تبادلۂ خیال:حافظ محمد سعید

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

'Italic text'--Abdulkareemqazi 17:29, 18 جنوری 2011 (UTC)


حافظ محمّد سعید ، انڈیا کے لیے ولن، پاکستان میں ہیرو

جماعتہ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید دو ایسی متحارب قوموں کے درمیان وجہ نزاع ہیں جو ایٹمی طاقتیں بھی ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت میں ان سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔

گزشتہ بیس برس میں ہندوستان میں ہونے والے شدت پسندی کے تقریبا تمام بڑے واقعات میں حافظ محمد سعید کو مورد الزام قرار دیا گیا۔

ممبئی حملوں سے لیکر پارلیمنٹ پر حملے تک بنگلور اور حیدر آباد سے لیکر گجرات اور کلکتہ تک شدت پسندی کے ڈیڑھ سو سے زائد واقعات میں انہیں ملوث قرار دیاگیا لیکن وہ یا ان کی جماعت پاکستان میں کسی ایک بھی پر تشدد واقعہ میں ملوث نہیں پائی گئی اور پاکستانی حکومت نے ان کے خلاف ایک بھی ایسا ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا جس کی بنیاد پر انہیں ان کے گھر پر ہی نظر بند کیا جاسکتا۔

ممبئی حملوں کے بعدجب پاکستان پر بین الاقوامی دباو (خصوصاامریکی دباو) پڑاتو پاکستان نے حافظ سعید کو ان کے پانچ ساتھیوں سمیت نظر بند کردیا تھا لیکن یہ نظر بندی چھ مہینے سے زیادہ نہیں چل سکی کیونکہ حکومت پاکستان نے عدالت میں ایسا کوئی ٹھوس جواز پیش نہیں کیا جو ان کی نظر بندی برقرار رکھنے کا جواز بن سکے۔

امریکہ میں پاکستان اور انڈیا کے وزرائے خارجہ کی ملاقات سے پہلے اس سال ستمبر میں حافظ سعید کے خلاف چندہ مانگنے کے الزامات کے تحت دو مقدمات اس بنیاد پردرج کیے گئے کہ ان کی جماعت کالعدم ہے۔

یہ فوجداری مقدمات عدالت عالیہ میں گئے تو میڈیا پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کی جماعت تو کالعدم ہی نہیں ہے اور اس بارے میں پاکستانی وزیر داخلہ کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔یہ مقدمات بھی خارج ہوگئے۔

اس سال چوبیس جون کو بھارتی ہائیکورٹ نے حافظ سعید سمیت بائیس پاکستانیوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور حکومت ہند نے ان کی حوالگی کامطالبہ بھی کیا لیکن پاکستان نے صاف انکار کردیا۔

پاکستان کی لاہور ہائی کورٹ انہیں پہلے ہی بے گناہ اور معصوم قرار دیکر ان کی نظر بندی ختم کرنے کے احکامات جاری کرچکی ہے اور حکومت پاکستان کے ترجمان کےبقول ہندوستان نے ایسے کوئی ثبوت ہی ان کے حوالے نہیں کیے جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ وہ کسی بھی معاملے میں گناہ گار ہیں۔

حافظ محمد سعید کے خلاف انٹرپول نے ریڈ وارنٹ جاری کیے ہیں اور ان کے وکیل اےکے ڈوگر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان ریڈوارنٹ کا اجرائ� اپنی جگہ لیکن یہ اختیار حکومت پاکستان کے پاس ہے کہ وہ حافظ محمد سعید کو گرفتار کرے یا نہ کرے اور ظاہر ہے کہ اب تک حکومت کا فیصلہ انہیں گرفتار نہ کرنے کا ہے۔

امریکہ اور بھارت انہیں دہشت گرد قرار دے چکا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ ان دونوں ممالک کا مجرموں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اس لیے نہ صرف انڈیا بلکہ امریکہ تک اس معاملے میں بظاہر بے بس دکھائی دیتا ہے۔

حالانکہ اسی پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے دور میں سینکڑوں پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔

پاکستان سے پکڑے جانے والے یوسف رمزی کو امریکہ میں سزائے موت ہوئی جبکہ عافیہ صدیقی کا مقدمہ آج بھی امریکی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ حافظ سعید ایک آزاد اور معزز شہری کی حثیت سے زندگی بسر کررہے ہیں ان کے خلاف تمام مقدمات ختم ہوچکے ہیں۔

ان کے گھر کےباہر پولیس کی نفری تعینات ہے لیکن ان کے وکیل اے کے ڈوگر کا کہنا ہے کہ یہ ان کی سکیورٹی کے لیے ہے اور اگر حکومت انہیں کسی مقام پر خطبہ دینے سے منع کرتی ہے تو بھی ان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے۔

مبصرین کاکہنا ہے کہ حافظ سعید اور ان کی جماعت کے بارے میں پاکستان ہر ملکی غیر ملکی دباو کو بالآخر اس لیے جھٹک دیتا ہے کہ وہ اس پاکستانی سٹیبلشمنٹ کی سوچ کی عملی شکل ہے جس پر پنجابی سول وملٹری بیوروکریسی کا غلبہ ہے اور جس کی گھٹی میں انڈیا دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

وہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی پہلی جہادی تنظیم کے پنجابی سربراہ ہیں اور جو بین الاقوامی ایجنڈا رکھتی ہے۔

انہیں امریکہ یا شیعہہ آبادی والے ایران سے براہ راست کوئی دشمنی نہیں ہے تاہم ان میں بھارت کی مخالفت اس قدرشدید ہے اس دشمن کا دوست بھی ان کا دشمن ہے چاہے وہ امریکہ جیسی سپر پاور ہی کیوں نہ ہو۔

حافظ محمد سعید انڈیا کے ٹکڑے کرکے اس ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنے تئیں آزاد کرانا چاہتے ہیں، انڈیا کی حکومت انہیں دہشت گردقرار دیتی ہے اور بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد انہیں ایسا ہی سمجھتی بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں مذہبی ذہن رکھنے والے جہاد پسند طبقے میں وہ ایک ملنساراور ایسی انسان دوست شخصیت ہیں جن کے ہزاروں کارکن ہر آفت میں عوام کی مدد کرنے اور ان کی جانیں بچانے میں سب سے آگے ہیں۔انہیں اور ان کے کارکنوں کوپاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں خاص سوچ رکھنے والے ملک کی دوسری دفاعی لائن قرار دیتے ہیں۔

دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کی پراکسی وار میں ان سے منسوب کارکن انڈین ’را‘ کا منہ توڑ ’آئی ایس آئی جواب‘ ہیں۔

ان کے بیشتر کارکن ایسے پنجابی باشندے ہیں جو انڈیا پر ایک خدا کی حکمرانی کے قیام کے لیے جان لے بھی سکتے ہیں اور دے بھی سکتے ہیں۔

ایسے ہی کچھ شدت پسندوں نے کارگل کی پہاڑیوں میں پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ انڈین آرمی سے لڑائی کی اور ہلاکتیں پیش کیں۔ یہ وہ وقت تھا جب دونوں ملکوں میں ایک وسیع جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔

اس کے علاوہ انڈین پارلیمان پر حملہ اور ممبئی کاقتل عام دوایسے بڑے واقعات ہیں جن کا الزام حافظ سعید پر لگا اور جن کے نتیجے میں دو ملک ایک خوفناک جنگ کے دہانے تک پہنچ گئےتھے۔

پاکستان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ہر طرح کی مذہبی جہادی تنظیموں کی بیخ کنی ضروری ہے۔انہی لوگوں کا خیال ہے کہ لشکر طیبہ جیسی شدت پسند تنظیم کے بانی کی اگر سرکاری سرپرستی ہورہی ہے تو اس کاخمیازہ اسی طرح بھگتنا ہوگا جیسے افغان جہاد کے اثرات آج سامنے آرہے ہیں۔

بعض مبصرین کے نزدیک حافظ سعید اور ان کی جماعت ایک ایسے ٹائم بم کی طرح ھیں جو جوکسی بھی وقت پاکستان اورہندوستان میں تباہی کا سبب بن سکتے ہیں لیکن بعض دیگر مبصرین کے خیال میں مسئلہ صرف حافظ سعید کی ذات کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ وہ زہریلی سوچ ہے جو دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ میں ایک دوسرے کے خلاف پائی جاتی ہے۔