خیبر پختونخوا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(خیبر پختونخواہ سے رجوع مکرر)

خیبر پختونخوا

خېبر پښتونخوا
صوبہ
KP flag
پرچم
KP logo
مہر
عرفیت: سرحد
Location of خیبر پختونخوا
متناسقات (پشاور): 34°00′N 71°19′E / 34.00°N 71.32°E / 34.00; 71.32متناسقات: 34°00′N 71°19′E / 34.00°N 71.32°E / 34.00; 71.32
ملک پاکستان
قیام14 اگست 1947ء
صوبائی دار الحکومتپشاور
سب سے بڑا شہرپشاور
حکومت
 • قسمصوبہ
 • مجلسصوبائی اسمبلی
 • گورنرحاجی غلام علی (جمیعت علمائے اسلام)
 • وزیر اعلیٰاعظم خان (نگران)
 • چیف سیکریٹریندیم اسلم چودھری
 • صوبائی اسمبلیصوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا (145 نشستیں)
 • عدالت عدلیہپشاور عدالت عالیہ
رقبہ
 • کل101,741 کلومیٹر2 (39,282 میل مربع)
آبادی (2017)
 • کل35,525,047
 • کثافت350/کلومیٹر2 (900/میل مربع)
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
ٹیلی فون کوڈ9291
آیزو 3166 رمزPK-KP
زبانیں
دیگر زبانیں: اردو، ہندکو، سرائیکی، فارسی، کھووار، گاوری زبان، توروالی زبان، کوہستانی زبان، بٹیری زبان، کلکوٹی زبان، چیلیسو زبان، گورو زبان، کالاش زبان، پھالولہ زبان، دامیلی زبان، گواربتی زبان، یدغہ زبان، بروشسکی زبان، وخی زبان،
کھیلوں کی اہم ٹیمیںپشاور زلمی
پشاور پینتھرز
ایبٹ آباد فالکنز
اسمبلی کی نشستیں124
اضلاع34
یونین کونسلیں986
ویب سائٹwww.kp.gov.pk

خیبر پختونخوا یا مختصر طور پر پختونخوا، پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو پاکستان کے شمالی مغربی حصّے میں واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ پاکستان کے چار صوبوں میں سب سے چھوٹا جبکہ آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا صوبہ ہے۔ اس کا شمالی حصّہ سرسبز و شاداب علاقوں پہ مشتمل ہے جہاں لوگ مختلف علاقوں سے سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ اور جنوبی حصّہ شہروں پر مشتمل ہے جہاں پاکستان کے بہت سے اہم ادارے اور صنعتیں موجود ہیں۔ صوبائی زبان پشتو اور صوبائی دار الحکومت پشاور ہے۔

خیبر پختونخوا صوبائی علامات
صوبائی جانور
صوبائی پرندہ
صوبائی درخت
صوبائی پھول
صوبائی کھیل

آبادیات و سماج[ترمیم]

صوبہ خیبرپختونخوا کی آبادی اندازہً 21 ملین ہے۔ سب سے بڑا نسلی گروہ پختونوں کا ہے جن کی آبادی صوبے کی کل آبادی کا تقریباً 66 فیصد ہے۔ سب سے بڑی زبان پشتو جبکہ ہندکو دوسری بڑی عام بولی جانے والی مقامی زبان ہے۔ پشتو مغربی اور جنوبی سرحد میں غالب زبان ہے اور یہ کئی شہروں اور قصبوں کی اصل زبان بھی ہے جن میں پشاور بھی شامل ہے۔ ہندکو بولنے والے مغربی سرحد مثلاً ہزارہ ڈویژن میں خصوصاً ایبٹ آباد، مانسہرا اور ہری پور شہروں میں عام ہیں جبکہ ضلع بٹگرام میں پشتو باقی دوضلعوں ضلع اپرکوہستان اورضلع لوئرکوہستان میں کوہستانی زبان بولی جاتی ہے۔جبکہ صوبے کے شمالی حصے ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن کے وسیع علاقے میں گوجری زبان بولی جاتی ہے۔سرائیکی اور بلوچی بولنے والے صوبے کے جنوب مشرق میں خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان میں رہتے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے مرکز اور جنوب کے دیہاتی علاقوں میں کئی پختون قبیلے آباد ہیں جن میں بنگش، میاں خیل 'یوسفزئی، دلازاک، خٹک، مروت، آفریدی، شنواری، اورکزئی، صوابی حاض بارکزہی حاندان آباد ہےمحسود، مھمند، ۔بنوسی اور وزیر قبائیل شامل ہیں۔ شمال کی طرف سلیمانخیل سلیمانی سواتی، ترین، جدون اور مشوانی بڑے پشتون قبیلے ہیں۔ کئی غیر پشتون قبیلے بھی ہیں مثلاً اعوان، گجر تنولی مغل عباسی ترک راجپوت وغیرہ۔ اعوان قبیلے کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اصل میں عرب ہیں اور اس قبیلے کے لوگ باقی پشتونوں اور غیر پشتونوں سے مختلف ہیں۔
شمال میں ضلع چترال ہے جہاں چھوٹے نسلی گروہ جیسے کوہستانی، خوار، شینا، توروالی، کالاشا اور کالامی آباد ہیں۔
اِس کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا میں 1.5 ملین افغان مہاجرین بھی قیام پزیر ہیں جن میں اکثریت پشتونوں کی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی زیادہ تر آبادی مذہب اسلام سے تعلق رکھتی ہے البتہ بہت تھوڑی تعداد میں سکھ مذہب کے پیروکار بھی آباد ہیں

تاریخ[ترمیم]

قدیم تاریخ[ترمیم]

خطۂ صوبہ خیبر پختونخوا میں قدیم زمانے سے کئی حملہ آور گروہ آتے رہے ہیں جن میں فارسی، یونانی، کُشن، ہُنز، عرب، تُرک، منگول، مُغل، سکھ اور برطانیہ شامل ہیں۔ 1500 اور 2000 قبل از مسیح کے درمیان، آریائی قوم کی ایک ایرانی شاخ بنی جس کی نمائندگی پشتون کر رہے تھے انھوں نے صوبہ خیبر پختنونخواہ کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ کر لیا۔

6 صدی عیسیوی سے وادئ پشاور مملکتِ گندھارا کا مرکز تھا۔ بعد میں یہ شہر کُشن دورِ سلطنت کا دارالحکومت بھی بنا۔ اس خطے پر کئی معروف تاریخی اشخاص کے قدم پڑے مثلاً دیریس دوم، سکندر اعظم، ہیون سنگ، فا ہین، مارکوپولو، ماؤنٹسٹارٹ ایلفنسٹائن اور ونسٹن چرچل۔

خطّے پر موریائی قبضے کے بعد، بدھ مت یہاں کا بڑا مذہب بنا، خصوصاً شہری علاقوں میں جیسا کہ حالیہ آثاریاتی اور تشریحی شواہد سے پتا چلتا ہے۔ ایک بڑا کُشن فرماں روا کنیشکا بھی بُدھ مت کے عظیم بادشاہوں میں سے ایک تھا۔
جبکہ دیہی علاقوں نے کئی شمنیتی عقائد برقرار رکھے مثلاً کالاش گروہ اور دوسرے۔ پشتونولی یا روایتی ضابطۂ وقار جس کی پشتون قوم پاسداری کرتی ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ اِس کی جڑیں بھی اسلام سے پہلے کی ہیں۔

شاہی دور[ترمیم]

صدی عیسوی کے اوائل میں، اسلام کی آمد سے پہلے، صوبہ خیبر پختونخوا پر بادشاہ حکومت کرتے تھے۔ پہلے حکمران تُرک تھے اور انھوں نے اِس خطے پر 870 صدی عیسوی تک حکومت کی۔ اُن کے بعد کے حکمرانوں کا شاید ہمسایہ کشمیر اور پنجاب کے حکمرانوں سے روابط تھے۔ جیسا کے آثار و تاریخ مثلاً سکّوں اور دوسری بنائی ہوئی چیزیں اُن کے کثیر ثقافتی کا ثبوت دیتی ہیں۔ ان آخری حکمرانوں کو اپنے برادرانہ قبیلوں نے آخر کار ختم کر دیا جن کی کمان محمودِ غزنوی کر رہے تھے۔(محمودغزنوی کے دورحکومت میں پشتون قبیلہ دلازاک وادی پشاورمیں آبادھوچکاتھا۔ دلازاکوں نے خیبرکے نام سے ایک قلعہ بنایا- جوبابرکے دورحکومت میں یوسف زئ کے ہاتھوں بے دخل ھوگئے)

اِسلام کی آمد[ترمیم]

بدھ مت اور شمن پرستی اُس وقت تک بڑے مذاہب رہے جب تک مسلمانوں اور ترکوں نے 1000 صدی عیسوی کے آواخر میں قبضہ کر لیا۔ رفتہ رفتہ پشتون اور دوسرے قبیلے اسلام میں داخل ہوتے رہے۔ اِس دوران میں انھوں نے اپنے کچھ روایات برقرار رکھے جیسا کہ پشتونوں کی روایت پشتونولی یا ضابطۂ وقار و عزت۔ صوبہ خیبر پختونخوا عظیم اِسلامی مملکت یعنی "غزنوید مملکت" اور مملکتِ محمد غور کا حصہ بھی رہا۔ اس زمانے میں باقی ماندہ مسلمان ممالک سے مسلمان تاجر، اساتذہ، سائنس دان، فوجی، شاعر، طبیب اور صوفی وغیرہ یہاں جوق در جوق آتے رہے۔
پشتون قبائیل کے مغربی علاقوں میں تو اسلام رسول اللہ کی دور میں آیا تھا، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے پشتون صحابی قیس عبدالراشد کو رسول اللہ سے مسجد نبوی میں ملاقات کرائی۔ اسلام کی بنیاد سب سے پہلے برصغیر میں اس وقت رکھی گئی جب محمد بن قاسم سمندری راستے سے سندھ میں آئے اور راجہ داہر کو شکست دے کر چلے گئے، یوں صرف بنیاد سندھ سے رکھی گئی لیکن اس کے بعد محمد بن قاسم چلے گئے۔ اس کے بعد افغان، ترک، منگول اور عرب حکمران اور تاجردرہ خیبر کے ذریعے ہندوستان آتے تھے اور اس سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات ) کے ذریعے پورے ہندوستان میں اسلام تیزی سے پھیلتا گیا۔

پشتون قوم پرستی[ترمیم]

یہ صوبہ ایک اہم سرحدی علاقہ تھا جس پر مُغل اور فارس کے سفویوں کے درمیان میں اکثر اوقات تنازع رہتا تھا۔ مُغل حکمران اورنگزیب کے دَور میں، پشتون قوم پرست شاعر خوشحال خان خٹک نے اپنی شاعری کے ذریعے کئی پشتون قبائل کو حکمرانوں کے خلاف بیدار کیا، جس کی وجہ سے اِس خطے کو قابو میں رکھنے کے لیے بہت بڑی طاقت کی ضرورت تھی اوراسی بنا پر مغل اور پشتون قبائل میں جنگیں بھی ہوئی، ایک بڑی لڑائی مغلوں اور یوسفزئی قبیلے میں لڑی گئی جس میں بادشاہ اکبر کا وزیر راجا بیربل سوات کے مقام پر مارا گیا۔ خطہ بعد میں دُرّانی حکومت کے ذریعے یکجا ہوا جس کی بنیاد احمد شاہ دُرّانی نے 1747ء میں رکھی تھی۔
اس سے قبل اس خطے میں دلزاک اور یوسفزئی حکومتیں بھی قائم رہیں دلزاک افغانستان سے سنہ 700ء میں یہاں آنا شروع ہوئے بعد میں یوسفزئی یہاں آئے تو دلزاک سے علاقے مانگ کر رہے تا ہم اپنی فہم و فراست سے دلزاک افغانوں سے انکا علاقہ حاصل کر لیا جنگ کاٹلنگ کی نتیجہ خیز مہم کے بعد یوسفزئی نے دلزاک علاقہ مکمل اپنے قابو میں لے لیا اور دلزاک کو سندھ کے دونوں کناروں کی طرف دھکیل دیا دلزاک علاقہ چچھ حضرو حسن ابدال تربیلا میں پہنچے اور یہاں زندگی گزارنے لگے

برطانوی دور[ترمیم]

افغانستان 1893ء کے ڈیورنڈ معاہدے سے پہلے

برطانیہ اور روس کے درمیان میں جنوبی ایشیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے کئی تصادم ہوئے۔ جس کے نتیجے میں افغانستان کی تقسیم واقع ہوئی۔ افغانوں سے دو جنگوں کے بعد برطانیہ 1893ء میں ڈیورنڈ لائن نافذ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ڈیورنڈ لائن نے افغانستان کا کچھ حصہ برطانوی ہندوستان میں شامل کر دیا۔ ڈیورنڈ لائن، سر مورتیمر ڈیورنڈ کے نام سے ہے جو برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے معتمدِ خارجہ تھے۔ افغان ڈیورنڈ لائن کو ایک عارضی خط جبکہ برطانیہ اِس کو ایک مستقل سرحد سمجھتے تھے۔ یہ سرحدی خط قصداً ایسے کھینچی گئی کہ پختون قبیلے دو حصوں میں بٹ گئے۔
برطانیہ جس نے جنوبی ایشیا کا باقی حصہ بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کر لیا تھا، یہاں پر اُسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پشتونوں کے ساتھ پہلی لڑائی کا نتیجہ بہت بُرا نکلا اور برطانوی فوج کا صرف ایک سپاہی جنگِ میدان سے واپس آنے میں کامیاب ہوا (جبکہ برطانوی فوجیوں کی کل تعداد 14,800 تھی)۔ خطے میں اپنی رِٹ قائم رکھنے میں ناکامی کے بعد برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کا کھیل شروع کیا۔ برطانیہ نے اِس کھیل میں کٹھ پتلی پشتون حکمران صوبہ خیبر پختونخوا میں بھیجے۔ تاکہ پشتونوں کے درمیان میں اختلاف پیدا ہو سکے۔ باوجود اِس کے، موقعی پشتون حملے ہوتے رہے مثلاً محاصرۂ مالاکنڈ۔
صوبہ خیبر پختونخوا 9 نومبر 1901 کو بطورِ منتظمِ اعلیٰ صوبہ بنا۔ اور اس کا نام صوبہ سرحد رکھا گیا۔ ناظمِ اعلیٰ صوبے کا مختارِ اعلیٰ تھا۔ وہ انتظامیہ کو مشیروں کی مدد سے چلایا کرتا تھا۔
صوبے کا باضابطہ افتتاح 26 اپریل 1902ء کو شاہی باغ پشاور میں تاریخی ‘‘دربار’’ کے دوران میں ہوا جس کی صدارت لارڈ کرزن کر رہے تھے۔ اُس وقت صوبہ خیبر پختونخوا کے صرف پانچ اضلاع تھے جن کے نام یہ ہیں: پشاور، ہزارہ، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان۔ مالاکنڈ کی تین ریاستیں دیر، سوات اور چترال بھی اس میں شامل ہوگئیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں قبائل کے زیرِ انتظام ایجنسیاں خیبر، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان بھی شامل تھیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے پہلے ناظمِ اعلیٰ ہرولڈ ڈین تھے۔
صوبہ خیبر پختونخوا ایک مکمل حاکمی صوبہ 1935ء میں بنا۔ یہ فیصلہ اصل میں 1931ء میں گول میز اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اجلاس میں اِس بات پر اتفاقِ رائے ہوا تھا کہ صوبہ سرحد کا اپنا ایک قانون ساز انجمن ہوگا۔ اِس لیے، 25 جنوری 1932ء کو وائسرائے نے قانونساز انجمن کا افتتاح کیا۔ پہلے صوبائی انتخابات 1937ء میں ہوئے۔ آزاد اُمیدوار اور جانے پہچانے جاگیردار صاحبزادہ عبد القیوم خان صوبے کے پہلے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔

آزادی کے بعد[ترمیم]

برطانیہ سے آزادی کے بعد، 1947ء کے اِستصوابِ رائے میں صوبہ سرحد نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم، افغانستان کے 1949ء کے لویہ جرگہ نے ڈیورنڈ لائن کو غلط قرار دیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں تنازعات ابھرے۔ 1950ء میں افغانستان نے علٰیحدگی پسند تحریک کی حمایت کی لیکن اِس تحریک کو قبائل میں پزیرائی حاصل نہ ہوئی۔ صدر ایوب خان کے پاکستانی صوبوں کے احذاف کے بعد، صدر یحیٰی خان نے 1969ء میں اِس ‘‘ایک اِکائی’’ منصوبے کو منسوخ کر دیا اور سوات، دیر، چترال، اپرکوہستان، لوئرکوہستانکو نئے سرحدات میں شامل کر دیا۔
1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے تک پختونستان کا مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں کئی دہائیوں تک تنازعات کا مؤجب بنا۔ حملے کے سبب پچاس لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، جو زیادہ تر صوبہ سرحد میں قیام پزیر ہوئے (2007ء کے شمار کے مطابق قریباً تیس لاکھ ابھی بھی رہتے ہیں)۔ افغانستان پر سوویت کے قبضے کے دوران، 1980ء کی دہائی میں صوبہ خیبر پختونخوا مجاہدین کا بہت بڑا مرکز تھا جو سوویت یونین کے خلاف لڑ رہے تھے۔

جغرافیہ[ترمیم]

درۂ خیبر

صوبہ خیبر پختونخوا کا علاقہ ارضیاتی طور پر حساس جگہ پر واقع ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں یہاں کئی زلزلے آچکے ہیں مثلاً زلزلۂ کشمیر۔ مشہور درّۂ خیبر صوبے کو افغانستان سے ملاتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کا رقبہ 28,773 مربع میل یا 74,521 مربع کلومیٹر ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا شہر پشاور ہے جو صوبے کا دار الحکومت بھی ہے۔ دوسرے بڑے شہروں میں نوشہرہ، مردان، مینگورہ٬ چارسدہ، مانسہرا، ایوبیہ، نتھیاگلی اور ایبٹ آباد شامل ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، اپرکوہستان، بنوں، پشاور، ایبٹ آباد اور مانسہرا بڑے اضلاع ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کا خطہ جنوب میں خشک پتھریلی علاقوں جبکہ شمال میں سبز میدانوں پر مشتمل ہے۔ آب و ہوا شدید ہے، سردیوں میں یخ ٹھنڈ اور گرمیوں میں نہایت گرمی پڑتی ہے۔ شدید موسم کے باوجود زراعت زیادہ ہے۔ کندیا، سوات، کالام، دیر بالا، ناران اور کاغان کی پہاڑی زمین حسین وادیوں کے لیے مشہور ہے۔ ہر سال کئی ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ سوات-کالام کو ‘‘سوٹزرلینڈ کا ٹکڑا’’ کہاجاتا ہے کیونکہ یہاں کے کئی مناظر سوٹزرلینڈ کے پہاڑی خطے سے مشابہت رکھتے ہیں۔
1998ء کی مردم شماری کی مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کی آبادی 17 ملین تھی جس میں سے 52 فیصد مرد اور 48 فیصد خواتین تھیں۔ آبادی کی کثافت 187 فرد فی کلومیٹر ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخوا کو دو خطّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: شمالی خطہ اور جنوبی خطہ۔ شمالی خطہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے شروع ہوکر پشاور کے سرحد، جبکہ جنوبی خطہ پشاور سے شروع ہوکر دراجت تک ہے۔ شمالی خطہ سردیوں میں ٹھنڈی، برفیلی اور زیادہ بارشوں والی جبکہ گرمیوں میں موسم خوشگوار ہوتا ہے ما سوائے پشاور کے جہاں گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی پڑتی ہے۔ جنوبی خطہ خشک اور بنجر ہے، موسمِ گرما بہت گرم اور موسمِ سرما قدرے سرد ہوتا ہے، بارشیں کم ہوتی ہیں۔
صوبہ خیبرپختنونخواہ کے دریاؤ میں دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے چترال، دریائے پنجگوڑہ، دریائے باڑہ، دریائے کرم، دریائے گومل اور دریائے ژوب شامل ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا جو کبھی گندھارا تہذیب کا گہوارا رہا ہے، اب یہ علاقہ پرہیزگار، پُرخلوص اور مہمان نواز مسلمانوں کے لیے مشہور ہے، جو اپنے مذہب، اقدار، ثقافت، تہذیب و تمدن، روایات اور طریقہ ہائے زندگی کی نہایت جوش و جذبے سے حفاظت کرتے ہیں۔

موسم[ترمیم]

دیر
آب و ہوا چارٹ (وضاحت)
جفمامججاساند
 
 
121
 
11
−3
 
 
177
 
12
−2
 
 
254
 
16
3
 
 
166
 
23
8
 
 
86
 
28
12
 
 
54
 
32
16
 
 
160
 
31
19
 
 
169
 
30
18
 
 
84
 
29
14
 
 
50
 
25
7
 
 
58
 
20
2
 
 
83
 
14
−1
اوسط زیادہ سے زیادہ. اور کم سے کم درجہ حرارت °C
ترسیب کل، ملی میٹر میں
ماخذ: World Climate Data[1]
ڈیرہ اسماعیل خان
آب و ہوا چارٹ (وضاحت)
جفمامججاساند
 
 
10
 
20
4
 
 
18
 
22
7
 
 
35
 
27
13
 
 
22
 
34
19
 
 
17
 
39
23
 
 
14
 
42
27
 
 
61
 
39
27
 
 
58
 
37
26
 
 
18
 
37
24
 
 
5
 
33
17
 
 
2
 
28
11
 
 
10
 
22
5
اوسط زیادہ سے زیادہ. اور کم سے کم درجہ حرارت °C
ترسیب کل، ملی میٹر میں
ماخذ: World Climate Data[2]

خیبر پختونخوا پاکستان کا وہ حصہ ہے چاروں موسم پائے جاتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان پاکستان کے گرم ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے جو خیبرپختونخوا کے جنوبی حصے میں واقع ہے اس کے برعکس سوات، دیر، چترال جیسے علاقے اکثر پاکستان کے سرد علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔

چترال[ترمیم]

چترال وہ علاقہ ہے جو درحقیقت میں شمالی پاکستان کے موسم کا بنیاد ہے یہاں قریبی اونچے پہاڑوں کی وجہ سے سردی میں چترال میں سخت سردی ہوتی ہے اور کہیں کہیں فُٹ تک برف باری ہوتی ہے۔ اور گرمی میں اکثر شدید گرمی کا بھی کبھی کبھی سامنا کرنا پڑتا ہے کہیں مرتبہ چترال میں درجہ حرارت 40 ڈگری بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔

قومی پارک[ترمیم]

نام تصویر مقام تاریخِ قیام رقبہ (Hec) اہم جانور
ایوبیہ نیشنل پارک Mukeshpuri ضلع ایبٹ آباد 1984 3,122 منال، Kalij pheasant، چکور، نیولا، عام تیندوا، بندر، گلہری۔
چترال گول نیشنل پارک ضلع چترال 1984 7,750 مارخور، Urial، برفانی چیتا، بھیڑیا، بٹیر، چکور، کبوتر
بروغل نیشنل پارک Karambar Lake ضلع چترال 2010 134,744 Ibex ، نیلا بھیڑ، برفانی چیتا، بھورا ریچھ، تبتی بھیڑیا، مارموط، بٹیر، چکور
شیخ بدین نیشنل پارک ضلع ڈیرہ اسماعیل خان 1999 15,540 کالا تیتر، سیاہ تیتر، چکور، چٹان فاختہ، بلبل، گھیدڑ، خرگوش، گیڈر، جنگلی بلی، سیہہ، جنگلی بوئر
سیف الملوک نیشنل پارک Saif ul Maluk Lake ضلع مانسہرا 2003 12,026 ایشیائی کالا ریچھ، نیولا، رام چکور، برف تیتر، ہمالی طاوس
لالوسار۔دودیپاتسار نیشنل پارک Dudiptsar Lake ضلع مانسہرا 2003 75,058 Common تیندوا، ایشیائی کالا ریچھ، جنگلی بکری، نیولا، ہمالی طاوس، Koklass pheasant، رام چکور

نیا نام[ترمیم]

2010ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والے اٹھارویں ترمیم میں صوبے کا نام صوبہ سرحد سے تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا، جو یہاں کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ اب اس صوبے کو اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

حکومت[ترمیم]

قانون ساز شاخ[ترمیم]

صوبہ خیبر پختنونخواہ کی صوبائی اسمبلی یک ایوانی ہے اور یہ 124 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں دو فیصد اقلیتوں اور سترہ فیصد خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔

ایگزیکٹو شاخ[ترمیم]

خیبر پختونخوا کا ایگزیکٹو برانچ گورنر خیبر پختونخوا (جن کو صدر پاکستان منتخب کرتے ہیں)، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا (جن کو صوبائی اسمبلی منتخب کرتی ہے) اور صوبائی کابینہ (جن کو گورنر خیبر پختونخوا وزیر اعلیٰ کے مشورے پر منتخب کرتے ہیں) پر مشتمل ہے۔

عدلیہ[ترمیم]

اضلاع[ترمیم]

صوبہ خیبر پختونخوا کا اضلاعی نقشہ

صوبہ خیبر پختونخوا میں 33 اضلاع ہیں:

اہم شہر[ترمیم]

و=== دیگر چھوٹے بڑے شہر ===

پی۔ٹی۔ڈی۔سی قیام گاہ، مالم جبہ اس کا مرکز، سوات، پاکستان

معیشت[ترمیم]

ضلع بٹگرام کے دیدال گاؤں کا ایک منظر

سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کی وجہ سے یہ خطہ کئی دہائیوں تک مشکلات کا سامنا کرتا رہا۔ آج پھر اِس خطے کے حالات خصوصاً معیشت ناگفتہ بہ ہے۔
زراعت کا خیبر پختونخوا کی معیشت میں اہم کردار ہے۔ صوبے کے بڑے پیداوار گندم، مکئی، چاول، گنّا ہیں جبکہ کئی پھل بھی اگائے جاتے ہیں۔ پشاور میں کچھ صنعتی اور اعلیٰ تکنیکی سرمایہ کاری نے علاقے کے لوگوں کے لیے ذرائع آمدن مہیا کرنے میں بہت مدد کی ہے۔ صوبے میں ہر اُس چیز کی تجارت ہوتی ہے جس سے پاکستان کے لوگ واقف ہیں۔ اور یہاں کے بازار پورے پاکستان میں مشہور ہیں۔ صنعتوں کے قیام سے بے روزگاری میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

تعلیم[ترمیم]

صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے طرف رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور صوبہ پختونخوا میں پاکستان کی سب سے پہلی جامعۂ انجینئری (غلام اسحٰق خان انسٹیٹیوٹ) بھی ہے۔ یہ جامعہ صوابی کے ایک قصبہ ٹوپی میں واقع ہے۔ جامعہ پشاور اعلیٰ تعلیم کا ایک مشہور اِدارہ ہے۔
درج ذیل خریطہ 1998ء میں حکومت کی خیبر پختونخوا کی شرح تعلیم کے اندازوں کے بارے میں ہے:

تعلیمی قابلیت شہری دیہی کُل اندازہً شرح(%)
2,994,084 14,749,561 17,743,645
ابتدائی سے پہلے 413,782 3,252,278 3,666,060 100.00
ابتدائی 741,035 4,646,111 5,387,146 79.33
وسطی 613,188 2,911,563 3,524,751 48.97
میٹرک 647,919 2,573,798 3,221,717 29.11
ثانوی 272,761 728,628 1,001,389 10.95
بی۔ اے، بی۔ ایس۔ سی ڈگری 20,359 42,773 63,132 5.31
ایم۔ اے، ایم۔ ایس۔ سی ڈگری 183,237 353,989 537,226 4.95
ڈپلوما، سرٹیفیکیٹ 82,037 165,195 247,232 1.92
دوسرے 19,766 75,226 94,992 0.53

بڑے جامعات، کالجیں اور ادبی تنظیمیں[ترمیم]

اسلامیہ کالج، پشاور

1 جہانزیب کالج سیدو شریف 2 جامعہ سوات

لوک موسیقی[ترمیم]

پشتو لوک موسیقی پورے خیبر پختونخوا میں مقبول ہے۔ پشتو لوک موسیقی اپنے اندر کئی سو سالوں کی روایات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پشتو موسیقی میں استعمال ہونے والے بڑے آلات رباب، منگے اور ہارمونیم ہیں۔
کھوار لوک موسیقی چترال اور شمالی سوات میں مقبول ہے۔ کھوار موسیقی کے سُر پشتو موسیقی سے مختلف ہیں۔ چترالی ستار سب سے زیادہ استعمال ہونے والی آلۂ موسیقی ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "World Climate Data: Dir, Pakistan"۔ Weatherbase۔ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 ستمبر 2010 
  2. "World Climate Data: Dera Ismail Khan, Pakistan"۔ Weatherbase۔ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 ستمبر 2010 

بیرونی روابط[ترمیم]