ایہام گوئی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ایہام سے مراد یہ ہے کہ شاعر پورے شعر یا اس کے جزو سے دو معنیٰ پیدا کرتا ہے۔ یعنی شعر میں ایسے ذو معنی لفظ کا استعمال جس کے دو معنی ہوں۔ ایک قریب کے دوسرے بعید کے اور شاعر کی مراد معنی بعید سے ہو ایہام کہلاتا ہے۔ بعض ناقدین نے ایہام کا رشتہ سنسکرت کے سلیش سے بھی جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ درست نہیں کیونکہ سلیش میں ایک ایک شعر کے تین تین چار چار معنی ہوتے ہیں جب کہ ایہام میں ایسا نہیں ہوتا۔

اردو شاعری میں ایہام گوئی[ترمیم]

ولی دکنی کا دیوان 1720ءمیں دہلی پہنچا تو دیوان کو اردو میں دیکھ کر یہاں کے شعراءکے دلوں میں جذبہ اور ولولہ پیدا ہوا اور پھر ہر طرف اردو شاعری اور مشاعروں کی دھوم مچ گئی۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ ولی کے تتبع میں شمالی ہند میں جو شاعری شروع ہوئی اس میں سب سے نمایاں عنصر ”ایہام گوئی“ تھا۔ اس لیے اس دور کے شعراءایہام گو کہلائے۔ اس دور کی شاعری میں ایہام کو اس قدر فروغ کیوں حاصل ہوا۔ آئیے ان اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔

اسباب[ترمیم]

ایہام گوئی کے بارے میں رام بابو سکسینہ اور محمد حسین آزاد دونوں کا خیال ہے کہ اردو کی ابتدائی شاعری میں ایہام گوئی کے رجحان کا ایک اہم سبب ہندی دوہوں کا اثر ہے۔ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی کے نزدیک اس زمانے میں فارسی شعراءکا دربار اور شعر و ادب کی محفلوں میں بہت اثر تھا۔ یوں بھی ادب میں دہلی والے فارسی روایات برتتے تھے۔ اس لیے یہ بہت ممکن ہے کہ متاخرین شعرائے فارسی کے واسطے یہ چیز عام ہوئی ہو۔ اس سے واضح ہوا کہ ایک سبب ایہام گوئی کا ہندی دوہے ہیں اور دوسرا سبب متاخرین شعرائے فارسی سے متاثر ہو کر اس دور کے شعراءنے اپنی شاعری کی بنیاد ایہام پر رکھی۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کے نزدیک ہر بڑے شاعر کی طرح دیوان ولی میں بھی بہت رنگ موجود تھے۔ خود ولی کے کلام میں ایہام گوئی کا رنگ موجود ہے۔ اگرچہ ولی کے ہاں یہ رنگ سخن بہت نمایاں نہیں لیکن ہر شاعر نے اپنی پسند کے مطابق ولی کی شاعری سے اپنا محبوب رنگ چنا۔ آبرو، مضمون، ناجی اورحاتم ولی نے ایہام کے رنگ کو چنا۔ یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں ایہام کی ایک بڑی وجہ ولی کے کلام میں موجود ایہام گوئی کا رنگ بھی تھا۔

ان تین اسباب کے علاوہ ایہام گوئی کے رجحان کا ایک اور اہم سبب محمد شاہی عہد کے درباری اور مجلسی زندگی تھی۔ یہ دور برصغیر کا نہایت بحرانی دور رہا۔ محمد شاہ گو بادشاہ تو بن گیا تھا لیکن اس میں وہ صلاحیتیں موجود نہ تھیں جو گرتی ہوئی حکومت کو سنبھال سکتیں۔ یوں اس نے اپنی ناکامی کو چھپانے کے عیش و عشرت اور رقص و سرور کاسہارا لیا۔ یوں طوائفوں اور بھانڈوں کی محفلیں جمنے لگیں۔ اس قسم کی مجلسی فضا میں جہاں حسن و عشق کا تصور انفرادی کی بجائے اجتماعی جذبے کی صورت اختیار کر لے تو پھر اس کے اظہار کے لیے ایسے پیرائے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں ایہام، رعایت لفظی، ذومعنی اور پہلو دار معنی، ضلع جگت، چٹکلے اور پھبتیاں وغیرہ ایسی محفلوں میں سب کو مزا دینے لگیں۔ یوں اس دور کے تہذیبی موسم اور معاشرتی زمین ایہام گوئی کے پھلنے پھولنے کے لیے نہایت مناسب تھی۔

مختصرا ان اسباب کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ ہندی دوہوں کا اثر ،فارسی کے شعرائے متاخرین کی روایت دیوان ولی میں ایہام گوئی کے رنگ کی موجود گی اور محمد شاہی عہد کی مجلسی اور تہذیبی زندگی ایہام گوئی کے رجحانات کے عام کرنے میں معاون و مدگار ثابت ہوئی۔

ایہام گو شعرا[ترمیم]

ایہام گو ئی کے سلسلے میں آبرو، ناجی، مضمون ،یکرنگ، فائز اور حاتم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔


اردو شاعری پر اثرات[ترمیم]

ایہام گوئی کی بدولت شاعری پر مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات پڑے۔ ایہام گویوں کی کوشش سے سینکڑوں ہندی اورمقامی الفاظ اس طور سے استعمال ہوئے کہ اردو زبان کا جزو بن گئے۔ نہ صرف الفاظ بلکہ ہندی شاعری کے مضامین، خیالات اور اس کے امکانات بھی اردو شاعر ی کے تصرف میں آ گئے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ ایہام گوئی کے رجحان سے جہاں اردد زبان پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اس کے کچھ منفی اثرات بھی ظاہر ہوئے۔

جب ایک مخصوص فضا میں ایہام کا رواج ہوا جہاں الفاظ کی بازیگری کو استادی سمجھا جانے لگا تو شاعری صرف الفاظ کے گورکھ دھندے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ لفظ تازہ کی تلاش میں متبذل اور بازاری مضامین بھی شاعری میں گھس آئے۔ نیز جب شاعر لفظوں کو ایہام کی گرفت میں لانے کی کوشش میں مصروف رہے تو پھر شاعری جذبہ و احساس سے کٹ کر پھیکی اور بے مزہ ہو جاتی ہے اور یہی حال اس دور میں شاعری کا ہوا۔

ایہام گوئی کے خلاف رد عمل[ترمیم]

ایہام گو شعراءکے بعد جو نیا دور شروع ہوااس میں مظہر، یقین، سودا ،میر تقی میر، خواجہ میر درد،وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے ایہام کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ چنانچہ اس دور میں ان لوگوں نے ایہام گوئی کی بندشوں کو شدت سے محسوس کیا ان کے سبب خیالات کے اظہار میں رکاوٹ آجاتی تھی۔ یوں ایہام گوئی میں زیادہ شعر کہنا مشکل تھا۔ لیکن ایہام گوئی ترک کرنے کے بعد شعراءکے دیوان خاصے ضخیم ہونے لگے۔ شعراءکی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ اس نئے دور میں ایہام گوئی کے خلاف اس قدر احتجاج کیا گیا کہ شاہ حاتم جو ایہام گو شاعر تھے انھوں نے اس روش کو ترک کر دیا اور اپنے دیوان سے ایہام کے شعر نکال دیے۔