تاریخ پشاور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پشاور 1870ء میں

پشاور پاکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے،یہ پاکستان کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا کا صوبائی دار الحکومت ہے۔

قدیم پشاور[ترمیم]

وسطی، جنوبی اور مغربی ایشیاء کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے پشاور صدیوں سے افغانستان، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک مرکز کی حیثیت سے قائم چلا آیا ہے۔ قدیم تعلیمی مرکز ہونے کی وجہ سے دوسری صدی قبل مسیح میں بکھشالی طرزِ تحریر پر مشتمل ایک ریاضی کلیہ (جذر معلوم کرنا) اس کے نزدیک سے برآمد ہوئی ہے۔

وید دیومالا میں پشاور اور آس پاس کے علاقے کو "پشکلاوتی" کے نام سے جانا جاتا ہے جو "رامائن" کے بادشاہ "بھارت" کے بیٹے "پشکل" کے نام سے منسوب ہے۔ تاہم اس بارے ابھی کوئی یقینی رائے موجود نہیں۔ مصدقہ تاریخ کے مطابق اس علاقے کا عمومی نام "پورش پورہ" (انسانوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور بن گیا۔ دوسری صدی عیسوی میں مختصر عرصے کے لیے وسطی ایشیا کے توچاری قبیلے "کشان" نے پشاور پر قبضہ کر کے اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔

اس کے بعد 170 تا 159 ق م اس علاقے پر یونانی باختر بادشاہوں نے حکمرانی کی اور اس کے بعد مملکتِ یونانی ہندکے مختلف بادشاہ یہاں قابض ہوتے رہے۔ ایک تاریخ دان کے مطابق پشاور کی آبادی 100 عیسوی میں 1،20،000 کے لگ بھگ تھی اور اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 7واں بڑا شہر تھا۔ بعد میں پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکمرانوں نے قبضہ کیے رکھا۔

گندھارا پشاور[ترمیم]

کشان حکمران "کنیشکا" 127 عیسوی کے لگ بھگ بادشاہ بنا، نے اپنا دار الحکومت پشکلاوتی (موجودہ چارسدہ) سے منتقل کر کے پورش پورہ (موجودہ پشاور) قائم کیا۔ دوسری صدی عیسوی سے بدھ بھکشو زرتشت، ہندو اور روحیت کے پشاور زرتشت مذہب کے کشان حکمرانوں سے مشاورت کر نے آتے رہے تھے۔ کشان حکمرانوں نے ان کی تعلیمات سے متائثر ہو کر بدھ مت قبول کر لیا اور بدھ مت کو شہر میں سرکاری درجہ مل گیا۔ حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پشاور بدھ مت کی تعلیمات کا اہم مرکز بن گیا جبکہ آبادی کی اکثریت زرتشت اور روحیت کی پیروکار رہی۔

بدھ مت کے مخلص پجاری ہونے کی حیثیت سے کانیشکا نے اس دور کی دنیا کی بلند ترین عمارت بنوائی جو بدھ مت کا سٹوپا تھا اور جہاں بدھ مت سے متعلق مذہبی تبرکات جمع کیے گئے تھے۔ یہ سٹوپا پرانے پشاور کے گنج دروازے کے ساتھ باہر بنا ہوا تھا۔ اس سٹوپا کے بارے قدیم ترین روایت چینی سیاح اور بھکشو فاہیان کی تحریر سے ملتی ہے جو یہاں 400 عیسوی میں آیا تھا۔ اس کے مطابق سٹوپا کی بلندی 40 چانگ سے زیادہ یعنی اندازہً 120 میٹر تھی اور اس پر ہر طرح کے قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے۔ فاہیان کے مطابق اس نے آج تک جتنے مندر اور سٹوپا دیکھے تھے، کانیشکا سٹوپا ان سے کہیں زیادہ خوبصورت اور مضبوط تر تھا۔ آسمانی بجلی گرنے سے سٹوپا تباہ ہوا اور کئی بار اس کی مرمت کی گئی۔ ہیون سانگ کی 634 عیسوی میں آمد تک سٹوپا کا ذکر ملتا ہے۔ بدھا سے منسوب تبرکات جو ایک جواہرات جڑی ٹوکری میں رکھے تھے، کو 1909 میں سٹوپا کے عین وسط میں ایک زیر زمین کمرے سے کھدائی کر کے ڈاکٹر ڈی بی سپونر نے نکالا۔

مسلم حملہ آور[ترمیم]

خُراساں پر عرب قبضے کے بعد پشتون اسلام لانے لگے۔ 1001 عیسوی میں ترک بادشاہ محمود غزنوی نے اپنی غزنوی سلطنت کو افغانستان سے آگے برصغیر تک پھیلایا۔ 997 میں سبگتگین کی وفات کے بعد خراساں کا گورنر ان کا بیٹا محمود بنا جس نے بعد ازاں سامانی بادشاہت سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی سلطنت قائم کی اور 999 عیسوی میں سلطان کا لقب اختیار کیا۔

ابتدائی دور میں پشاور کے علاقے میں کئی خونریز جنگیں ہوئیں جن کا آغاز محمود اور ہندو بادشاہ جیا پالا کے درمیان جنگ سے ہوا۔ جیا پالا کی مستقل خواہش تھی کہ سبگتگین کے ہاتھوں چھینی گئی سلطنت کو واپس لیا جائے۔ جیا پالا کی مدد کے لیے کچھ پٹھان تو تھے لیکن ان کی حمایت زیادہ دیر تک نہ چل سکی۔

نومبر 1001 میں جیا پالا کی شروع کی ہوئی جنگ میں اسے شکست ہوئی اور اس سمیت اس کی فوج قیدی بنی۔ آزاد ہونے پر اس نے اپنے بیٹے آنند پال کو بادشاہ بنایا۔ محمود نے پٹھانوں کو سزا دی اور مسلمان ہونے کے بعد وہ محمود کے ساتھ وفادار ہو گئے۔

پشتون، مغل اور مرہٹہ قبضے[ترمیم]

افغان (پشتون) شہنشاہ شیر شاہ سوری نے پشاور کی تعمیر نو کو تیزی دی اور اس نے اپنی دہلی سے کابل کی شاہراہ درہ خیبر کے راستے 16ویں صدی میں بنوائی اور بعد میں مغلوں نے پشاور پرقبضہ کر لیا۔ مغل بادشاہت کا بانی بابر جب موجودہ دور کے ازبکستان سے پشاور پہنچا اور بگرام کا شہر آباد کرایا اور 1530 میں قلعہ دوبارہ بنوایا۔ بابر کے پوتے اکبر نے اس کا نام بدل کر پشاوا کر دیا جس کا مطلب ہے "سرحد پر واقع جگہ"۔ دنیا بھر سے مسلمان صوفیا، مشائخ، استاد، معمار، سائنس دان، تاجر، سپاہی، افسرِ شاہی، ٹیکنو کریٹ وغیرہ غول در غول جنوبی ایشیاء کی اسلامی سلطنت کو آن پہنچے۔ مغربی ایران کی طرح یہاں بھی شجر کاری اور باغات اگانے سے پشاور شہر "پھولوں کا شہر" بن گیا۔

خوشحال خان خٹک جو مشہور افغان/پشتون شاعر تھے، پشاور کے نزدیک پیدا ہوئے اور ان کی زندگی پشاور سے وابستہ ہو رہی۔ افغان آزادی کی حمایت کرنے کی وجہ سے یہ مغل بادشاہوں بالخصوص اورنگزیب کے لیے مستقل سر درد بنے رہے۔ 18ویں صدی میں ناصر شاہ کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد پشاور پر ایران نے قبضہ کر لیا۔ 1747 میں لوئیہ جرگہ نے پشاور کو افغان درانی حکومت کا حصہ بنا دیا جس پر اس وقت احمد شاہ درانی کی حکومت تھی۔ 1776 میں احمد شاہ کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے پشاور کو اپنا سرمائی دار الحکومت بنایا اور بالا حصار کا قلعہ افغان بادشاہوں کی قیام گاہ بن گیا۔ درانی دورِ حکومت میں پشتونوں نے جنوبی ایشیا پر حملوں میں حصہ لیا۔ 19ویں صدی کے آغاز پر سکھوں کے قبضے تک پشاور درانیوں کے سرمائی دار الحکومت کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔

پشاور پر مختصر عرصے کے لیے مرہٹوں کا قبضہ بھی رہا جو ہندوستان کی سلطنت پر قابض تھے۔ انھوں نے 8 مئی 1758 کو قبضہ کیا۔ بعد میں افغان درانیوں کے بڑے لشکر نے 1759 میں پشاور پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔...

سکھ حکمرانی[ترمیم]

1812 میں پشاور پر افغانستان کا قبضہ ہوا لیکن جلد ہی اس پر سکھوں نے حملہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ برطانوی مہم جو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابقہ ایجنٹ ولیم مور کرافٹ کی سربراہی میں ایک مہم پہنچی تو اسے کابل کی حکومت اور لاہور کے سکھ حکمرانوں سے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا گیا۔ مور کرافٹ کو پشاور کی گورنر کا عہدہ بھی پیش کیا گیا اور علاقے کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے وفاداری پیش کی گئی جسے اس نے رد کر کے اپنا سفر پشاوری فوجیوں کے ساتھ ہندوکش کا سفر جاری رکھا اور کابل جا پہنچا۔ 1818 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پشاور پر قبضہ کر کے یہاں کا دورہ کیا اور 1834 میں اسے سکھ ریاست میں شامل کر لیا اور شہر کا زوال شروع ہو گیا۔ مغل دور کے بہت مشہور سارے باغات تباہ کر دیے گئے۔ سکھوں کے نمائندے کے طور پر اطالوی باشندے پاولو آویتابائل نے حکمرانی کی اور اس کے دور کو پھانسیوں اور سولیوں کا دور کہا جاتا ہے۔ پشاور کی مشہور مسجد مہابت خان جو 1630 میں بنائی گئی تھی، کو سکھوں کے دور میں تباہ کر دیا گیا۔

سکھ مت کو قائم رکھنے کے لیے ہری سنگھ نلوا نے گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ اور گوردوارہ بھائی بیبا سنگھ بنوائے۔ اگرچہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پشاور سے سکھوں کی آبادی انتہائی کم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی افغانستان اور قبائلی علاقوں سے پناہ کی تلاش میں آنے والے 4000 سکھوں کی وجہ سے آبادی پھر کسی حد تک بڑھ گئی ہے۔ 2008 میں پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہی آباد تھی۔ پشاور کے سکھ خود کو پشتون کہلاتے اور بطور مادری زبان ہندکو بولتے ہیں۔

1835 میں دوست محمد خان کو شہر پر قبضے میں اس وقت ناکامی ہوئی جب اس کی فوج نے دل خالصہ کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوست محمد خان کا بیٹا محمد اکبر خان 1837 کی جمرود کی جنگ میں پشاور پر قبضے میں تقریباً کامیاب ہو گیا تھا لیکن پھر اسے ناکامی ہوئی۔ سکھوں کی حکمرانی 1849 میں اس وقت ختم ہوئی جب مہاراجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ جیت لی۔

پشاور پر برطانوی راج[ترمیم]

1849 میں سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ کے بعدپشاور انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1857 کی سپاہیوں کی بغاوت کے بعد مقامی فوجیوں کے 4000 افراد کو بغیر خون بہائے غیر مسلح کر دیا گیا۔ اس طرح 1857 کی بغاوت کے بعد پورے ہندوستان میں ہونے والے خون خرابے سے پشاور بچ نکلا۔ مقامی سرداروں نے برطانوی راج کا ساتھ دیا۔ شہر کے باہر کے پہاڑوں کے نقشے 1893 میں سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے بنائے جو اس وقت برٹش انڈیا حکومت کا خارجہ سیکریٹری تھا۔ اس نے افغان حکمران عبد الرحمان خان کے ساتھ مل کر افغان سرحد کا نقشہ بنایا۔

1868 میں شہر کے مغرب میں برطانیہ نے ایک بڑی چھاؤنی قائم کی اور پشاور کو اپنا سرحدی مرکزی مقام بنا دیا۔ مزید برآں پشاور میں انھوں نے کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے جن میں شہر کو بذریعہ ریل ملک کے دیگر حصوں سے ملانے اور مسجد مہابت خان کی تعمیر و تزئین شامل ہے۔ برطانیوں نے کننگہیم کلاک ٹاور بھی بنایا جو ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے سلسلے میں بنایا گیا تھا۔ 1906 میں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں وکٹوریہ ہال بنایا جہاں اب پشاور کا عجائب گھر قائم ہے۔ مغربی تعلیم دینے کے لیے برطانیہ نے ایڈورڈز کالج اور اسلامیہ کالج 1901 اور 1913 میں بالترتیب بنائے اور بہت سارے اسکول بھی بنائے جن کو اینجلیکن چرچ چلاتا ہے۔

پشاور پشتون اور ہندکو مشاہرین کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ہندکو بولنے والے افراد برطانوی راج میں یہاں کی ثقافت پر غالب اثر رکھتے تھے۔

پشاور میں ہی غفار خان کی چلائی ہوئی عدم تشدد کی تحریک سامنے آئی جو موہنداس گاندھی سے متائثر تھی۔ اپریل 1930 میں مقامی افراد کے بڑے گروہ نے قصہ خوانی بازار میں پرامن مظاہرہ کیا کہ ان کے خلاف برطانیہ نے امتیازی قوانین بنائے ہیں۔ برطانوی افواج کی فائرنگ سے 400 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے اور ان 400 شہیدوں کی یاد میں ایک یادگار بھی یہاں موجود ہے جسے یادگار شہیداں کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جدید پشاور[ترمیم]

1947 میں پشاور نوزائیدہ پاکستان کا حصہ بن گیا کہ مقامی سیاست دانوں نے پاکستان میں شمولیت کی منظوری دی۔ اگرچہ اکثریت اس الحاق کے حق میں تھی لیکن عبد الغفار خان کی قیادت میں ایک چھوٹے گروہ کا خیال تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایک کنفیڈریشن زیادہ بہتر ہوتی اور انھوں نے متحدہ ہندوستان کو بہتر سمجھا۔ تاہم عوام کی بھاری اکثریت متحدہ ہندوستان اور خود کو ہندوستانی کہلوانے کے سخت مخالف تھے۔ انتہائی قلیل تعداد پشاور کو افغانستان میں شامل دیکھنا چاہتی تھی۔ یہی خیال بعد ازاں پشتونستان کی بنیاد بنا جو پاکستان اور افغانستان، دونوں سے آزاد ریاست ہوتی۔

نئے پاکستان کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی نیت سے افغانستان نے دو رخہ حکمت عملی تیار کی تاکہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو عدم استحکام کا شکار بنا سکے۔ ایک طرف تو اس نے پاکستان کے مخالف ہندوستان سے دوستی کی تو دوسری طرف روس کے ساتھ بھی دوستی شروع کر دی جو بالآخر افغانستان پر روسی حملے پر منتج ہوئی۔ دوسری طرف اس نے 1960 کی دہائی میں اپنی مرضی کے سیاست دانوں کو معاشی امداد مہیا کی۔ 1960 کی دہائی سے 1970 کی دہائی تک اس حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ رہا تاہم بعد میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کو قبول کر لیا تاہم پنجابی طبقہ اشرافیہ کے خلاف ان کی ناپسندیدگی بڑھتی رہی۔ پشتونوں کو پاکستان میں شامل ہونے کے بعد پاکستانی سیاست اور قومی افسرِ شاہی میں بھی آنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں ایوب خان جو ایک پشتون تھے، پاکستان کے صدر بن گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پاکستان کا حصہ بننے کو قبول کر لیا اور ایک انتہائی چھوٹی اور غیر اہم سیاسی جماعت پختونخوا ملت پارٹی نے پاکستان اور افغانستان سے علیحدگی کی باتیں جاری رکھیں۔ اگرچہ علیحدگی کی تحریک بہت کمزور تھی لیکن پاک افغان تعلقات میں اس کی وجہ سے مستقل دراڑ پڑ گئی۔ آج پشاور کے پشتون خود کو فخریہ پاکستان کے رکھوالے اور پاکستانی کہلاتے ہیں۔

1950 کی دہائی کے وسط تک پشاور دیواروں کے بیچ گھرا شہر تھا جس کے 16 دروازے تھے۔ ان میں کابلی دروازہ سب سے زیادہ مشہور تھا۔ جنوری 2012 میں اس وقت کے ڈی سی او سراج احمد نے اعلان کیا کہ "وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے تمام پرانے دروازے پرانی حالت میں بحال کر دیے جائیں گے"۔ شہری آبادی کے تناسب سے شہر کا حجم نہیں بڑھا اور اسی وجہ سے آلودگی اور آبادی کی گنجانی کی وجہ سے شہر پر برے اثرات ہور ہے ہیں۔ آبادی کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں افغان گاڑیاں بھی شہر سے گذرتی ہیں جس سے شہر کی فضاء مزید آلودہ ہو رہی ہے۔

گاڑیوں کے دھوئیں سے کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، دھواں، مٹی اور ٹیٹرا ایتھائل لیڈ پھیلتا ہے۔ ایندھن میں ملاوٹ اور غیر معیاری مرمت شدہ گاڑیوں کی وجہ سے مزید آلودگی بڑھ رہی ہے۔ بری حالت میں موجود سڑکوں اور سڑک کے کچے کناروں پر چلنے والی گاڑیوں سے بہت دھول اڑتی ہے۔ افغان سرحد پر ہونے کی وجہ سے پشاور میں بہت بڑی تعداد میں افغان ٹریفک بھی آتی ہے۔

1980 میں افغان جنگ کی وجہ سے پشاور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ مجاہدین گروپوں کے سیاسی مرکز اور افغان مہاجر کیمپوں کا مرکز رہا۔ اکثر روسی جاسوس ان گروہوں میں گھس کر تشدد کو ہوا دیتے رہے اور روسی اور امریکی ایجنٹوں کے درمیان میدانِ جنگ پشاور میں بن گیا۔

1988 کے انتخابات کے دوران تقریباً ایک لاکھ افغان مہاجرین یہاں آباد تھے اور غیر رجسٹر شدہ مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ بہت سارے نسلی پشتون افغان آسانی سے پشاور میں مقامی آبادی میں گھل مل گئے ہیں اور ابھی تک پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔

2012 میں پشاور افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ پشاور پاکستان کے اندر اہم شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور پشتون ثقافت اور گندھارا آرٹ کا مرکز ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]