تیندوا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تیندوا (انگریزی: Leopard، لاطینی : Panthera pardus) چیتے سے مشابہت رکھنے والا یہ جانور بلی کی نسل (Felidae) سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کی چار بڑی بلیوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ وزن میں چیتے سے بھاری ہوتا ہے۔ اس کا سر چیتے سے قدرے بڑا ہوتا ہے۔ چیتے کے برعکس تیندوے کی کھال پر موجود دھبے درمیان سے خالی ہوتے ہیں۔

پینتھیرا خاندان کی پانچ معلوم اقسام کو تیندوا کہا جاتا ہے۔ اس کا رنگ ہلکے پیلے سے لے کر شوخ زرد تک ہو سکتا ہے اور اس کی کھال پر سیاہ رنگ کے گل بنے ہوتے ہیں۔ اس کی جسامت پتلی اور پٹھوں سے بھری ہوتی ہے۔ اس کی لمبائی 36 سے 72 انچ اور دم کی لمبائی 26 تا 40 انچ ہوتی ہے۔ شانے پر اس کی اونچائی 24 سے 28 انچ ہوتی ہے۔ نر کا وزن 31 تا 72 کلو جبکہ مادہ کا وزن 5ء20 تا 43 کلو ہوتا ہے۔

تیندوے کے بارے سب سے پہلے 1758 میں لکھا گیا اور 19ویں اور 20ویں صدی میں اس کی کئی انواع شناخت کی گئیں۔ آج افریقہ اور ایشیا میں اس کی 8 مختلف انواع تسلیم شدہ ہیں۔ تیندوے کا آغاز افریقہ سے ہوا اور پھر یہ ایشیا اور یورپ پہنچ گیا۔ یورپ میں آج سے 11،000 سال قبل تیندوا معدوم ہو گیا۔

تیندوا برساتی جنگلات سے لے کر سٹیپ، بارانی اور پہاڑی علاقے تک پایا جاتا ہے۔ تیندوا موقع پرست شکاری ہے اور زیادہ تر بندروں اور کھردار جانوروں کا شکار کرتا ہے۔ چھپنے کے لیے تیندوا اپنی کھال پر بنے گل کا فائدہ اٹھا کر اپنے شکار پر گھات لگاتا ہے اور بعض اوقات اپنے شکار کو درخت پر لے جاتا ہے۔ تیندوا اکیلا رہنے کا عادی ہے اور ملاپ اور بچوں کی پرورش کے دوران ہی جوڑے کے ساتھ رہتا ہے۔ 15 سے 24 مہینوں کے وقفے سے مادہ کے ہاں 2 تا 4 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ دو سے اڑھائی سال کی عمر میں مادہ اور نر تیندوے بلوغت کو پہنچتے ہیں۔

بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت کی لال فہرست کے مطابق تیندوا خطرے کا شکار ہے کہ اس کے مساکن کی تباہی جاری ہے اور آبادی بکھر رہی ہے اور دنیا کے زیادہ تر حصوں میں اس کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ قدیم یونان، مغربی افریقہ اور جدید مغربی ثقافت میں تیندوے کو اہم مقام حاصل ہے۔ تیندوے کی کھال کو فیشن مانا جاتا رہا ہے۔

پاکستان میں تیندوا[ترمیم]

پاکستان میں جو تیندوہ کی قسم پائی جاتی ہے اس کو پرژین لیوپرڈ (Persian Leopard – Panthera pardus saxicolor) کہا جاتا ہے۔ یہ انسانی آبادیوں سے تو دور ہی رہتے ہیں، لیکن اسلام آباد کے قریب پہاڑی علاقوں میں ابھی بھی مل سکتا ہے۔ پاکستان میں کئی غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو ان کی حفاظت کا خیال رکھتی ہیں۔[1]

تیندوا

خصوصیات[ترمیم]

تیندوے کی کھال نرم اور موٹی ہوتی ہے اور پیٹ کی کھال پشت کی نسبت زیادہ نرم ہے۔ اس کی کھال کا رنگ ہلکے پیلے سے لے کر شوخ زرد ہو سکتا ہے اور اس کی کھال پر سیاہ گل بنے ہوتے ہیں جو درمیان سے خالی ہوتے ہیں۔ اس کا پیٹ سفید ہوتا ہے اور دم ہمیشہ دھڑ سے چھوٹی ہوتی ہے۔ اس کی آنکھ کی پتلی گول ہے۔ خشک علاقے کے باسی تیندوے کی کھال کا رنگ ہلکا اور پھیکا ہوتا ہے جبکہ جنگلات اور پہاڑوں میں رہنے والے تیندوے کی کھال زیادہ شوخ اور گہری رنگت کی ہوتی ہے۔ پیٹ اور ٹانگوں کے نچلے کی طرف کھال پر بنے گل ہلکے ہوتے جاتے ہیں۔ مشرقی افریقی تیندوے کے گل دائرے کی شکل میں ہوتے ہیں جبکہ جنوبی افریقی تیندوے میں نسبتاً چوکور ہوتے ہیں۔ ایشیائی تیندوے کے گل زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ سرد علاقوں میں کھال کا رنگ خاکستری مائل جبکہ برساتی جنگل میں گہرا زرد ہوتا ہے۔ ہر تیندوے کی کھال پر بنے گل کا نمونہ دوسرے سے فرق ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ زرد کھال اور سیاہ گل دھوپ سائے میں تیندوے کو چھپنے میں مدد دیتے ہوں گے۔

اس کی دم کا آخری سرا ہمیشہ سفید ہوتا ہے اور نیچے کی جانب سفید ہوتی ہے۔ دم کے بیرونی سرے کی جانب دائرے ادھورے ہوتے جاتے ہیں۔ سر اور منہ پر بالوں کی لمبائی 3 سے 4 ملی میٹر ہوتی ہے جو باقی جسم پر 25 سے 30 ملی میٹر تک ہو جاتی ہے۔ بچوں کی کھال پر سمور ہوتی ہے جو زیادہ گہرے رنگ کی دکھائی دیتی ہے۔ سرد علاقے میں سمور زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ تیندوے کے گل جیگوار سے فرق ہوتے ہیں کہ جیگوار کے گل زیادہ شوخ اور ان کے اندر بھی دھبے ہوتے ہیں۔ تیندوے کے کروموسوم کی تعداد 38 ہے۔

سیاہ تیندوے بھی پائے جاتے ہیں جو میلانن نامی مادے کی کثرت سے سیاہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مغلوب خاصیت ہوتی ہے۔ انڈیا میں 1905 سے 1967 کے دوران 9 سفید اور ہلکے رنگ والے تیندوے دیکھے گئے ہیں۔ 1990 سے 2015 کے دوران جنوبی افریقہ کے ماڈیکوی گیم ریزرو اور مپوملانگا میں سرخی مائل تیندوے بھی دیکھے گئے ہیں۔ ایسے تیندوے کو سٹرابیری تیندوا یا گلابی تیندوا کہتے ہیں مگر اس کی وجہ کا تعین نہیں کیا جا سکا۔

جسامت[ترمیم]

تیندوے نسبتاً دبلے اور طاقتور ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھ پیر نسبتاً چھوٹے اور سر چوڑا ہوتا ہے۔ نر جسامت اور وزن میں مادہ سے زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ نر کے شانے کی اونچائی 24 تا 28 انچ جبکہ مادہ 22 تا 25 انچ بلند ہوتی ہے۔ سر اور دھڑ کی لمبائی 36 تا 72 انچ اور 26 تا 40 انچ لمبی دم ہوتی ہے۔ مختلف خطوں میں ان کی لمبائی فرق ہوتی ہے۔ نر کا اوسط وزن 31 تا 72 کلو جبکہ مادہ کا اوسط وزن 5ء20 تا 43 کلو ہوتا ہے۔ بعض اوقات نر کا وزن 91 کلو تک بھی دیکھا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں سب سے وزنی تیندوا 96 کلو ماپا گیا ہے جس کی لمبائی 103 انچ تھی۔ 2016 میں ہماچل پردیش میں مارا جانے والا ایک بھارتی تیندوا 103 انچ لمبا اور 5ء78 کلو وزنی تھا۔

تیندوے کی سب سے بڑی کھوپڑی 1920 میں ہندوستان میں دیکھی گئی جو 11 انچ لمبی اور 9ء7 انچ چوڑی تھی اور اس کا وزن ایک کلو تھا۔ سب سے بڑی افریقی تیندوے کی کھوپڑی 3ء11 انچ لمبی۔ 1ء7 چوڑی اور 790 گرام وزنی تھی۔

موجودہ اقسام[ترمیم]

1996 میں تیندوے کی 8 ذیلی اقسام تسلیم کی گئی ہے جو مائیٹوکونڈریل تجزیے پر مبنی ہیں۔ بعد میں 9ویں قسم عرب تیندوا تسلیم کی گئی۔

2017 میں تیندوے کی مندرجہ ذیل 8 ذیلی اقسام مانی گئی ہیں:

  • آمور تیندوا

عجائب گھروں میں محفوظ 182 افریقی تیندوؤں کے جینیاتی تجزیے سے اندازہ ہوا ہے کہ بعض افریقی تیندوے ایشیائی تیندوؤں کی نسبت زیادہ جینیاتی تغیر رکھتے ہیں۔

ارتقا[ترمیم]

جینیاتی تجزیے اور مائٹوکونڈریل ڈی این اے کے نتائج کے مطابق پینتھیرا اور نیوفیلیس انواع 63 لاکھ 70 ہزار سال قبل ایک دوسرے سے الگ ہو گئے تھے۔ شیر 65 لاکھ 50 ہزار جبکہ برفانی تیندوے 46 لاکھ 30 ہزار سال قبل الگ ہوئے اور تیندوے 43 لاکھ 50 ہزار سال قبل جدا ہوئے۔

مختلف جسمانی مواد کے تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ تیندوا ببرشیر کا قریبی رشتہ دار ہے۔ پیتھیرا نوع کی ابتدا کے بارے غالب امکان ہے کہ یہ شمالی وسطی ایشیا سے نکلا ہے۔

تیندوے کے قدیم ترین رکازیات مشرقی افریقہ سے ملے ہیں جو لگ بھگ 20 لاکھ سال پرانے ہیں۔ تیندوے یوریشیا میں 12 لاکھ سے 6 لاکھ سال قبل کے دوران آئے۔

تیندوے نما جانور کے دانت اور ہڈیوں کے رکازیات فرانس، لندن کے شمال مغرب اور اٹلی میں والڈارنو کے علاقے سے ملے ہیں۔

اختلاط[ترمیم]

1953 میں ایک نر تیندوے کا مادہ ببرشیرنی سے جاپان کے ایک چڑیاگھر میں جوڑا لگایا گیا۔ پیدا ہونے والے بچوں کو لیوپین کہا گیا جو 1959 اور 1961 میں پیدا ہوئے اور سبھی بچے چھوٹے تیندوے سے زیادہ بڑے اور دھبے دار تھے۔ لیوپین کو شیرنی کے ساتھ ملانے کی کوششیں ناکام رہیں۔

تقسیم اور مساکن[ترمیم]

جنگلی بلیوں میں تیندوا سب سے زیادہ جگہوں پر پایا جاتا ہے جو افریقہ، قفقاز اور ایشیا تک پھیلا ہے۔ تاہم اس کی آبادی بکھری ہوئی اور کم ہو رہی ہے۔ شمالی افریقہ سے تیندوا ناپید ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ تیندوا سوانا اور برساتی جنگلات میں پایا جاتا ہے اور ایسے علاقے جہاں گھاس کے میدان ہوں، درختوں کے جھنڈ ہوں، دریا کے کنارے اگے جنگلات ہوں یا ایسے علاقے جہاں انسانی مداخلت نہ ہو۔ زیریں صحارا افریقہ میں تیندوے ایسے جگہوں پر بھی بکثرت ملتے ہیں جہاں سے دیگر بڑی بلیاں غائب ہو چکی ہیں۔ مویشیوں پر حملوں کی وجہ سے انسان اور تیندوے کی چپقلش بڑھ رہی ہے۔

جزیرہ نما عرب میں تیندوے کی آبادی بہت کم اور بکھری ہوئی ہے۔ جنوب مغربی مصر میں 2017 میں ایک تیندوا مارا گیا جو اس علاقے میں 65 سال میں دکھائی دینے والا پہلا اور آخری تیندوا تھا۔ مغربی اور وسطی ایشیا میں صحراؤں، زیادہ تر برف سے ڈھکے علاقوں اور انسانی مراکز کی قربت سے تیندوا گریز کرتا ہے۔

برصغیر میں تیندوے ابھی تک بکثرت ہیں اور ان کی تعداد پینتھیرا نوع کے جانوروں سے زیادہ ہے۔ 2020 میں بھارت میں شیروں والے جنگلات میں تیندوؤں کی تعداد کا اندازہ 12،172 سے 13،535 کے درمیان لگایا گیا تھا۔ اس اندازے کے لیے جو علاقے چنے گئے، وہ 2،600 میٹر سے کم بلند شوالک کے پہاڑی سلسلے لے کر دریائے گنگا کے طاس، وسطی بھارت، مشرقی گھاٹ، مغربی گھاٹ، برہم پتر دریا اور شمال مشرق کی پہاڑیوں تک کے علاقے شامل تھے۔ بھارت میں بعض تیندوے انسانی آبادی سے قریب رہتے ہیں اور بعض تو قصبوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی مداخلت کے عادی ہو جانے کے باوجود تیندوؤں کی آبادی کے لیے مناسب شکار اور چھپنے کے لیے نباتات بھی موجود ہیں اور تیندوے زیادہ گنجان آبادی سے گریز کرتے ہیں۔ چھپنے کی صلاحیت کی وجہ سے اکثر انسانی آبادیاں ان کی موجودگی سے بے خبر رہتی ہیں۔

مئی 2012 میں نیپال میں کنچنجنگا کے محفوظ علاقے میں 4،300 میٹر کی بلندی پر ایک خودکار کیمرے نے تیندوے کی تصویر لی تھی۔ سری لنکا میں یالا نیشنل پارک اور دیگر جنگلاتی رقبوں، چائے کے باغات، گھاس کے میدان، گھریلو باغیچوں، صنوبر اور سفیدے کے ذخیروں میں بھی تیندوے دیکھے گئے۔ میانمار میں تیندوے پہلی بار کیرن ریاست میں خودکار کیمرون سے شناخت کیے گئے۔ جنوبی میانمار میں تیناسیرم جنگلات تیندوے کی محفوظ پناہ گاہ شمار ہوتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں تیندوے ملائیشیا کے ساتھ ہالا بالا وائلڈ لائف سینکچوری اور کئی دیگر علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ جزیرہ نما ملائیشیا میں تیندوے بیلم تیمنگور، تمان نیگارا اور انڈاؤ رومپن نیشنل پارکوں میں عام ہیں۔ لاؤس میں تیندوے محفوظ جنگلات میں ملتے ہیں۔ کمبوڈیا میں بھی تیندوے پائے جاتے ہیں۔ جنوبی چین میں چنگ لنگ پہاڑوں میں 2002 اور 2009 میں ہونے والے سروے تیندوے 11 محفوظ جنگلات میں دیکھے گئے۔

جاوا میں تیندوے سطح سمندر سے لے کر 2،540 میٹر بلندی تک کے گھنے استوائی جنگلات اور پت جھڑ والے خشک جنگلات میں ملتے ہیں۔ محفوظ جنگلات سے باہر بھی تیندوے ملی جلی مزروعہ زمین اور ثانوی جنگلات وغیرہ میں ملتے ہیں۔

روس کے شمال بعید میں تیندوا ایسے جنگلات میں رہتا ہے جہاں درجہ حرارت سردیوں میں منفی 25 تک پہنچ جاتا ہے۔

رویہ اور ماحول[ترمیم]

تیندوا تنہا رہنے والا اور اپنے علاقے پر قبضہ جما کر رکھنے والا جانور ہے۔ عام حالات میں تیندوا سڑک عبور کرتے ہوئے یا گاڑیوں کو دیکھ کر چھپ جاتا ہے مگر جب اسے خطرہ محسوس ہو تو انسان یا جانور پر حملہ کر سکتا ہے۔ بالغ تیندوے محض ملاپ کے موسم میں جوڑے کے ساتھ رہتے ہیں۔ مادائیں دودھ چھڑانے کے بعد بھی اپنے بچوں سے رابطہ رکھتی ہیں اور اگر بچے شکار کرنے کے قابل نہ ہوں تو ان کے ساتھ اپنا شکار بھی بانٹتی ہیں۔ تیندوے مختلف قسم کی آوازیں نکال سکتے ہیں جیسے غرانا، دھاڑنا، میاؤں سے مشابہہ اور غرغر کرنا۔ غرانے کی آواز آرہ کشی سے مشابہہ ہوتی ہے۔ بچے اپنی ماں کو بلانے کے لیے اُر اُر جیسی آوازیں نکالتے ہیں۔

تیندوے عموماً غروب آفتاب سے لے کر طلوع آفتاب تک گھومتے ہیں اور دن کا زیادہ تر وقت گھنی جھاڑیوں، چٹانوں یا درختوں پر سو کر گزارتے ہیں۔ عام حالات میں رات کے وقت تیندوے اپنے علاقے میں ایک 25 کلومیٹر تک گشت کرتے ہیں اور اگر انھیں خطرہ محسوس ہو تو 75 کلومیٹر تک کا فاصلہ بھی طے کر سکتے ہیں۔ بعض خطوں کے تیندوے شب بیدار ہوتے ہیں۔ مغربی افریقی جنگلات میں تیندوے دن کے وقت دیکھے جاتے ہیں کہ ان کا مطلوبہ شکار بھی دن کو دکھائی دیتا ہے۔ یہ عادت موسم کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔

تیندوے درخت پر آسانی سے چڑھ جاتے ہیں اور اکثر درختوں کی شاخوں پر آرام کرتے ہیں۔ اترتے ہوئے تیندوے کا سر نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ تیندوے کی رفتار 58 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے اور ان کی جست کی لمبائی 6 میٹر جبکہ بلندی 3 میٹر تک ہوتی ہے۔

سماجی فاصلہ[ترمیم]

کروگر نیشنل پارک میں زیادہ تر تیندوے ایک دوسرے سے ایک کلومیٹر دور رہتے ہیں۔ نر بعض اوقات اپنی مادہ اور بچوں سے بھی ملتے ہیں اور یہ سلسلہ کئی نسل تک جاری رہ سکتا ہے۔ اپنے علاقے کے تحفظ کے لیے تیندوے ایک دوسرے سے لڑ سکتے ہیں۔

نروں کے علاقے اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ اس میں کئی ماداؤں کے چھوٹے علاقے شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح افزائش نسل میں آسانی ہوتی ہے۔ آئیوری کوسٹ میں مادہ کا علاقہ نر کے علاقے کے اندر ہی ہوتا ہے۔ ماداؤں اور بچوں کے علاقے اکثر ایک دوسرے کا حصہ ہوتے ہیں کہ ماں اور بچوں کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ نوجوان تیندوں کے علاقے ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں۔ ایک ہی جنس کے تیندوے دوسرے کو اپنے علاقے سے بھگا دیتے ہیں۔

نمیبیا کے فارم لینڈ علاقوں میں کی گئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جنس، بارشیں یا موسم کی مناسبت سے ان علاقوں میں تیندوؤں کی آماج گاہوں کا رقبے پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ جتنا زیادہ شکار ہوگا، اتنے زیادہ تیندوے ایک جگہ پائے جائیں گے اور ان کی آماج گاہیں اتنی ہی چھوٹی ہوں گی۔ اگر انسان کی مداخلت ہو تو پھر یہ آماج گاہیں بڑی ہوتی جاتی ہیں۔ عموماً تیندوے کی آماج گاہ کا رقبہ شکار کی دستیابی، ماحول اور جغرافیائی اعتبار پر انحصار کرتا ہے۔ سرنگیتی میں نر کی آماج گاہ 33 سے 38 مربع کلومیٹر جبکہ مادہ کی 14 سے 16 مربع کلومیٹر ہے جبکہ جنوب مغربی نمیبیا میں نر کی آماج گاہ 451 مربع کلومیٹر جبکہ مادہ کی 188 مربع کلومیٹر ہو جاتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں آماج گاہ کا رقبہ اور بھی بڑھ جاتا ہے جیسا کہ نیپال کے بردیا نیشنل پارک میں نر تیندوے کی آماج گاہ 48 مربع کلومیٹر جبکہ مادہ کی 5 سے 7 مربع کلومیٹر ہوتی ہے جو افریقی تیندوے سے کہیں کم ہے۔

شکار اور خوراک[ترمیم]

تیندوے درندے ہیں اور ان کا شکار عموماً اوسط جسامت کا اور 10 سے 40 کلو وزنی ہوتا ہے۔ اس جسامت کے حامل جانور گھنے مقامات پر غول یا جھنڈ کی شکل میں رہتے ہیں۔ کھلے میدانوں میں رہنے والے جانور جو شکاریوں سے بچنے کے گر جانتے ہوں، کو تیندوا ترجیح نہیں دیتا۔ تیندوے کے شکار کردہ جانوروں کی 100 سے زیادہ انواع دیکھی گئی ہیں۔ سب سے زیادہ ترجیح کھردار جانوروں جیسا کہ امپالا، بش بک، عام ڈیوکر اور چیتل کو ملتی ہے جبکہ بندر اور لنگور بھی تیندوے کا کھاجا بنتے ہیں۔ چھوٹے درندے جیسا کہ گیدڑ، لومڑی، گینیٹ اور چیتے بھی اس سے نہیں بچتے۔

تیندوے کا شکار کردہ سب سے بڑا جانور 900 کلو وزنی نر ایلینڈ دیکھا گیا ہے۔ چین میں کیے گئے 7 برس طویل ایک مطالعے سے ثابت ہوا کہ تیندوے ہرن سے چوہے تک، سبھی کچھ کھاتے ہیں۔

شکار کے لیے تیندوا اپنی عمدہ سماعت اور تیز بصارت پر بھروسا کرتا ہے۔ زیادہ تر مقامات پر تیندوے رات کو شکار کرتے ہیں۔ مغربی افریقی جنگلات اور ساوؤ نیشنل پارک میں دن کو بھی تیندوے شکار کرتے دیکھے گئے ہیں۔ عموماً تیندوے زمین پر رہ کر شکار پر گھات لگاتے ہیں مگر سرنگیتی میں تیندوے درختوں پر چڑھ کر بھی گھات لگاتے ہیں۔

تیندوے اپنے شکار پر چھپ چھپا کر گھات لگاتے اور 5 میٹر قریب پہنچ کر جست لگا کر وار کرتے ہیں۔ تیندوے اپنے شکار کو گلا گھونٹ کر مارتے ہیں۔ چھوٹا شکار ہو تو تیندوا اس کی گدی پر دانت پیوست کر کے اور اگر بڑا جانور ہو تو اس کا نیچے سے گلا دبا کر اسے مارتے ہیں۔ انتہائی طاقتور پٹھوں کی مدد سے تیندوے خود سے زیادہ وزنی شکار کو درخت پر لے جاتے ہیں۔ ایک بار ایک تیندوا 125 کلو وزنی کم عمر زرافے کو درخت پر ساڑھے پانچ میٹر سے زیادہ اونچا لے گیا۔ تیندوے اپنے شکار کو 2 کلومیٹر تک لے جاتے ہیں۔ اگر جانور چھوٹا ہو تو تیندوا اسے موقعے پر ہی کھا لیتا ہے اور اگر جانور بڑا ہو تو تیندوا کئی سو میٹر گھسیٹنے کے بعد مناسب درخت پر، جھاڑی یا غار میں چھپا دیتا ہے۔ اس طرح تیندوے کے شکار پر دوسرے درندے ہاتھ نہیں صاف کر سکتے۔

نر تیندوا اوسطاً 5ء3 کلو جبکہ مادہ 8ء2 کلو گوشت کھاتی ہے۔ جنوب مغربی کالاہاری صحرا میں تیندوے ہر دوسرے روز پانی پیتے ہیں اور اس دوران وہ اپنے شکار کردہ جانوروں کی رطوبتوں اور ایسے پودوں سے بھی پیٹ بھرتے ہیں جن میں پانی کی مقدار کافی ہوتی ہے جیسا کہ جنگلی کھیرے اور تربوز وغیرہ۔

دشمن اور رقیب[ترمیم]

تیندوے کی آماج گاہ شیر، ببرشیر، چیتے، دھبے دار لگڑبگڑ، دھاری دار لگڑبگڑ، بھورے لگڑبگڑ، افریقی جنگلی کتے، ڈھول، بھیڑیے اور کم از کم 5 اقسام کے ریچھوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض درندے نہ صرف تیندوے کے شکار بلکہ اس کے بچوں اور بالغ تیندوے پر بھی ہاتھ صاف کرنے سے نہیں چوکتے۔ خطرے کے وقت تیندوے درخت پر چڑھ جاتے ہیں اور جب انھیں موقع ملے تو یہ بھی گیدڑ، جنگلی بلی، سارسل اور دیگر چھوٹے درندوں کو مار کھاتے ہیں۔ تیندوے بالغ ریچھ کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر بچے ہاتھ لگ جائیں تو انھیں فوری مار ڈالتے ہیں۔ سری لنکا میں تیندوے اور بھالو ریچھ کی کئی بار لڑائیاں دیکھی گئیں جو یا تو دونوں فریقین کی موت پر منتج ہوئیں یا پھر دونوں ہی شدید زخمی ہوئے۔ تیندوے افریقی جنگلی کتوں کے غول سے گھبراتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہی درخت پر چڑھ جاتے ہیں۔

عموماً بالغ تیندوے دیگر درندوں کے ہاتھ نہیں آتے مگر شیر اور ببرشیر کئی بار کم عمر تیندوے اور بالغ کو بھی مار کر کھا جاتے ہیں۔ کالاہاری صحرا میں تیندوے کے شکار کو عموماً لگڑبگڑ لے جاتے ہیں کہ وہاں درخت کم ہیں۔ تنہا بھورا لگڑبگڑ نر تیندوے کو اس کے شکار سے بھگاتا ہوا پایا گیا ہے۔ ببرشیر بعض اوقات درخت پر چڑھ کر تیندوے کے شکار کو کھا جاتے ہیں۔

جب تیندوے اور شیر ایک ہی مقام پر رہ رہے ہوں تو عموماً تیندوا 75 کلو سے چھوٹے جانور مارتا ہے جبکہ شیر زیادہ بڑے جانوروں کو کھاتا ہے۔ جہاں شیروں کی تعداد زیادہ ہو، وہاں تیندوؤں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ شیر عام طور پر گھنے جنگل میں جبکہ تیندوا جنگل کے کنارے رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ استوائی جنگلات میں شکار کی کثرت کی وجہ سے تیندوے اور شیر ایک ہی وقت میں شکار کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعرض نہیں کرتے۔ سوانا مسکن میں ببرشیروں کے ساتھ تیندوے کو محتاط رہنا پڑتا ہے۔

بعض اوقات نیل کے مگرمچھ تیندوے کو شکار کرتے ہیں۔ ایک بار کروگر نیشنل پارک میں دریا کنارے گھات لگاتے ہوئے بالغ تیندوے کو مگرمچھ نے پکڑ کر کھا لیا۔ راجستھان میں مگر نے ایک بالغ تیندوا مارا۔ ایک 5ء5 میٹر لمبے برمی اژدہے کے پیٹ سے بالغ تیندوے کی لاش نکلی۔ سرنگیتی نیشنل پارک میں 30 سے 40 ببون مل کر ایک مادہ تیندوے اور اس کے بچوں پر حملے کرتے دیکھے گئے۔

افزائش نسل اور دورانِ حیات[ترمیم]

بعض علاقوں میں تیندوے سارا سال افزائش نسل کرتے ہیں۔ منچوریا اور سائبیریا میں افزائش نسل جنوری اور فروری میں ہوتی ہے۔ عموماً مادہ اڑھائی سے تین سال کی عمر میں جبکہ نر دو سے تین سال کی عمر میں افزائش نسل شروع کرتا ہے۔ مادہ عموماً 6 سے 7 دن تک ملاپ کے لیے تیار ہوتی ہے۔ زمانہ حمل 90 سے 105 دن ہوتا ہے اور 2 سے 4 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے سال کے دوران بچوں کی شرح اموات 41 تا 50 فیصد ہوتی ہے۔ ببرشیر اور لگڑبگڑ تیندوے ایک سال کی عمر تک کے تیندوے کے بچوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ نر تیندوے بھی بعض اوقات بچوں کو مار کر ان کی ماں کو ملاپ پر تیار کرتے ہیں۔ مادہ تیندوا 15 سے 24 ماہ کے بعد ملاپ کے لیے تیار ہوتی ہے مگر بچوں کے جلد مرنے سے یہ دورانیہ کم بھی ہو سکتا ہے۔

مادہ تیندوا زچگی کے لیے غار، کھوہ، کھوکھلا درخت یا جھاڑی کا انتخاب کرتی ہے۔ پیدائش کے وقت بچوں کا وزن 280 گرام سے ایک کلو تک ہو سکتا ہے اور ان کی آنکھیں 4 سے 9 دن بعد کھلتی ہیں۔ بچوں کی کھال پر سمور ہوتی ہے اور کھال کا رنگ سرمئی ہوتا ہے جس پر دھبے کم دکھائی دیتے ہیں۔ 9 ہفتے کی عمر سے تیندوے کے بچے گوشت کھانا شروع کرتے ہیں۔ تین ماہ کی عمر کو پہنچ کر بچے ماں کے پیچھے شکار پر جاتے ہیں۔ ایک سال کی عمر تک بچے خود مختار ہو جاتے ہیں مگر ڈیڑھ سے دو سال تک ماں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ماں سے الگ ہونے کے بعد بچے ایک ساتھ کئی ماہ تک رہ سکتے ہیں۔

تیندوے کی اوسط عمر 12 سے 17 سال ہے۔ قید میں سب سے زیادہ عمر ایک مادہ تیندوے کی تھی جو 24 سال، 2 ماہ اور 13 دن شمار کی گئی۔

بقا[ترمیم]

بین الاقوامی طور پر تیندوے کی کھال اور جسمانی اعضا کی تجارت پر حد مقرر ہے جو زیریں صحارا کے 11 ممالک میں 2،560 تیندوے سالانہ ہے۔ جنگلات کو کاٹ کر زراعت کرنے سے تیندوے کے مسکن کو خطرہ لاحق ہے اور نتیجتاً انسان اور تیندوے کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ شکار اور چورشکار بھی اس کی تعداد میں کمی کا سبب ہیں۔ ماضی کی نسبت آج تیندوے کے مساکن ایک چوتھائی باقی بچے ہیں۔

بھارت میں 2002 سے 2012 کے دوران ہر ہفتے اندازہً 4 تیندوؤں کو ان کی کھال اور ہڈیوں کی تجارت کے لیے غیر قانونی طور پر مارا جاتا رہا۔ 2013 کے موسم بہار میں مراکش کے بڑے شہروں کے بازاروں میں 7 ہفتوں کے دوران تیندوے کی 37 کھالیں پائی گئیں۔ 2014 میں مراکش میں کیے گئے دو سروے میں تیندوے کی 43 کھالیں ملیں جو تاجروں کے بقول زیریں صحارا ممالک سے لائی گئی تھیں۔

جاوا میں بھی تیندوے کو غیر قانونی شکار اور تجارت کا سامنا ہے۔ 2011 سے 2019 کے دوران 51 جاوا تیندوؤں کے جسمانی اعضا، 6 زندہ تیندوے، 12 کھالیں، 13 کھوپڑیاں، 20 بڑے دانت اور 22 پنجے ضبط کیے گئے۔


ہانگ کانگ، سنگاپور، جنوبی کوریا، اردن، مراکش، ٹوگو، متحدہ عرب امارات، ازبکستان، لبنان، موریتانیہ، کویت، شام، لیبیا اور تیونس سے تیندوے معدوم ہو چکے ہیں اور اندازہ ہے کہ شمالی کوریا، گیمبیا، لاؤس، لیسوتھو، تاجکستان، ویت نام اور اسرائیل میں بھی تیندوے لگ بھگ معدوم ہیں۔

انسان سے تعلق[ترمیم]

ثقافی اہمیت[ترمیم]

مختلف ممالک کے فنون لطیفہ، لوک کہانیوں اور دیومالا میں تیندوے کا تذکرہ ملتا ہے۔ یونانی دیومالا میں ایک دیوتا کو تیندوے کی کھال اوڑھے اور تیندوے پر سوار دکھایا جاتا تھا۔ بینن عہد میں تیندوے کو بادشاہ کی طاقت کی علامت دکھایا جاتا تھا۔ اشانتی قوم میں صرف بادشاہ ہی تیندوے کی کھال سے بنے موڑھے پر بیٹھ سکتا تھا۔ بعض افریقی معاشروں میں تیندوے کو ببرشیر سے بہتر شکار مانا جاتا ہے اور یہ بھی کہ اس کا شکار ببرشیر کے شکار سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

رڈیارڈ کپلنگ نے بھی ایک کہانی میں تیندوے کا تذکرہ کیا ہے۔

بینن، ملاوی، صومالیہ، عوامی جمہوریہ کانگو اور گیبون میں تیندوے کو سرکاری علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گیبون عموماً سیاہ تیندوا بطور علامت استعمال کرتا ہے۔

انسان پر حملے[ترمیم]

ردرپریاگ کے آدم خور تیندوے نے 125 انسان مار کھائے جبکہ پانار کے آدم خور تیندوے کے بارے مانا جاتا ہے کہ اس نے 400 انسان کھائے۔ ان دونوں تیندوؤں کو مشہور برطانوی شکاری جم کاربٹ نے شکار کیا۔ ایک اور سکاٹش شکاری کینیتھ اینڈرسن نے گملاپور کا مشہور آدم خور تیندوا شکار کیا جو 42 انسانوں کو کھا چکا تھا۔

قید[ترمیم]

قدیم رومی تیندوے کو شکار اور مجرموں کو مارنے کے لیے قید رکھتے تھے۔ بینن میں تیندوے کو نمائش، علامات اور دیوتاؤں کے لیے قربانی کے لیے قید کیا جاتا ہے۔ جدید دور میں تیندوؤں کو سرکس کے لیے تربیت دی جاتی رہی ہے۔

نسلی گروہ[ترمیم]

نگار خانہ[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Zulfiqar, A. 2001. Leopard in Pakistan’s North West Frontier Province. Cat News 35: 9-10.