رشید حسن خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رشید حسن خان
پیدائشرشید حسن خان
1930ء-01-10
شاہجہاں پور (اُترپردیش) - بھارت
وفات2006ء-02-26
شاہجہانپور (اُترپردیش) - بھارت
پیشہمصنف، محقق
سالہائے فعالیت1959-2006
کارہائے نمایاںاردو املا، زبان و قواعد، املاے غالب
مؤثر شخصیاتمولوی عبد الحق
آبائی شہرشاہجہانپور
مذہباسلام

رشید حسن خان (1925 – 2006ء) معروف بھارتی ماہر لسانیات، محقق و مدوّن اور شاعر تھے۔ انھوں نے کئی اہم اردو مخطوطات کو شائع کرایا۔ ان کی دلچسپی کے خاص موضوعات املا، لغت، قواعدِ زبان و بیان تھے۔ اعلیٰ درجے کے تحقیقی مقالات بھی لکھے۔ جو مجموعوں تفہیم اور تلاش و تعبیر کے نام سے شائع ہوئے۔

”رشید حسن خاں۔ ایک عظیم محقق اور مدون“[1] کے عنوان سے محمد عثمان بٹ کا مضمون 2021ء میں شائع ہوا۔ یہ مضمون رشید حسن خان کی زندگی اور اُن کی بحیثیت محقق اور مدون خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کرتا ہے۔

حالات زندگی[ترمیم]

رشید حسن خان 25 دسمبر 1925ء کو شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام امیر حسن اور دادا کا نام علی حسن تھا۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ بحرالعلوم سے حاصل کرنے کے بعد اپنی ادبی زندگی کا آغاز 1944ء میں کیا۔

رشید حسن خان نے تحقیق کے مختلف پہلوؤں سے اپنی دلچسپی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ انھوں نے تحقیق کے مروجہ اصول و نظریات کی توضیح کی اور اپنی نقطہ رسی اور تیز طبع سے اس میں قابل قدر اضافے کیے۔ پھر اپنی تحقیقی تصانیف کے ذریعے عملی نمونے پیش کیے۔ ان کی تحقیقی خدمات کا نمونہ اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔


علمی تحقیق کے لیے حوالہ و سند کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے بغیر کوئی تحقیقی کاوش پائہ اعتبار کو نہیں پہنچ سکتی۔ انھیں کی بنیاد پر ادبی و علمی تخلیقات کے صحت و عدم صحت کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور انھیں کی روشنی میں معتبر اور غیر معتبر کے درمیان تمیز کی جا سکتی ہے۔

تصنیفات[ترمیم]

گنجینہ معنی کا طلسم[ترمیم]

یہ کتاب بعض وجوہ سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اول تو اس لیے کہ یہ رشید حسن خاں جیسے محقّق و مدوِن کی آخری تالیف ہے۔ دوسرے، اس کی مدد سے کلام غالب کی تفہیم کے نئے رنگ سامنے آنے کے امکانت واضح ہوئے ہیں۔ تیسرے، اس کتاب میں غالب کے دیوان کا کُل کلام شامل ہے اور وہ بھی مستند متن کے ساتھ، گویا اس کتاب کی موجودگی میں کلام غالب کے کسی دوسرے نسخے کی عام طور پر ضرورت نہیں رہی۔ چوتھے، اس کتاب سے ہمیں بہ یک نظرمعلوم ہوجاتا ہے کہ غالب نے اپنے اردو کلام میں کون کون سے الفاظ استعمال کیے ہیں اور ان میں سے غالب کے محبوب و مرغوب ترین الفاظ اور ترکیبیں کون کون سی ہیں جنھیں غالب نے زیادہ استعمال کیا ہے۔ پانچویں، اس کتاب کے ذریعے رشید حسن خاں نے غالب کے ماہرین، محققین، نقادوں اور زبان دانوں کے لیے خامہ فرسائی کے امکانات مہیا کردیے ہیں۔

انشائے غالب[ترمیم]

انشائے غالب رشید حسن خاں کی مرتب کردہ ہے، جو مرزا غالب کے کلام نظم و نثر پر مشتمل ایک مختصر سی کتاب ہے اس کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ کتاب خود مرزا غالب کے ہاتھوں مرتب کردہ ہے۔ کتاب کی مزید اہمیت پر ”عرض مرتب“ کے عنوان سے رشید حسن خان کی اہم گفتگو ہے، جس میں انھوں نے عبد الستار صدیقی کے علم و فضل اور ان کے مزاج پر گفتگو کی ہے، اس نسخہ کے ان تک پہنچنے کا ذکر کیا ہے اور اس کی اشاعت میں تاخیر کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے، اس کے بعد مالک رام کا مقدمہ ہے، جس میں کتاب سے متعلق اہم معلومات پیش کی گئی ہیں، غالب سے یہ تحریریں مولوی ضیاء الدین نے حاصل کی تھیں، مقصد نو وارد فوجیوں کو اردو سکھانے کے لیے نصاب مرتب کرنا تھا، اس سے متعلق مقدمہ بہت سے حقائق پیش کرتا ہے اور مولوی ضیاء الدین کی لیاقت سے واقف کراتا ہے، کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا نثر سے متعلق ہے، جس میں دو دیباچے بارہ خطوط دو نقلیں اور ایک لطیفہ شامل ہے، دوسرا حصہ نظم پر مشتمل ہے، جس میں اکتیس اشعار ہے، زبان سادہ اور آسان ہے، جس مبتدی کو اردو سیکھنے میں آسانی ہو۔ کتاب کا کا عکسی متن آخرمیں موجود ہے جس کا پڑھنا کافی دشوار ہے۔ یہ کتاب کراچی سے ادارۂ یادگارِ غالب نے 2001ء میں شائع کی۔کل صفحات 177 ہیں۔

غالب: فکر و فن[ترمیم]

یہ کتاب غالب اکیڈیمی، کراچی سے 1987ء میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب کے کل صفحات 118ہیں۔

مصطلحات ٹھگی[ترمیم]

یہ تصنیف دراصل علی اکبر الہٰ آبادی کی ہے جسے رشید حسن خاں نے دوبارہ ازسر نو مرتب کرکے شائع کیا۔اپنی منفرد حیثیت میں یہ کتاب غیر معمولی ہے۔ٹھگی قتل و لوٹ مار کا ایک ایسا منظم طریقہ تھا جو تقریبا دوسو سال تک ہندوستان میں رائج رہا۔ ٹھگی محض ایک لوٹ مار اور قتل و غارت نہیں تھی بلکہ اس نے ایک خاص مذہبی فرقے کی صورت اختیار کرلی تھی۔ اس کی پابندی باقاعدہ اصول و ضوابط تھے۔اس مسلک کے پیروکاروں کے ایسے عقائد تھے جن کی پابندی ہر ٹھگ کے لیے لازمی تھی۔ رشید حسن خاں کتاب کے مقدمے میں بہت ہی عالمانہ انداز میں ٹھگوں کے عقائد، ان کے طریقہ کار اور ان کے حالات  وغیرہ ایسی معلومات فراہم کی ہیں جن سے عام لوگ ناواقف تھے۔

اُردو کیسے لکھیں؟[ترمیم]

اردو اگرچہ ابھی تک ہمارے لسانی و گروہی تعصبات اور ارباب بست و کشاد کی کوتاہ نظری کے باعث صحیح معنوں میں سرکاری زبان کے درجے پر فائز نہیں ہو سکی لیکن یہ بات محققانہ طور پر ثابت ہے کہ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ ہر بڑی زبان کی طرح اس زبان میں بے شمار کتابیں ہیں اور اس کے علمی، تخلیقی اور تنقیدی و تحقیقی سرمائے کا بڑا حصہ بڑے اعتماد کے ساتھ عالمی ادب کے دوش بدوش رکھا جا سکتا ہے۔ ایسی زبان اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے صحیح طور پر لکھا بولا جا سکے۔ کیونکہ کسی بھی زبان کی بنیادی اکائی اس کے اصول وقواعد ہیں۔ زبان پہلے وضع ہوتی ہے اور قواعد بعد میں لیکن زبان سے پوری واقفیت حاصل کرنے کے لیے قواعد زبان سے آگاہی ضروری ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اردو بولنے یا لکھنے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد اپنی قومی زبان کی صحت کی طرف سے سخت غفلت برت رہی ہے۔ زبان کے اصول وقواعد کا مطالعہ اور تحقیق زندہ اور باوقار قوموں کی حیات کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندگی گزارنے کے لیے نظم وضبط اور ضابطۂ حیات لازم ہے۔ اردو کی بقا وترقی کے لیے اس کے اصول وضوابط اور معیارات پر تحقیق کر کے اس کے نتائج سے حامیان واہالیان اردو کو مستفید کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"اردو کیسے لکھیں"جناب رشید حسن خاں کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے تحقیق اور تلاش کے بعداردو کے قاعدوں کو آسان زبان میں تحریر کیاہے۔ قاعدوں کو لکھتے وقت ہر قاعدے کے تحت مثالیں بھی دی گئی ہیں تاکہ طلبہ کو سمجھنے میں آسانی ہو۔یہ کتاب مکتبہ جامعہ، نئی دہلی سے 1975ء میں شائع ہوئی۔

زٹل نامہ[ترمیم]

جعفر زٹلی کو محض فحش نگار اور ہجو گو شاعر خیال کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یوں ہے کہ جعفر زٹلی کا تعلق اردو کے اولین دور سے ہے اس لحاظ سے کلامِ جعفر زٹلی کی تاریخی اور لسانی اہمیت یہ ہے کہ ان کے کلام میں سماجی مسائل کا بے لاگ بیان موضوع ہے اوراس مناسبت سے لہجے میں کھردرا پن اور بے باکی در آئی ہے جس سے آگے صنف شہرآشوب کو فروغ ہوا۔اس کلامِ نظم ونثر کا زیادہ تر حصہ فارسی پر مشتمل ہے لیکن درمیان میں اردو کی پیوند کاری کی گئی ہے کہ کبھی کچھ الفاظ،کچھ مصرعے،ایک آدھ شعرغیرمنظم صورت میں در آتے ہیں۔یہ جعفر زٹلی کے کلیات کی تدوینِ نَو ہے۔ کل صفحات 248 ہیں۔2011ء میں انجمن ترقی اُردو (ہند) نے شائع کی۔

  • زبان اور قواعد، (لغت، تلفظ اور قواعد زبان و بیان کے مباحث) 1976ء
  • ادبی تحقیق:مسائل اور تجزیہ، (عملی تحقیق پر مضامین)، 1979ء، 350 صفحات
  • تلاش و تعبیر، (تنقیدی مضامین)
  • فسانہ عجائب، (مقدمہ، متن، تشریحات، اماکن، تلفظ اور املا، اختلاف نسخ، فرہنگ، اشاریہ)، 1990ء
  • باغ و بہار، (مقدمہ، متن، تشریحات، اماکن، تلفظ اور املا، اختلاف نسخ، فرہنگ، اشاریہ)، 1992ء
  • مثنوی گلزار نسیم، (مقدمہ، فارسی متن، تشریحات، تلفظ اور املا، فرہنگ) 1992، 112 صفحات
  • مثنوی سحرالبیان، (مقدمہ، متن، تشریحات، اشعار کی کمی پیشی، تلفظ اور املا، الفاط اور طریق استعمال، فرہنگ)
  • مثنویات شوق، (مقدمہ، متن مثنویات، تشریحات، تلفظ اور املا، اختلاف نسخ، الفاط اور طریق استعمال، فرہنگ)، 1998ء، 414 صفحات
  • تدوین،تحقیق، روایت، (تحقیقی مضامین) 1999ء
  • املاے غالب، (مرزا غالب کی املا پر بحث)
  • اردو کیسے لکھیں، (ضخیم کتاب، جس کے دوحصے بعض ترمیمات کے ساتھ الگ سے شائع ہوئے)
    • عبارت کیسے لکھیں
    • انشا اور تلفظ
  • کلاسکی ادب کی فرہنگ، (پہلی جلد)، 2003ء

مزید دیکھیے[ترمیم]

  • املا
  • ڈاکٹر رشید حسن خان

حوالہ جات[ترمیم]

  1. محمد عثمان بٹ (8 مئی 2021ء)۔ "رشید حسن خاں۔ ایک عظیم محقق اور مدون"۔ اُردو پوائنٹ۔ پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2023ء 

بیرونی روابط[ترمیم]