خود منافرتی یہودی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خود منافرتی یہودی (جسے انگریزی میں Self-hating Jew یا self-loathing Jew کہتے ہیں) عرفِ عام میں ایک اصطلاح ہے ہر اس یہودی کے لیے ہے جو مخالف صیہونی خیالات رکھتا ہے۔[1] اس تصور کو کافی فروغ تھیوڈر لیسیگ (Theodor Lessing) کی کتاب Der Jüdische Selbsthass (یہودیوں کی خود پر نفرت) سے ملا جس کی اشاعت 1930 میں ہوئی تھی۔ اس کتاب میں یہودی دانشوروں کی موجودگی دکھائی گئی جو صیہونیت اور مذہبی جنون کے مخالف تھے۔ یہ دراصل مخالف یہودی نظریات کی موجودگی کے اظہار اور مبالغہ آمیز تصویرکشی کا رد عمل بتایا جاتا ہے۔[2] یہ اصطلاح سرد جنگ کے دور میں ادبی مباحثوں میں توازن کے لیے پیش کی جاتی رہی ہے۔[3] اپنی یہودیت پر عدم تشفی کا احساس اس دور کی بھی اُپج بتائی جاتی ہے جب کہ صیہونی تحریک کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔[3]

تعلیمی کتب کے مصنف ڈبلیو ایم ایل فنلے (W. M. L. Finlay) کے مطابق "خود منافرتی یہودی" کی اصطلاح باضابطگی سے ان یہودیوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے مستعمل ہے جو طرزِ زندگی، پسندوناپسند یا سیاسی موقف میں اپنے مخالفوں سے مختلف ہوں۔[4] فنلے جو یونیورسٹی آف سرے کے (University of Surrey) کے شعبہ نفسیات کے رکن ہیں، "یہودی مخالف صیہونیت" اور "یہودی خودمنافرت" میں فرق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا دعوٰی ہے کہ حالانکہ مروجہ ادب ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے کہ یہودی مخالف صیہونیت کی حمایت میں خطرناک بیان بازی پر اتر آئے اور ہر یہودی کو نشانہ ملامت بنا رہے ہیں، یہ جانچنا مشکل ہے کہ اس سے خود کی تنقید مقصود ہے۔ خود کی تنقید اس زمرے سے ناپسندیدگی یا نفرت کی آئینہ دار ہو سکتی ہے جس سے کہ ایک شخص خود وابستہ ہو۔ اس اصطلاح کی ایک لمبی تاریخ ہے جس میں اسے یہودیوں کی جانب سے اسرائیلی حکومت کی تنقید کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔[4] آلوین ایچ روزنفیلڈ (Alvin H. Rosenfeld) جو ایک تعلیمی کتابوں کے مصنف ہیں، خود کی تنقید کی اصطلاح کا استعمال نہیں کرتے۔ وہ ان دلائل کو غیر فطری قرار دیتے ہوئے خارج کر دیتے ہیں۔ وہ اسے اسرائیل پر حسب معمول تنقید کا حربہ قرار دیتے ہیں۔[5] ایلن درشوویٹز (Alan Dershowitz) خود کی تنقید کا محدود استعمال ان یہودیوں کی مخالف صیہونیت کی انتہا کے لیے کرتے ہیں جو ہر یہودی شے کی مخالفت کرتے ہیں چاہے وہ ان کے مذہب سے متعلق ہو یا یہودی ریاست سے متعلق ہو۔ ان کے مطابق اس کا اطلاق ہر اسرائیل کے ناقد پر نہیں ہوتا۔[6]

ثقافتی مؤرخ سینڈر گیلمین (Sander Gilman) رقمطراز ہیں کہ حالیہ عرصے میں یہودیوں کی جانب سے خود پر تنقید کی علامت ریاست اسرائیل کے وجود ہی پر انگلی اٹھانا ہے۔[7] وہ اس اصطلاح کو ان یہودیوں کے لیے استعمال نہیں کرتے جو اسرائیلی حکمت عملی کے مخالف ہیں بلکہ ان یہودیوں لیے کرتے ہیں جو اسرائیل کے وجود کے مخالف ہوں۔

اینٹونی لیرمین (Antony Lerman) نے یہودیوں کے خود منافرتی نظریے کو بالکلیہ بوگس قراردیا۔[8] اس نے اس نظریے کے پس پردہ اپنے مخالفین کو شیطانی شکل میں پیش کرنے کی کوشش قراردیا۔[9] جو اکثر نوخیز ضد سامیت میں شخصی حملے کے طور پر اس کا استعمال کرتے ہیں۔[9] بین کوہین (Ben Cohen) لیرمین کی تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسا کوئی حقیقی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے جو اس نظریے کی حمایت کرسکے۔[10] لیرمین اس تنازع کو تسلیم کرتا ہے کہ انتہا درجے کی اسرائیل کی مخالفت یہودیوں کی مخالفت ہے اور کہتا ہے کہ یہودیوں کی مخالفت بھی ضد صیہونیت ہو سکتی ہے[8][11] جو روزنفلیڈ (Rosenfeld) اور گیلمین (Gilman) کی توجہ کا مرکز تھی۔

ماہر عمرانیات اروینگ لوئیس ہوروویٹز (Irving Louis Horowitz) نے اس اصطلاح کو ان یہودیوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جو یہودی برادری کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔ اس کے اس نے "خود منافرتی یہودی" کو درباری یہودی سے تشبیہ دی جو یہودیوں کی ہتک عزت کو جائز قرار دیتا ہے تاکہ آقائی اور شاہی مزاح سے استفادہ کرسکے۔[12] مؤرخ برنارڈ واسرسٹین (Bernard Wasserstein) "یہودیوں کی مخالف یہودیت" کی اصطلاح کو ترجیح دیتے ہیں جسے ان کی رائے میں یہودیوں کی خودمنافرت قرار پایا تھا۔[13] وہ استفسار کرتے ہیں کہ ایک یہودی کیسے ضد سامیت میں ملوث ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب وہ دیتے ہیں کہ یہودی اپنے آپ میں ضد سامیت کے اسباق جذب کر چکے ہیں اور تھیوڈر ہیمیرو (Theodore Hamerow) کے نظریات کے آگے نفسیاتی خودسپردگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ واسرسٹین کا اس کے آگے دعوٰی ہے کہ خود منافرتی یہودی کسی نہ کسی شکل کی یہودیوں کی مخالفت کا شکار ہوئے ہیں اور اپنے آپ سے نفرت سے کہیں زیادہ وہ یہودیوں کے دیگر گروہوں سے متنفر ہو گئے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Sander Gilman (1990)۔ Jewish Self-Hatred: Anti-Semitism and the Hidden Language of the Jews۔ Johns Hopkins University Press, Jul 1, 1990۔ ISBN 0801840635 
  2. Bernard Lewis, "Semites and Anti-Semites," W. W. Norton & Company 1999, pp. 255-256.
  3. ^ ا ب Paul Reitter (2008), "Zionism and the Rhetoric of Jewish Self-Hatred", The Germanic Review 83(4)
  4. ^ ا ب W. M. L. Finlay, "Pathologizing Dissent: Identity Politics, Zionism and the 'Self-Hating Jew'", British Journal of Social Psychology, Vol. 44 No. 2, June 2005, pp. 201-222.
  5. Alvin H. Rosenfeld, "Rhetorical Violence and the Jews," The New Republic, فروری 27, 2007.
  6. Alan Dershowitz, "The Case for Israel," John Wiley & Sons, Inc. 2004, pg. 220.
  7. Sander Gilman, "Jewish Self-Hatred: Anti-Semitism and the Hidden Language of the Jews," Baltimore:Johns Hopkins University Press 1986, pp. 361.
  8. ^ ا ب اینٹونی لیرمین، "یہود بمقابلہ یہود", Ha'aretz, 12 ستمبر 2008, محصلہ 13 ستمبر 2008.
  9. ^ ا ب Antony Lerman, Jewish Quarterly, "Jewish Self-Hatred: Myth or Reality?" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jewishquarterly.org (Error: unknown archive URL), Summer 2008
  10. "Anthony Lerman Plays Politics with Antisemitism", The Propagandist, September 12, 2008.
  11. "Anti-Zionism and Antisemitism: Ben Cohen Debates Antony Lerman", The Propagandist, June 18, 2008.
  12. Irving Louis Horowitz, "New Trends and Old Hatreds," Springer New York Society (journal), Vol. 43 No.1, نومبر 2005, آئی ایس ایس این 0147-2011 (Print) آئی ایس ایس این 1936-4725 (Online).
  13. Bernard Wasserstein, "On the Eve," Simon and Schuster 2012, p. 211.