سید عبدالعظیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید عبد العظیم
پیدائش01 ستمبر 1930
مریپاڑ، چتور ضلع، آندھرا پردیش
رہائشمدنپلی ، آندھرا پردیش
پیشہادب سے وابستگی، درس و تدریس، اردو کی ترقی و ترویج
وجہِ شہرتترویج اردو، درس و تدریس، ادبی محافل، مشاعرے
مذہباسلام
اولاد2 فرزند، 5 دختر

عبد العظیم : 01 ستمبر، 1930ء کو ضلع چتور، وایلپاڑ تحصیل کے ایک گاؤں مریپاڑ میں پیدا ہوئے۔ عبد العظیم صاحب صوبہ آندھرا پردش، علاقہ رائل سیما کے ایک مشہور اور معروف ادیب، اردو داں، ترویج و ترقیِ اردو کے لیے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ضلع چتور میں موجودہ اردو کی ترقی چند احباب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جن میں عبد العظیم صاحب اہم شخصیت مانے جاتے ہیں۔ موجودہ رہائش شہر مدنپلی ہے۔

آباء و اجداد[ترمیم]

عبد العظیم صاحب کے آباء و اجداد قصبہ مریپاڑ سے تعلق رکھتا ہے۔ والد محتری سید عبد الرؤف اور والدہ سیدہ زبیدہ بی۔ رؤف صاحب اور زبیدہ بی ماں کی دو اولاد تھیں، ایک دختر اور ایک فرزند۔ فرزند سید عبد العظیم ہیں۔ والد محتریم بھی درس و تدریس سے منسلک تھے۔ عبد العظیم صاحب کے بچپن ہی میں والد محترم کا انتقال ہو گیا۔

ایک دور ایسا بھی گذرا ہے کہ مریپاڑ کے حضرات ہی کی وجہ سے ضلع چتور میں تبلیغ دین اور اشاعت تہذیب و تمدن اردو زبان و لسانیات پھلی پھولی۔ گرمکنڈہ کو ادبی ترویج کے لیے شامل کیا جا سکتا ہے۔ مریپاڑ میں ان کا خاندان قلعے والے حضرات کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ ان کی تاریخ ساتویں پیڑی کے جد حضرت سید شاہ صاحب، ایران کے بو شہرہ سے یہاں تشریف لائے تھے۔ اور بو شہرہ سے ان کا تعلق عرب کے شہر مدینہ سے جاملتا ہے۔ سعادات ہونے کی وجہ سے ان کے آباء و اجداد کا سلسلہ حسب فطرت خلق اللہ کی خدمت میں لگا رہا، ترویج اسلام، اشاعت عربی و اردو میں ان کی زندگیاں صرف ہوئیں۔ ان کے روابط بیجاپور سلطنت کے خانقاہوں، مملکت آصفیہ اور سلطنت خداداد کے سلاطین سے اور خانقاہوں سے مراسم و روابط تھے۔ اس قطہ کے مشائقین کو ان کی سادگی اور خدمت خلق کی بنا پر ادب و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔

آبائی وطن[ترمیم]

آبائی وطن مریپاڑ، ضلع چتور تھا۔ مریپاڑ کا رشتہ گرمکنڈہ سے چولی دامن جیسا تھا۔ مریپاڑ کے علما اور گرمکنڈے کے ادبا کا سنگم کچھ ایسا تھا کہ ان دونوں علاقوں کا اثر کافی دور دراز علاقوں تک تھا۔ چوں کہ آپ کے آباء و اجداد مشائق خاندان سے تھے اور ان کو مریپاڑ اور راجوواری پلی گاؤں اور مریپاڑ کا چھوٹا سا قلعہ حدیہ میں ملا تھا۔ ساتھ ساتھ گرم کنڈہ کی کئی زمینات اور مساجد کی ذمہ داری بھی انھیں کے خاندان کی تھی۔ بعد میں چل کر گرمکنڈہ کی مساجد کی ذمہ داری گرمکنڈہ کے احباب کو ہی سونپی گئی۔

ابتدائی،ثانوی اوراعلیٰ تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم مریپاڑ اور گرمکنڈہ میں ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کرنول، مدراس (آج کل چینئی)، تروپتی کی جامعیہ شری وینکٹیشورا میں ہوئی۔ یہاں سے ادیب فاضل امتحان کامیاب کیا۔ اس دور میں بہت ہی کم احباب تھے جنھوں نے یہ سند حاصل کی تھی۔

پیشہ ورانہ زندگی[ترمیم]

فائل:Abdul Azeem - Zila Chittoor ki Islami Tareekh.jpg
ضلع چتور کی اسلامی تاریخ - سید عبد العظیم

کم سنی میں ہی مدرس کے پیشے پر فائض ہوئے۔ جس کی وجہ سے بحیثیت سرکاری مدرس کافی لمبے عرصے تک رہے۔ تقریباً 42 سال درس و تدریس سے جڑے رہے۔ ضلع کے مختلف مقامات میں کام کرنے کی وجہ سے اردو زبان اور ادب کی ترویج و ترقی کا کافی اچھا موقع ملا۔ چتور، تروپتی سے لے کر پنگنور، بی کوتہ کوٹہ اور مدنپلی تک کے علاقوں میں کام کیا۔

ادبی سفر[ترمیم]

اپنے مضامین کئی رسالوں کو روانہ کرتے تھے۔ ادبی محفلوں میں شرکت، ادبی محفلوں کا اہتمام، مشاعروں کا انعقاد کیا کرتے تھے۔ دیگر زبانوں کے محافل میں اردو ادب کا تعارف عام فعل تھا۔ ادبی تخلیقات بصورت پرچے ہوتے تھے۔ مدنپلی کی تاریخ، ضلع چتور کی اسلامی تاریخ، ضلع چتور میں اردو ادب موصوف کے اہم موضوعات ہیں۔

علما ہند سے مراسم اور تعلقات[ترمیم]

آپ کے مراسم، حسین احمد مدنی، سید سلیمان ندوی اور حیدرآباد کے علما سے گہرے تھے۔ آپ حسین احمد مدنی کے مریدوں میں سے بھی ہیں۔ اس علاقے کے بیش بہا اردو داں اور عالم و فاضل حضرات جناب حسین احمد مدنی کے مریدین میں سے تھے۔ آپ کے تعلقات شہر حیدرآباد کے عالم جناب خندمیر منوری صاحب سے بھی کافی گہرے تھے۔

مشاعروں میں[ترمیم]

ضلع چتور میں خاص طور پر شہر مدنپلی میں مشاعروں کا سلسلہ عبد العظیم صاحب نے کیا۔ حضرت مستان ولی درگاہ کے آستانے میں، وظیفہ یاب ڈپٹی کلیکٹر قاضی غلام دستگیر صاحب اور عبد العظیم صاحب نے بخوبی احتمام شروع کیا۔ کُل ہند مشاعرے بڑے ہی شان و شوکت سے احتمام کیے جاتے تھے۔ شہر مدنپلی جیسے علاقوں میں مشاعروں کا احتمام ایک نیا، عجیب اور دلچسپی سے جڑا ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کی مسلم آبادی اردو سے واقفیت کم رکھتے تھی، مشاعروں کو ادبی محفل کی بجائے مذہبی محفل سمجھا جاتا تھا۔ ٹھیک اسی بات کو سمجھتے ہوئے، اکثر و بیشتر مشاعرے، نعتیہ ہوا کرتے تھے۔ نعتیہ دور کے بعد غزلیہ دور بھی ہوا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ مشاعروں کا سلسلہ کلی چیرلا، گرمکنڈہ اور شہر مدنپلی کے دیگر آستانے جسیے حضرت غلام علی شال، حضرت سیدانی ماں، میں بھی جاری و ساری رہا۔ اب شہر مدنپلی اردو کا ادبی گھر مانا جاتا ہے۔ لیکن افسوس یہ کہ، کثیر تعداد میں اردو احباب ہونے کے باجود یہاں ادبی محفلوں کی روایت کم ہوتی جا رہی ہے۔

عبد العظیم صاحب کے دوستوں میں جلال کڈپوی، محبوب نگر کے سلیم عابدی، برق کڈپوی، ناگپور کے علامہ شارق جمال، سلیمان اطہر جاوید، جن سے ادبی محفلوں میں آنا جانا رہتا تھا۔ ان احباب کا تانہ بانہ یہاں کی اردو زمین زرخیز ہونے کا باعث بنا۔

تصانیف[ترمیم]

  • تاریخ مدنپلی
  • ضلع چتور اور اردو ادب
  • ضلع چتور کی اسلامی تاریخ [1][2][3]
  • اسرار عظیم [4]

دیگر[ترمیم]

آپ کو ہندو اور تیلگو احباب میں بھی کافی شہرت ملی۔ اردو پنڈت صاحب، اردو منشی صاحب، عظیم حضرت کے نام سے کافی مشہور تھے۔ ان کی تحریر اور خط کافی خوبصورت ہونے کی وجہ سے بھی انھیں شہرت اور عزت ملی۔ انگریزی زبان میں بھی ماحر تھے۔ انگریزی میں جب تحریر کرتے تھے تو بڑے بڑے افسران بھی چونک جاتے تھے کہ ایک اردو پنڈت یا منشی بھی ایسی انگریزی لکھ سکتا ہے۔

شہر مدنپلی کی میری لاٹ لیلیس میموریل ہاسپٹل جو چرچ آف ساؤتھ انڈیا رایل سیما ڈیوسس کی زیر احتمام چلتی تھی، اس میں انگریز اور جرمن ڈاکٹر بھی ہوا کرتے تھے۔ عبد العظیم صاحب انگریزی کے ماہر ہی نہیں بلکہ بال بیڈمنٹن کے اچھے کھلاڑی بھی تھے، جو اکثر ان ڈاکٹر اسٹاف کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ اس بنا پر کافی مسیحی اور غیر ملکی احباب دوست بنے جن میں اہم جرمن دوست ڈاکٹر وینڈر آرڈے تھے۔

اعزاز[ترمیم]

آپ کو علاقائی طور پر کئی اعزازات بھی ملے۔ لیکن آپ ان اعزازات سے گریز کرتے تھے۔

  • مدنپلی رتنا، گوراوا پرسکارا منڈلی کی جانب سے دیا گیا۔
  • ‘چتورو جلا اردو پتامہوڑو‘ 1999 میں آستانہ سیدانی ماں کے اجلاس میں چتور ضلع کے قابل اردو داں اور اردو کے ترویجی خدمات کے لیے بھی انھیں کے اعزاز سے نوازا گیا۔
  • فخر اردو ایوارڈ - اسلامیہ ایجوکیشنل اکیدڈمی، انجمن ترقی اردو پنگنور ضلع چتور، آندھرا پردیش۔ ۔[5] آپ کے اعزاز میں ایک سیمیناراور مشاعرہ کا اہتمام 30 مئی 2015 کو کیا گیا۔
اسلامیہ ایجوکیشنل اکیڈمی اور انجمن ترقی اردو کی جانب سے فخر اردو ایوارڈ لیتے ہوئے۔

وظیفہ یابی[ترمیم]

42 سال کی طویل درسی خدمت کے بعد 1988 میں وظیفہ یاب ہوئے اور شہر مدنپلی میں مقیم ہیں۔ وظیفہ یاب ہونے کے باوجود بھی اردو کی خدمات سے سبکدوش نہیں ہوئے۔ اردو زبان اور ترویج اسلامی ادب میں اپنا نمایاں کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ آپ کے شاگرد رایل سیما کے کئی حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. العظیم-صاحب-چتور-کی-کتابوں-کا-رس/[مردہ ربط]
  2. آندھرا بھومی تیلگو روزنامے میں رپورٹ
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 06 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2015 
  4. "جاپان اردو نیٹ جن میں رپورٹ"۔ 22 مئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2015 
  5. http://inkeshaf.com/ur/بنگلورشہر-میں-سیمینار-اور-مشاعرہ-کا-کا/#sthash.7MMkfYfU.dpbs[مردہ ربط]

بیرونی روابط[ترمیم]