رپورتاژ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

رپورتاژ صحافتی صنف ہے اسے بطور ادبی صنف صرف اردو ادب میں برتا گیا۔ لفظ (Reportage) لاطینی اور فرانسیسی زبانوں کے خاندان سے ہے جو انگریزی میں (Report)رپورٹ کے ہم معنی ہے۔ رپورٹ سے مراد تو سیدھی سادی تصویر پیش کرنے کے ہیں۔ لیکن اگر اس رپورٹ میں ادبی اسلوب، تخیل کی آمیزش اور معروضی حقائق کے ساتھ ساتھ باطنی لمس بھی عطا کیا جائے تو یہ صحافت سے الگ ہو کر ادب میں شامل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ادبی اصطلاح میں رپورتاژ ایک ایسی چلتی پھرتی تصویر کشی ہے جس میں خود مصنف کی ذات، اسلوب، قوتِ متخیلہ، تخلیقی توانائی اور معروضی صداقت موجود ہوتی ہے۔ اکثر سفر ناموں کو بھی رپورتاژ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے لیکن سفر نامے کے لیے سفر کی ضرور ت ہوتی ہے لیکن رپورتاژ میں ایسا ضروری نہیں۔ مصنف چشم ِ تخیل کے ذریعے ہی رپورتاژ تخلیق کر سکتا ہے۔

تعریف[ترمیم]

مختصر یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں خارجیت اور داخلیت کا ایک حسین امتزاج ہوتا ہے وہ ایک دوسرے سے شیر و شکر ہوتی ہیں اور دونوں ہی اس صنف کے معیار کا تعین کرنے کی ذمّہ دار ہوتی ہیں ۔ رپورتاژ صرف چشم دید واقعات پرلکھاجاسکتا ہے۔ سنے سنانے واقعات پرلکھی گئی کوئی تخلیق ،افسانہ ،ناول یا ڈراما تو ہو سکتی ہے۔ رپورتاژ نہیں۔

تاریخ[ترمیم]

رپورتاژ دورجدید کی پیداوار ہے۔ رپورتاژ اور صحافت کاچولی دامن کاساتھ ہے۔ برّصغیر کی تقسیم کے وقت سکھوں نے مسلمانوں سے جوخون کی ہولی کھیلی۔ پاکستان داخل ہونے والی مسلمانوں کی گاڑیاں کی گاڑیاں تباہ کی گئیں۔ مسلمان عورتوں اوربچوں پرجو طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے تو اس جامع اور ہمہ گیر صنف نثر نے اپنے اندر ان ہنگامی اورخون آشام موضوعات کو سمیٹنا شروع کر دیا۔ اس وقت جورپورتاژ لکھے گئے ان میں جمناداس کا " خدادیکھتا ہے " شاہداحمد دہلوی کا " دہلی کی بپتا " اور تاجور سامری کا "جب بندھن ٹوٹے " مشہور ہیں ۔ جدید دور میں رپورتاژ کو جن چیزوں نے ترقی و خوش حالی بخشی ،ان میں زمانے کے انتشار،معاشی و سیاسی کشمکش، جنگ اور سیلاب کی تباہ کاریاں،سپرپاورز کے مابین بڑھتی ہوئی جدید اسلحے کی دوڑ اور سٹاروار جیسے پروگرام بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ رپورتاژ کاکینوس جنگ اورفسادات تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کے علاوہ ادبی تقاریب ،تہذیبی جلسوں اورسیر و سیاحت پر بھی بڑے خوبصورت رپورتاژ لکھے گئے۔

اردو رپوتاژ[ترمیم]

اردو ادب کی پہلی باقاعدہ رپورثاژ کرشن چندر کی ”پودے“ ہے اس کے بعد ترقی پسندوں نے اس صنف کو آگے بڑھایا۔1947 کے واقعات نے رپورتاژ نگاری کے ارتقاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ فسادات پر لکھی جانے والی رپورتاژ ادبی شہکار ثابت ہوئیں۔ ان میں محمود ہاشمی کی رپورتاژ ”کشمیر ادا س ہے“ قدرت اللہ شہاب کی کاوش ”اے بنی اسرائیل“ ابراہیم جلیس کی ”دو ملک ایک کہانی“ رامانند ساگر کی ”اور انسان مر گیا “ اور جمنا داس اختر کی ”اور خدا دیکھتا رہا “ ایسی رپورتاژیں ہیں جو سیدھے سادے سچے واقعات پر دلگزار تبصرہ ہیں۔ ان واقعات میں صداقت اور افسانوی انداز دونوں موجود ہیں۔ اس کارآمد صفِ ادب کو تقسیم ہند کے واقعے کو بہت بھر پور طریقے سے پیش کرنے میں مدد دی۔ رپورتاژ فرانسیسی کا لفظ ہے ۔انگریزی زبان میں اس کے لیے رپورٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس صنف میں لکھنے والا نہ صرف کسی اہم واقعہ یا حالات، کسی سفر کا حال، میلے، ٹھیلے، حادثہ یا کسی جنگ کے محاذ کی رپورٹ بیان کرتا ہے بلکہ وہ ان واقعات کی جزئیات و تفصیلات میں اپنے نقطۂ نظر اور تخیل کی آمیزش بھی کرتا ہے یعنی کسی حادثے، مقام اور واقعہ کودیکھ کر جو مصنف کے دل و دماغ پرگزرتی ہے اسے بعینہ رقم کردیتا ہے(صداقت اور خلوض کی ضرورت)۔ رپوتاژ کاتعلق ماضی اور مستقبل کی بجائے حال سے ہوتا ہے۔ مصنّف چشم دیدواقعات و مشاہدات کو اپنی داخلی کیفیات کے ساتھ شامل کرکے پیش کرتا ہے۔ رپورتاژ کے مصنّف کی آنکھ کیمرے کی آنکھ کی مانند ہوتی ہے۔ لیکن کیمرے کی تصویر میں مصنّف کی تصویر جیسا جذبہ، خلوص، جوش و شوق اور سوز و ساز نہیں ہوتا۔ مفہوم یہ ہے کہ رپورتاژ ایک ایسے پودے کی مانند ہے، جس کی جڑوں کو صرف اور صرف سچائی، خلوص اور اندرونی جذبے کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔

ارد رپوتاژ نگار[ترمیم]

  • ادبی اور تہذیبی جلسوں پر یادیں (ظہیر سجاد)،
  • صبح ہوتی ہے ( کرشن چندر)،
  • خزاں کے پھول ( عادل رشید
  • بمبئی سے بھوپال تک (عصمت چغتائی)

مشہور ہیں سیر و سیاحت پر جو رپورتژ سامنے آئے ان میں

  • اور زمین اور پانچ ستارے (خواجہ احمد عباس)
  • الف لیلی کے دیس میں (ظفر پیامی)
  • پاکستان میں چند روز (ظ انصاری)
  • برسبیل لندن (محمود نظامی)

قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ اردو میں رپورتاژ لکھنے والوں میں حمید نظامی، عنایت اللہ، حمید اختر، اے حمید، فخر ہمایون، مستنصر حسین تارڑ اور ممتاز مفتی و غیر ہ مشہور ہیں۔

محمود ہاشمی،

محمود ہاشمی کا نام شامل کیے بغیر اردو کے بڑے اور قد آور رپورتاژ نگاروں کی فہرست مکمل نہیں ہوتی ۔ محمود ہاشمی حساس دل اور سری نگر کالج میں استاد تھا۔ 1947ء میں مقبوضہ کشمیر میں شیوا سینا کے لوگوں، شیخ عبد اللہ کے کارکنوں اور ڈوگرہ کے فوجیوں نے انسانی زندگیوں کے ساتھ جو درندگی کی وہ محمود ہاشمی کے حساس دل نے محسوس کیا اور اس کے اندر کے ادیب قرطاس پر لے آیا۔

چوں کہ شیخ عبد اللہ نے محمود ہاشمی کو بھی اپنے کارکنوں کی صف میں کھڑا کر کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈنڈا دے دیا تھا کہ مسلم کانفرنس اور پاکستان کا نام لینے والوں کو مار کر وادی سے بھگاو ۔ ایک ادیب اور استاد نے کس کو مارنا تھا۔ وہ نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کے ساتھ وادی کے کریہ کریہ گھومے اور دیکھا کہ کشمیر اوداس ہے ۔ محمود ہاشمی کی " کشمیر اوداس ہے " ایک بہترین ادبی شہ پارہ ہے جس میں کشمیر میں جنگ کے آغاز، شیخ عبد اللہ کی بے وقوفیاں اور بھارت کے قبضے کی پوری داستان کا آنکھوں دیکھا حال ادبی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]