جگن ناتھ آزاد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جگن ناتھ آزاد
जगन नाथ आज़ाद
Jagan Nath Azad

معلومات شخصیت
پیدائش 5 دسمبر 1918(1918-12-05)
عیسی خیل، ضلع میانوالی، پنجاب، اب پاکستان
تاریخ وفات 24 جولائی 2004(2004-70-24) (عمر  85 سال)
قومیت بھارتی
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ پنجاب  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر، مصنف، ماہر تعلیم
پیشہ ورانہ زبان اردو[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ http://jagannathazad.info

جگن ناتھ آزاد (5 دسمبر 1918ء - 24 جولائی 2004ء) ایک شاعر۔ مصنف اور ماہر تعلیم تھے جو عیسی خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان میں ہے۔ ان کے والد تلوک چند محروم بھی اردو کے شاعر تھے۔ آزاد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد کے ہاتھوں ہوئی۔

تعلیم[ترمیم]

جگن ناتھ آزاد نے 1933ء میں میانوالی سے میٹرک کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ 1935ء میں انھوں نے ڈی․اے․بی کالج راولپنڈی سے انٹرمیڈیٹ کیا اور 1937ء میں گورنمنٹ گورڈن کالج ، راولپنڈی سے بی․اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جگن ناتھ آزاد نے لاہور کا رخ کیا۔ انھوں نے لاہور میں 1942ء میں فارسی آنرز کیا اور پھر 1944ء میں جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی میں ایم․اے․ کیا تھا۔ یہاں انھیں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، ڈاکٹر سید عبد اللہ، صوفی غلام مصطفٰی تبسم، پروفیسر علیم الدین سالک اور سید عابد علی عابد جیسے اساتذہ سے ملنے اور فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا۔

پہلی بارخانہ آبادی[ترمیم]

جگن ناتھ آزاد کی ایک شادی 11 دسمبر، 1940ء کو ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ کا نام شکنتلا تھا۔ اس بیاہ سے پرمیلا اور مُکتا نام کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ شکنتلا 1946ء میں بیمار ہو گئیں اور ہر ممکن علاج کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکیں۔ اسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔ آزاد نے ’’شکنتلا‘‘، ’’ایک آرزو‘‘ اور ’’استفسار‘‘ نامی نظمیں اپنی رفیقہ حیات کی یاد میں لکھیں۔

ایک زبان زد عام مفروضہ[ترمیم]

کچھ گوشوں سے یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے جگن ناتھ آزاد کا لکھا یہ قومی ترانہ نشر کیا گیا ؂

ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
اے سر زمین پاک [2]

جگن ناتھ آزاد کا کہنا ہے کہ 14 اگست کی رات کو ریڈیو پاکستان لاہور سے اُن کا ترانہ نشر ہوا تھا۔[3] تاہم محققین نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق اول‘ قائد اعظمؒ مکمل طور پر قانونی اور جمہوری مزاج رکھتے تھے۔ یہ نا ممکن تھا کہ وہ ماہرین، کابینہ اور حکومت کی رائے لیے بغیر خود ہی کسی کو یہ کام سونپ دیتے اور پھر خود ہی چپ چاپ اس کی منظوری بھی دے دیتے۔ یہ ان کے مزاج ہی میں نہ تھا۔ شاعری اور اردو فارسی سے ان کا تعلق بھی زیادہ نہ تھا۔ دوم‘ ان کی عمر کا زیادہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گذرا۔ 1947ء میں وہ 71 سال کے تھے۔ جگن ناتھ آزاد اُس وقت 29 سال کے غیر معروف نوجوان تھے۔ لاہور میں رہتے تھے اور ایک اینٹی پاکستان ہندو اخبار جے ہند میں نوکری کر رہے تھے۔قائد اعظمؒ سے تو ان کی شناسائی بھی ممکن نہ تھی کجا یہ کہ وہ انھیں بلا کر قومی ترانہ لکھنے کا حکم دیتے۔ سوم‘ قائد اعظمؒ کوئی عام شہری نہ تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ پروفیسر سعید کی کتاب قائد اعظم کے ملاقاتی میں 25 اپریل 1948ء تک کی ملاقاتوں کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ اس میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں نام نہیں۔ چہارم‘ سید انصار ناصری کی تصنیف 'پاکستان زندہ باد‘ میں7 اگست سے پندرہ اگست تک کی مصروفیات کا احوال درج ہے۔ اس میں بھی جگن ناتھ کا ذکر نہیں۔ پنجم‘ پھر ڈاکٹر صاحب نے اُس اے ڈی سی کی تلاش شروع کی جو قائد اعظمؒ کے ساتھ تعینات تھے۔ یہ پیپلز پارٹی کے معروف رہنما رضا ربانی کے والدِ محترم عطا ربانی تھے ان سے ملاقات مشکل تھی۔ مجید نظامی کی مدد سے ڈاکٹر صاحب ان سے ملے۔ ان کا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نام کا کوئی شخص قائد سے ملا نہ ان کی زبان سے کبھی اس کا نام سنا گیا۔ ششم‘ پھر ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز کو ٹٹولا گیا کہ ان میں کہیں جگن ناتھ آزاد کے کسی ترانے کا کوئی ذکر مل جائے‘ لیکن ایسا کوئی ثبوت ان آرکائیوز میں کہیں نہیں۔ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات، اعلانِ آزادی کے فوراً بعد احمد ندیم قاسمی کا گیت نشر ہوا تھا:

پاکستان بنانے والے! پاکستان مبارک ہو اس کے بعد مولانا ظفر علی خان کا نغمہ گایا گیا: توحید کے ترانے کی تان اڑانے والے ہفتم‘ اُس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے اگست 1947ء کے اخبارات چھان مارے‘ ان میں انھیں جگن ناتھ آزاد کا نام کہیں نہ تھا۔ ہشتم‘ ریڈیو پاکستان کے رسالے 'آہنگ‘ میں بھی، جس میں ریڈیو پاکستان کے ایک ایک پروگرام کا ریکارڈ ہوتا ہے‘ آزاد کا نام کہیں نہیں۔ نہم‘ خالد شیرازی نے 14 اگست سے لے کر 21 اگست 1947ء تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انھوں نے بھی اس دعوے کو ماننے سے صریحاً انکار کیا۔ دہم‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ جگن ناتھ آزاد نے وفات تک خود کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ قائد اعظمؒ سے ان کی ملاقات ہوئی یا انھوں نے ترانہ لکھنے کا کہا۔ اپنی تصنیف 'آنکھیں ترستیاں ہیں‘ میں انھوں نے یہ لکھا ہے کہ ریڈیو پاکستان لاہور سے انھوں نے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ قومی ترانے اور ملی نغمے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قائد اعظمؒ سے ملاقات اور ان کے حکم سے ترانہ لکھنا کوئی ایسا معمولی کام نہیں تھا کہ آزاد اس کا ذکر نہ کرتے۔ ایسا ہوا ہوتا تو وہ اس اعزاز کا کئی بار ذکر کرتے۔[4]

تقسیم ہند اورآزاد کا ہندوستان نقلِ مقام کرنا[ترمیم]

تقسیم ہند کے بعد آزاد دیگر ارکانِ خانہ کے ساتھ بھارت چلے آئے اور دہلی میں بس گئے۔ انھیں اولاً ’’ملاپ‘‘ میں نائب مدیر کی ملازمت ملی تھی۔ پھر ’’ایمپلائمنٹ نیوز’’ میں روزگار پایا اسی سے منسلک ’’پبلی کیشنز ڈویژن’’ میں اردو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بنے۔ یہاں ان کی ملاقاتیں جوش ملیح آبادی سے ہوئییں جو رسالہ ’’آج کل‘‘ (اردو) کے مدیر تھے۔ جوش ملیح آبادی کے علاوہ عرش ملسیانی، بلونت سنگھ اور پنڈت ہری چند اختر جگن ناتھ آزاد کے ہم منصب رہے۔ ان کی مصاحبت سے آزاد نے بہت کچھ جانا تھا۔

دوسری بار بارخانہ آبادی[ترمیم]

جولائی 1948ء میں آزاد کی دوسری شادی وملا نامی خاتون سے ہوئی۔ اس بیاہ سے تین بچے مولود ہوئے۔ سب سے بڑا بیٹا آدرش، چھوٹا بیٹا چندر کانت اور سب سے چھوٹی بیٹی پونم تھی

نمونہ کلام[ترمیم]

  • اے سرزمینِ پاک !
  • ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
  • روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
  • تندیِ حاسداں پہ ہے غالب تیرا سواک
  • دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک
  • اے سرزمینِ پاک!
  • اب اپنے عزم کو ہے نیا راستہ پسند
  • اپنا وطن ہے آج زمانے میں سربلند
  • پہنچا سکے گا اس کو نہ کوئی بھی اب گزند
  • اپنا عَلم ہے چاند ستاروں سے بھی بلند
  • اب ہم کو دیکھتے ہیں عطارد ہو یا سماک
  • اے سرزمینِ پاک!
  • اترا ہے امتحاں میں وطن آج کامیاب
  • اب حریت کی زلف نہیں محو پیچ و تاب
  • دولت ہے اپنے ملک کی بے حد و بے حساب
  • ہوں گے ہم اپنے ملک کی دولت سے فیضیاب
  • مغرب سے ہم کو خوف نہ مشرق سے ہم کو باک
  • اے سرزمینِ پاک!
  • اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام
  • اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام
  • اپنا وطن ہے راہ ترقی پہ تیزگام
  • آزاد، بامراد، جواں بخت شادکام
  • اب عطر بیز ہیں جو ہوائیں تھیں زہرناک
  • اے سرزمینِ پاک!
  • ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
  • روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
  • اے سرزمینِ پاک!

تصانیف[ترمیم]

جگن ناتھ آزاد کا پہلا شعری مجموعہ ’’طبل و علم‘‘ 1948ء میں چھپا۔ 1949ء میں دوسرا مجموعۂ کلام ’’بیکراں‘‘ چھپا۔ دیگر شعری مجموعے یہ ہیں،

  • ستاروں سے ذروں تک
  • وطن میں اجنبی
  • نواے پریشاں
  • کہکشاں
  • بوئے رمیدہ
  • جستجو
  • گہوارہ علم وہنر
  • آئینہ در آئینہ‘

باقی تصانیف یہ ہیں،

  • روبرو (خطوط کا مجموعہ)
  • نشان منزل‘ (تنقیدی مضامین)
  • اقبال اور اس کا عہد
  • اقبال اور مغربی مفکرین
  • اقبال اور کشمیر
  • دہلی کی جامع مسجد
  • کولمبس کے دیس میں(سفرنامۂ امریکا وکینیڈا)۔
  • اقبالؒ کی کہانی
  • مرقع اقبال (البم)
  • اقبالؒ ایک ادبی سوانح حیات
  • اقبال ؒ کی زندگی شخصیت اور شاعری،
  • اقبال ؒ مائنڈ اینڈ آرٹ ( انگریزی )
  • اقبالؒ ہزپوئٹری اینڈ فلاسفی( انگریزی )

جموں و کشمیر میں ملازمت[ترمیم]

1968ء میں آزاد نے ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن آفیسر پریس انفارمیشن بیورو کے طور پر سری نگر، کشمیر میں ملازمت اختیار کی۔ وہ ڈائرکٹر پبلک ریلشنز کے طور پر 1977ء تک کام کرتے رہے۔ 1977ء میں ہی آزاد کو پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی کی پیش کش ہوئی جسے آزاد نے منظور کیا تھا۔ 1977ء سے 1983ء تک وہ پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی اور ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرنینگ جموں یونیورسی کے عہدے پر فائز رہے۔ 1984ء سے 1989ء تک پروفیسر ایمریٹس فیلو کی حیثیت سے شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی میں رہے اور پھر 1989ء سے اپنی زندگی کے اخیر تک وہیں رہے۔

انتقال[ترمیم]

جگن ناتھ آزاد 24 جولائی، 2004ء کوانتقال کر گئے تھے۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb123264227 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. اے سرزمین پاک۔ یوٹیوب
  3. "جگن ناتھ آزاد، قومی ترانہ۔ مختصر تاریخ"۔ 15 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2017 
  4. "قائداعظمؒ، جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ- محمد اظہارالحق"۔ 07 ستمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. Famous Personalities Articles : Hamariweb.com - جگن ناتھ آزاد— سوانح اور شخصیت(25 دسمبر1918۔24جولائی2004)