ریاض احمد گوھر شاہی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ریاض احمد گوھر شاہی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 25 نومبر 1941ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈھوک گوہر شاہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 25 نومبر 2001ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مانچسٹر  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات نمونیا  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف،  شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ریاض احمد گوہر شاہی (25 نومبر1941ء تا 25 نومبر2001) ایک صوفی، مصنف، روحانی پیشوا اور انجمن سرفروشان اسلام (ASI) کے سرپرست و بانی تھے۔[1] گوہر شاہی ایک متنازع شخصیت کے حامل ہیں اور مسلم علما ان کے بیانات پر احتجاج کرتے رہے ہیں۔ پورانام ریاض احمد گوہر شاہی ہے۔ ریاض کے ایک معنی ٹکڑا کے ہوتے ہیں، نام کے ساتھ گوہر شاہی لگانے کی وجہ ان کے خاندان میں گزرنے والے ایک بزرگ گوہر علی شاہ کی نسبت سے ہے جن کی 5 ویں پشت میں ریاض احمد ہوئے۔[2]

ابتدائی زندگی

گوہر شاہی جن کی پیدائش 1941ء میں پاکستان کے ایک گاؤں میں بیان کی جاتی ہے نے 24 سال کی عمر میں پیروں فقیروں کے پاس جانا شروع کیا تاکہ اللہ تک رسائی کی راہ کا پتہ چل سکے۔ مگر کوئی موزوں پیر نہ ملنے کی وجہ سے واپس دنیاوی کام کاج میں لگ گئے شادی بھی ہو گئی اورتین بچے بھی ہوئے۔[2]۔ پھر 1975ء میں گوہر شاہی نے جسۂ توفیق الٰہی کا بیان دیا (جسہ کے معنی لغات میں لمس یا چھو لینے کے اور توفیق کے معنی کیف، ہیکل اور صلح وغیرہ کے آتے ہیں، تاہم طریقت میں اس کے معنی وہ روحانی مخلوقات ہیں جو ہر انسان کے اندر قدرتی طور پر موجود ہوتی ہیں اور انھیں روحوں کو اللہ کے ذکر سے بیدار کر کے انسان مسلمان سے مومن اور پھر ولایت کی دہلیز تک پہنچ سکتا ہے۔)۔[3] اور پانچ سال بعد پھر 1980ء میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا، ابتدا میں اپنا مرکز حیدرآباد اور پھر کوٹری (دونوں پاکستان کے شہر) کو بنایا، اس تبلیغ کے آغاز کے بارے میں ان کے مرید کہتے ہیں کہ ان کو حضرت امام بری کی بشارت ہوئی تھی کہ ایسا کریں [4] اور اپنے آپ کو ایک صوفی کے طور پر پیش کرنا شروع کیا جبکہ اسی دوران ان کے چند روحانی پیروکار ان کو امام مہدی تصور کرنے لگے، 1999ء کے اواخر میں گوہر شاہی کے خلاف متعدد مقدمات دائر ہوئے جن کے باعث وہ برطانیہ چلے گئے اور وہاں اپنا مرکز بنا لیا اور اپنے پیروکاروں کا خاصی تعداد تیار کرلی[3]؛ وہاں بھی ان کے خلاف علما نے احتجاج کیا لیکن انھوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور کئی یورپی ممالک اور امریکا کے دورے بھی کیے۔

متنازع بیانات

گوہر شاہی کے متنازع بیانات (جن کو مسلم علما دین نے کفرانہ بیانات کی نظر سے دیکھا ہے اور ان بیانات کی بنیاد پر فتوے بھی جاری کیے ہیں) اور مسلمانوں کے عمومی اتفاق رائے سے مخالف کی گئی باتیں گوہر شاہی کے لیے وجہ ء شہرت بن گئیں کیونکہ عام علما کی جانب سے اِ ن کی شدت کے ساتھ مخالفت کی گئی۔[5] اگر تمام علما کی جانب سے گوہر شاہی کی مخالفت کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل وجوہا ت نمایاں ہیں:

  1. گوہر شاہی کی حضرت عیسی علیہ السلام سے امریکا میں ملاقات۔[1][6][7][8][9]
  2. گوہر شاہی کے معتقدین کی جانب سے چاند ،سورج اور حجر اسود میں گوہر شاہی کی شبیہات کا انکشاف۔[1][6][8][9][10]
  3. اللہ کی پہچان اوررسائی کے لیے روحانیت سیکھو خواہ تمھارا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو۔
  4. جب محبت اللہ کی دل میں آجائے تو اگر مذہب میں نہ بھی ہوا تو بخشا جائے گا اللہ کی محبت ہی کافی ہے۔ (ماہنامہ روشن کراچی جولائی 1997ء ص 9)---
  5. گوہر شاہی کے تمام مرید گوہر شاہی کے انتقال کو گوہر شاہی کی موت تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ گوہر شاہی جسم سمیت روپوش ہو گئے، یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح گوہر شاہی بھی اپنا جسم چھوڑ کر غیبت ِ صغر ٰی میں چلے گئے ہیں اور قیامت سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ گوہر شاہی بھی دوبارہ آئیں گے۔
  6. علما نے ریاض کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ریاض نے نبی ہونے یا امام مہدی ہونے کا دعو ٰی کر دیا تاہم گوہر شاہی نے اس کی نفی ان الفاظ میں کی "میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں امام مہدی ہوں، ہاں میں نے نشانیاں ضرور بتائی ہیں اب یہ تو لوگوں کی سمجھ ہے، ان سے پوچھیں کہ ان کو کیا نشانیاں نظر آئیں"۔

فتاویٰ

  • دار العلوم احمد رضا ہندوستان کے امام صاحب کا ریاض کے بارے میں فتویٰ

ایسے الفاظ اور اعمال کا حامل اور اس کے پیروکار اللہ تعالی کے عذاب میں آئیں گے اور انھیں (دوزخ کی) آگ کی سزا نصیب ہوگی۔ اس کو مسلمانوں کی مساجد میں آنے سے باز رہنا چاہیے اور اس کی ذکر کی مجالس پر پابندی عائد کی جانی چاہیے[11]

  • دار العلوم امجدیہ کی جانب سے فتویٰ

گوہر شاہی ایک فاسق اور فاجر ہے کیونکہ یہ ان کا ہمنوا ہے کہ جو نماز قائم نہیں کرتے، جو نشہ (شراب وغیرہ) لیتے ہیں اور عورتوں سے تغزل (چھیڑ چھاڑ) کرتے ہیں۔ اس کی کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اس کا مصنف ریاض گوہر شاہی ایک جاہل اور انتہائی منحرف شحص ہے۔ یہ مسلمانوں کو منحرف کر کہ ایک نیا فرقہ تیار کرنا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کو اس سے دور رہنا چاہیے اور اس کی مجالس سے اجتناب برتنا چاہیے۔ یہی فتوی ایم ایس اے پبلی کیشنز والوں کے موقع آن لائن پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔۔[12]
مسلم علما کی جانب سے مندرجہ بالا دونوں فتاوی اور ایسے ہی دیگر متعدد فتووں کے بعد United Ulama Council of South Africa (UUCSA) نے تمام مسلمانوں کو انتباہ کر دیا کہ اس فتنے سے ہوشیار رہیں اور اور خود کو اس فرقے کے کفرانہ عقائد سے دور رکھیں۔ (حوالے کے لیے دیکھیے 13)۔ UUCSA کی جانب سے موقع یا نبی پر موجود مندرجہ بالا فتاویٰ اور دیگر، اصل میں جمیت العلماء (کوازولو ناتال) (Jamiatul Ulama Kawazulu Natal) کے شعبۂ فتاویٰ کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔[13]

ریاض احمد گوہر شاہی کافر و مرتد ہے کہ اس کے بہت سے کفریہ اقوال عام ہیں مثلاً اس نے کہا " جب محبت اللہ کی دل میں آجائے تو اگر مذہب میں نہ بھی ہوا تو بخشا جائے گا اللہ کی محبت ہی کافی ہے " (ماہنامہ روشن کراچی جولائی 1997ء ص 9) اس عبارت میں اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگرچہ کسی کافر کے دل میں بھی اللہ کی محبت ہو تو وہ بخشا جائے گا اور اس کا یہ قول ان نصوص قرآنیہ قطعیہ کی صریح خلاف ورزی ہے جس میں کفار کے جہنمی ہونے کا ذکر ہے۔
نیز اپنے ایک خطاب میں اس نے قرآن مجید فرقان حمید کو ناقص قرار دیا چنانچہ کہتا ہے " قرآن کے تیس پارے نہیں بلکہ دس پارے اور ہیں "۔ (خطاب جامع مسجد نورایمان 27 دسمبر 1996ء) ۔[14]

  • اللہ اکبر کے نام سے موجود ایک علمائے دین کا موقع آن لائن، ریاض کے بارے میں لکھتا ہے۔

ہر کوئی جو فریب ِحس (illusion) کا شکار ہو وہ خود کو مہدی کہہ سکتا ہے۔ جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور عالیجاہ محمد نے کیا۔ کتنے ہی نام نہاد مہدی آچکے ہیں اور کتنے ہی آئیں گے؛ صرف اللہ ہی ہے جو ہم کو ان نام نہاد مہدیوں سے نجات دلا سکتا ہے جبکہ وہ ہمارے دائیں، بائیں اور درمیان میں نکل رہے ہوں۔ جب کوئی شخصیتی اضطرابات (personality disorders) کا شکار ہو، وہ عجیب مظاہر کا مشاہدہ کر سکتا ہے، لوگوں کے فطری رد عمل کا (غیر فطری) مشاہدہ کر سکتا ہے اور اپنے آپ میں ہذیانی (paranoid) ہو جایا کرتا ہے اور فرار حاصل کرنا چاہتا ہے ۔[15]

صوفیا کی نظر میں

جہاں علما نے گوہر شاہی کی بے پناہ مخالفت کی، وہیں معروف صوفیائے کرام بشمول علما کرام نے اُن کی حمایت بھی کی، پاکستان میں ڈاکٹر طاہرالقادری، امریکہ میں شیخ ہشام کابانی جیسی بزرگ شخصیت جن کے دست مبارک پر دس ہزار سے زائد امریکی مسلمان ہو چکے ہیں اور ان کے ادب کا عالم یہ تھا کہ گوہر شاہی کے قدموں میں تشریف رکھتے تھے اور اس کو باعثِ سعادت سمجھتے تھے، قبرص میں شیخ ناظم۔ یہ تمام وہ لوگ ہیں جو نہ صرف بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں بلکہ اب بھی حیات ہیں۔[حوالہ درکار]

کتابیں

گوہر شاہی نے کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں صوفی شاعری پر مشتمل ”تریاق ِ قلب“ بھی شامل ہے۔ گوہر شاہی کی تصنیف کردہ کُتب درج ذیل ہیں:[16]

  1. مینارہ نور
  2. روشناس
  3. تحفۃ المجالس
  4. روحانی سفر
  5. تریاق قلب
  6. دین الہی

مندرجہ بالا کتب میں دین الہی گوہر شاہی کی آخری تصنیف ہے اور گوہر شاہی کے معتقدین کے نزدیک نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

مخالفت

گوہر شاہی پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی کیے گئے۔ پانچ قسم کے سنگین مقدمات گوہر شاہی پر پاکستان میں دائر کیے گئے[17] گوہرشاہی کے معتقدین کی جانب سے چاند ،سورج ،نبیولا ستارے اور حجر اسود میں گوہر شاہی کی شبیہات کے دعوے کے بعد یہ مخالفت انتہائی شدت اختیار کر گئی۔[6][8][10] پاکستانی اخبارات و جرائد نے بھی گوہر شاہی کے خلاف تحاریر شائع کیں۔ حکومت ِ پاکستان کی جانب سے گوہر شاہی کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔[18] گوہر شاہی اوراُن کے معتقدین کی سرگرمیوں کوروک دیا گیا[19] اوراخبارات و جرائد کو بھی گوہر شاہی کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی ہدایت کی گئی گوہر شاہی اور اُن کے معتقدین پر کئی مقدمات قائم ہوئے۔ انسداد ِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سندھ میں گوہر شاہی اور اُن کے بہت سے پیروکاروں کو توہین ِ رسالت جیسے قانون کے تحت سزائیں سنائیں۔[8][20] گوہر شاہی کو سزا عدم موجودگی میں سنائی گئی کیونکہ گوہر شاہی اُس وقت برطانیہ میں تھے۔ گوہر شاہی کو تقریباً ً 59 سال قید کی سزا اورجرمانے کی سزا سُنائی گئی،[9][17] جس کے خلاف گوہر شاہی نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل بھی کی تاہم اس اپیل پر کسی بھی فیصلے سے قبل گوہر شاہی برطانیہ میں انتقال کر گئے۔[9]

وفات

گوہر شاہی 25 نومبر2001 کو مانچسٹر میں نمونیا کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ گوہر شاہی کی میت پاکستان لائی گئی اور انجمن سرفروشان ِ اسلام کے بین الاقوامی مرکز المرکز ِ روحانی کوٹری شریف میں مدفون کی گئی۔[9] جہاں اب گوہر شاہی کا مزار بھی واقع ہے۔ تاہم گوہر شاہی کے تمام مرید گوہر شاہی کے انتقال کو گوہر شاہی کی موت تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ گوہرشاہی جسم سمیت روپوش ہو گئے، یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح گوہرشاہی بھی اپنا جسم چھوڑ کرغیبت ِ صغر ٰی میں چلے گئے ہیں اور قیامت سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ گوہر شاہی دوبارہ آئیں گے۔[9] اسی لیے روایتی انداز میں گوہر شاہی کا عرس بھی نہیں منعقد کیا جاتا۔ گوہر شاہی کی بیوہ اور بچے اب بھی کوٹری میں مقیم ہیں۔

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ گوہرشاہی ،سرپرست و بانی انجمن سرفروشان ِ اسلام
  2. ^ ا ب "تعارف ِ گوہرشاہی"۔ 23 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2008 
  3. ^ ا ب "فیوچر اسلام کے موقع آن لائن پر گوہر شاہی کے بارے میں معلومات"۔ 20 جولا‎ئی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مئی 2008 
  4. "حضرت امام بری رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت"۔ 24 ستمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مئی 2008 
  5. [گوہر شاہی کے خلاف فتوے]
  6. ^ ا ب پ [گوہرشاہی۔ ایک اور امام مہدی؟]
  7. گوہر شاہی کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے امریکا میں ملاقات
  8. ^ ا ب پ ت [گوہرشاہی اور اُن کے معتقدین کے خلاف توہین ِ رسالت کے مقدمات کی فہرست]
  9. ^ ا ب پ ت ٹ ث "چاند میں آدمی" تحریر اُردشیرکاؤس جی روزنامہ ڈان انٹرنیٹ ایڈیشن (انگریزی)
  10. ^ ا ب گوہر شاہی کی کعبہ میں شبیہ کا دعو ٰی
  11. "جنوبی افریقہ کے مسلمانوں کی جانب سے یانبی نامی موقع آن لائن"۔ 26 ستمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مئی 2008 
  12. "ایم ایس اے پبلی کیشنز"۔ 04 مارچ 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2008 
  13. "جمیت العلماء کوازولو ناتال"۔ 29 مئی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2008 
  14. "دار الافتاء جامع مسجد کنز الایمان کی جانب سے دیا گیا فتویٰ۔"۔ 25 ستمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مئی 2008 
  15. "اللہ اکبر پر ریاض کے بارے میں بیان"۔ 20 فروری 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2008 
  16. "گوہرشاہی کی تصنیف کردہ کُتب"۔ 06 مئی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2008 
  17. ^ ا ب بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ۔ مئی 2001
  18. گوہر شاہی کی کتاب پر پابندی کے مقدمے کی سماعت منصف ِ اعظم پاکستان کی عدالت میں
  19. گوہر شاہی کے حق میں نعرے لگانے پر دس(10)افراد گرفتار
  20. ریاست ہائے متحدہ امریکا کے محکمہ ء آزادی ء مذہب کی رپورٹ برائے سال 2000