محمد سلیم قادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(شہید محمد سلیم قادری سے رجوع مکرر)
محمد سلیم قادری
مناصب
امیر[1]   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1990  – 2001 
در پاکستان سنی تحریک 
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1960ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نانک وارہ (پان منڈی)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 مئی 2001ء (40–41 سال)[3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلدیہ ٹاؤن  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سیاسی قتل  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن سعید آباد[4]  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل سپاہ صحابہ[5]،  لشکرجھنگوی[6]  ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش سعید آباد  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان سنی تحریک
جمیعت علمائے پاکستان
آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد سلیم قادری پاکستان سنی تحریک کے بانی ہیں۔

ولادت[ترمیم]

سلیم قادری 1960ء میں پیدائش ان کے والدین قیام پاکستان کے وقت بھارتی صوبے گجرات سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ سیاست کا آغاز زمانہ طالبعلمی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا مگرجلدہی بریلوی مکتب فکرکی غیر سیاسی تنظیم دعوت اسلامی میں شمولیت اختیارکر لی جو 1984ء میں دیوبندی مکتب فکرکی ’تبلیٖغی جماعت‘ کے مقابلے میں قائم ہوئی تھی۔ 1988ء میں بلدیہ ٹاؤن کے علاقے سے شاہ احمد نورانی کی جماعت جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لیامگر ہار گئے۔ جس وقت ملکِ پاکستان میں سنی (اہلسنت و جماعت) مسلک کی مساجد پر قبضوں کا سلسلہ شروع ہوا اور عقائد اہلسنت کو مسخ کرنے کی ناپاک سازشیں جنم لینے لگیں تو ایسے حالات میں محمد سلیم قادری شہید نے 1990ء میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو پاکستان سنی تحریک کی بنیاد رکھی اور 1990ء سے 2001ء تک عوام اہلسنت کی خدمت کی۔

زندگی[ترمیم]

محمد سلیم قادری شروع ہی سے خاص مذہبی سوچ و فکر اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ میں سرشار شخصیت تھے۔ آپ اوائل میں دعوت اسلامی میں اعلیٰ مبلغ تھے جب آپ نے دعوتِ اسلامی میں رہ کر دینِ اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو آپ کو بے پناہ مشکلات پیش آئیں جن کی وجہ عوام میں مغربی (یہودی،مسیحی) ذہنیت و سوچ، بے ادب گستاخ گروہوں سے وابستگی اور نام نہاد آزاد خیالی (درحقیقت فحاشی و عریانی) سب سے بڑی مشکلات بن کر سامنے آئیں عشقِ رسول اللہ ﷺ کی ترویج و اشاعت میں۔ اس کے علاوہ خوارج کی جانب سے اہلسنت کی مساجد پر قبضہ اور روافض کی جانب سے مزاراتِ بزرگانِ اہلسنت پر قبضہ وہ خاص وجہ بنیں جس نے آپ کو حقوقِ اہلسنت اور نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کی خاطر سُنی تحریک کا قیام کرنے پر مجبور کیا۔

فکرِ[ترمیم]

شہیدِ نظامِ مصطفیٰ ﷺ محمد سلیم قادری نے کبھی کسی کے حقوق تلف کرنے کی بات نہیں کی۔ آپ غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی کے سچے مرید تھے۔ آپ کی سوچ و فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک ریاست ہو، مسلمانوں کا ایک بینک ہو، مسلمان نظامِ کفر سے نکل کر دوبارہ اسلامی معاشرہ تشکیل دیں، کسی کی عبادت گاہ پر قبضہ نہ ہو، کسی ولی اللہ کے مزار پر قبضہ نہ ہو، شرعیت کے اصول پر پاکستان گامزن ہو جائے، رشوت و سود و زنا و چوری و عریانی و کذب کا خاتمہ ہو جائے۔ سُنی تحریک شروع ہی سے فلسطین کی مقبوضہ ریاست کی آزادی اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے کوشاں رہی۔ سُنی تحریک فلسطینی معاملات میں حماس کی اور حماس کی حکومت کی بھی بڑی حامی ہے۔

وفات[ترمیم]

18 مئی 2001ء بروز 23 صفر جمعہ کا دن تھا۔ آپ اپنے بہنوئی، بھتیجے، بیٹے، محافظ اور ڈرائیور کے ہمراہ اپنی ڈبل کیبن کار پر نمازِ جمعہ کی امامت کے لیے روانہ ہوئے دوپہر کا وقت تھا کہ بلدیہ ٹاؤن قبرستان کے قریب آپ کی گاڑی پر اندھادھند تین طرف سے فائرنگ کی گئی۔ آپ نے زخمی حالت میں بھی اپنی پستول سے مقابلہ کیا اور ایک حملہ آور دہشت گرد کو مار گرایا لیکن آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ shaheed ہو گئے اس سانحے میں فقط آپ کے صاحبزادے محمد بلال قادری محفوظ رہے۔ آپ کو تقریباً 11 گولیاں لگیں۔ آپ کی نمازِ جنازہ سُنی تحریک کے رہنما افتخار احمد بھٹی نے پڑھائی۔

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]