹائرڈ افسران تھے جنہیں عوام کے مسائل میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ انگریز کی خوشی کی خاطر خاموشی اختیار کرتے تھے۔ سرکاری اراکین بھی اپنے گورے آقاؤں کو خوش کرتے تھے انھیں عوام سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔
رائے دہندہ کے لیے شرائط عائد کر دی گئیں جس کے تحت ووٹ دینے کے لیے خاص آدمیوں کو حق ملا۔ بعض اوقات ایک حلقہ میں ووٹرز کی کل تعداد 10 سے زیادہ نہیں تھی۔ اس طرح عوام کواپنی پسند کے مطابق افراد کا انتخاب کرنامشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ مخلوط طرز انتخاب کی وجہ سے مذہبی مسائل بھی تھے ہندو کس کو ووٹ دیں مسلمان کو یا مسلمان ہندو کوووٹ دیں۔
قانون سازی کے اختیارات مکمل طور پر گورنر جنرل اور صوبائی گورنروں کے پاس تھے اراکین کونسل بے بس تھے اس لیے یہ قانون ہندوستانیوں کی مکمل بے بسی کا آئینہ دار تھا۔ صوبائی گورنر بھی بااختیار تھے جبکہ کونسل کے اراکین بے بس تھے۔ سوالات پوچھنے کے لیے چھ دن پہلے سوالات پیش کرنالازم تھاجو کہ اراکین کے نامکمل اختیارات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گورنر جنرل،صوبائی گورنریا کونسلز کے انتظامی اراکین جواب دینے یا نہ دینے کے لیے پابند نہ تھے جس قسم کا جواب مل جاتا وہ حتمی ہوتا تھا۔ گورنر جنرل اور گورنروں کو دیے گئے حق استرداد کی وجہ سے کوئی ایسا قانون نہ بن سکتاتھا جو برطانوی حکومت کے خلاف ہوتاتھا۔
اس ایکٹ کے تحت بنگال کی 7 کروڑ آبادی کے لیے 7افراد کونسلز کے اراکین بنے جبکہ پنجاب کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔

قانون مجالس ہند1892ء اور مسلمان[ترمیم]

اس ایکٹ کے تحت مسلمانوں کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کیونکہ ہندو ووٹرز کی تعداد زیادہ تھی مسلمان ووٹرز ان شرائط پر پورے نہ اتر سکے۔ ہندو اپنی اکثریت ،تعلیم ،دولت اور سرمایہ کی وجہ سے مرکزی و صوبائی مجالس میں چھا گئے۔ اگر کچھ مسلمان رکن بنے بھی تو انگریز کی وجہ سے یا ہندو ؤں کی حمایت سے۔ اس قانون سے مسلمانوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی مسلمانوں کو یہ احساس ہو اکہ اگر یہی نظام جاری رہا تو مسلمان کبھی بھی کسی مجلس کا حصہ نہیں بن سکیں گے اور وہ ہمیشہ کے لیے ہندو اکثریت کے غلام بن جائیں گے۔ اسی نقطہ کی وجہ سے سرسید احمد خان نے جداگانہ طرز انتخاب کا مطالبہ کیا۔
اس ایکٹ کو انگریز دانشوروں نے بھی ناپسند کیا انھوں نے اس پر شدت سے تنقید کی اور غیر تسلی بخش قرار دیا جس سے انتہا پسندی کو فروغ ملنے کے خطرے سے خبردار کیا۔
یہ اندیشہ درست ثابت ہو اکیونکہ ہندو انتہاپسند رہنما بال گنگا دھر تلک نے مسلمانوں کو گھس بیٹھیئے (جارح) ،گئوکش (گائے کے دشمن ) ملیچھ (ناپاک ) قرار دیا اس نے سیواجی اور گنپتی کے میلے منعقد کیے اوران میلوں میں مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلاگیا جس سے ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ مقابلے کے امتحانات کا مطالبہ اگرچہ صحیح تھا مگر اس سے صرف غیر مسلموں کو فائدہ پہنچا کیونکہ وہ جدید تعلیم سے بہرہ ور تھے اور مسلمانوں جدید تعلیم سے محروم تھے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "></source> Short title as conferred by s. 8 of the Act; the modern convention for the citation of short titles omits the comma after the word "Act"