جناح: بھارت، تقسیم، آزادی (کتاب)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جناح: بھارت، تقسیم، آزادی
مصنفجسونت سنگھ
ملکبھارت
زبانانگریزی
صنفسوانح
ناشرروپا اینڈ کمپنی
تاریخ اشاعت
2009
صفحات658

جناح : تقسیم و آزادی ہند ایک کتاب ہے جس کو جسونت سنگھ نے تحریر کیا ہے، جسونت سنگھ بھارت کے سابقہ وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ یہ کتاب پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح بارے لکھی گئی ہے جس میں تقسیم ہند کے وقت سیاست سے منسوب حالات و واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ محمد علی جناح پر لکھی گئی کسی بھی ہندوستانی سیاست دان کی پہلی کتاب ہے۔[1]
یہ کتاب منظر عام پر 17 اگست 2009ء کو لائی گئی اور یہ جلد ہی ہندوستان میں مخالفت اور تنقید کا نشانہ بن گئی جس کی وجہ سے جسونت سنگھ کو ان کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے نکال دیا گیا۔ اس کتاب میں جسونت سنگھ کے چند مقامات پر انتہائی متنازع بیانات کا درج ہونا اس کتاب پر تنقید کی وجہ بن گیا، ان بیانات میں کہا گیا ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی مرکزیت کی پالیسی نے تقسیم ہند کو جواز فراہم کیا اور جناح جو برصغیر و پاک ہند کے اصل ذمہ دار کے طور پر پیش کیے جاتے رہے ہیں، دراصل وہ اکیلے اس کے ذمہ دار نہ تھے۔
اس کتاب کی تقریب رونمائی تین مرتی بھاون میں منعقد ہوئی، جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو مرکزی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔[2][3]

اس کتاب کا اردو ترجمہ فرحت احساس نے روپا پبلیکیشنز انڈیا پرائیوٹ لمیٹیڈ کے تحت کیا اور ہندوستان میں شائع ہوئی جس کا اردو عنوان (جناح: اتحاد سے تقسیم تک) ہے۔ اس کتاب کا اصلی انگریزی عنوان (Jinnah: India-Partition-Independence) ہے۔

رد عمل[ترمیم]

جسونت سنگھ کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے نکال دیا گیا اور یہ فیصلہ پارٹی کے مرکزی اجلاس جو ایل کے ایڈوانی کی صدارت میں 19 اگست کو منعقد ہوا میں کیا گیا، پارٹی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اخباری بیان میں کہا گیا کہ کسی بھی صورت میں پارٹی کے نظریات اور دائرہ اخلاق کی پامالی برداشت نہیں کی جائے گی، جسونت سنگھ کی مرکزی رکنیت اور عہدہ معطل کیا جا رہا ہے۔[4] گجرات کی صوبائی حکومت نے مذکورہ کتاب کی ریاست میں خرید و فروخت پر پابندی لگا دی اور اس کی وجہ ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل بارے جسونت سنگھ کے بیانات کو بتایا گیا تھا۔[5] گجرات کی ریاستی حکومت نے بہر حال بعد میں یہ پابندی اٹھا لی کیونکہ ریاستی عدالت نے حکومت کے پابندی کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے اس پابندی کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ بھارت کے کچھ معتبر حلقوں جس کی نمائندگی مارک ٹلی، میگ ہانڈ دیسائی، رام جیٹھ ملانی، نامور سنگھ وغیرہ کی جانب سے اس کتاب اور اس بارے جسونت کے خیالات کی حمایت بھی کی۔[6] اس حمایت میں اس بات کا اظہار کیا گیا کہ محمد علی جناح کے بارے میں بھارت میں رائج تاثر اور ان کا تقسیم ہند کے بارے ممکنہ کردار کے حوالے سے بھارتی دانشوروں، سیاست دانوں اور عوامی حلقوں کو ازسر نو جائزہ لینا چاہیے۔ اس کتاب کا پاکستان میں وسیع پیمانے پر جبکہ بھارت میں کچھ حلقوں میں انتہائی پزیرائی ہوئی۔ پاکستان میں اس کتاب کی ہزاروں جلدیں فروخت ہو چکی ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں کئی حلقوں کا خیال یہ ہے کہ اس کتاب سے تقسیم ہند کے بارے میں نظریات، واقعات اور تاریخی پس منظر کے بارے جو دونوں ممالک میں تضادات پائے جاتے رہے ہیں ان کو قریب سے جاننے کا موقع میسر آئے گا، نیز یہ کتاب علمی اور تاریخی حلقوں میں اس بات کے لیے بھی نئی راہیں کھولے گی جو ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازعات کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر اس طرح کی کاوشیں دونوں ممالک کے سیاست دانوں کی جانب سے پیش کی جاتی رہیں تو بلاشبہ دونوں ممالک میں جاری کشیدگی کی فضا کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

کتاب پر تبصرہ[ترمیم]

زیرِ تبصرہ کتاب گیارہ ابواب پر پھیلی ہوئی ہے پھر ہر باب کے الگ الگ اپینڈیکس (Appendix) اور نوٹس (Notes) ہیں جو یقینا کتاب کے اندر کہی گئی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں، اسے استحکام فراہم کرتے ہیں اور ان کی وضاحت اور تشریح بھی کرتے ہیں۔ مصنف نے ہندوستان میں اسلام اور مسلمان کی شناخت کو کتنی اہمیت دی ہے اس کا اندازہ کتاب میں شروع کے 11 صفحات پر مشتمل ’تعارف‘ کو پڑھ کر ہوتا ہے جسے انھوں نے ایک Complex Opening کہا ہے۔ انھوں نے تعارف کا عنوان “The Opening Pages of Indo-Islamic History” رکھا ہے۔اسلام غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے جس کا ایک ثبوت یہ کتاب بھی ہے

جسونت سنگھ جیسے فاضل اور معروضی مصنف سے یہ توقع تھی کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد حملوں خواہ وہ سمندری حملے ہوں یا زمینی حملے، سے روایتی انداز میں نہ کر کے مالابار میں اسلام کی پیش رفت سے کرنے کے لیے وہاں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے۔

معروف ملیالی دانشور پروفیسر کے اے صدیق حسن نئی دہلی سے شائع ہونے والے اردو سہ روزہ ’’دعوت‘‘ (مورخہ 4 اپریل 2009ء کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو) میں ہندوستان میں اسلام کی آمد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’نبی آخر الزماں محمدؐ کے دور سے قبل ہی سے مالابار اور عرب ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات برقرار تھے۔ عرب تاجر خشک میوئوں اور مسالوں کے لیے مالابار آیا جایا کرتے تھے۔ یہاں کے راجائوں سے بھی ان کے روابط تھے۔ شق القمر کا واقعہ مکہ میں جب پیش آیا تو کوڈنگیلور کے راجا چیرمان پیرومال نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر جب انھیں چند ماہ بعد عرب تجار سے اس کی تفصیلات ملیں تو وہ ان کے ساتھ ملاقات کی غرض سے سمندر کے راستے مکہ تشریف لے گئے اور اچار کی بوتل تحفہ کے طور پر پیش کی جس کا ذکر ایک مستند حدیث میں آیا ہے۔ چیرمان پیرومالؓ رسول اللہؐ سے مل کر بے حد متاثر ہوئے اور انہی کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ چند ماہ بعد سمندر کے راستے وطن واپسی کے دوران سلالہ (عمان) میں انتقال ہو گیا اور وہیں دفن ہوئے۔ انہی کے مشورے سے ان کی وطن واپسی کے سفر سے قبل ایک صحابیٔ رسول و عرب (یمن) تاجر حضرت مالک بن دینارؓ اور ان کے ایک درجن رفقا مالابار آئے اور دعوتی کام شروع کیا۔ کوڈنگیلور میں انھوں نے ایک مسجد بنائی جو آج بھی اصل حالت کی توسیع کے ساتھ برقرار ہے اور چیرامن جامع مسجد کے نام سے معروف ہے۔ اسے ہندوستان کی اولین اور دنیا کی تیسری مسجد کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی تعمیر مسجد قباء اور مسجد نبوی کے فوراً بعد ہوئی۔ حضرت مالک بن دینارؓ نے اپنے رفقا کے ساتھ اس مسجد کے طرز پر 11 مساجد مزید تعمیر کی تھیں جو کوڈ نگیلور سے لے کر قصر گوڑ کے درمیان آج بھی موجود ہیں۔ قصر کوڑ میں حضرت مالک بن دینار کا مزار بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں دوست چیرامن پیرومالؓ اور حضرت مالک بن دینارؓ کے مزارات سمندر کے دونوں کناروں پر ہیں اور اس طرح ہندوستان کے ایک صحابیٔ رسول بحیرہ عرب کے سلالہ ساحل تویمن کے صحابیٔ رسول قصر گوڑ ساحل پر دفن ہیں۔ ہند و عرب روابط کی یہ بہترین مثال ہے‘‘۔

چیرامن پیرومالؓ کے خاندان کے افراد آج بھی موجود ہیں۔ ان میں سے ایک راجا والیاتھم پورم سے راقم الحروف نے تین برس قبل ایرناکولم میں تفصیلی انٹرویو لیا تھا۔ اس دوران انھوں نے پورے واقعہ کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ اگرچہ وہ اور خود ان کا اپنا خاندان ہندو ہے لیکن انھیں فخر ہے کہ ان کے آبا و اجداد میں سے ایک چیرامن پیرومال نے برصغیر کو اسلام اور اولین مسجد کا تحفہ دیا۔

کتاب کا پہلا باب ’’ہندوستان اور اسلام‘‘ پر ہے جس میں جسونت سنگھ نے سرسری ذکر کے طور پر مالابار میں ہندوستان کی اولین مسجد کا محض حوالہ دیا ہے اور کوئی تفصیل نہیں دی ہے۔ یہاں بھی محمد بن قاسم کے حملہ کی بات ہے اور کراچی سے تقریباً 40 کلومیٹر کی دوری پر واقع بھنبھور میں محمد بن قاسم کے پہلے Port of Call اور پہلی مسجد کا تذکرہ ہے۔ انھوں نے اپنے موضوع پر یکسو رہنے کے لیے ہندوستان میں مساجد کی Geneology پر کسی تفصیل سے گریز کیا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں ہندوستان میں اسلام کے پُرامن انداز میں تجارت کے ذریعے آنے پر زور دینا چاہیے تھا کیونکہ محمد بن قاسم کے حملے سے ہندوستان میں اسلام کی آمد بزور بازو یا حملے سے موسوم ہو جاتی ہے اور اس کا اثر ہو جاتا ہے جو خود فاضل مصنف نہیں چاہتے ہیں۔ یعنی اسلام Alien Origins کے طور پر محسوس ہونے لگتا ہے۔

بعض افراد کا یہ خیال رہا ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد کو کسی دوسرے ذرائع کی بجائے ڈائریکٹ ذریعے (Direct Sources) سے سمجھا جائے۔ سابق بی جے پی نائب صدر اور آئیڈیالاگ آنجہانی کے آر ملکانی بھی ایمرجنسی (77۔1975ء) میں جیل کے اندر مطالعے اور غور و فکر کے بعد اسی بات کی تلقین کرنے لگے تھے۔ اس سے ان کے سنگھ پریوار کے ساتھیوں کو سخت حیرت ہوئی تھی کیونکہ یہ روایتی انداز سے ہٹ کر ایک نئی سوچ تھی۔ ملکانی کی اس سوچ کا اعتراف ان کے انتقال کے بعد تعزیتی میٹنگ میں کئی شخصیات نے کیا اور اُن میں سابق ہندی ہفت روزہ ’’پانچ جنیہ‘‘ کے مدیر ترون وجئے بھی تھے۔ ترون وجئے نے تو کئی برس قبل انگریزی روزنامہ ’’دی ایشین ایج‘‘ میں اپنے ایک خصوصی مضمون “The Month is Ramadan” میں اس پر زور بھی ڈالا تھا۔ جسونت سنگھ کی کتاب میں ہندوستان میں اسلام کی آمد کو ڈائریکٹ Sources سے سمجھنے کی بات دیکھنے کو کم ملتی ہے۔ معروف دانشور املیند و مشرا بھی اپنی ایک کتاب میں ہند میں اسلام کی آمد اور پھر اس کے تعلق سے Indirect Sources سے اس کی تفہیم کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مانتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں بھی اس رکاوٹ کے لیے ہند کی فکری قیادت کی چار اہم شخصیات میں جواہر لعل نہرو بھی شامل ہیں۔ مختلف تجزیوں سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے، تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے ڈائریکٹ Sources پر انحصار کرنا چاہیے، چاہے رائے جو بھی بنے۔

جسونت سنگھ کی کتاب کے بقیہ 10 ابواب جناح، آزادی اور تقسیم وطن کے تعلق سے ہیں او ان میں بھی مسلمانوں کے الگ قوم ہونے کی گونج سنائی پڑتی ہے یا محسوس ہوتی ہے۔ عنوانات کے اعتبار سے دوسرا باب ’’جنا بھائی سے جناح تک کا سفر‘‘۔ تیسرا باب ’’پریشان کن ٹوینٹیز‘‘۔ چوتھا باب ’’تیز دھار والا فوکس۔۔ تنگ ہوتے ہوئے متبادل‘‘۔ پانچواں باب ’’ایک چھوٹی دہائی۔۔ ایک لمبا ختم ہوتا ہوا کھیل‘‘۔ چھٹا باب ’’بادشاہت کے آفتاب کا غروب‘‘۔ ساتواں باب ’’اقتدار کی جنگ‘‘۔ آٹھواں باب ’’Stymied مذاکرات‘‘۔ نواں باب ’’مائونٹ بیٹن: بحیثیت وائسرائے۔ راج کا خاتمہ‘‘۔ دسواں باب ’’پاکستان: پیدائش، آزادی، قائد اعظم کا آخری سفر‘‘ اور گیارھواں باب “In Retrospect” ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ ہو تاکہ بعض حقائق سے اردو کا قاری براہ راست واقف ہو سکے۔

اس ضخیم کتاب میں تقسیم اور آزادی کے تعلق سے اس وقت کی اہم شخصیات کے تذکرے تو ہیں اور ان کے کردار و عمل کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے لیکن ایک قاری یہ سمجھ نہیں پاتا ہے کہ آخر آزادی کے فوراً بعد بنی پنڈت جواہر لعل نہرو کی اولین اور آئین ہند کی منظوری نیز ہندوستان کے ریپبلک بن جانے کے بعد بننے والی آئندہ کابینہ میں انڈسٹریز اور سپلائیز کے قلمدان کے سربراہ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی (6 جولائی 1901ء ۔۔23 جون 1953ء) کا کتاب میں اس تعلق سے کوئی تذکرہ کیوں نہیں ہے؟

عیاں رہے کہ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی وہی ہیں جنھوں نے 6 اپریل 1950ء کو 1949ء کے نہرو۔ لیاقت پیکٹ کی مخالفت میں وزارت سے استعفیٰ دے کر 21 اکتوبر 1951ء کو دہلی میں گول مارکیٹ کے راجا بازار میں واقع رگھومل آریہ گرلز سینئر سیکنڈری اسکول میں آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک گرو گولوالکر کے مشورے کے بعد ہی بھارتیہ جن سنگھ کی بنا ڈالی اور اس کے اولین صدر بنے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بھارتیہ جن سنگھ نے 1952ء کے اولین لوک سبھا انتخابات میں 53 سیاسی پارٹیوں کے ساتھ حصہ لیا اور ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی سمیت اس کے 3 افراد منتخب بھی ہوئے۔ یہ ہندو مہا سبھا کے صدر بھی رہے تھے۔

آزادی سے قبل شیاما پرساد مکھرجی، جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل کی مانند تقسیم وطن کے شدید مخالف تھے لیکن بعد میں اس کے زبردست حامی بن گئے۔ خبر ہے کہ جسونت سنگھ اپنی آئندہ کتاب چکرورتی راج گوپال آچاریہ پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ راجا جی کے علاوہ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی پر بھی قلم اٹھائیں گے اور بہت سی اَن کہی باتوں کے سہارے حقائق کو سامنے لا کر ایک بار پھر سچ کا سامنا کریں گے۔ واضح رہے کہ جسونت سنگھ کی اس متنازع کتاب پر سردار پٹیل کے تعلق سے کچھ ریمارکس کی بنا پر ریاست گجرات کی بی جے پی حکومت نے 17 اگست 2009ء کو دہلی میں اس کے اجرا کے دو دنوں کے اندر 19 اگست کو پابندی عائد کر دی تھی جسے گجرات ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں بی جے پی کے برطرف لیڈر جسونت سنگھ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے اپنی کتاب پر حکومت گجرات کی عائد کردہ پابندی کو چیلنج کیا ہے۔ تاہم یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بی جے پی حکومت کی ایک دوسری ریاست مدھیہ پردیش میں ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے لیکن خبر ہے کہ یہاں کی اپوزیشن پارٹی یعنی کانگریس نے ریاست مدھیہ پردیش میں پابندی کا یہ کہہ کر مطالبہ کیا ہے کہ اس میں گاندھی، نہرو اور پٹیل جیسے قومی لیڈروں پر تنقید کی گئی ہے۔[7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. خصوصی شکریہ;جناح:تقسیم و آزادی ہند
  2. نامہ نگار (18 اگست 2009ء)۔ "بی جے پی جسونت سنگھ کی کتاب پر سیخ پا"۔ دی ہندو (بزبان انگریزی) 
  3. نامہ نگار (18 اگست 2009ء)۔ "جسونت کی کتاب کی رونمائی، جناح کی حمایت و مخالفت"۔ دی ہندو (بزبان انگریزی) 
  4. سنتوش جوے (19 اگست 2009ء)۔ "بی جے پی نے جسونت سنگھ کو کتاب میں جناح بارے بیان پر پارٹی سے نکال دیا"۔ لائیو منٹ (بزبان انگریزی) 
  5. سنتوش جوے (20 اگست 2009ء)۔ "بھارتی ریاست نے جناح بارے کتاب پر پابندی عائد کر دی"۔ بی بی سی (بزبان انگریزی) 
  6. "جسونت کی حمایت"۔ ینگ ایج مائندز 
  7. "تبصرہ"