تبادلۂ خیال باب:تاریخ

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

استاد عبد المنعم عیسی السالم 1311ہجری میں کویت میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم محلے کے مکتب میں حاصل کی، استاد عبدالمنعم کو پچپن ہی سے پڑھنے لکھنے اور مطالعہ کرنے کا بے حد شوق تھا، وہ اپنی جماعت کے تمام ساتھیوں میں حساب کے مضمون میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔

انھیں ایک سے زیادہ زبانوں کو سیکھنے کا شوق تھا،عربی زبان کے ساتھہ ساتھہ انگریزی، اردو، فارسی کو انھوں نے اپنے خصوصی مضامین میں شامل کیا تھا۔ وہ جہاں عربی زبان کو سلاست اور روانی کے ساتھہ بولتے تھے وہیں انگریزی اور اردو اور فارسی میں برجستہ اظہار خیال کیا کرتے تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد استاد عبدالمنعم نے میدان تجارت میں قدم رکھا، انھوں نے اپنی تجارت میں کپڑا، گھریلو سامان، اور چائے پتی کو شامل کیا۔ انھوں نے بھارتی تاجر جوتی لال کے ساتھہ چائے پتی کے کاروبار کا آغاز کیا لیکن اس تجارت میں انھیں کوئی خاصی کامیابی حاصل نہيں ہوئی۔ تجارت کے ساتھہ ساتھہ اپنی ذکاوت، ہنرمندی اور متعدد زبانوں پر عبور کے نتیجے میں استاد عبدالمنعم کو ایک سرکاری دفتر کی جانب سے محاسب کے لیئے پیش کی گئی۔ سال 1935ء میں انھوں نے محاسب کی حیثیت سے خدمات انجام دینا شروع کردیا اور سال 1961ء تک وہ اس پیشے سے منسلک ہورہے۔ استاد عبدالمنعم کا شمار کویت کے چنندہ ادباء میں ہوتا ہے، استاد عبدالمنعم کو کویت کے اولین تاریخ نویس شیخ عبدالعزیز الرشید کی مصاحبت حاصل ہے۔ شیخ عبدالعزيز الرشید نے استاد عبدالمنعم کو کویت سے شائع ہونے والا رسالہ الکویت کا نمائندہ مقرر کیا تھا، شیخ عبدالعزيز الرشید نے اپنے رسالے الکویت میں استاد عبدالمنعم کو علم وہنر سے لیس نوجوان کویتی ادیب سے یاد کیا ہے اور استاد خالد سالم محمد نے اپنی کتاب رحلتی مع الکتاب میں استاد عبدالمنعم کو کویت میں رسالوں اور مجلات کے میدان میں اولین ترجمان کے نام سے یاد کیا ہے۔ استاد عبدالمنعم کا ادب وشعر سے بے پناہ لگاؤ تھا، یہی وجہ ہے کہ ملک میں وہ پہلے شخص ہے جنھوں نے عالمی اور خصوصا خلیجی مجلات اور رسالوں کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

استاد عبدالمنعم کے مکان میں ہزاروں کتابوں پر مشتمل ایک عظیم کتب خانہ تھا، جو مختلف زبانوں کی لغات، مختلف شعری دیوان اور جدید وقدیم عرب ادباء کی تصنیفات وتالیفات سے مزین تھا۔

استاد عبدالمنعم روزانہ دن کا نصف حصہ مطالعے اور ادبی تحقیق کے لیئے دیا کرتے تھے۔

استاد عبدالمنعم کے دیوان میں علم وادب سے منسلک افراد کا ہمہ وقت ہجوم رہتا تھا، ان کی مجلس میں ملک کے عظیم ادباء، شعراء اور علم ادب کے شائقین شرکت کیا کرتے تھے۔ قاضی عبدالعزیز قاسم حمادہ قاضی احمد الخمیس اور استاد محمد الزبن رحمھم اللہ ان کے ہم نشینوں میں سے تھے۔ استاد عبدالمنعم فصیح اشعار کہا کرتے تھے، ان کے بہت سے قصیدے منظر عام پر آئے جو سلاست اور روانی جیسی صفات سے متصف ہیں۔ استاد عبدالمنعم نے اپنے بعض اشعار کو " ہر درخت کا پھل" نامی کتاب میں جمع کیا ہے۔ انھوں نے مناسک حج کے موضوع پر ایک کتاب " آؤ میرے ساتھہ حرمین شریفین کے عنوان سے " تحریر کی۔ اس کتاب میں انھوں نے حج اور عمرے کے تمام مسائل کو ائمہ اربعہ کے مذہب کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب بہت مختصر ہے لیکن زائرین بیت اللہ کے لیئے بہت مفید ہے۔ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن پر استاد شیخ احمد الخمیس نے مقدمہ لکھا ہے۔ اس کتاب کو زائرین بیت اللہ شریف کے لیئے مفت تقسیم کیا جاتا ہے۔ استاد عبدالمنعم نے بیت اللہ شریف کا دو مرتبہ سفر کیا اور حج بیت اللہ کا پہلا سفر اونٹوں کی سواری پر کیا جبکہ دوسرا سفر مرحوم سلیمان الفھد کے قافلے کے ہمراہ بس کے ذریعے کیا۔ سال 1968ء میں استاد عبدالمنعم السالم کا انتقال ہوگیا۔ ٭٭٭

فھد المعجل کا شمار ملک کے نمایاں افراد میں ہوتا ہے۔ فھد المعجل سال 1932ء میں فریج کے علاقے میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم دارالملاراشد میں حاصل کی، اور انگریزی زبان ابراھیم کدو سے سیکھی۔ فھد المعجل گھرمیں سب سے بڑے تھے، ان کے والد کی سوق التجار میں ایک دکان تھی، جب وہ 13 برس کے ہوئے تو ان کے والد نے انھیں دکان سنبھالنے کی ذمہ داری دے دی۔ وہ اپنے والد کے ساتھہ دکان جاتے اور ان کا تعاون کرتے ، فھد المعجل کے ایک بھائی ان دنوں امریکی یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تھے۔

فھد المعجل چونکہ گھر میں سب سے بڑے تھے ، اس لیئے انھیں اعلی تعلیم کے حصول کا موقع نہيں مل سکا، لیکن انھیں زندگی کو خوشگوار بنانے اور اپنے اصول کو اچھی طرح سیکھہ لیا تھا آپ کو سنوارنے کی فکر ضرور لاحق تھی، وہ اپنے والد کے ساتھہ تجارت میں بڑھہ چڑھہ کر حصہ لینے لگے۔ تجارت کے ساتھہ ساتھہ فھد المعجل نے اپنے والد سے علم، ادب اور  تجارت نیز لین دین کے.

فھد المعجل کے والد کا ایک دیوان تھا جس میں روزانہ تقریبا 150 افراد کی آمد ہوا کرتی تھی، فھد المعجل کہتے ہیں کہ تقریبا 70 برس سے فجر کے بعد سے صبح دس بجے تک دیوان کھلا رکھنے کا مستقل معمول ہے۔

فھد المعجل کو تجارت کے علاوہ سیاحت، خشکی کے اسفار خصوصا سعودی صحراؤں میں سفر اور مطالعہ کا بے حد شوق ہے۔ فھد المعجل کے بقول ان کے پاس 1000 کتابوں پر مشتمل ایک عظیم کتب خانہ ہے۔ جو مختلف علوم وفنون اور مختلف زبانوں کی لغات ، متعدد شعراء کے دواوین اور دینی کتابوں سے مزین ہے۔