تبادلۂ خیال:ادارہ فروغ قومی زبان

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

یہ ادارہ گذشتہ ایک برس سے نئے نام اور نئے نظام کے تحت کام کررہا ہے۔ اب اس کا نام ’ادارہ فروغ قومی زبان‘ ہوچکا ہے اور یہ کابینہ ڈویژن کے بجائے وزارت ثقافت کا ذیلی ادارہ ہے۔ اس صفحے کے مندرجات کو نئے صفحے پر درست نام کے ساتھ درج کرنے کی ضرورت ہے اور اس صفحے پر محض نئے صفحے کالنک دینا مناسب ہوگا۔Raeesahmedmughal (تبادلۂ خیال) 19:11, 15 جنوری 2014 (م ع و)

مقتدرہ قومی زبان…ایک تعارف[ترمیم]

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ادارہ فروغ قومی زبان(مقتدرہ) کے اولین صدرنشین کی یہ تحریر ادارے کے قیام کے ابتدائی عرصے میں اخباراردو کے پہلے شمارے میں شائع ہوئی، ادارے کی چونتیسویں سالگرہ کے حوالے سے اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

مقتدرہ قومی زبان کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے کے لیے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پچھلے ۳۳ سال میں ہر حکومت نے اردو کو اپنے دستور میں رکھا اور زبانی وعدے کیے لیکن انھوں نے اس کو ضروری نہیں سمجھا کہ ان زبانی وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اردو کے لیے چند ادارے قائم ہوئے جن کے ذمہ مختلف کام کیے گئے۔ لیکن کوئی ادارہ ایسا قائم نہیں ہوا جسے ترقیٔ اردو کے ساتھ نفاذ و ترویج اردو کا کام سپرد ہو اور جو راست جناب صدر کی ماتحتی میں کام کرے بالفاظ دیگر اس کا تعلق کسی وزارت سے نہ ہو اور وہ دفتری گورکھ دھندوں سے آزاد ہو کر سہولت اور سرعت کے ساتھ اپنی سفارشات کو منظور کراکر عملی جامہ پہنا سکے۔

یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ صدر مملکت نے نہ صرف یہ کہ اپنے ماتحت دفاتر کو ہدایت کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ قومی زبان کا استعمال کیا جائے بلکہ خود عملی نمونہ پیش کر کے افسران بالا دست کے اس احساس کمتری کو بہت حد تک دور کر دیا ہے جو انہیں انگریزی میں تقریر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ صدرِ محترم کے چین اور کیوبا وغیرہ میں اردو زبان میں خطبات پیش کر کے اپنی زبان کو صرف قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی حیثیت دی ہے۔

صدرمملکت نے نظام زندگی میں قومی زبان کی اہمیت اور اس کی ترویج کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا ۔ ان کی حکومت کے باشعور طبقے کو بھی اب یقین ہو چلا ہے کہ قومی زندگی کے تمام گوشوں میں اردو زبان کے نفاذ اوررواج کے بغیر ہم اپنا قومی تشخص منوا نہیں سکتے اور اہلِ وطن میں فکر ونظر کی ہم آہنگی اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک قومی زبان کو ہر شعبۂ زندگی میں رائج نہ کر دیا جائے۔

مقتدرہ قومی زبان کا قیام حکومت کے اسی جذبے اور اخلاص کا آئینہ دار ہے۔ جنابِ صدر نے اس عاجز کو اس کا صدر نشین نامزد فرمایا ہے۔ مقتدرہ کا مقصد یہ ہے کہ قومی زبان کے نفاذ اور ترویج میں حائل موانع و مشکلات کو دور کر کے قومی ترقی اور قومی یک جہتی کی راہ ہموار کر دی جائے اور قومی زندگی کے ہر شعبے میں جہاں جہاں انگریزی زبان کا عمل دخل ہے وہاں اردو کو جلد از جلد جاری کر دیاجائے اور اس عمل کے لیے جو ضرور یات مثلاً تصنیف وتالیف و ترجمہ اور لغات و دیگر مطبوعات ہیں انہیں مہیا کیا جائے اور جو موانع ، مشکلات اور رکاوٹیں مشینوں مثلاً ٹائپ رائٹروں، ٹیلی پرنٹروں کے سلسلے میں حائل ہیں ان کو دور کیاجائے۔

سب سے اہم کام جو مقتدرہ کے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ قوم کے مزاج کو بدلا جائے ۔ عملی مشکلات تو اپنی جگہ پر ہیں، سب سے پہلے ذہنی مشکلات کی طرف توجہ دی جائے اور جو بھی  خوف قومی زبان کے رائج یا نفاذ کرنے کے سلسلے میں پیدا ہو اس کو بطریقِ احسن دور کرنے کی کوشش کی جائے اس لیے:

مقتدرہ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک گشتی مراسلہ پاکستان کے طول و عرض میں تقسیم کیا، جس میں صاحبانِ علم ، قومی کارکنان اور اہم سماجی شخصیتوں سے سوال کیا گیا کہ وہ اس سلسلے میں کیا تجاویز پیش کر سکتے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ جتنے جوابات وصول ہوئے ہیں ، وہ مثبت انداز رکھتے ہیں اور جو تجاویز پیش ہوئی ہیں ان میں بہت حد تک ہم آہنگی اور یکسانیت ہے۔

مقتدرہ نے اپنے کام او رپروگرام کو دس حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جو ان تمام معاملات پر حاوی ہے جن کا تعلق قومی زبان سے ہے اور ان پر مقتدرہ کو کام کرنا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین پر مشتمل دس ذیلی مجالس کی تشکیل کی گئی جو حسبِ ذیل ہے۔

پہلی ذیلی مجلس سرکاری، دفتری اور عدالتی زبان سے متعلق ہے اس کا دفتر لاہور میں ہے۔ اس کے ذمّے یہ کام ہے کہ عدالتی ، سرکاری اور دفتری اداروں میں اردو کے نفاذ کے سلسلے میں جملہ کارروائی کرنے کی سفارشات پیش کرے اور جن اداروں کو اس سلسلے میں کوئی دقّت پیش ہو اسے دور کرنے کی سعی کرے۔ اس مجلس کے داعی ڈاکٹر سید محمد عبد اللہ ، صدر دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی ہیں۔

ُ            دوسری ذیلی مجلس جس کے داعی ڈاکٹر سید احمد محی الدین ، شیخ الجامعہ ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد ہیں ، ذریعہ تعلیم سے متعلق ہے۔ اس مجلس کا کام جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ذریعہ تعلیم کے مسائل پر غور کرنا ہے۔ ذریعہ ٔتعلیم کا مسئلہ اب بحث طلب نہیں ہے بلکہ اس کے نفاذ اور ان ضروریات کا ہے جو ذریعہ تعلیم سے متعلق ہوتی ہیں اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت جہاں جہاں اردو ذریعہ تعلیم یا متبادل نہیں ہے تو اس کا کیا سبب ہے اور اس میں کیا دقتیں ہیں۔ ان دقتوں کو دور کرنا اس ذیلی مجلس کا کام ہے۔ اس مجلس کا مستقرا سلام آباد میں ہے۔

تیسری مجلس مقابلے میں امتحان سے متعلق ہے جس کے داعی جناب شیخ منظور الٰہی رکن ’’وفاقی پبلک سروس کمیشن‘‘ ہیں۔ اس ذیلی مجلس کے ذمے وفاقی و صوبائی پبلک سروس کمیشنوں کے ساتھ رابطہ قائم کر کے مقابلے کے امتحانات کے لیے اردو کو ذریعہ بنانے کے متعلق ضروری انتظامات کرنے ہیں اور یہ امتحانات خواہ مرکزی ہوں یا صوبائی، دفتری ترقی کے امتحانات ہوں یا کسی اور مرحلے کے ان میں اردو کو بحیثیت ذریعۂ امتحان نافذ کر وانے کی سفارشات پیش کرنا ہیں۔ پہلا عمل اس میں یہ ہے کہ خود اردو زبان کے مقام کو ان امتحانات میں متعین کرنا یعنی یہ کہ اردو زبان کی حیثیت ان امتحانوں میں اس مقام سے کم نہیں ہونی چاہیے جو انگریزوں کے زمانے میں تھی۔ دوسرا کا م یہ ہے کہ ان امتحانات میں اردو کو ذریعہ بنانے کے لیے جن مراحل کی ضرورت ہوگی وہ متعین کرنا اور اس طرح ابتداء کرنا کہ پہلے اردو زبان کو متبادل حیثیت دی جائے جس کا دل چاہے انگریزی میں جواب دے جس کا دل چاہے قومی زبان میں دے۔ اس سے آگے کی منزل یہ ہوگی کہ اردو زبان ہی ذریعہ امتحان ہو۔

چوتھی ذیلی مجلس، طباعتی مشینوں ، رسم الخط اور خطاطی سے متعلق ہے یہ فنیاتی اور مشینی معاملات کے لحاظ سے نہایت اہم مجلس ہے اس کے داعی ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی صاحب ہیں۔ اس وقت اردو کے ٹائپ رائٹروں کی یہ کیفیت ہے کہ ہر ٹائپ رائٹر ساز کمپنی اپنے ٹائپ رائٹر کا کلیدی تختہ خود متعین کرتی ہے گویا کہ یہاں جتنے قسم کے ٹائپ رائٹر درآمد کیے جاتے ہیں وہ سب الگ الگ ترتیب کے ہوتے ہیں جس کا نقصان یہ ہے کہ ایک مشین پر ٹائپ کرنے والا دوسری مشین پر ٹائپ نہیں کر سکتا۔دوسری خرابی یہ ہے کہ اردو زبان کو بحیثیت علمی، فنی و درسی زبان کے استعمال کرنے کے لیے جس قسم کے حروف ، علامات اور ہندسوں وغیرہ کی ضرورت ہے وہ مشینوں میں موجود نہیں ہیں۔ اس لیے سب سے اہم کام اس مجلس کا یہ ٹھہرا کہ ٹائپ رائٹر کا ایسا کلیدی تختہ تیار کرے جو ہر لحاظ سے مکمل، پسندیدہ اور قابل عمل ہو۔ اس مجلس نے ٹائپ رائٹروں اور طباعتی مشینوں کی اہمیت کے پیش نظر فوری کام شروع کر دیا اور فنی باریکیوں کو محلوظ رکھتے ہوئے ایک کلیدی تختہ تیار کیا۔ جس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک اچھے ٹائپ رائٹر میں ہونی چاہئیں اور وہ برائیاں نہیں ہیں جو آجکل کے اردو ٹائپ رائٹر وں میں کہیں کہیں دیکھی جاتی ہیں۔ اس ذیلی مجلس نے بحمد اللہ ٹائپ رائٹر اور ٹیلی پرنٹر کا کلیدی تختہ تیار کر لیا ہے جسے ماہرین نے دیکھا اور بطورِ خاص محکمہ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف اور ٹیلی فون بنانے والے ادارے ٹی آئی پی نے بھی جو پاکستان کا واحد ٹائپ رائٹر بنانے والا ادارہ ہے ، غور کیا ہے اور اس کو بنا ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ یہ تختے بحث مباحث، اعتراض و جواب اعتراض وغیرہ وغیرہ کے مراحل سے گزر چکے ہیں اور اب منظوری کی منزل میں ہیں۔ یہاں ایک بات بتانا ضروری ہے کہ اس ادارے نے ٹیلی پرنٹر کا جو تختہ مرتب کیا ہے ، وہ دو لسانی ہے ۔ یعنی ایک ہی مشین سے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں کام لیا جا سکتا ہے اور یہ ایسی انتہا درجے کی سہولت ہوگی کہ ٹیلی پرنٹر استعمال کرنے والوں کو اب دو الگ الگ مشینوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ٹائپ کاری، مختصر نویسی اور خطاطی یہ تینوں چیزیں دفتری، تعلیمی اور اس قسم کے جملہ تحریری امور میں قومی زبان کی تیز ترقی کے لیے نہایت ضروری ہیں، مقتدرہ قومی زبان کے سامنے یہ تینوں مسائل ہیں۔ اس پر سرکاری اور غیر سرکاری دونوں طریقے سے عمل کرنے کا پروگرام ہے۔ یعنی یہ کہ ان تینوں فنون کے سرکاری ادارے جگہ جگہ قائم کیے جائیں اور جو ادارے نجی کوششوں سے قائم کیے گئے ہیں اگر ضرورت ہو تو ان کی امداد کی جائے۔

پانچویں ذیلی مجلس، قومی زبان میں کام کرنے والے اداروں میں رابطہ قائم کرنے کا کام کرے گی، حکومت نے مقتدرہ کو ایسے تمام اداروں کو مربوط کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ قومی زبان کی ترقی کے سلسلے میں کام بہت زیادہ ہیں لیکن کام کرنے والے کم ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مختلف ادارے جو کام کر رہے ہیں ان کا پروگرام کچھ اس طرح کا ہو کہ ان کے کام میں ٹکراؤ نہ ہو اور ایک ہی کام بیک وقت مختلف ادارے نہ کرتے رہیں۔ موضوعات کی تقسیم ہو جائے تو کم وقت میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ اس مجلس کے داعی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ حیوانات کے صدر ڈاکٹر سید حامد محمود صاحب ہیں۔

چھٹی ذیلی مجلس ’’صوبائی رابطے‘‘ کی ہے ، اس کے داعی پروفیسر اسد اللہ بھٹو صاحب ہیں۔ یہ بھی انتہائی اہم مجلس ہے جس کے ذمے اہم کام یہ ہے کہ جائزہ لے کہ مختلف صوبوں میں قومی زبان کیا خدمات انجام دے سکتی ہے اس کی پذیرائی کس قسم کی ہے۔ صوبہ جات سے انگریزی کی جگہ قومی زبان کے سلسلے میں کیا کچھ کارروائی کرنی ہے۔ اس ذیلی مجلس کا عارضی دفتر سکھر میں ہے۔

ساتویں ذیلی مجلس ’’ابلاغ عامہ‘‘ کی ہے جس کے داعی ڈاکٹر منظور احمد صاحب، صدر شعبہ کلیہ فنون کراچی یونیورسٹی ہیں۔ اس مجلس کا کام یہ ہے کہ ان تمام مسائل پر غور کرے جو ابلاغ عامہ کے اداروں کو قومی زبان کے استعمال کے سلسلے میں درپیش ہیں۔ اس کے ذمے ایک ضروری کام یہ بھی ہے کہ آج کل ابلاغ عامہ کے اداروں میں زبا ن وبیان اور اصطلاحات کے متعلق جو شدید غلطیاں رائج ہوتی جا رہی ہیں۔ ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور جیسا کہ خود خبر رساں اداروں اور اخبارات نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسی لغت تیار کی جائے جس میں وہ تمام انگریزی اصطلاحات ہوں جو ابلاغ عامہ کے دوسرے اداروں میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس لغت پر بھی کام شروع ہو رہا ہے۔

آٹھویں ذیلی مجلس ’’ طباعت و اشاعت‘‘ کے متعلق ہے۔ جس کے داعی ڈاکٹر محمد ایوب قادری صاحب ، صدر شعبہ اردو، اردو کالج ہیں۔ اس مجلس کے ذمے مقتدرہ کی ضروری مطبوعات کے علاوہ یہ بھی ہے کہ معلوم کرے کہ قومی زبان کو ہر شعبۂ زندگی میں نافذ کرنے کے لیے اس کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے کن کن مطبوعات کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے ادارے اس قسم کا کام کر سکتے ہیں لیکن رقم کی کمی کے سبب نہیں کر سکتے ان کی اعانت کے لیے سفارش کریں اور خود بھی ایسی چیزوں کی طباعت پر غور کریں جو اس کام کے لیے ضروری ہیں مثلاً اہم حوالہ جات کی کتابیں وغیرہ جو دوسرے ادارے شائع نہیں کر سکتے۔

اس مجلس کے تحت ہی ’’اخبار اردو‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ شا ئع ہوا کرے گا جو مقتدرہ قومی زبان کے مقاصد کا ترجمان اور اس کے کاموں کی رفتار کا آئینہ دار ہوگا اور قومی زبان کے نفاذ کے متعلق جہاں جہاں ضرورت ہو رہنمائی کا کام کرے گا۔

نویں ذیلی مجلس ’’مجلسِ ترجمہ‘‘ ہے اس کے داعی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے ناظم ، ڈاکٹر محمد اسلم فرخی صاحب ہیں ۔ اس ذیلی مجلس کے ذمے یہ کام ہے کہ ان کتابوں ، رسالوں اور تحریروں کی نشاندہی کرے جن کا ترجمہ قومی زبان کے نفاذ کے لیے ضروری ہے اور ان مضامین کی نشاندہی بھی کرے جن میں اعلیٰ تعلیم ہو رہی ہے لیکن اس سے متعلق کتابیں ، رسالے یاادب پارے شائع نہیں ہوئے اور جن کی اردو کو اعلیٰ منازل میں ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے شدید اور فوری ضرورت ہے۔ اس کے ذمے یہ بھی کام ہے کہ ’’کل پاکستان بنیادوں پر اعلیٰ درجے کے مترجمین کی فہرست تیار کرے جو غیر زبانوں سے اپنی زبان میں اور اس کے برعکس ترجمہ کرنے میں مہارت رکھتے ہوں اور جن سے بوقتِ ضرورت کا م لیا جا سکے۔ یہ فہرست بھی تیار ہو رہی ہے۔

دسویں ذیلی مجلس ’’اصطلاحات‘‘ سے متعلق ہے جس کے داعی ڈاکٹر رضی الدین صدیقی صاحب ، سابق شیخ الجامعہ قائداعظم یونیورسٹی ہیں۔ اس مجلس کا نام ’’مجلس اصطلاحات و لغات‘‘ ہے جس کے ذمے ہر دو اشیاء کی تیاری ہے۔ اردو زبان میں اصطلاحات کا سلسلہ ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے اور جب تک علوم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اصطلاحات میں بھی اضافہ ہو گا اور یہ کام جاری رہے گا۔

اردو زبان میں بیشتر تدریسی اور تحقیقی مسائل کے لیے اصطلاحات موجود ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ کون سا گوشہ خالی ہے جسے پُر کرنا ضروری ہے اس کے ذمے یہ بھی کام ہے کہ وہ اصطلاحات جو مختلف مصنفین نے مختلف اوقات میں وضع کی ہیں ان میں یکسانیت پیدا کی جائے تاکہ ایک ہی چیز کے لیے مختلف اصطلاحات جاری نہ ہوں۔

یہ دس ذیلی مجالس ان مسائل پر غور کر رہی ہیں جن سے مقتدرہ قومی زبان بلکہ قومی زبان کو واسطہ پڑتا ہے۔ قومی زبان کے سامنے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ زبان کے ساتھ ساتھ اس کے رسم  الخط کی بھی حفاظت کی جائے اور وہ کوشش جو مختلف حلقے مختلف اسباب کے سبب کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مداوا کیا جائے۔ مثال کے طور پر ایک دور ایسا تھا کہ جب کچھ لوگوں نے یہ کوشش کی تھی کہ اردو زبان کولاطینی رسم الخط میں لکھا جائے اور ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی بعض سرکاری حلقوں کی جانب سے حوصلہ افزائی بھی ہوئی لیکن وہ اپنے اداروں میں ناکام رہے۔ پھر یہ منزل آئی کہ اچھا رسم الخط نہ سہی تو اردو کے ہندسوں کو ہی بدل دیا جائے یعنی اردو ہندسوں کے بجائے انگریزی ہندسے ڈالے جائیں اور عوام کو دھوکہ دیا جائے کہ یہ عربی ہندسے ہیں۔ صاحبانِ علم کو یہ معلوم ہے کہ عربی ہندسوں کا نام صرف اصطلاحی ہے اور عربی ہندسوں کو انگریزی ہندسے اس لیے کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے انہیں براہ ہسپانیہ یورپ میں داخل کیا تھا اور یورپ والوں نے ان کو اپنے بائیں سے دائیں لکھنے کی سہولت کے مدِنظر کہیں بقدر نوّے درجے اور کہیں مکمل طور پر گردش دے دی تھی۔ اس طرح ان کی وہ موجودہ شکل نکل آئی تھی جن کو ہم آج انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں دیکھتے ہیں۔ انہیں انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا جیسی مستند کتاب میں عربی ہندسے نہیں بلکہ مغرب زدہ عربی ہندسے کہا گیا ہے ہمارے ہندسے وہی ہیں جو عربی ، اردو ، فارسی اور ملایائی زبان میں جہاں جہاں عربی رسم الخط جاری ہے خفیف سی تبدیلیوں کے ساتھ استعمال ہو رہے ہیں۔

مقتدرہ قومی زبان نے قطعی طور پر طے کر لیا ہے کہ قومی زبان کے صرف دو رسم الخط یعنی خط نسخ اور خط نستعلیق ہوں گے۔ خط نستعلیق عمومی کاموں کے لیے اور خط نسخ مشینی اور قرآنی ضروریات کے لیے اور ہمارے ہندسے انگریزی نہیں بلکہ وہی ہیں جو اردو میں اور عربی رسم الخط کی دیگر زبانوں میں استعمال ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ جہاں جہاں اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے اس پر سختی سے محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، چنانچہ مقتدرہ قومی زبان نے دور نمائی (ٹیلی ویژن) کے اس حالیہ امر پر کہ اپنے پردے پر اردو تحریروں سے اردو ہندسوں کو نکال کر انگریزی ہندسے داخل کر دیئے ہیں، سخت اعتراض کیا ہے اور حکومت کو اس پر توجہ دلائی گئی ہے کہ ان انفرادی اعمال کا تدارک کیا جائے۔ حکومت کی یہ پالیسی ہرگز نہیں ہے کہ اردو ہندسے ختم کر دیئے جائیں  لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سکوں اور ٹکٹوں پر انگریزی ہندسے تو موجود ہیں لیکن اردو ہندسے نکال دیے گئے ہیں یہ نتیجہ ہے اسی ذہنی انتشار اور قومیت کے عدم تشخص کا جس میں ہم مبتلا ہیں۔ مقتدرہ قومی زبان، زبان ہی کے ذریعے انشاء اللہ اس کی بھی اصلاح کی کوشش کرے گا۔ [1] ٭٭٭٭

  1. https://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/october2013/Oct_2.html  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)