اے اسٹڈی ان سکارلٹ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اے اسٹڈی ان سکارلٹ
(انگریزی میں: A Study in Scarlet ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مصنف آرتھر کونن ڈویل  ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سلسلہ شرلاک ہومز ناول،  شرلاک ہومز کی کہانیاں  ویکی ڈیٹا پر (P179) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ادبی صنف سراغ رسانی فکشن،  پراسرار فکشن،  جرم فکشن  ویکی ڈیٹا پر (P136) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ناشر وارڈ لاک اینڈ کو  ویکی ڈیٹا پر (P123) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ اشاعت 1887  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صفحات 96 (بارنس اینڈ نوبل کلاسکس اشاعت)، 223 (ہارٹ پبلیکیشنز اینڈ کمپنی)
 
دی سائن آف فور  ویکی ڈیٹا پر (P156) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اے اسٹڈی ان سکارلٹ (انگریزی: A Study in Scarlet؛ ترجمہ: مطالعہِ سرخ) ایک جاسوسی اور پراسرار افسانہ ہے جو سر آرتھر کونن ڈویل نے 1886ء میں لکھا۔ اس کہانی میں پہلی مرتبہ ڈویل نے اپنے تخلیق کردہ کردار شرلاک ہولمز کو اپنے قارئین میں متعارف کرایا۔ یہ کردار آگے جا کر جاسوسی ادب میں سب سے نمایاں کردار بن گیا۔ اِس کتاب کا عنوان اِس میں پیش کردہ ہولمز کے ایک مکالمے سے اخذ کیا گیا ہے جس میں ہولمز واٹسن کو اپنے کام کی نوعیت سمجھاتے ہوئے کہتا ہے کہ "زندگی کی پھیکی چادر پر قتلوں کا ایک سرخ دھاگہ عیاں ہے ؛ ہمیں اِسے سُلجھانا ہے، جُدا کرنا ہے اور اِسکے ایک ایک انچ کا راز فاش کرنا ہے۔ " قاتل کو پکڑنے کے لیے کس طرح ہولمز اور واٹسن اِس سرخ دھاگے کا مطالعہ کرتے ہیں – یہ اس کہانی کا بُنیادی معما ہے۔

کہانی کا خلاصہ[ترمیم]

حصّہ اول: ڈاکٹر واٹسن کے تذکرے کی طبع ثانی[ترمیم]

کہانی کی شروعات 1881ء میں ہوتی ہے جب ڈاکٹر واٹسن کا راہِ گذر اپنے پُرانے دوست، سٹامفرڈ، سے ہوتا ہے۔ دوسری انگریز–افغان جنگ میں کاندھے پر چوٹ آنے کی وجہ سے واٹسن کو اِسکے جنگی دستے سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ واٹسن اب ایک رہائش گاہ کی تلاش میں تھا۔ سٹامفرڈ اُسے اپنے ایک واقف کار، شرلاک ہولمز، کا پتا دیتا ہے۔ ہولمز کو ایک ایسے بندے کی تلاش ہوتی ہے جو اِسکے ساتھ اپنی کوٹھی،221-بی بیکر سٹریٹ، کا کرایا بانٹ کر رہنے آ سکے۔ ایک اچھا دوست ہونے کے ناتے، سٹامفرڈ تب واٹسن کو ہولمز کے نرالے پن سے بھی آراستہ کرائے دیتا ہے۔

ہولمز سے پہلی ملاقات[ترمیم]

سٹامفرڈ پھر واٹسن کو ایک ہسپتال کی لیبارٹری میں لے چلتا ہے جہاں وہ دونوں ہولمز کو ایک خون کے نمونے کی تفتیش کرتے پاتے ہیں۔ ہولمز سمجھاتا ہے کہ یوں خون کی پڑتال کرنے سے ممکن ہے کہ آئندہ مجرموں کو پکڑا جا سکے۔ واٹسن سے اُٹھ کر ہاتھ ملانے پر ہولمز یہ بھی اندازہ لگا لیتا ہے کہ واٹسن کچھ دن قبل ہی جنگی حالات کا سامنا کر کہ آیا ہیں۔ واٹسن ہولمز کے اِس درست اندازے پر حیرت کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم، جب وہ ہولمز سے دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ اُسے کیسے معلوم ہوا تو ہولمز بات ٹال دیتا ہے۔ واٹسن تب کرائے داری کی بات چھیڑ دیتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی اچھائیوں اور خامیوں پر تذکرہ شروع کر دیتے ہیں تاکہ جان سکیں کہ باہم گذر بسر ہو سکتا ہے یا نہیں۔

ایک نیا کردار اور کُچھ نئے مہمان[ترمیم]

بعد از،211-بی پہنچ کر یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ، مختلف کمروں میں، رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ واٹسن کو یہ جان کر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ ہولمز کو کیمیائی علوم پر مہارت حاصل تھی اور سنسنی خیز ادب کا شوق بھی، مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصِر تھے کہ ہولمز کو فلکيات، فلسفے اور سياست میں اُسی قدر دلچسپی کیوں نہ تھی۔ ایک دن ہولمز سے یکے بعد دیگرے کئی مہمان ملنے آئے۔ اُس دن ہولمز نے واٹسن سے اقرار کیا کہ وہ ایک مشورہ گیر سراغ رساں تھا اور وہ مختلف لوگوں کی (اور کبھی پولیس کی) اکثر مدد کیا کرتا تھا۔ اِس بات کو سُن کر واٹسن کو کُچھ حد تک ہولمز کی عادات کی سمجھ میں آگئی اور اُسکے اندازوں کی درستی کا بھی علم ہو گیا۔

ایک مہمان سے گُفتگُو کرتے ہوئے ہولمز واٹسن کو بے تکلفی سے اور استدلال کی مدد سے سمجھاتا ہے کہ وہ اُس مہمان کو نہیں جانتا لیکن بتا سکتا ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کا ایک رٹائرڈ بحری سارجنٹ ہے۔ یہ سُن کر جب وہ مہمان بھی اِس بات سے اتفاق کرتا ہے تو واٹسن ہولمز کے استدلال کی داد دیتا ہے۔ اِسی دورانئے میں ہولمز کو ایک ٹیلیگرام موصول ہوتا ہے۔ اس ٹیلیگرام کے ذریعہ اِسکی مشورہ گیر خدمات کو طلب کیا گیا ہوتا ہے لیکن ہولمز اِس پیغام کی قدر نہیں کرتا۔ واٹسن جب ہولمز سے اُسکی لاتعلقی کی وجہ دریافت کرتا ہے تو ہولمز اُسے سمجھاتا ہے کہ اگر وہ یہ کیس لی بھی لے تو اِسے سُلجھانے کا سارا سہرا پولیس کے افسروں کو مل جائیگا نہ کہ ہولمز کو۔ واٹسن پھر بھی اُسے اِس کیس کی طرف مائل کر لیتا ہے۔

جائے قتل کا جائزہ[ترمیم]

ڈیوڈ ہینری فریسٹن کی نقش کردہ پہلی تصویر جس میں ہولمز ایک محدب شیشے کی مدد سے دیوار پر لکھی تہریر کی جانچ کر رہا ہے۔

اگلے ہی دن، ہولمز اور واٹسن ٹیلیگرام میں لکھے پتے پر پہنچتے ہیں تو وہاں ایک متروکہ قصباتی حویلی کو پاتے ہیں۔ اِس حویلی کے باہر، ہولمز کی ملاقات انسپکٹر گریگسن اور انسپکٹر لیسٹراڈ سے ہوتی ہے۔ ہولمز اور واٹسن کے آنے سے قبل، یہ دو پولیس انسپکٹر یہاں ہوئے ایک قتل کی تفتیش کر رہے تھے ؛ ایک محدب شیشے اور پیمائشی فیتے کی مدد سے ہولمز بھی اِس جگہ کی جانچ کرنے لگ جاتا ہے۔ مقتول ایک اینوک ڈریبر نامی آدمی تھا۔ کمرے میں خون تو موجود تھا لیکن لاش پر زخم کا ایک بھی نشان نہ تھا۔ مقتول پر کچھ دستاویزات ملے جن سے معلوم ہوا کہ وہ لندن اپنے دوست جوزف سٹینگرسن کے ہمراہ آیا تھا۔

لاش سے تھوڑی دوری پر ایک دیوار تھی جس پر خون سے RACHE کے حرف تحریر کیے گئے تھے۔ گریگسن اِس لفظ کی فرضیاتی تشریح کرنے لگتا ہے لیکن ہولمز اُسکے ہر مفروضے کو رد کر دیتا ہے۔ ہولمز پھر سمجھاتا ہے کہ دیوار پر لکھا یہ لفظ جرمن زبان کا ہے اور اِسکے مفہوم انتقام یا بدلہ لینے کے ہیں۔ کُچھ ہی دیر میں ہولمز خود سے قاتل کا فرضی خاکہ پیش کرتے ہوئے سمجھاتا ہے کہ قاتل چھہ فٹ لمبا آدمی ہے جس کا دھڑ بڑا اور ٹانگیں چھوٹی، رنگت سرخ، جُوتوں کا اگلا حصّہ چکور اور منہ میں ٹیروچیراپالی سے برامد ایک سگار ہے۔ وہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ قاتل کے لمبے ناخون ہیں اور اِس نے مقتول کو زہر دے کر مارا ہے۔ یہ سُن کر دونوں انسپکٹران اور واٹسن پریشانی میں ہکّہ بکّہ رہ جاتے ہیں۔

ہولمز کو اِس دوران مقتول کے ہاتوں سے ایک انگوٹھی ملتی ہے۔ ایک کانسٹیبل سے پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نشے میں دھُت شرابی کُچھ دیر پہلے اِس حویلی کے گِرد و نواح میں پایا گیا تھا۔ ہولمز تب یہ اندازہ لگاتا ہے کہ وہ شرابی دراصل قاتل ہی تھا جو اِس انگوٹھی کو لینے کی حسرت سے واپس آیا تھا۔

پراسرار عورت اور غیرت مند بھائی[ترمیم]

لندن واپسی پر شرلاک ہولمز ٹیلیگرام کے ذریعہ دیگر اخبارات میں ملی انگوٹھی کے بارے میں اشتہار چھپواتا ہے۔ ساتھ ساتھ، ہولمز اُس انگوٹھی کی ایک ہو بہو نقل خرید آتا ہے، تاکہ قاتل یا اُسکے علاوہ کوئی اور شخص بھی اگر اُس انگوٹھی کو لینے آئے تو ہولمز اصلی انگوٹھی کو اُنکے ہاتھوں نہ کھو دے۔ اشتہارات کے جواب میں ایک عورت ہولمز سے رابطہ کرتی ہے۔ اِس عورت کے بقول، یہ انگوٹھی اُسکی بیٹی کی تھی۔ ہولمز اِس ضعیف عورت کو نقلی انگوٹھی دے دیتا ہے اور اِسکا پیچھا کرتا ہے۔ واپس آکر وہ واٹسن کو ایک حیرت انگیز کہانی بتاتا ہے۔ ہولمز کے مطابق وہ عورت ایک گھوڑا گاڑی پر چڑھی اور ہولمز خود بھی اِس سواری کے پیچھے لٹک کر سوار ہوا؛ البتہ، جب وہ سواری رُکی تو کسی عورت کا نام و نشان باقی نہ رہا تھا۔ وہ عورت تو جیسے بھُوت کی مانند غائب ہی ہو گئی ہو۔ چنانچہ، ہولمز یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ عورت بھی اُس قاتل کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔

کُچھ دن بعد، گریگسن ہولمز اور واٹسن سے ملنے آتا ہے اور بڑی خوشی سے بتاتا ہے کہ اُس نے مجرم کی شناخت کر لی ہے۔ گریگسن بتاتا ہے کہ وہ میڈم شارپینٹیئر کے بورڈنگ لاج گیا جہاں ڈریبر اور سٹینگرسن نے قتل سے پہلے کئی راتیں بسر اور طعام و قیام کیا تھا۔ لاج سے معلوم ہوا کہ ڈریبر ایک شرابی تھا اور اِس نے کئی دفعہ میڈم شارپینٹیئر کی بیٹی، ایلس، کو شراب کے نشے میں چھیڑنے کی کوشش کی۔ غصّے میں آکر میڈم شارپینٹیئر نے اِن دونوں کو اپنے لاج سے ہی باہر نکال ڈالا۔ جب ڈریبر شراب کے نشے میں بھُولے سے پھر لاج میں آگیا اور ایلس کو چھیڑنے لگا تو ایلس کے بڑے بھائی نے ڈریبر کی پٹائی کرنے کے لیے دور ایک کھیت تک اُسکا پیچھا کیا۔ ہولمز نے گریگسن کو سمجھایا کہ اُس نے ایلس کے بھائی کو محض اتفاقی بنیاد پر گرفتار کر رکھا ہے۔

سٹینگرسن کا قتل[ترمیم]

تھوڑی ہی دیر میں لیسٹراڈ بھی ہولمز کے گھر آ پہنچتا ہے اور اِس بات کا اظہار کرتا ہے کہ کُچھ عرصہ پہلے ہی سٹینگرسن کا بھی قتل ہو چُکا ہے۔ لیسٹراڈ جب سٹینگرسن کے گھر اُسکا انٹرویو لینے کو گیا تو وہاں اُس کو مردہ پایا۔ سٹینگرسن کے سینے میں چاقو کُھبا ہوا تھا۔ لاش ہوٹل کے کمرے میں (جہاں سٹینگرسن رہائش پزیر تھا) کھڑکی کے پاس لدی ہوئی تھی اور اِسکے اوپر دیوار پر پھر سے RACHE لکھا ہوا تھا۔ سٹینگرسن کی لاش کے پاس کُچھ ہی اشیاء پڑی ہوئی تھیں ؛ جن میں ایک ناول، ایک تمباکو کی پائپ اور ایک چھوٹا ڈبہ تھا۔ اِس ڈبے میں دو دوائی کی گولیاں تھیں۔ لیسٹراڈ نے اِس دوائیوں کے ڈبے کو پاس ہی رکھ لیا تھا۔

ہولمز نے لیسٹراڈ سے وہ ڈبہ مانگا اور اِس میں سے ایک دوائی کی گولی نکال کر اپنے پڑوسی کے کُتّے کو کھِلا دی۔ پہلی گولی سے تو کُتّے کو کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن دوسری گولی کھاتے ساتھ ہی کُتّا مر جاتا ہے۔ ہولمز اندازہ لگاتا ہے کہ ایک گولی غیر مضر تھی جبکہ دوسری میں زہر تھا۔

مجرم کی گرفتاری[ترمیم]

اتنی دیر میں بیکر سٹریٹ کا ایک سڑک چھاپ بدمعاش لڑکا ہولمز کے کمرے میں آ گھُستا ہے۔ ویگنز نامی یہ لڑکا بیکر سٹریٹ کے بے قاعدہ ٹولے کا سردار تھا اور اکثر ہولمز کی مدد کیا کرتا تھا۔ ویگنز ہولمز کو بتاتا ہے جس گھُڑ سوار ٹیکسی والے کو ہولمز نے طلب کیا تھا وہ نیچے اُسکا انتظار کر رہا ہے۔ ہولمز اِس آدمی کو اوپر بلاتا ہے اور جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوتا ہے، ہولمز اِسے ہٹکڑیوں میں جکڑ لیتا ہے۔ ہولمز پھر یہ اعلان کرتا ہے کہ اِس آدمی کا نام جیفرسن ہوپ تھا اور اِس نے ڈریبر اور سٹینگرسن کا قتل کیا تھا۔

مورمنیت کے رکھوالوں کا ایک لشکر جو یوٹاہ کی ریاست میں سرگرم تھے۔

حصّہ دوم: اولیا کا دیش[ترمیم]

اِس مرحلے پر یہ کہانی ایک سابقہ منظر کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ 1847ء میں امریکی ریاست یوٹاہ میں جان فیریئر نامی ایک آدمی، لوسی نامی ایک چوٹی لڑکی کے ہمراہ پتھر سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ دونوں آب رُبانی اور بھُوک کی وجہ سے بیہوشی کی نیند سو جاتے ہیں۔ ایک مورمن قبیلے کا جب اِن دونوں کے پاس سے گُزر ہوا تو انھوں نے اِن دونوں کی جانیں بچا لیں۔ اِس قبیلے نے اُنکی جان لیکن اِس شرط پر بچائی کہ یہ دونوں بھی مورمنیت کا مذہب اپنا لیں۔ مورمنیت اپنانے پر فیریئر ایک قابل شکاری کے طور پر سامنے آیا۔ قبیلے کے سردار، بریگہم ینگ، نے فیریئر کو ایک زمین توہفے میں دی۔ جب مورمنیت کے درس داروں نے سالٹ لیک سٹی کے شہر کی بنیاد ڈالی تو فیریئر نے اپنی زمین پر ایک فصل لگائی اور فارم بنا ڈالا۔ اِس دورانئے میں لوسی کو ایک جیفرسن ہوپ نامی آدمی سے پیار ہو جاتا ہے۔

لوسی کا فیصلہ[ترمیم]

لوسی اور ہوپ کی کُچھ ہی دیر میں منگنی ہو جاتی ہے۔ منگنی کے فوراً بعد ہوپ کو کام کے لیے تین مہینے کے سفر پر کہیں جانا پڑ جاتا ہے۔ اِس دورانئے میں، ینگ کی ملاقات فیریئر سے ہوتی ہے اور فیریئر اُسے بتاتا ہے کہ مورمنیت کے مذہب کے اعتبار سے لوسی اور ہوپ کی شادی نہیں ہو سکتی۔ ینگ کے مطابق لوسی کی شادی اینوک ڈریبر یا جوزف سٹینگرسن سے ہونی چاہیے۔ ڈریبر اور سٹینگرسن دونوں ہی مورمنیت کے چار بڑے کونسل ارکان میں سے ہوتے ہیں۔ لوسی کو اب بس یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اِن دونوں میں سے کس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ ینگ، فیریئر اور لوسی کو ایک مہینے کی موہلت دیتے ہوئے، خیرباد کہہ کر چلا جاتا ہے۔

فیریئر نہیں چاہتا کہ اِسکی بیٹی کسی اور سے شادی کرے اور اس لیے وہ ہوپ کو ایک ہنگامی بلاوا بھجواتا ہے۔ ایک طرف ہوپ کو پیغام پہنچتا ہے اور دوسری طرف ڈریبر اور سٹینگرسن فیریئر سے ملاقات کرنے اِسکے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ فیریئر غصّے میں اِن دونوں کو اپنے گھر سے نکال دیتا ہے۔ اِس واقعہ کے بعد، مورمنیت کے درس دان روز آکر فیریئر کے فارم پر اِسکی موہلت کے بقیہ دنوں کو لکھ جاتے تھے۔ موہلت کے آخری دن، ہوپ واپس آ پہنچتا ہے اور فیریئر اور لوسی کو رات کے اندھیرے میں چوری سے سالٹ لیک سٹی سے دور لے جاتا ہے۔

ہوپ کا انتقام[ترمیم]

ایک دن جب ہوپ شکار سے واپس آتا ہے تو فیریئر کو ایک قبر میں دفن پتا ہے۔ لوسی کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا۔ ہوپ چُپکے سے سالٹ لیک سٹی پہنچتا ہے جہاں اُسے پتا چلتا ہے کہ لوسی کی شادی اینوک ڈریبر سے ہو چکی ہے اور سٹینگرسن نے دراصل فیریئر کو قتل کیا ہوتا ہے۔ لوسی کی ایک مہینے میں ہی وفات ہو جاتی ہے اور ڈریبر کو وراثت میں فیریئر کا فارم مل جاتا ہے۔ ڈریبر کو اپنی بیوی کی موت کا بالکل بھی افسوس نہیں ہوتا۔ ہوپ، رات کے اندھیرے میں، ایک آخری دفعہ ڈریبر کے گھر میں داخل ہوتا ہے اور لوسی کی مردہ لاش کو بوسہ دیکر اِسکی انگوٹھی اُتار لے جاتا ہے۔ انتقام کی خواہش لیے، ہوپ ڈریبر اور سٹینگرسن کا پیچھا کرنا شروع کر دیتا ہے۔

ہوپ غم برداشت نہیں کر سکا اور اِسکی شہ رگ پر ایک شریانی پھیلاؤ ابھر آیا۔ علاج کے لیے ہوپ پیسے جما کرنے لگ گیا اور کچھ عرصے کے لیے شہر چھوڑ کر کام کی تلاش میں دیگر اور شہروں کا رُخ کر لیا۔ واپس آنے پر ہوپ کو پتا چلا کہ ڈریبر اور سٹینگرسن دونوں ہی لندن جا چکے ہیں۔

حالیہ واقعات[ترمیم]

کہانی اِس موڑ پر حالیہ پس منظر کی طرف لوٹ آتی ہے، جہاں ہوپ ہولمز، واٹسن اور دونوں پولیس افسران کے ساتھ تھانے کا رُخ کرتا ہے۔ ہوپ پھر بتاتا ہے کہ کس طرح لندن پہنچ کر وہ ایک گھُڑ سوار ٹیکسی والا بن گیا اور ڈریبر اور سٹینگرسن کا پیچھا کرنے لگا۔ جب ایؤسٹن سٹیشن پر ان دونوں کی ریل گاڑی چھوٹ جاتی ہے تو ڈریبر سٹینگرسن کو اُسکا انتظار کرنے کا کہہ کر میڈم شارپنٹیئر کے لاج واپس چلا آتا ہے۔ وہاں پر جب ایلس کا بھائی اُسکا پیچھا کرتا ہے تو ڈریبر ایک شراب خانے میں بھاگ کر چھپ جاتا ہے۔ شراب کے نشے میں دھُت، ہوپ کی گھوڑا گاڑی میں یہ سواری لینے کی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ ہوپ اِسے ایک سنسان اور گنجان حویلی میں لے آتا ہے۔ یہاں ہوپ اُسے یاد دلاتا ہے کہ وہ کون ہے اور ایک ڈبے میں دو گولیاں اِسکے آگے رکھ دیتا ہے۔ ہوپ سمجھاتا ہے کہ اگر خدا ڈریبر کے ساتھ ہے تو وہ زہر ولی گولی نہیں کھائے گا۔

جب ڈریبر کے ہاتھ زہریلی گولی لگ جاتی ہے تو ہوپ اس کی لاش کو دیکھ کر خوشی میں سما نہیں پاتا۔ شریانی پھیلاؤ کی وجہ سے اِسکی ناک سے نکسیر پھوٹ پڑتی ہے۔ یہ اپنے ہی خون سے دیوار پر RACHE لکھ آتا ہے۔ اپنی سواری تک پہنچنے پر ہوپ کو یاد آتا ہے کہ یہ لوسی کی انگوٹھی ڈریبر کے ہاتھوں میں ہی بھول آیا ہے۔ واپس آنے پر پولیس کے کانسٹیبل کو دیکھ کر ہوپ ایک شرابی کا ناٹک کرتا ہے لیکن انگوٹھی تک پہنچ نہیں پاتا۔ وہ ایک ضعیف عورت کو پیسے دیکر ہولمز سے انگوٹھی وصول کرنے کو بھیجتا ہے۔

بعد از، ہوپ سٹینگرسن کو ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔ سٹینگرسن کے ہوٹل تک پہنچ تو جاتا ہے لیکن سٹینگرسن اپنے دوست کی موت کا سُن کر کمرے سے باہر قدم تک نہیں رکھتا۔ اُکسا کر ہوپ اوپری منزل کی کھڑکی پھلانگ کر اِسکے کمرے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں وہ سٹینگرسن کے سامنے بھی وہی فیصلہ رکھ چھوڑتا ہے۔ سٹینگرسن اِسکی نہیں سُنتا اور غصّے میں ہوپ اِسکے دل کو خنجر سے چیر دیتا ہے۔

ہولمز کا استدلال[ترمیم]

تھانے سے واپسی پر ہولمز واٹسن کو سمجھاتا ہے کہ کس طرح اِس نے مجرم کی شناخت کی اور بیکر سٹریٹ کے بے قاعدہ ٹولے کی مدد سے اِس گھُڑ سوار کو اپنے گھر بلوایا۔ کہانی کے اختتام میں ہولمز واٹسن کو شام کا اخبار دکھاتا ہے جس میں کیس کا سارا سہرا، عین ہولمز کے مطابق، لیسٹراد اور گریگسن لے جاتے ہیں۔ دوسری طرف شریانی پھیلاؤ کے پھٹ جانے سے ہوپ کی موت سلاخوں کے پیچھے ہی واقع ہو جاتی ہے۔ اِسکی مردہ لاش پر ایک مُسکراہٹ عیاں ہوتی ہے۔

مورمنیت کی عکاسی[ترمیم]

1994ء میں شائع ہونے والے سالٹ لیک سٹی کے ایک اخبار کے مطابق، جب آرتھر کونن ڈویل سے اِنکی مورمونیت کی ناپسند عکاسی پر وضاحت مانگی گئی تو انھوں نے اپنی تحریروں میں اِس مذہب کے پیروکاروں کی اغوا سازی، قتل اور غلاموں کے استعمال میں مُنسلک ہونے پر کہا کہ "ڈینائٹ لشکر کے بارے میں یہ تمام افواہیں 1890ء کی دہائی میں ہمیشہ سچ ہی مانی جاتی رہیں تھیں ؛ مگر یہ الگ بات تھی کہ تاریخی کتابوں کے عوض افسانوی کہانیوں میں اِسے بڑھا چڑھا کر لکھنا مناسب تھا۔ "

ڈویل کی بیٹی نے بعد میں اپنے والد کے اِس کام کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ، "اگر میرے والد کو موقع دیا جاتا تو وہ شاید اِس بات کا سب سے پہلے اقرار کرتے کہ وہ مورمنیت کے بارے میں غلط تھے۔ "

ڈویل کی موت کے کافی برس بعد، بریگہم ینگ کی آل اولاد میں سے ایک لیوائی ایڈگر ینگ نامی مورمنیت کے مقتدر نے اِس بات کا کشف کیا کہ ڈویل نے نجی طور پر مورمنیت کے بانیوں سے معافی مانگی تھی اور اِس بات کا بھی اظہار کیا تھا کہ اُنکی لکھی اس کتاب سے مورمنیت کے مذہب کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

کتاب میں مورمنیت کی ناپسند عکاسی ہونے کی وجہ سے آلبیمارل کاؤنٹی، ورجینیا میں چھٹی جماعت کے لیے اِس کتاب پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ البتہ، بعد از اِسے دسویں جماعت میں پڑھایا جانے لگا۔

دیگر کاموں میں اس کہانی کی موافقت[ترمیم]

جیمز جوائس کی ناول اوڈیسیئس میں جیفرسن ہوپ کی انتقامی کھوج کے موافق ایک کہانی ملتی ہے۔ اِن دونوں کہانیوں کی موافقت کو سیموئیل روزنبرگ نے اپنی کتاب نیکد از دی بیسٹ دسگائیز میں متعارف کرایا۔

اساطیری قصص دان اور کامک نگار نیل گیمن نے اِس کہانی کی طرز پر ایک کہانی لکھی اور اُسکا نام اے اسٹڈی ان ایمرالڈ رکھا؛ ساتھ میں نیل گیمن نے اِس کہانی کو ایچ پی لووکرافٹ کی خوفناک کہانی ختھالو مائتھوس میں پیش کردہ کائنات سے بھی جا ملایا۔

اشاعت و نشریات[ترمیم]

ناول لکھتے وقت ڈویل کی عمر 27 سال کی تھی اور انھوں نے اِس ناول کو تین ہفتے کے اندر ختم کر ڈالا۔ ساؤتھ سی، پورٹسماؤت میں ایک مشاقی ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے اِن کی کہانیاں اکثر دیگر میگزینوں کی زینت بنا کرتی تھیں جن میں لندن سوسائٹی کا میگزین بھی شمار تھا۔ اِس کہانی کا اصل نام دی تنگلڈ سکیں (انگریزی: The Tangled Skein؛ ترجمہ: الجھی چادر) تھا لیکن جب کافی دھُتکار کے بعد اِسے وارڈ لاک اینڈ کمپنی کے شمارے سالانہ بیٹنز کرسمس میں شامل کیا گیا تو مدیران نے اِس کا نام تبدیل کر دیا۔ اِس کہانی کے شائع ہونے کے عوض ڈویل کو 25£ کا معاوضہ دیا گیا۔ البتہ، ڈویل نے اِس کے بدلے اپنی کہانی پر بس خود مختار حق ہی مانگا۔ اِس پہلی اشاعت کے لیے داؤد ایچ فرسٹن نے تصویریں نقش کیں۔

وارڈ لاک اینڈ کمپنی کی کاوشوں کے ذریعہ اِس کہانی کو ایک ناول کی شکل جولائی 1888ء میں ملی۔ اِس ناول کے لیے ڈویل کے والد چارلس ڈویل نے ایک مفسر کے اعتبار سے تصویریں نقش کیں۔ اگلے سال، اِس کی دوسری بار اشاعت ہوئی جس میں جارج ہچنسن نے تصویریں نقش کیں۔ 1890ء میں اِس کتاب کو [[جے بی لیپنکاٹ اینڈ کمپنی]] نے امریکا میں شائع کیا۔ اِس کے بعد دیگر اور ملکوں میں اِس کہانی کے ترجمے اور ڈرامائی موافقتیں بنائی گئیں۔ آج تک اِس کہانی کا ترجمہ اُردُو زبان میں دستیاب نہ ہو سکا۔

استقبالیہ اور پزیرائی[ترمیم]