جلیبیب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جلیبیب
 

معلومات شخصیت
وجہ وفات قُتل في المعركة
عملی زندگی
نسب من بني ثعلبة حليفاً في الأنصار[1]

جلیبیب یہ انصاری صحابی ہیں ان کا ذکر ابوبرزہ اسلمی کی حدیث میں آتا ہے[2]

سلسلہ نسب[ترمیم]

جليبيب بن عبد ٍ الفہری نام تھا، آپ انصار کے کسی قبیلہ سے تھے، سلسلۂ نسب اتنا ہی معلوم ہوا ۔ ابو برزہ اسلمی سے مروی ہے کہ جلیبیب عورتوں کے پاس سے گذرتا اور انھیں تفریح مہیا کرتا تھا، میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ تمھارے پاس جلیبیب کو نہیں آنا چاہیے، اگر وہ آیا تو میں ایسا ایسا کردوں گا، انصار کی عادت تھی کہ وہ کسی بیوہ عورت کی شادی اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک نبی کریم کو اس سے مطلع نہ کر دیتے کہ نبی کو تو اس سے کوئی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ نبی نے ایک انصاری آدمی سے کہا جس کا مفہوم ہے کہ اپنی بیٹی کے نکاح کا حق مجھے دو ، اس نے کہا زہے نصیب یا رسول اللہ! بہت بہتر، نبی نے فرمایا میں اپنی ذات کے لیے اس کا مطالبہ نہیں کر رہا، اس نے پوچھا یا رسول اللہ! پھر کس کے لیے؟ نبی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا جلیبیب کے لیے، اس نے کہا یا رسول اللہ! میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کر لوں، چنانچہ وہ اس کی ماں کے پاس پہنچا اور کہا کہ نبی کریم تمھاری بیٹی کو پیغام نکاح دیتے ہیں، اس نے کہا بہت اچھا، ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، اس نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے لیے پیغام نہیں دے رہے بلکہ جلیبیب کے لیے پیغام دے رہے ہیں، اس نے فوراً انکار کرتے ہوئے کہہ دیا بخدا! کسی صورت میں نہیں، نبی کریم کو جلیبیب کے علاوہ اور کوئی نہیں ملا، ہم نے تو فلاں فلاں رشتے سے انکار کر دیا تھا، ادھر وہ لڑکی اپنے پردے میں سے سن رہی تھی۔ باہم صلاح مشورے کے بعد جب وہ آدمی نبی کریم کو اس سے مطلع کرنے کے لیے روانہ ہونے لگا تو وہ لڑکی کہنے لگی کہ کیا آپ لوگ نبی کی بات کو رد کریں گے، اگر نبی کریم کی رضا مندی اس میں شامل ہے تو آپ نکاح کر دیں، یہ کہہ کر اس نے اپنے والدین کی آنکھیں کھول دیں اور وہ کہنے لگے کہ تم سچ کہہ رہی ہو، چنانچہ اس کا باپ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر آپ اس رشتے سے راضی ہیں تو ہم بھی راضی ہیں، (آنحضرت کو خبر ہوئی تو آپ نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا :اللھم اسبب علیھا الخیر ولا تجعل عیشہا کدا

خداوندا اس پر خیر کا دریا بہا دے اور اس کی زندگی کو تلخ نہ کر۔

دعائے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ تمام انصار میں اس سے زیادہ کوئی تونگر اور خرچ کرنے والی عورت نہ تھی۔)

نبی کریم نے فرمایا میں راضی ہوں، عورت کی رضا مندی پا کر آنحضرت صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جلیبیب سے کہا کہ فلاں لڑکی سے تمھارا نکاح کرتا ہوں، بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ مجھے کھوٹا پائیں گے فرمایا : "لکنک عند اللہ لست بکاسد" یعنی تم اللہ کے نزدیک کھوٹے نہیں ہو۔[3] چنانچہ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیبیب سے اس لڑکی کا نکاح کر دیا۔ [4] [5]

شہادت[ترمیم]

آنحضرت صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں تھے کہ مال غنیمت آیا ارشاد ہوا دیکھو کون کون لوگ لاپتہ ہیں، لوگوں نے چند آدمیوں کے نام گنائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 مرتبہ پوچھا اور وہی جواب ملا تو فرمایا :لکنی افقد جلبیبا! لیکن میں جلبیب کو گم پاتا ہوں۔

مسلمان جلبیب کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ سات آدمیوں کے پہلو میں مقتول پڑے ہیں، آنحضرت کو خبر ہوئی، آپ خود تشریف لائے اور لاش کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا: قَتَلَ سَبْعَةً ثُمَّ قَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ۔[6]

سات کو قتل کرکے قتل ہوا یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔

اور جلبیب کی لاش کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر لائے اور قبر کھدوا کر دفن کیا اور غسل نہیں دیا ۔ حضرت جلبیبؓ واقعی خدا کے نزدیک کھوٹے نہ تھے، شہادت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ یہ شرف کتنا عظیم الشان تھا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے ہاتھوں سے ان کی لاش اٹھا کر لائے،تمام لوگوں کا تابوت لکڑی کا تختوں سے تیار ہوتا ہے ؛لیکن حضرت جلبیبؓ کا تابوت مہبط وحی والہام کا دست مبارک تھا۔ بچہ ناز رفتہ باشد زجہاں نیاز مندی کہ بوقت جاں سپردن بسرش رسیدہ باشی حدیث:حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک جنگ میں تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (فتح کے ساتھ) مال غنیمت دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی غائب تو نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کوئی اور تو غائب نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور تو کوئی غائب نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کوئی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں جلیبیب رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھتا۔ لوگوں نے ان کو مردوں میں ڈھونڈا تو ان کی لاش سات لاشوں کے پاس پائی گئی جن کو سیدنا جلیبیب نے مارا تھا۔ وہ سات کو مار کر شہید ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور وہاں کھڑے ہو کر پھر فرمایا کہ اس نے سات آدمیوں کو مارا، اس کے بعد خود مارا گیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھا اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہی اس کی چارپائی تھے۔ اس کے بعد قبر کھدوا کر اس میں رکھ دیا۔ اور راوی نے غسل کا بیان نہیں کیا۔ [7] [8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد دوم صفحہ 412المیزان پبلشر اردو بازار لاہور
  2. استیعاب، مسند احمد
  3. ابن الجوزي (2000)، ج. 1، ص. 283
  4. البغوي (1983)، شرح السنة، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، زهير الشاويش (ط. 2)، دمشق، بيروت: المكتب الإسلامي،
  5. مسلم، باب فضائل جلبیب ،حدیث نمبر:4519
  6. أحكام النظر والاختلاط - قصة جليبيب وأنه كان يمر على النساء ويلاعبهن- اسلام ويب آرکائیو شدہ 2019-02-26 بذریعہ وے بیک مشین
  7. ابن كثير الدمشقي (1999)، تفسير القرآن العظيم: تفسير ابن كثير، تحقيق: سامي بن محمد السلامة (ط. 2)، الرياض: دار طيبة للنشر والتوزيع - الرياض،