زلزلہ پیما

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

زلزلہ پیما (Seismometer) ایک آلہ جس سے زمین کی جنبش جو زلزلے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، ناپی جاتی ہے۔ اس آلے میں ایک قلم یا تو کسی وزنی لٹکن (پنڈولم) سے وابستہ ہوتا ہے یا کسی ایسے وزن سے بڑھا ہوا ہوتا ہے جس کا توازن ذرا سی جنبش سے متزلزل ہوجاتا ہے۔ قلم کی نوک بیلن پر لپٹنے ہوئے کاغذ کو چھوتی ہے۔ بیلن آہستہ آہستہ گھومتا رہتا ہے۔ زمین میں ذرا سی بھی جنبش ہوگی تو قلم کا خط بیلن پر ٹیڑھا ہو جائے گا، جسے دیکھ کر ماہرین سمجھ جاتے ہیں کہ زلزلہ کہاں آیا، کتنی شدت کا تھا اور کب تک رہا۔

تاریخ[ترمیم]

ماہرِ ارضیات چنگ ہینگ کے بنائے ہوئے زلزلہ پیما کی ایک نقل

ابتدا میں ماہرینِ ارضیات نے زلزلے کی پیمائش کے لیے کئی طریقے وضع کررکھے تھے، جس میں زلزلے کی شدت کا اندازہ سطح زمین پر ہونے والے اثرات و نقصانات سے اور اس کی پیمائش کا تناسب انسانی اموات اور معاشی نقصانات سے لگایا جاتا تھا۔ اس طرح زلزلے کا پھیلاؤ تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ زمین پر کہاں کہاں تک یہ زلزلہ پہنچا مگر زلزلہ کی طاقت اور قوت اس طریقے میں نظر انداز ہوجاتی تھی۔ مثلاً زمین میں کتنا ارتعاش ہوا؟۔۔۔۔۔ اور زلزلے کی لہر Wave کی شدت کیا تھی؟۔۔۔۔۔ یوں زلزلے کی اصل کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کیونکہ زمینی بناوٹ کی بنا پر زلزلہ کم یا زیادہ محسوس ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ریگستانوں سے زیادہ پہاڑی علاقوں کو زلزلہ متاثر کرتا ہے، اگرچہ زلزلے کی قوت یکساں ہوں تب بھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے جس مرکز سے زلزلے کی ابتدا ہو وہاں تو اتنا نقصان نہ ہو لیکن دُور دراز کے علاقے اس زلزلے سے برباد ہوجائیں اور اس کی وجہ ان کی زمینی بناوٹ اور چٹانوں میں فرق ہو۔ زلزلے کی شدّت معلوم کرنے کے لیے ماہرینِ ارضیات نے جو دوسرا طریقہ استعمال کیا وہ سیسموگراف Seismograph تھا۔ اس کی ابتدا دو ہزار برس قبل چین میں ہوئی۔

132 عیسوی میں چین کے ماہرِ ارضیات چنگ ہینگ نے ایک انسٹرومنٹ ایجاد کیا تھا جسے آج Earthquake Weather Cock کہتے ہیں۔ یہ کانسی سے بنا ہوا ایک پیالہ نما انسٹرومنٹ تھا، جس کے اطراف اژدہے منہ کھولے بنے ہوئے تھے اور ان کے منہ میں گیندیں پھنسی ہوئی تھیں۔ اس انسٹرومنٹ کے اندر ایک پینڈولم نصب تھا جسے اژدہے کے جبڑوں سے تاروں کے ذریعے باندھ دیا گیا تھا۔ جب بھی زلزلہ آتا تو پنڈولم حرکت میں آجاتا اور کسی ایک اژدہے کے جبڑے میں پھنسی گیند گرجاتی یوں ناصرف زلزلے کی آمد کا بھی پتہ چل جاتا بلکہ سمت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا تھا۔[1]

سیسموگراف[ترمیم]

جان ملنے کا افقی پینڈلم سیسموگراف، جاپان کے اہم ثقافتی ورثہ میں سے ایک۔ نیشنل میوزیم آف نیچر اینڈ سائنس ٹوکیو، جاپان میں نمائش کے موقع پر

زلزلوں سے متعلق علم کو Seismology کہا جاتا ہے اور اس انسٹرومنٹ کو جو زلزلوں کی آمد، سمت اور اس کی شدت کی درجہ بندی کو ریکارڈ کرتا ہے سیسمو گراف Seismograph کہلاتا ہے، جس کے ذریعے زمین میں آنے والے ارتعاش کو ریکارڈ کیا جاتا تھا۔

جدید سیسمو گراف ایک برطانوی ریسرچر جان ملنے John Milne نے اپنی جاپانی نژاد بیوی کی مدد سے 1895ء میں تیار کیا۔ یہ پیمانہ بھی پنڈولم کی مدد ہی سے کام کرتا تھا۔ اس پنڈولم کے ساتھ ایک قلم بھی منسلک کیا گیا تھا جو منسلک پیپر رول پر ایک لکیر کی صورت میں نشان بناتا چلا جاتا تھا۔ جب بھی زلزلے کی لہر اُٹھتی تو پنڈولم میں بھی ارتعاش پیدا ہوتا یوں پیپر رول پر ارتعاشی لہر کی نشان دہی ہوجاتی ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب "زلزلوں کی پیمائش"۔ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی۔ نومبر 2005ء