جاوید برکی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جاوید برکی ٹیسٹ کیپ نمبر 36
ذاتی معلومات
پیدائش (1938-05-08) 8 مئی 1938 (عمر 85 برس)
میرٹھ، برطانوی ہند کے صوبے اور علاقے
(اب بھارت)
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا میڈیم پیس گیند باز
تعلقاتماجد خان (کزن)
عمران خان (کزن)
شاہد جاوید برکی (کزن)
احمد رضا (چچا)
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 36)2 دسمبر 1960  بمقابلہ  بھارت
آخری ٹیسٹ8 نومبر 1969  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ فرسٹ کلاس
میچ 25 177
رنز بنائے 1341 9421
بیٹنگ اوسط 30.47 36.37
100s/50s 3/4 22/31
ٹاپ اسکور 140 227
گیندیں کرائیں 42 3394
وکٹ 35
بولنگ اوسط 44.57
اننگز میں 5 وکٹ
میچ میں 10 وکٹ
بہترین بولنگ 4/13
کیچ/سٹمپ 7/– 101/–
ماخذ: ای ایس پی این کرک انفو، 12 جون 2017

جاوید برکی انگریزی:Javed Burki (پیدائش: 8 مئی 1938ء میرٹھ، اترپردیش، بھارت) پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی اور کپتان رہے ہیں[1] انھوں نے پاکستان کی طرف سے 25 ٹیسٹ کھیلے اور بعد میں ریفری بن گئے۔ انھوں نے 1962ء میں 5 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی۔جاوید برکی جنرل واجد علی خان برکی (1900–1988ء) کے بیٹے ہیں۔ جنرل برکی کی بھابھی، شوکت خانم (برکی)، موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان، کی والدہ تھیں۔ جاوید برکی کے ایک اور کزن ماجد خان نے بھی پاکستان کے کرکٹ کپتان کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جاوید برکی کے بھائیوں میں ڈاکٹر نوشیروان خان برکی، شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر کے بانی رکن اور جمشید برکی، ایک کیریئر سول سرونٹ سیکرٹری شامل ہیں۔ ان کی فیملی میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں

ٹیسٹ کرکٹ میں کارکردگی[ترمیم]

1960ء میں جاوید برکی نے بھارت کے خلاف ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ پاکستان کی ٹیم 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے وہاں پہنچی تھی۔ ممبئی کے پہلے ٹیسٹ میں جاوید برکی 2 اننگز میں صرف 30 رنز بنا سکے تھے تاہم کانپور کے دوسرے ٹیسٹ میں 79 اور 48 ناٹ آئوٹ بنا کر انھوں نے اپنی صلاحیتوں کے مظاہرے کا آغاز کیا مگر اگلے دو ٹیسٹوں میں کل ملا کر 109 رنز ہی بنا پائے جس میں 48 رنز کے علاوہ 42 اور 19 رنز ہی باریاں شامل تھیں۔ اس نے دہلی کے آخری ٹیسٹ میں 61 رنز کی شاندار باری کھیلی جس سے اس کی اس پہلی ٹیسٹ سیریز میں مناسب کارکردگی کا اشارہ ملا۔ 1961ء کے سیزن میں انگلستان کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو انھیں ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ اس سیریز میں ان کے بلے سے خوب گرج برس کے نمونے ملے۔ پہلے ہی ٹیسٹ میں لاہور کے مقام پر انگلستان کی فتح پر ختم ہونے والے ٹیسٹ میں جاوید برکی نے 375 منٹ میں 17 چوکوں کی مدد سے 138 رنز بنائے۔ سعید احمد کے 74 رنز بھی خاصے مددگار ثابت ہوئے۔ جب پاکستان کی ٹیم نے 9 کھلاڑیوں کے آئوٹ ہونے پر 387 رنز پر ڈکلیئر کردی۔ بوچ وائٹ اور باب باربر نے 3,3 کھلاڑیوں کی اننگز کو ختم کیا۔ جواب میں انگلستان نے کین بریگٹن کے 139 اور مائیک سمتھ 99 سے 380 کا مجموعہ بنا لیا۔ تین رنز کے خسارے سے ختم ہونے والی اس اننگز میں محمد مناف نے پاکستان کی طرف سے 42/4 کی عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا لیکن پاکستان نے دوسری اننگز میں بہت مایوس کن کھیل پیش کیا اور ساری ٹیم 200 پر ہی ہمت ہار گئی جبہ انگلستان نے 5 وکٹوں پر مطلوبہ ہدف حاصل کرکے فتح حاصل کرلی۔ اس لیے جاوید برکی کو اپنی سنچری کے ضیاع کا بڑا قلق تھا۔ تاہم انھوں نے بھی دوسری اننگز میں مایوس کن کھیل پیش کیا تھا۔ سیریز کا اگلا ٹیسٹ ڈھاکہ میں تھا۔ جاوید برکی 140 نے 351 منٹ میں 17 چوکوں کے ساتھ مسلسل دوسری ٹیسٹ سنچری بنائی تھی۔ حنیف محمد 111 کے ساتھ ایک بار پھر بڑا سکور بنانے میں کامیاب رہے۔پاکستان نے 7 وکٹوں پر 393 رنز کی باری پھر ڈکلیئر کی گئی جواب میں انگلش ٹیم نے جیک پلر 165' باب باربر 86 اور کین بریگٹن کے 84 رنز سے پاکستانی بائولرز کو بھرپور جواب دیا اور 439 رنز کی اننگ مکمل کی۔ انتائو ڈیسوزا نے پاکستان کی طرف سے 94/4 اور شجاع الدین نے 73/3 کے ساتھ بولنگ میں اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھائیں۔ دوسری اننگ میں حنیف محمد 104 رنز بنا کر دوسری اننگز میں سنچریاں بنا کر سب کو حیران کر گئے۔ لیکن جاوید برکی پھر دوسری اننگ میں کوئی رنز بنائے بغیر پویلین کو لوٹ گئے۔ وہ تو خدا کا شکر ہوا کہ یہ ٹیسٹ برابری پر ختم ہو گیا کیونکہ انگلش بیٹسمینوں نے ابھی 35 رنز ہی بنائے تھے کہ میچ کا وقت ختم ہو گیا۔ کراچی ٹیسٹ میں 3 اور 44 کے ساتھ اس سیریز کا اختتام کیا۔ اس کے بعد فوراً بعد پاکستانی ٹیم انگلستان کے جوابی دورے پر روانہ ہو گئی۔ برمنگھم کے پہلے ٹیسٹ میں 13 اور 19 جبکہ لیڈز کے آخری ٹیسٹ میں 11 اور 21 رنز کے ساتھ جاوید برکی کی رنز کرنے کی بھرپور جدوجہد سامنے آئی۔ یہی وجہ ہے کہ لارڈز کے دوسرے ٹیسٹ میں ان کے بلے سے ایک اور سنچری نے جنم لیا۔ پہلی اننگ میں تو وہ 5 رنز ہی بنا سکے مگر دوسری باری میں انھوں نے 101 کی اننگ ایسے وقت میں کھیلی جب پاکستان کی ٹیم مشکلات سے دوچار تھی۔ اس وقت پاکستان پہلی اننگ میں 100 رنز تک محدود رہی تھی۔ نسیم الغنی 17 اور والز میتھائس 15 کے ساتھ اننگ کے ٹاپ سکورر تھے۔ اس حال کو پہنچانے والوں میں انگلش بولرز فریڈی ٹرومین 31/6 اور لین گولڈ ویل 25/3 کا عمل دخل تھا۔ جواب میں انگلش کرکٹ ٹیم نے 370 رنز بنا کر پاکستان کی یقینی شکست کا اہتمام کر دیا تھا۔ ٹام گریونے 153' ٹیڈ ڈیکسٹر 65 کی عمدہ بیٹنگ نے اس بڑے سکور تک رسائی ممکن بنائی تھی۔ دوسری اننگ میں پاکستان کی ٹیم جاوید برکی 101 رنز کی مدد سے 355 رنز تو بنا گئی تاہم پہلے اننگ کے خسارے میں 9 وکٹوں سے فتح انگلش ٹیم کی جھولی میں ڈال دی تھی۔ اوول کے آخری ٹیسٹ میں جاوید برکی 3 اور 42 کے ساتھ گھر لوٹے۔ 2 سال کے وقفے کے بعد وہ 1964ء میں اس وقت ٹیم کے ساتھ آ ملے جب آسٹریلیا کی ٹیم کراچی ٹیسٹ میں انھیں دوبارہ موقع دیا گیا۔ اس بار 8 اور 62 کے ساتھ انھوں نے کچھ متاثر کیا۔ ان کا اگلا ٹیسٹ میلبورن میں تھا جہاں انھوں نے اس اکلوتے موقع سے 29 اور 47 کے ساتھ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ جاوید برکی کو 1968ء میں آسٹریلیا کی ٹیم کے خلاف شرکت کا موقع ملا۔ 3 ٹیسٹوں میں سے پہلے ٹیسٹ میں ولنگٹن کے مقام پر وہ بغیر کوئی رنز بنائے آئوٹ ہوئے۔ لیکن آکلینڈ کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے 63 رنز بنا کر کچھ ازالہ کیا۔ لیکن کرائسٹ چرچ کے ٹیسٹ میں وہ پھر کوئی بڑی اننگ کھیلنے میں ناکام رہے اور صرف 4 اور 12 پر ہی پویلین لوٹ گئے۔ لیکن چونکہ ان پر سلیکٹرز کو اعتماد تھا اس لیے ان کو اسی سیزن میں نیوزی لینڈ کے جوابی دورے میں ٹیم کا حصہ ہی رکھا گیا۔ راولپنڈی کے پہلے ٹیسٹ میں 6 اور لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں 10 اور 14 جبکہ کراچی کے اور آخری ٹیسٹ میں 29 اور 4 ناقابل شکست رنز بنانے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ ان کی کارکردگی میں اب وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ ان پر تنقید ہونی شروع ہو گئی تھی اور ان کی کارکردگی کا ڈھلتا سورج ان کے لیے کوئی سود مند حالات کی پیشین گوئی نہیں کررہا تھا اس لیے انھیں دو سال تک پاکستان سے کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا اور 1967ء تک انھیں دوبارہ میدانوں میں نہیں اتارا گیا۔ تاہم اسی سیزن میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تو وہ ایک بار پھر ٹیم کا حصہ بنا لیے گئے لیکن لارڈز میں 31 اور 13' نوٹنگھم میں 1 اور 3 جبکہ اوول کے آخری ٹیسٹ میں ان سے صرف 27 اور 7 رنز ہی بن سکے۔ یوں تین ٹیسٹ میچوں میں ان سے 82 رنز سکور ہوئے جو ہر لحاظ سے ان کے شایان شان نہیں تھے[2]

آخری ٹیسٹ[ترمیم]

جاوید برکی کا آخری ٹیسٹ 1969ء کے سیزن میں دیکھنے کو ملا۔ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کا پاکستان کا دورہ کیا تو ان کو سیریز کے آخری ٹیسٹ میں ڈھاکہ کے مقام پر انھیں ٹیم کا حصہ بنا توقع کی گئی کہ وہ ٹیم کے لیے موثر کردار ادا کریں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پہلے کھیلتے ہوئے گیلن ٹرنر کے 110 اور مائیک برجس کے 59 رنز کی بدولت 273 رنز سکور کیے۔ پاکستان کی طرف سے انتخاب عالم 91/5 کے ساتھ کیوی ٹیم کو زک پہنچانے میں کامیاب رہے تھے۔ جواب میں پاکستان نے دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے 7 وکٹوں پر 290 رنز بنا کر اننگ کا خاتمہ کر دیا۔ آصف اقبال 92 اور شفقت رانا 65 رنز پر نمایاں تھے تاہم جاوید برکی صرف 22 رنز بنا سکے۔ دوسری باری میں ایک مرحلہ پر نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لڑکھڑاگئی اور 200 کے سکور پر ہی پویلین میں لوٹ گئی۔ مائیک برجز کے 119 رنز نہ ہوتے تو کیوی ٹیم کا بہت برا حشر ہوتا۔ انتخاب عالم 91/5 اور پرویز سجاد 60/4 نے کیوی بولرز کے سبھی راستے مسدود کر دیے۔ تاہم کیوی ٹیم اس لحاظ سے خوش قسمت رہی کہ وہ ٹیسٹ ڈرا کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ جاوید برکی کا آخری ٹیسٹ تھا جس میں انھیں نمائندگی کا موقع ملا[3]

ریٹائرمنٹ کے بعد[ترمیم]

کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد جاوید برکی نے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ مالاکنڈ ڈویژن-NWFP کے ایک حصے کے طور پر پاکستان سول سروس میں شمولیت اختیار کی اور حکومت پاکستان کی وزارت تجارت اور سیکرٹری وزارت پانی و بجلی (واپڈا) کے لیے کام کیا۔ برکی نے پاکستان آٹوموبائل کارپوریشن (PACO) کے سی ای او کے طور پر بھی خدمات انجام دیں جن کی قیادت میں پاکستان کی پہلی مقامی طور پر اسمبل شدہ کار کمپنی، پاک سوزوکی موٹر کمپنی، شروع کی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے دوران برکی نے پاکستانی فوج کے سینئر حاضر سروس ارکان کی جانب سے قابل اعتراض فوجی گاڑیوں کی خریداری کے عمل پر اعتراض کیا۔ اسے خاموش کرنے کے لیے، برکی اور اس کے ساتھی مزمل نیازی دونوں کو 19 دسمبر 2002ء کو بالترتیب اسلام آباد اور لاہور سے گرفتار کر کے کراچی سینٹرل جیل لے جایا گیا۔

اعداد و شمار[ترمیم]

جاوید برکی نے 25 ٹیسٹ میچ کھیلے جن کی 48 اننگز میں 4 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 1341 رنز سکور کیے۔ 30.47 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعہ میں ان کا سب سے زیادہ سکور 140 تھا۔ 3 سنچریاں اور 4 نصف سنچریاں بھی اس مجموعے کا حصہ تھیں جبکہ فرسٹ کلاس میچز میں انھوں نے 177 میچوں کی 290 اننگز میں 31 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 9421 رنز بنائے۔ 36.37 کی اوسط سے ترتیب پانے والے سکور میں 227 اس کے کسی اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 22 سنچریاں اور 31 نصف سنچریاں اور 101 کیچز بھی ان کی اعلیٰ کارکردگی کا آئینہ دار تھے۔ ٹیسٹ میچوں میں ان کے کیچز کی تعداد 7 تھی۔ جاوید برکی نے ٹیسٹ میچوں میں تو کوئی وکٹ حاصل نہیں کی مگر فرسٹ کلاس کرکٹ میں 1560 رنز دے کر 35 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا تھا۔ اس طرح انھیں 44.57 کی اوسط حاصل ہوئی تھی۔ 13/4 ان کی بہترین بولنگ کے طور پر سامنے آئے۔ جاوید برکی نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد امپائرنگ کا بھی شعبہ اختیار کیا۔ انھوں نے 6 ٹیسٹ میچ اور 15 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے سپروائز کیے۔ جاوید برکی نے 1962ء کے سیزن میں 5 ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کی قیادت کی جس میں سے 4 میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک ٹیسٹ برابری پر ختم ہوا[4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

ماقبل  پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان
1962
مابعد