بیگم اختر ریاض الدین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بیگم اختر ریاض الدین
معلومات شخصیت
پیدائش 15 اکتوبر 1928ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کولکاتا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 11 جنوری 2023ء (95 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

بیگم اختر ریاض الدین [پیدائش 1928ء _ وفات 11 جنوری 2023ء) معروف مصنفہ ، سفر نامہ نویس، مورخ

ان کا اصل شعبہ درس و تدریس تھا، اس کے ساتھ ساتھ اردو میں لکھنا جاری رکھا۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ انگریزی اور اردو مضامین لکھنے کا شوق بھی انھوں نے برابر جاری رکھا ان کے انگریزی مضامین پاکستان ٹائمز میں شائع ہوتے رہے، نیز سفرنامے ملک کے بلند پایہ جرائد میں چھپتے رہے ،

پیدائش[ترمیم]

وہ 15 اگست 1928 کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔

تعلیم[ترمیم]

1949 میں کنیرڈ کالج لاہور سے گریجوایشن کرنے کے بعد 1951 میں انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے کیا،

تدریس[ترمیم]

جس کے بعد انھوں نے اسلامیہ کالج برائے خواتین لاہور میں انگریزی پڑھانا شروع کیا اور 1952 سے 1965 تک اس شعبے سے وابستہ رہیں

شادی[ترمیم]

اُن کی شادی معروف سی ایس پی افسر میاں ریاض الدین احمد سے ہوئی جنھوں نے پاکستان ہاکی فیڈریشن فیڈریشن بنائی اور جن کی قیادت میں پاکستان ہاکی ٹیم نے 1960ء کے اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا۔ میاں ریاض الدین احمد پاکستان میں کواپریٹوز کے بھی سب سے بڑے ماہر تھے اور اسلام آباد کلب کے دوسرے صدر بھی تھے۔

اُن کی تین بیٹیوں میں سے سب سے بڑی نگار احمد کا، جو این جی او عورت فائونڈیشن کی بانی تھیں ، انتقال ہو چکا ہے۔ دوسری بیٹی شہوار رحیم ٹی وی وَن کے ساتھ منسلک ہیں ، جبکہ تیسری بیٹی شہناز احمد انتھروپالوجسٹ ہیں۔

ادبی زندگی[ترمیم]

ان کے خاوند کو سرکاری فرائض کے سلسلے میں مختلف ممالک کے سفر پرجانا پڑا۔ اختر نے بھی اپنے شوہر کے ساتھ ان علاقوں کی سیر کی اور ادبی شوق کی وجہ سے ان ممالک کے سفرنامے بھی تخلیق کیے اور ان میں یورپ،ایشیا اور امریکہ کے ممالک کے متعلق اپنے دو سفرنامے سات سمندر پار اور دھنک پر قدم لکھے، جو بہت مشہور ہوئے۔ ان کو پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھر بیٹھے ان ممالک کی سیر کر رہے ہیں۔

اختر ریاض الدین نے مصنفہ کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز 1963ء اپنا پہلا سفر نامہ "سات سمندر پار" لکھ کر کیا ، جو چھپتے ہی بہت مقبول ہو گیا۔ 1969ء میں ان کا دوسرا سفر نامہ "دھنک پر قدم شائع ہوا، جس پر انھیں 1970ء میں آدم جی ایوارڈ اور پاکستان رائٹرز گِلڈ ایوارڈ دیا گیا۔ اُن کی تیسری کتاب اے ہسٹری آف کرافٹ اِن انڈیا لندن میں 1975ء میں اور پاکستان میں 1990ء میں شائع ہوئی۔ وہ کئی اور کتابیں بھی تصنیف کرنا چاہتی تھیں جن پر مختلف وجوہ کی بنیاد پر کام نہیں ہو سکا۔

سماجی خدمات[ترمیم]

بیگم اختر ریاض الدین نے کم آمدنی والے گھرانوں کی عورتوں کی بہبود کے لیے بھی بہت کام کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے1967ء میں بہبود ایسو سی ایشن قائم کی جس کی وہ بہت عرصے تک چیر پرسن رہیں۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں انھیں وومنز ڈویژن کا وفاقی سیکرٹری مقرر کیا گیا۔

تصانیف[ترمیم]

طرز تحریر کی خصوصیات[ترمیم]

بیگم اختر ریاض الدین کی تحریر کی ایک خصوصیت ان کی منظر نگاری ہے۔ انھوں نے ترقی پزیر ممالک کا دورہ کیا اور وہاں کی حالات کی جو منظر کشی کی، اس میں ذرہ بھر بھی شک کی گنجائش نہیں۔

ایوارڈ[ترمیم]

بیگم اختر ریاض الدین کی محنت،کاوشوں اور قابیلیت کی بنا پر انھیں ان کی ایک تصنیف دھنک پر قدم پر انھیں آدم جی ادبی انعام بھی مل چکا ہے۔

وفات[ترمیم]

11 جنوری 2023ء کو کراچی میں وفات پا گئیں ،

مزید دیکھیے[ترمیم]

سات سمندر پار