زرتشتیت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
زرتشتیت
فرواہار کا نقش، یہ زرتشتیت کا ایک مشہور نشان ہے۔
کل تعداد
137،776
بانی
زرتشت
گنجان آبادی والے علاقے
ایران، آذربائیجان، بھارت، پاکستان
مذاہب
ایرانی ، پارسی
مقدس کتب
اوستا
زبانیں
فارسی، اردو، انگریزی، گجراتی
ان کی تعداد 2 لاکھ سے زاہد ہے، مگر بکھری ہونے کی وجہ سے، صرف وہ تعداد بیان کی گئی ہے، جو مردم شماری اور دیگر ذرائع سے معلوم ہو سکی ہے۔

زرتشتیت یا مزدیسنا ایک قدیم آریائی مذہب ہے، جس کا ظہور3500سال قبل اور بعض روایات کے مطابق2500 قبل مسیح فارس میں ہواتھا۔ اس کو عام طور پر زرتشتیت کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے یعنی پوری دنیا میں ایک لاکھ تیس ہزار سے بھی کم زرتشتی ہیں۔ مگر یہ دنیا کے قدیم مذاہب میں سے ایک ہے۔ ایک ایرانی پیغمبر زرتشت نے پارسی مذہب کی بنیاد رکھی تھی اسے عام طور پر پارسی مذہب بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے آتش پرستوں کا مذہب اور مجوسیّت بھی کہا جاتا ہے۔[1][2]

حمزہ نامہ کی ایک تصویر، جہاں حمزہ بن عبد المطلب نے زرتشت کی لاش کو جلایا تھا
فرواہار، زرتشتی مذہب کے بینادی نشانیوں میں سے ایک نشان
ایک زرتشتی شخص کی شادی کے موقع پر لی گئی تصویر، 1905ء

ایران کے قدیم مذاہب میں زرتشتیت کو خاص مقام حاصل ہے۔ اس مذہب کے پیرو اب ایران میں بہت ہی کم رہ گئے ہیں لیکن ایک خاص تعداد ہندوستان میں موجود ہے جو پارسی کہلاتی ہے۔ زرتشت کی تعلیم نے بابل اور یونان کے لوگوں کو کافی متاثر کیا تھا اور بعد میں یہودیت اور خود مسیحیت پر اس کے اثرات پڑے ہیں۔ اس مذہب میں اگرچہ یہودی مذہب یا اسلام کی طرح صاف اور واضح طور پر وحدانیت کا تصور تو نہیں ہے لیکن ایک مطلق خدا کے تحت دوسرے تمام چھوٹے خداؤں کو لانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔[3]

تاریخ[ترمیم]

زرتشتیت سے پہلے ایران میں جو مذاہب تھے ان کے بارے میں تفصیلات بہت کم ملتی ہیں لیکن اس زمانہ کے مذاہب اور ہندوستان کے مذاہب میں بڑی قربت نظر آتی ہے۔ اوستا اور وید میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں میں ایک ہی قسم کی کثرت پرستی پائی جاتی ہے۔ دونوں جگہ آگ کی پرستش ہے اور قربانی کے وقت ہندوستان میں سوما (ایک قسم کی شراب) اور ایران میں ہاوما استعمال ہوتی تھی۔ اوستا اور وید میں بیان کیے ہوئے دیوتا تقریباْ مشترک ہیں۔

زرتشت ایک خدا اہورا کے پجاری تھے جو مزدا (دانا) کہلاتے تھے۔ زرتشت کی حمد یا گاتھا (Gathas) میں جن مقامات یا شخصیتوں کا ذکر ہے، تاریخ میں ان کا پتہ نہیں چلتا اور اس لیے صحیح زمان و مکان کا تعین کرنا مشکل ہے لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ مشرقی ایرن کے کسی حصہ میں تھے اور مغربی ایشیا کے ترقی یافتہ حصوں سے دور رہتے تھے۔ یہ زمانہ سائرس دوم سے پہلے کا ہے جب ایران ابھی متحد نہیں ہوا تھا۔ ہخامنشیوں کے دور کی کسی تحریر اور آثار میں بھی ان کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کے بعد دارا اور اس کے جانشینوں کے آثار میں بہت ہی معمولی اشارے ملتے ہیں۔ ہخامنشی دور حکومت میں کچھ عرصہ کے لیے یہ سرکاری مذہب رہا۔ سکندر اعظم کے حملہ کے بعد ہخامنشی دور حکومت ختم ہو گیا۔ اس کے بعد زرتشتی مذہب کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ ساسانی دور حکومت میں اسے پھر عروج حاصل ہوا اور چار سو سال تک یہ سرکاری مذہب رہا اور مسیحیت سے ٹکر لیتا رہا۔

635ء میں عربوں نے یزدگرد سوم کو شکست دے کر ایران پر قبضہ کر لیا اور پورے ملک پر اسلام چھا گیا۔

زرتشتیت کے لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں اقلیتوں کی طرح رہتے تھے۔ دسویں صدی عیسوی سے اس مذہب کے لوگ ترک وطن کر کے ہندوستان کے گجرت کے علاقے میں بسنے لگے اور اپنے وطن کے ہم مذہب لوگوں سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا۔ 1477ء میں یہ تعلق پھر سے قائم ہوا۔ شروع میں یہ کھیتوں میں کسانوں کی طرح کام کرنے لگے لیکن انگریزوں کے اقتدار کے زمانے میں انھوں نے تعلیم، تجارت اور صنعت میں زبردست ترقی کی اور صوبہ گجرات اور بمبئی کی معاشی زندگی میں خاص مقام حاصل کر لیا۔

زرتشتی مذہب اپنے شروع کے دور میں شمالی ایران کے امن پسند و متوکل لوگوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنے دشمن خانہ بدوشوں سے بالکل مختلف تھے جو نیچر پرست تھے۔ کئی کئی دیوتاؤں کو مانتے تھے اور جن کی زندگی زیادہ تر گھوڑوں کی پیٹھ پر گزرتی تھی۔ زرتشت ان لوگوں کا مقابلہ ہمیشہ اپنے لوگوں سے کرتے تھے۔ اپنے لوگوں کو وہ انصاف پسند و پاک باز (آشا) بتلاتے تھے اور خانہ بدوشوں کو جھوٹے اور دھوکا باز (درج)۔ زرتشت ہمیشہ زمین کی پیداوار بڑھانے اور مویشیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے تھے اس لیے کہ مویشیوں کی محنت ہی سے غذا پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے دیوتا متھرا کے سامنے بیلوں کی قربانی منع کردی اور عبادت کے وقت ہاوما (ایک قسم کی نشہ آور چیز) کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی۔[3]

نظریات[ترمیم]

زرتشتی مذہب کے مطابق اس ساری کائنات کی تاریخ (یعنی اس کا ماضی، حال اور مستقبل) چار ادوار میں تقسیم کی جا سکتی ہے جس میں سے ہر ایک دور 3 ہزار سال کا ہے۔ پہلے دور میں کسی مادہ کا وجود نہیں تھا۔ دوسرا دور زرتشت کی آمد کے عین پہلے کا ہے اور تیسرے میں ان کی تعلیم کی اشاعت ہوئی۔ پہلے 9 ہزار سالوں میں نیکی اور بدی کی جنگ جاری رہی۔ نیک لوگ آہور مزدا کے ساتھ رہے اور بد لوگ اہرمن کے۔ ہر شخص کو موت کے بعد دوزخ پر کے پل (چنواتو پریتو) سے گذرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ بد ہے تو پل تنگ ہو جاتا ہے اور وہ دوزخ میں گر جاتا ہے اور اگر نیک ہے تو اس کے لیے جنت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ چوتھے دور میں دنیا کو بچانے والا "ساوشیانت" نمودار ہوگا۔ تمام مردے زندہ ہوں گے اور ان کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا۔ بد ہمیشہ کے لیے سزا کے مستوجب ہوں گے اور نیک ہمیشہ کے لیے اپنی نیکی کا پھل پائیں گے۔

زرتشتی مذہب میں، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، ثنویت نہیں بلکہ ایک طرح کی نیم ثنویت ہے۔ کیونکہ آخر کار فتح آہور مزدا ہی کی ہوتی ہے۔ زرتشتی مذہب میں آگ کی جو اتنی اہمیت ہے اور مذہبی تقاریب میں اس کی جو اس قدر حرمت دکھلائی جاتی ہے اس سے یہ ایک غلط خیال رائج ہے کہ ان میں پہلے آگ کی پرشتش کا رواج تھا۔ اصل یہ ہے کہ نہ صرف آگ بلکہ پانی اور زمین بھی یعنی خالص قدرتی اشیا آہور مزدا کی نمائندہ ہیں اور ان چیزوں کو پاک و صاف رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جاتی ہے۔

زرتشت مذہب کے مطابق انسان آزاد ہے کہ وہ نیکی یا بدی دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرے اور پھر اس کے پھل کے لیے تیار رہے۔ اس انتخاب میں جسم اور روح دونوں کو حصہ لینا چاہیے۔ نیکی و بدی کی ٹکر جسم و روح کی ٹکر نہیں ہے اور اس لیے دوسرے قدیم مذاہب کے برعکس تجرد اور کفارہ کے لیے روزے ممنوع ہیں۔ اس کی اجازت صرف روح کی پاکیزگی کے لیے ہے۔ بدی کے خلاف انسان کی جدوجہد منفی نوعیت کی ہے یعنی اسے اپنے آپ کو ہمیشہ پاک و صاف رکھنا چاہیے اور موت کی طاقتوں کو اس کا موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ اسے ناپاک بنا سکیں۔ اسی لیے مردہ چیزوں کو چھونے سے بھی پرہیز کیا جاتا ہے۔

زرتشتی اخلاقیات کی بنیاد اس کے اعلیٰ مذہبی فلسفہ پر ہے۔ انسان اس کائنات میں ایک بے بس ہستی نہیں ہے۔ اسے انتخاب کی پوری آزادی ہے اور وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ، اہرمن کے خلاف، نیکی کی فوج کا سپاہی بن سکتا ہے۔ اس مذہب کا نہایت سادہ لیکن بلیغ فلسفہ یہ ہے" :نیچر ہی صرف پاک و صاف اور نیک ہے وہ دوسروں کے ساتھ ایسی کوئی چیز نہیں کرے گی جو وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتی ہے"۔ اوستا نے انسان کے لیے تین فرائض مقرر کیے ہیں" :جو دشمن ہیں انھیں دوست بناؤ۔ جو بد ہیں انھیں نیک بناؤ۔ جو جاہل ہیں انھیں قابل بناؤ۔" سب سے بڑی نیکی زہد ہے اور اس لیے خدا کی عبادت پہلا فرض ہے اور اس کے لیے صفائی، قربانی اور دعا کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور اس کے بعد عمل اور گفتار میں ایمانداری اور عزت و احترام ملحوظ رہنا چاہیے۔ ایرانیوں سے سود لینا منع قرار دیا گیا تھا اور یہ ہدایت کی گئی تھی کہ قرض دار کو چاہیے کہ وہ قرض کو ایک مقدس امانت سمجھے۔ سب سے بڑا گناہ بے اعتقادی ہے۔ مرتد کے لیے موت کی سزا ہے۔

بعد کے دور میں دوسرے مذاہب کی طرح زرتشت مذہب میں بھی رسوم داخل ہو گئے۔ شروع میں معبد بنانا اور بت رکھنا منع تھے۔ قربان گاہیں پہاڑیوں پر، محلوں میں یا شہر کے مرکز میں بنائی جاتی تھیں اور ان میں آہور مزدا کے احترام میں آگ جلائی جاتی تھی۔ بعد میں ہر گھر میں آگ جلائی جانے لگی۔ اسے کبھی بجھنے نہیں دیا جاتا تھا۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا مذہبی پیشواؤں، پروہتوں وغیرہ نے بے شمار رسوم اس مذہب کا حصہ بنالیں اور اس طرح مذہب کی شکل ہی بدل دی۔[3]

مقدس کتب[ترمیم]

پارسیوں کی مقدس کتابوں میں دساتیر اور آوستا شامل ہیں۔
دساتیر کومزید دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خُرد (چھوٹا) دساتیر اور کلاں (برا) دساتیر۔
آوستا کو بھی مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خُرد (چھوٹا) آوستا اور کلاں (بڑا) آوستا جسے زند یا ماہا زند بھی کہا جاتا ہے۔
پارسیوں کے مذہبی صحیفے دو زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔ پہلوی (پہلوی دستاویز موجودہ فارسی دستاویز سے مشابہت رکھتی ہے) اور ژندی۔ ان دو زبانوں کے علاوہ، کچھ مذہبی مواد ایسی تحریری شکل میں پایا جاتا ہے، جسے پڑها نہیں جا سکتا۔ کچھ زرتشتی دساتیر کو زیادہ مستند سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے آوستا کو زیادہ مستند سمجھتے ہیں۔[4]

زرتشتی نوجوتے تقریب (زرتشتیت میں شامل ہونے کی رسم)

ژند آوستا[ترمیم]

ژند اوستا کو تین حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہیں:
پہلا حصّہ، وندید پر مشتمل ہے۔
دوسرا حصّہ، سہ روزہ، یاشتس اور نیاس پر مشتمل ہیں۔
تیسرا حصّہ، گاتہاس، یاشا، وسپارد، افرینا گاہس اور متفرقات پر مشتمل ہیں۔

دساتیر[ترمیم]

دساتیر کا مطلب ہے دس حصوں پر مشتمل ایک کتاب "دس" کے معنی ہے دس اور تیر کا مطب ہے ایک حصہ۔ دساتیر، دستور کی جمع بھی ہے، جس کا مطلب ہے، قانون یا مذہبی قاعدہ۔

زرتشتیت میں خدا کا تصوّر[ترمیم]

زرتشتی لوگ تو بنیادی طور پر آگ کی پوجا کرتے ہیں، تا ہم ان کی کتابوں میں ایک خدا کا تصّور بھی موجود ہے۔زرتشتیت میں خدا کے لیے "اہورمزدا" کا نام استعمال ہوتا ہے۔"اہور" کا مطلب ہے "آقا" اور "مزدا" کے معنی "عقل مند" کے ہیں۔ یعنی اہور مزدا کا مطلب ہے عقل مندآقا یا عقل مند مالک۔

زرتشت نے عبادت میں کثرت پرستی یعنی کئی دیوتاؤں کی پرستش کو منع کر دیا اور انھیں دو اقسام میں بانٹ دیا۔ یعنی ایک وہ جو فائدہ پہنچانے والے اور سچے تھے اور دوسرے وہ جو بدطینت اور جھوٹے تھے اور جن سے بچنا ضروری تھا۔ نیک طاقتوں میں سب سے اونچا درجہ "اہورا مزدا" کا تھا۔ ان کی خدمت میں چھ چھوٹے دیوتا ہوتے تھے (ویسے ابتدائی دور میں صرف ایک ہی خدا مانا جاتا تھا)۔ یہ چھ دیوتا "اہورا مزدا" کے چھ پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں یعنی نیک خیالات (وہومنا)، اعلیٰ پایہ کی نیکی (آشا وہستا)، روحانی بادشاہت (کشتھرا ویریا)، مقدس زہر (اسپنتا ارمائتی)، کفارہ (ہارو وتات) اور لافانیت (امریتات)۔ شروع میں یہ سب "اہورا مزدا" کے خواص تھے جو بعد میں فرشتے بن گئے۔

نیک اہورا کے مقابلہ میں بدروحیں تھیں جو دیو کہلاتے تھے جن کا سربراہ اہرمن تھا۔ زرتشتی مذہب کے نظریہ تخلیق اور معادیات کی بنیاد خیر و شر کی ان دو بڑی طاقتوں کی کشمکش پر ہے۔

دساتیر کے مطابق خدا کی صفات[ترمیم]

دساتیر میں خدا کے لیے درج ذیل صفات بیان کی گئی ہیں:

  1. وہ ایک ہے۔
  2. اس کا کوئی ہمسرنہیں۔
  3. نہ اس کی ابتدا ہے اور نہ ہی انتہا۔
  4. نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ ہی کوئی بیٹا، نہ کوئی بیوی ہے اور نہ ہی اولاد ہے۔
  5. وہ بے جسم اور بے شکل ہے۔
  6. نہ آنکھ اس کا احاطہ کرسکتی ہے۔ نہ ہی فکری قوت سے اسے تصور میں لایا جا سکتا ہے۔
  7. وہ ان سب سے بڑھ کر ہے جن کے متعلق ہم سوچ سکتے ہیں۔
  8. وہ ہم سے زیادہ ہمارے نزدیک ہے۔

خدا کی صفات ،آوستا کے مطابق[ترمیم]

آوستا، گتھا اور ینس کے مطابق اہورمزدا کی کئی ایک صفات ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  1. خالق[5][6][7][8]
  2. بہت قوت،بہت عظمت والا [9][10]
  3. داتا ”ہدائی”[11][12]
  4. سخی ”سپینٹا”[12][13][14][15][16]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مذاہبِ عالم میں خدا کا تصور، مصنّف : ڈاکٹر ذاکر نائیک، صفحہ 135
  2. "Major Religions of the World Ranked by Number of Adherents"۔ Adherents.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2015 
  3. ^ ا ب پ "Zoroastrianism | Definition, Beliefs, Founder, & Facts"۔ Encyclopedia Britannica 
  4. Bromiley 1995, p. 124.
  5. یسنا7:31اور11
  6. یسنا7:44
  7. یسنا11:5٠
  8. یسنا7:51
  9. یسنا11:22
  10. یسنا 6:45
  11. یسنا 11:33
  12. ^ ا ب یسنا3:48
  13. یسنا 15،13،11،9،7،5،4:43
  14. یسنا2:44
  15. یسنا5:45
  16. یسنا 9:46