سعید بن عامر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سعید بن عامر
معلومات شخصیت
عملی زندگی
پیشہ سائنس دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سعید بن عامر جمحی ایک صحابی رسول تھے۔ سعید بن عامر جمحی بھی سرداران قریش کی دعوت پر مکہ سے باہر مقام تنعیم پر صحابی رسول خبیب بن عدی کے قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے روساء قریش کے پہلو بہ پہلو جا کھڑا تھا۔ زبردست ہجوم میں سعید بن عامر خبیب کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ خبیب کہہ رہا ہے "اگر تم لوگ چاہوتو قتل سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع دے دو" پھر سعید نے دیکھا کہ خبیب بن عدی نے قبلہ رو ہوکر دو رکعتیں پڑھیں۔ اور خبیب نے زعماء قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "واللہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم میرے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوجاؤ گے کہ میں موت سے ڈر کر نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں اور لمبی اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا" پھر سعید نے بہ چشم سر اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ زندہ ہی خبیب کا مثلہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں۔ "کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ اس وقت محمد تمھاری جگہ یہاں ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے" تو خبیب نے جواب دیا(اور اس وقت ان کے جسم سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا)واللہ مجھے تو اتنا بھی گوارا نہیں ہے کہ میں امن و اطمینان کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور ان کے پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے" اور یہ سنتے ہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے چیخنا شروع کر دیا۔ مارڈالو اسے، قتل کرڈالو اسے۔ پھر سعید بن عامر کی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خبیب نے تختہ دار ہی سے اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اَللّٰھُمّ احصَہم عَدداً وَاقتُلھُم بَددا وَلا تُغَادر مِنھُم اَحَدا "خدایا! انھیں ایک ایک کر کے گن لے،انھیں منتشر کرکے ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ" پھر انھوں نے آخری سانس لی اور روح پاک اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس وقت ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم تھے۔ نوجوان سعید بن عامر جمحی، خبیب کی مظلومیت اور ان کے دردناک قتل کے اس دل خراش منظر کو اپنے لوح ذہن سے اک لمحہ کے لیے محو نہ کرسکا۔ وہ سوتاتوخواب میں ان کو دیکھتا اور عالم بیداری میں اپنے خیالات مین ان کو موجود پاتا۔ یہ منظر ہر وقت اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا کہ خبیب تختہ دار کے سامنے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے دورکعتیں ادا کر رہے ہیں۔ اوراس کے پردہ سماعت سے ہروقت ان کی وہ درد بھری آواز ٹکراتی رہتی جب وہ قریش کے لیے بد دعا کر رہے تھے اور اس کو ہروقت اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ کہیں آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چٹان گر کر اسے ہلاک نہ کر دے۔ پھر خبیب نے سعید کو وہ باتیں بتا دیں جو پہلے سے اس کے علم میں نہ تھیں۔ خبیب نے اسے بتایا کہ حقیقی زندگی یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ سچے عقیدے کے ساتھ چمٹا رہے اور زندگی کی آخری سانس تک خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا رہے۔ خبیب نے سعید کو یہ بھی بتادیا کہ ایمان راسخ کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے اور اس سے کتنے مخیر العقول افعال ظہور پزیر ہوتے ہیں۔ خبیب نے سعید کو ایک اور بڑی اہم حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ شخص جس کے ساتھی اس سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں واقعی برحق رسول اور سچا نبی ہے اور اسے آسمانی مدد حاصل ہے۔ اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے سعید بن عامر کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیا۔ وہ قریش کی ایک مجلس میں پہنچا اور وہاں کھڑے ہوکر اس نے قریش اور ان کے کالے کرتوتوں سے اپنی لاتعلقی و نفرت اور ان کے معبودان باطل سے اپنی بیزاری و برات اور اپنے دخول اسلام کا برملا اور کھلم کھلا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد سعید بن عامر ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مستقل طور پر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت اختیار کرلی۔ اور غزوہ خیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے رب کے جوار رحمت میں منتقل ہو گئے تو سعید بن عامر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں خلفاء ابوبکر صدیق اور عمر کے ہاتھوں میں شمشیر برہنہ بن گئے اور انھوں نے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات کو خدائے تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کر کے اپنی زندگی کواس مومن صادق کی زندگی کا نادر اور بے مثال نمونہ بنا کر پیش کیاجس نے دنیوی عیش و عشرت کے عوض آخرت کی ابدی و لافانی کامیابی اورفائز المرامی کو سودا کر لیا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ دونوں جانشین ان کی نصیحتوں کو بہت غور توجہ سے سنتے اور ان کی باتوں پر پورا پورا دھیان دیتے تھے۔ ایک بار وہ عمر فاروق کے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا: عمر: میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ رعایا کے بارے میں ہمیشہ خدائے تعالٰیٰ سے ڈرتے رہیے اور خدا کے معاملے میں لوگوں کا کوئی خوف نہ کیجئے اور آپ کے اندر قول و عمل کا تضاد نہ پایا جا ئے۔ بہترین قول وہی ہے جس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہو" انھوں نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: عمر: دور و نزدیک کے ان تمام مسلمانوں پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھیے جن کی ذمہ داری اللہ تعالٰیٰ نے آپ پر ڈالی ہے اور ان کے لیے وہی باتیں پسند کیجئے جو آپ خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے پسند کرتے ہیں اور حق کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پروا نہ کیجئے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لائیں" سعید! یہ سب کس کے بس کی بات ہے؟ عمر نے ان کی یہ باتیں سن کرکہا۔ یہ آپ جیسے شخص کے بس کی بات ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ دار بنایا ہے، جس کے اور خدا کے درمیان میں کوئی دوسرا حائل نہیں ہے" سعید نے کہا۔ اس گفتگو کے بعد خلیفہ نے سعید بن عامر سے حکومت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: سعید میں تم کو حمص کا گورنر بنا رہا ہوں۔ "عمر میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیے" سعید نے جواباً عرض کیا۔ ان کا یہ جواب سن کو عمر رض اللہ عنہ نے قدرے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "خدا تمھارا بھلا کرے تم لوگ حکومت کی بھاری ذمہ داریاں میرے سر ڈال کر خود اس سے کنارہ کش ہوجانا چاہتے ہو، خدا کی قسم میں تم کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا" پھر عمر نے حمص کی گورنری ان کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا: "میں تمھارے لیے تنخواہ مقرر کردوں؟" "امیر المومنین! مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بیت المال سے جو وظیفہ مجھے ملتا ہے وہ میری ضروریات سے فاضل ہے" سعید نے کہا اور وہ حمص کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد اہل حمص کے کچھ قابل اعتماد لوگوں پر مشتمل ایک وفد عمر کی خدمت میں باریا ب ہوا۔ عمر نے ان سے فرمایا کہ مجھے اپنے یہاں کے فقرا اور حاجتمندوں کے نام لکھ کر دے دو تاکہ میں ان کی ضروریات کی تکمیل کا کوئی بندوبست کردوں۔ تعمیل حکم میں انھوں نے خلیفہ کے سامنے جو فہرست پیش کی اس میں تھا فلاں ابن فلاں اور فلاں ابن فلاں اور سعید بن عامر سعید بن عامر؟ کون سعید بن عامر؟ عمر نے حیرت سے پوچھا۔ "ہمارے گورنر" ارکان وفد نے جواب دیا۔ تمھارا گورنر؟کیا تمھارا گورنر فقیر ہے؟ عمر نے مزید حیرت سے پوچھا" جی ہاں امیر المومنین! خدا کی قسم کتنے ہی دن ایسے گذر جاتے ہیں کہ ان کے گھر میں آگ نہیں جلتی" وفد نے مزید وضاحت کی۔ یہ سن کر عمر رو پڑے۔ وہ دیر تک روتے رہے حتی کہ ان کی داڑھی آنسووں سے تر ہو گئی۔ پھر وہ اٹھے اور ایک ہزار دینار ایک تھیلی میں رکھ کر اسے ارکان وفد کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: "سعید سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ امیر المومنین نے یہ مال آپ کے لیے بھیجا ہے تاکہ آپ اس سے اپنی ضرورتیں پوری کریں" وفد کے لوگ دیناروں کی وہ تھیلی لے کر سعید نہ کی خدمت میں پہنچے اور اسے ان کے سامنے پیش کر دیا۔ انھوں نے اس تھیلی اور اس میں رکھے ہوئے دیناروں کو اپنے سے دور ہٹاتے ہوئے کہا: اِنا للہ وَاِنا الیہ راجعون جیسے ان کے اوپر کوئی بڑی مصیبت نازل ہو گئی ہو۔ آواز سن کر ان کی بیوی گھبرائی ہوئی ان کے پاس آئیں اور بولیں: سعید کیا بات ہے؟ کیا امیر المومنین نہ کا انتقال ہو گیا؟ نہیں، اس سے بھی بڑی افتاد آن پڑی ہے۔ سعید نے جواب دیا۔ اس سے بڑی افتاد کیا ہو سکتی ہے۔ بیوی نے پوچھا۔ "دنیا میرے گھر میں داخل ہو گئی ہے تاکہ میری آخرت کو تباہ کر دے"۔ سعید نہ نے تشویشناک لہجے میں جواب دیا۔ " اس سے چھٹکارا حاصل کرلو۔ بیوی نے ہمدردانہ مشورہ دیا۔(ابھی تک وہ دیناروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی) کیا تم اس معاملے میں میری مدد کرسکتی ہو؟ سعید نے پوچھا۔ ہاں کیوں نہیں۔ بیوی نے جواب دیا۔ پھر سعید نے تمام دیناروں کو بہت سی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں رکھ کر انھیں غریب اور حاجتمندمسلمانوں میں تقسیم کروا دیا۔ اس بات کو ابھی کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ عمر بن خطاب شام کے دورے پر وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے۔ اس دورے میں جب آپ حمص پہنچے، (اس زمانے میں حمص کو"کوَیفہ" بھی کہا جاتا تھا اس لیے وہاں کے باشندے بھی اہل کوفہ کی طرح اپنے عمال اور حکام کی بکثرت شکایتیں کرنے میں مشہور تھے۔) تو جب اہل حمص خلیفہ سے سلام و ملاقات کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خلیفہ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے اپنے اس نئے امیر کوکیسا پایا؟جواب میں انھوں نے امیر المومنین کے سامنے سعید بن عامر کی چار شکایتیں پیش کیں جن میں سے ہر ایک شکایت دوسری سے بڑی تھی۔ عمر فرماتے ہیں کہ " میں نے ان کو اور سعید کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور اللہ تعالٰیٰ سے دعا کی کہ وہ سعید کے متعلق میرے حسن ظن کو صدمہ نہ پہنچائے، کیونکہ میں ان کے متعلق بہت زیادہ خوش گمان تھا۔ جب شکایت کرنے والے اور ان کے امیر سعید بن عامر میرے پاس یکجا ہو گئے تو میں نے دریافت کیا کہ تم کو اپنے امیر سے کیا شکایت ہے؟ جب تک خوب دن نہیں چڑھ آتا یہ اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتے، معترضین نے کہا۔ میں نے سعید سے دریافت کیا کہ سعید تم اس شکایت کے بارے میں کیا کہتے ہو؟سعید نہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے خدا کی قسم میں اس بات کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس کو ظاہر کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ میرے گھر میں کوئی خادمہ نہیں ہے۔ اس لیے ذرا سویر ے اٹھتا ہوں تو پہلے آٹا گوندھتا ہوں، پھر تھوڑی دیر انتظار کرتا ہوں تاکہ اس کا خمیر اٹھ جائے، پھر روٹیاں پکاتا ہوں۔ اس کے بعد وضو کر کے لوگوں کی ضرورت کے لیے باہر نکلتا ہوں۔ میں نے اہل حمص سے پوچھا کہ تمھاری دوسری شکایت کیا ہے؟انھوں نے کہا کہ " یہ رات کے وقت کسی کا جواب نہیں دیتے" میں نے پوچھا کہ " سعید اس شکایت کے متعلق تم کیا کہنا چاہتے ہو؟تو انھوں نے جواب دیا کہ " خدا کی قسم میں اس بات کو بھی ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا تھا، مین نے دن کے اوقات ان لوگوں کے لیے اور رات کے او قات اپنے رب کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں" میں نے معترضین سے کہا" اب تم اپنی تیسری شکایت بیان کرو" انھوں نے کہا کہ یہ مہینے میں ایک بار دن بھر گھر سے باہر نہیں نکلتے"۔ میں نے دریافت کیا کہ سعید تم اس شکایت کا کیا جواب دیتے ہو؟سعید نے کہا" امیر المومنین میرے پاس کوئی خادم نہیں ہے اور جسم کے ان کپڑوں کے سوا میرے پاس اور کپڑا نہیں ہے، میں ان کو مہینے میں صرف ایک بار دھوتا ہوں اور ان کے خشک ہونے کا انتظار کرتا ہوں اور سوکھنے کے بعد دن کے آخری حصے میں انھیں پہن کر باہر آتا ہوں" میں نے کہا کہ اب تم اپنی چوتھی شکایت بیا ن کرو:" انھوں نے کہا کہ ان کو رہ رہ کر غشی کے شدید دورے پڑتے ہیں اور یہ اپنے گردو پیش سے بے خبر ہوجاتے ہیں" میں نے کہا " سعید نہ تمھارے پاس اس شکایت کا کیا جواب ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں خبیب بن عدی کے قتل کے وقت موقع پر موجود تھا اور اس وقت میں مشرک تھا۔ میں نے قریش کو دیکھا کہ وہ ان کے جسم کا ایک ایک عضوکاٹتے جاتے اور ساتھ ہی یہ کہتے جاتے کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ آج تمھاری جگہ پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے؟تو وہ جواب دیتے کہ خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ میں آرام و سکون کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تلووں میں ایک پھانس بھی لگ جائے۔ خدا کی قسم جب مجھ کو وہ منظر یاد آتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یا د آتا ہے کہ میں نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہ کی تو مجھے اس بات کا شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالٰیٰ میری اس کوتاہی کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اوراسی وقت میرے اوپر غشی طاری ہوجاتی ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے سعید کے متعلق میرے حسن ظن کو صدمہ نہیں پہنچنے دیا۔ اس کے بعد عمر نے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے تاکہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ خدا کا شک رہے کہ اس نے ہم کو آپ کی خدمات سے بے نیاز کر دیا۔ آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خرید دیں۔ یہ سن کر سعید نے کہا : کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ اس سے بہتر؟ اس سے بہتر کیا چیز ہے؟اہلیہ نے پوچھا۔ یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کر دیں جو اسے ہم کواس وقت واپس کر دے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔ سعید نے بات سمجھائی۔ اس کی کیا صورت ہوگی؟اہلیہ نے وضاحت چاہی۔ سعید نے کہا کہ " ہم یہ رقم اللہ تعالٰیٰ کو قرض حسنہ دے دیں" اہلیہ نے کہا" ہاں یہ بہتر ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے" پھر سعید نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی سے کہا کہ " انھیں فلاں قبیلے، فلاں قبیلے کے یتیموں، فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجتمندوں میں تقسیم کردو" اللہ تعالیٰ سعید بن عامر جمحی سے راضی ہو۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خودمحتاج اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔

حوالہ جات[ترمیم]

(عبد الرحمن رافت پاشا:زندگیاں صحابہ کی)