سرطان (عارضہ)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سرطان (عارضہ)
تخصصسلعیات&Nbsp;تعديل على ويكي بيانات

سرطان یا کینسر، جاندار کو لاحق ہونے والے ایسے امراض کا مجموعہ ہے جن کا تعلق بنیادی طور پر خلیات سے ہوتا ہے۔ جب جسم کے کچھ خلیات معمول (normal) کی رفتار سے اپنی نشو و نما جاری نہ رکھ پائیں اور تیز رفتاری سے اپنی تعداد اور جسامت میں اضافہ (grow) کرنا شروع کر دیں تو سرطان پیدا ہوتا ہے۔

جسم کے کسی عضو کے خلیات کا بے لگام ہوجانا ہی سرطان بناتا ہے، اس تصویر میں خلیات کے بے قابو ہونے کی وراثی (genetic) وجہ کا شکلیاتی اظہار دکھایا گیا ہے۔ جب کسی مطفر (mutagen) کے باعث کسی خلیے کے DNA میں کوئی طفرہ (mutation) پیدا ہو جائے تو خلیات کا فعلیاتی کام متاثر ہو سکتا ہے اور ایسے خلیات کی تیار شدہ لحمیات (proteins) جسم (خلیے) میں اپنا درست فعل انجام نہیں دے سکتیں جس کے باعث خلیات کے دیگر افعال متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی بے قابو نشو و نما بھی شروع ہو سکتی ہے اور یہی سرطان ہے۔ بشکریہ این ایل ایم

مجموعی طور پر اس مضمون میں متعدد طبی کتب و جرائد سے استفادہ کیا گیا ہے۔ [1] [2] [3]

تعارف[ترمیم]

معمول کے خلیات کے تقسیم ہونے کی ایک حد ہوتی ہے جس پر پہنچ کر وہ ٹھہر جاتے ہیں، اس کے علاوہ ان میں اپنے آپکو ختم کرلینے کا ایک نظام بھی موجود ہوتا ہے جس کے ذریعہ ان خلیات کی موت واقع ہوجاتی جن میں DNA میں کوئی طفرہ یا نقص پیدا ہوگئا ہو یا پھر جن کا وقت پورا ہو چکا ہو اس قسم کی خلیات کی موت کو برمجہ خلیاتی موت (programmed cell death) کہاجاتا ہے۔ معمول کے خلیات کا یہ تقسیم ہونے، تقسیم روک دینے اور خود کو ختم کرلینے کا عمل وراثات (genes) کی مدد سے متعن ہوتا ہے۔

جسم میں سرطانی خلیات کے بننے اور ان کی وجہ سے ہونے والی بے قابو خلوی تقسیم کی وضاحت: عام خلیات اپنی عمر پر پہنچ کر برمجہ خلیاتی موت اور سقوطیت جیسے عوامل کے ذریعے مرجاتے ہیں جبکہ استحالہ پاجانے والے خلیات ، لافانی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذر کر نفاخ یا سرطان پیدا کر سکتے ہیں۔ بالائی حصہ A صحت مند خلیات کی تقسیم اور موت کے عمل کو ظاہر کرتا ہے جس میں ایک خلیہ (خاکی رنگت میں مقام 2 پر) اپنی عمر پر پہنچ کر موت کی جانب چلا جاتا ہے جسے 1 کے عدد سے دکھایا گیا ہے۔ زیریں حصہ B سرطانی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جس میں ناکارہ یا اپنی عمر کو پہنچ جانے والے خلیات بھی مرے بغیر تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اس کے برعکس سرطان شدہ خلیات مستقل تقسیم ہوتے رہتے ہیں اور انمیں پروگرامی خلیاتی موت کا نظام (یعنی کسی ناقابل اصلاح خرابی کی صورت میں خلیات کا خودکشی کرلینا) بھی ناقص و ناپید ہوجاتا ہے۔ اور جب بڑھتے بڑھتے سرطان کے خلیات گروہ کی شکل میں ایک مجموعہ بنالیتے ہیں تو اس طرح ایک جسم وجود میں آنے لگتا ہے جس کو ورم (tumor) یا رسولی بھی کہا جاتا ہے۔ اس ورم کی وجہ سے اس کے اردگرد کے معمول کے خلیات پر بے ضرورت دباؤ بھی پڑتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں، مثلا یہ جسم کے کسی حصے کی خون کی فراہمی میں مداخلت پیدا کر سکتا ہے، کسی عصب (nerve) کو دبا کر ناکارگی کی طرف لے جا سکتا ہے، بعض اوقات یہ خلیات اپنے اصل مقام سے الگ ہوجاتے ہیں اور خون یا لمف کے ذریعہ سفرکرتے ہوئے جسم کے دیگر اعضاء اور حصوں تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ سرطان کے جسم میں پھیلنے کا ایک اہم سبب ہوتاہے۔

طبی تعریف[ترمیم]

سرطان کی طبی تعریف کے مطابق سرطان ایک ایسی غیر معمولہ (abnormal) نسیج کو کہا جاتا ہے جس کی نشونما تمام تضبیطی نظاموں (control systems) کے دائرہ کار کی حدود سے تجاوز کر کہ خود مختار (autonomous) ہو چکی ہو اور دیگر معمول کے نسیجات کی نشو و نما سے اس طرح بڑھ چکی ہو کہ اس نشونما کو تحریک دینے والے منبہ (stimuli) کو ہٹا دینے کے باوجود نا رک سکے۔ سرطان کے حصے میں موجود وہ خلیات جو سرطان کی تشکیل میں ملوث ہوتے ہیں ان کو سرطانی خلیات (cancerous cells) کہا جاتا ہے۔ ان سرطانی خلیات کے وراثی مادے (genetic material) میں کوئی نا کوئی نقص ضرور پیدا ہو چکا ہوتا ہے جو وراثی (genetic) بھی ہو سکتا ہے اور یا پھر بالا وراثی (epigenetic) بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے سرطانی خلیات طب میں استحالہ خلیات (transformed cells) کہلاتے ہیں جن میں تین اہم خصلتیں دیکھی جا سکتی ہیں اول --- بے قابو خلوی تقسیم (cell division) دوم --- تجاوزت (invasive) اور سوم --- نقیلت (metastasis)

آسان بیان[ترمیم]

ہمارا جسم خلیات سے مل کر بنتا ہے اور یہ خلیات ہماری پیدائش سے لے کر موت تک ایک جیسے نہیں رہتے بلکہ مختلف خلیات اپنی زندگی پوری ہونے پر ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت مـرجاتے ہیں اور ان کی جگہ ضرورت کے مطابق نئے خلیات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور اس طرح عام طور پر ہمارے جسم کے خلیات مکمل طور پر ہمارے جسم کی ضرورت کے مطابق قابو میں رکھے جاتے ہیں یعنی جب کسی خلیے کی زندگی پوری ہوجاتی ہے تو وہ مرجاتا ہے اور جب کسی نئے خلیے کی ضرورت ہوتی ہے تو نیا خلیہ پیدا کر لیا جاتا ہے۔ جبکہ مرض سـرطان کی صورت میں اس نظام میں متعدد وجوہات کی بنا پر خلل پیدا ہوجاتا ہے اور جسم کی ضرورت کے بغیر اور طلب سے زیادہ نئے خلیات بلاوجہ ہی پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ خلیات جن کی ضرورت باقی نہیں رہی اور جن کا مــر جانا ہی جسم کے لیے بہتر ہے وہ اپنے وقت پر ناصرف یہ کہ مـرتے نہیں ہیں بلکہ ایک طرح سے لافانی ہو جاتے ہیں۔ اب اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب بلاوجہ نئے خلیات بنتے چلے جائیں اور پرانے ناکارہ خلیات بھی اپنی جگہ برقرار رہیں تو جسم کے اس حصے میں کہ جہاں یہ عمل واقع ہو رہا ہو (خواہ وہ حصہ گردہ ہو یا دماغ یا کوئی اور) تو وہاں غیر ضروری خلیات کا ایک ڈھیر لگ جائے گا اور اسی خلیات کے اضافی ڈھیر کو سرطان یا کینسر کہا جاتا ہے۔

اقسام و اسم بندی[ترمیم]

تخلقِ سرطان (carcinogenesis) کے مدارج کا ایک شکلی اظہار؛ شکل میں کسی طفرہ (اسی قسم کا مظہر میثائلیت کے باعث بھی رونما ہو سکتا ہے) کی وجہ سے وراثہ کابت الورم کے سکوت سے سرطانی خلیات کی تخلیق تک کے مراحل دکھائے گئے ہیں۔

سرطان کی دو بنیادی اقسام ہوتی ہیں جن کو سرطان کی طبی کیفیات و علامات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ کیا جاتا ہے۔ سادہ سے الفاظ میں یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ سرطان کی یہ دو بڑی اقسام اصل میں مرض سرطان کی خطرناکی اور ہلاکت خیزی کے لحاظ سے ہوتی ہیں، ایک وہ جو نسبتاً کم پرخطر ہوتے ہیں اور حلیم سرطان کہلاتے ہیں جبکہ دوسرے وہ سرطان جو نہایت مہلک و زیادہ پرخطر ہوتے ہیں اور عنادی سرطان کہلاتے ہیں۔ سرطان کی یہ دو بنیادی اقسام اور پھر ان کی ذیلی اقسام درج ذیل ہیں۔

گو علمی و لغتی لحاظ سے سرطان اور سرطانہ یکسر الگ مفہوم میں آتے ہیں یعنی سرطانہ اصل میں سرطان کی ایک بنیادی قسم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اکثر (طبی مضامین میں بھی) سرطان اور سرطانہ کے الفاظ ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر بھی دیکھے جاتے ہیں۔

امراضی فعلیات[ترمیم]

امراضی فعلیات (pathophysiology) سے مراد امراضیات (pathology) کے پیدا ہوجانے کے بعد کسی جسم (یا متعلقہ حصے) کی فعلیات (physiology) سے ہوتی ہے۔ سرطان کی امراضی فعلیات میں خلوی حیاتیات (cell biology) اور سالماتی حیاتیات (molecular boilogy) کا مطالعہ اور سرطانی خلیات کے پیدا ہوجانے کے بعد رونما ہونے والے افعال و اثرات کا مطالعہ شامل ہوتا ہے یعنی بنیادی طور پر سرطان کی حیاتیات کے مطالعے کو ہی سرطان کی امراضی فعلیات کہا جاتا ہے۔ سرطان سالماتی بنیادوں پر پیدا ہونے والی ایک بیماری ہے جو DNA کے سالمے میں پیدا ہونے والے کسی نقص سے وجود میں آتی ہے، یہ نقص وراثی (genetic) نقص بھی ہو سکتا ہے (جیسے طـفـرہ وغیرہ) اور یا پھر یہ نقص کسی بالا وراثی نقص (جیسے میثائلیت (methylation) وغیرہ) کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ اگر وراثات کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان میں سرطانی خلیات کی پیدائش میں ملوث وراثات کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

  • وراثات الورم (onco-genes) ---- یعنی ورم پیدا کرنے والے وراثات، یہ وراثات فطری طور پر جسم میں پہلے سے موجود وراثات بھی ہو سکتے ہیں جن کی تعبیر وراثہ (gene expression) معمولہ یا normal حد سے بے انتہا منحرف ہو چکی ہو اور یا پھر یہ وراثات کسی وراثی تبدیلی (طفرہ وغیرہ) کی وجہ سے نمودار ہونے والے نئے وراثات بھی ہو سکتے ہیں جن کے خواص پہلے جسم میں موجود نا ہوں۔ دونوں صورتوں میں ان کی تعبیر کا نتیجہ ایک ہی برآمد ہوتا ہے، یعنی خلیات کی بے قابو نشو و نما یا سرطانی خلیات۔
  • وراثات کابت الورم (tumor suppressor genes) ---- یعنی خلیات میں سرطانی یا ورمی (tumor) خصلتوں کی پیدائش کے رجحانات کی سرکوبی کرنے والے وراثات۔ متعدد معزازِ سرطان (cancer promoting) عوامل (جیسے مسرطن (carcinogens)) جو وراثات میں ترامیم کے عمل میں ملوث ہوتے ہیں ایسے ہیں کہ جو وراثات کابت الورم کو خـامـوش کردیتے ہیں اور ظاہر کہ جب یہ سرطان کی سرکوبی کرنے والے وراثات کابت الورم ہی خاموش ہوجائیں تو سرطانی خلیات کے نمو پاجانے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔

سرطانی خلیات میں ہونے والی یہ وراثی تبدیلیاں زیادہ تر طفرات ہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دنا (DNA) کی متوالیت میں موجود متعدد یا صرف ایک مرثالثہ (nucleotide) تبدیل ہو سکتا ہے جیسے کہ واحد مرثالثہ کثیرشکلیت (single nucleotide polymorphism) وغیرہ۔

خون کے ایک سرطان ابیضاض نقوی مزمن کا سبب بننے والے فلیدلفیا لونجسیمہ کی پیدائش کی ضاحت۔ شکل میں رونما ہونے والے مظاہر کی تفصیل کے لیے مضمون کے متن کا وہ حصہ ملاحظہ کیجیے جو امراضی فعلیات کی سرخی کے تحت دیا گیا ہے۔

مندرجہ بالا طفرات کے علاوہ نسبتا وسیع پیمانے پر ہونے والی وراثی مادے کی ترامیم بھی ہوتی ہیں مثال کے طور پر جیسے کسی لونجسیمے کا کوئی حصہ حذف (deletion) ہوجانا یا کوئی اضافی حصہ اس میں داخل ہوجانا۔ اس کے علاوہ وراثی مادوں میں ہونے والی چند ترامیم ایسی ہوتی ہیں کہ جن میں کسی ایک لونجسیمے کی کئی کئی نقول خلوی تقسیم پر خلیے میں چلی آتی ہیں جن پر (یا جن کے قریب) کوئی وراثہ الورم پایا جاتا ہے، ایسی ترامیم کو بعض اوقات موراثی تضخیم (genomic amplification) بھی کہا جاتا ہے، یہاں موراثی کا لفظ موراثہ (genome) سے ماخوذ ہے نا کہ وراثہ یا gene سے ۔

وراثی ترامیم کی ایک اور قسم نقل مقامی یا translocation ہوتی ہے جس میں کسی ایک لونجسیمہ کا وراثی مادہ یا genetic material منتقل ہو کر کسی دوسرے لونجسیمے پر چلا جاتا ہے، اس قسم کی ترمیم کی ایک عام اور مشہور مثال فلیڈلفیا لونجسیمے (Philadelphia chromosome) کی دی جا سکتی ہے جس میں 9 ویں لونجسیمے سے وراثہ abl اپنی نقل مقامی سے 22 ویں لونجسیمے کے طویل بازو (q) پر جاکر وراثہ bcr سے پیوست ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک غیر معمولہ وراثہ bcr-abl وجود پا جاتا ہے اور اس وراثے سے جو لحمیہ پیدا ہوتی ہے وہ اپنا کام درست نہیں کر پاتی اور مختلف امراض و غیرمعمولہ افعال کا سبب بنتی ہے، جیسے خون کا ایک سرطان جسے ابیضاض نقوی مزمن (Chronic myelogenous leukemia) کہا جاتا ہے۔

سرطانی خلیات میں چھوٹے پیمانوں پر ہونے والی تبدیلیوں میں SNP، حذف اور ادخل (insertion) وغیرہ کو شمار کیا جا سکتا ہے جن کی وجہ سے کسی بھی وراثے یا جین کے فعل میں نقص واقع ہوکر سرطانی خلیات کی پیدائش کا سبب بن سکتا ہے، یہ چھوٹے پیمانے کی ترامیم ایک وراثے کے مِعزاز (promoter) میں بھی واقع ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے متعلقہ وراثے کی تعبیر (expresstion) متاثر ہوتی ہے اور یا پھر وہ وراثہ سکوت (silencing) کی کیفیت سے بھی دوچار ہو سکتا ہے اور یا پھر یہ ترامیم وراثے کے اس حصے میں بھی واقع ہو سکتی ہیں کہ جو mRNA کی تشکیل کرتا ہے اور ایسی صورت میں اس وراثے سے بننے والی لحمیات اپنے مخصوص افعال انجام دینے کے قابل نہیں رہتیں۔

مندرجہ بالا تمام وجوہات کے علاوہ بعض حمات (viruses) بھی ایسے ہوتے ہیں کہ جو سرطانی خلیات کے وجود میں آنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

بالا وراثیات[ترمیم]

بالاوراثیات اصل میں وراثیات کی ایک ایسی صورت کو کہا جاتا ہے کہ جو دنا یعنی DNA کے سالمے کی متوالیت میں کوئی بگاڑ یا طفرہ پیدا کیے بغیر بھی وراثوں کے افعال کو متاثر یا تبدیل کر دیتی ہے۔ چونکہ اس قسم کے افعال وراثوں یا روایتی وراثیات (genetics) کے بنیادی نظریے؛ کہ وراثوں کے افعال، ان کی متوالیت (مرثالثات (nucleotides) کی ترتیب) میں تبدیلی پر تبدیل ہوتے ہیں کے بالکل برعکس ان کی متوالیت سے بالا رہتے ہوئے ہی وراثوں کے افعال کو تبدیل کردیتی ہے اسی وجہ سے اس کو بالا وراثیات کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی ترامیم کی ایک مثال میثائلیت کا عمل ہے جو DNA میں نمودار ہو تو DNA میثائیلت کہلاتا ہے اس تبدیلی میں DNA کے قواعد (bases) پر میثائلیت کا عمل واقع ہوجاتا ہے۔ ایسا ان قواعد پر ہوتا ہے کہ جہاں سائٹوسین (C) کے بعد گوانوسین (G) پایا جاتا ہو، اگر ایسے مقامات ڈی این اے کے طویل سالمے کے معزاز (promoter) پر گروہوں کی شکل میں ایک ساتھ قطار کی صورت میں پائے جاتے ہوں تو ان کے لیے ایک اصطلاح جزیرۂ سیپیجی (CpG island) استعمال کی جاتی ہے اور اس جگہ یعنی معزاز پر ہونے والی میثائلیت عموما ضررساں اور خطرناک ہوتی ہے جو سرطان کی سرکوبی کرنے والے وراثات کو خاموش کر کہ سرطان کی پیدائش کا موجب بن سکتی ہے۔

خلوی حیاتیاتِ سرطان[ترمیم]

جب کسی خلیے کے وراثی مواد (genetic material) میں کوئی ایک (یا زائد) نقص واقع ہو جاتا ہے تو اس کے نقص کی وجہ سے بننے والے لحمیاتی سالمات بھی اپنے معمول کے افعال پر قائم نہیں رہ پاتے اور وہ خلیہ آہستہ آہستہ اپنا کردار معمول کے خلیے سے سرطانی خلیے کی جانب تبدیل کرنے لگتا ہے، اس تبدیلی میں اندازوں کے مطابق کئی سال (5 تا 15) لگ سکتے ہیں۔ یعنی اس تمام عرصے میں گویا کہ سرطانی خصوصیات پیدا ہو تو ہو چکی ہوتی ہیں مگر عام طور پر شفاخانوں میں کیے جانے والے اختبارات سے سرطان کو تشخیص نہیں کیا جا سکتا گویا سرطان جسم میں ہونے کے باوجود عام اختبارات سے اس کا پتا نہیں لگایا جا سکتا۔ کسی بھی مسرطن (مثلا مطفر) کی وجہ سے ہونے والی ان ابتدائیییی سالماتی تبدیلیوں کے عرصے بعد سرطانی خلیات اس قدر بدلتے ہیں کہ ان کو کسی خردبین کی مدد سے عام اور صحت مند خلیات سے الگ شناخت کیا جاسکے، ایسے خلیات خردبینی مشاہدے پر مندرجہ ذیل خصوصیات ظاہر کرسکتے ہیں۔

سالماتی حیاتیاتِ سرطان[ترمیم]

گذشتہ چند دہائی کی تحقیقات اور تجربات نے آج انسانوں (و دیگر جانداروں) میں پیدا ہونے والے امراض کے تصور کو یکسر بدل دیا ہے اور بشمول سرطان متعدد بیماریوں کے وراثی (genetic) اسباب کے ادراک و فہم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

www.worldcancertreatment.blogspot.com== مزید دیکھیے ==

حوالہ جات و بیرونی روابط[ترمیم]

  1. Cecil Text Book of Medicine; 17th Ed. ISBN 1-4160-0185-9 W.B. Saunders
  2. Harrison's Principles of Internal Medicine 16th Ed. ISBN 0-07-140235-7 The McGraw Hill companies
  3. Oxford Textbook of Medicine 4th Ed. ISBN 0-19-856978-5 Oxford University Press 28 July 2005