صارف:محمد الطاف گوہر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تمام تعریف صرف ایک ذات اللہ کی جس کی دی ہو ئی قوت سے ہر کام پایا یہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور فقط اسی کا نام تھا او ر باقی رہنا ہے۔ کوئی بھی عمل یا کام اتفاق سے یا اچانک نہیں ہوتا بلکہ ہر حرکت کی باز گشت صرف ایک جگہ سے آتی ہے۔ تمام کمال جو اس قلم میں ہے ا سی کی مہربانی سے ہے۔ Mr. Muhammad Altaf Gohar

Work[ترمیم]

’میں‘(SELF ), دنیا اور زندگی[ترمیم]

ہر دور میں مختلف افراد اپنی بساط کے مطابق ’میں‘(SELF )کی تلاش میں نکلے، کسی نے کہا ’کی جاناں میں کون؟‘اور کوئی ’ان الحق‘ کا نعرہ لگا کر چلا گیا کسی نے خودی کا تصور دیا۔ غرض ہر نظر نے اپنے اپنے زاوئیے سے دیکھا اور جو دیکھا خوب دیکھا ۔ ہر شے کو دیکھنے کے360 زاوئیے ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر زاویہ ٹھیک ہو مگر ایک زاویہ ضرور حقیقت بتلاتا ہے۔ زاویہ، نظریہ، ترکیب بہر حال ایک تو ضرور ایسی ہوتی ہے جو حقیقت شناسا ہوتی ہے۔ اگر ہائیڈروجن گیس کے دو حصے اور آکسیجن کا ایک حصہ ملایا جائے تو نتیجتاً پانی بنے گا مگر ان دونوں گیسوں کو اور کسی بھی ترکیب سے ملایا جائے پانی نہیں بنے گا چاہیں کروڑوں طریقے آزمائے جائیں۔ یعنی ایک ہی زاویہ یا ترکیب کسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے وگرنہ دوسری ساری تراکیب و طریقے (زاوئیے، نقطہ نظر)سوائے گمراہی اور وقت کے ضیاع کے اور کچھ نہیں۔ تخلیق کا خاصہ ہے کہ وہ ان طاقتوں کو (جو ایک دوسرے کیلئے قربت کا مزاج رکھتی ہوں)ایک خاص نسبت (ترکیب)پہ ملا کر ایک نئی چیز معرض وجود میں لاتی ہے۔ جیسے قدرت کے رازوں میں سے ایک راز واضح کرتا چلوں کہ قدرت کس طرح عدم (غائب) سے کسی چیز کو ظاہر وجود میں لاتی ہے۔ یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن نظر نہ آنے والی گیسیں ہیں مگر جب دونوں ایک خاص ترکیب (H20) کی نسبت کے ساتھ ملتی ہیں تو ایک نئی چیز (پانی ) وجود میں آتا ہے جوکہ ایک جدا گانہ خاصیت رکھتا ہے اور دیکھا اور چکھا بھی جا سکتا ہے۔ اس دنیا کو ہم اپنی اپنی نظر اور زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ اور جو اخذ کرتے ہیں وہ ہماری اندر کی دنیا کا عکس ہے۔ ورنہ باہر کی دنیا ایک ہی ہے مگر نقطہ نظر اور تجربات زندگی مختلف۔ کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین کسی کو دنیا (زندگی ) حسین و دلفریب نظر آتی ہے اور کسی کو خاردار جھاڑی یعنی ہر کوئی دنیا کے بارے میں اپنا علیحدہ ہی نقطہ نظر رکھتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’میں ڈوبا تو جگ ڈوبا‘ یعنی ایک دفعہ ایک شخص پانی میں ڈوب رہا تھا۔ اس نے شور مچایا کہ مجھے بچاﺅ دونہ تمام یہ دنیا (جگ) ڈوب جائے گی۔ لوگوں نے اسے بچا کر کنارے پر پہنچایا اور پوچھا کہ یہ بات تو ٹھیک کہ تم ڈوب رہے تھے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اگر میں ڈوبا تو جگ ڈوبا؟ وہ شخص بولا بھئی اگر میں ڈوب کر مر جاتا تو میرے لئے تم سب مر گئے تھے نا یعنی میرے لئے تو دنیا ختم ہوگئی تھی “ اس مثل میں کتنی بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ ہر فرد کی اپنی دنیا اور اپنا زندگی کا تجربہ ہے۔ اب اندر کی دنیا بھی کئی منزلہ عمارت کی مانند ہے جسے ہم بچپن سے لے کر مرنے تک تعمیر کرتے ہیں اور اس کی منزلوں میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ہم میں سے کچھ لوگ تو اس عمارت کی بیسمنٹ میں رہتے ہیں کچھ گراؤنڈ فلور پر اور کچھ سب سے اوپر والی منزل پر۔ آپ اندازہ کریں کہ جو شخص اس کئی منزلہ عمارت کی بیسمنٹ میں رہتا ہو جہاں حشرات الارض (کیڑے مکوڑے) اور بدبودار ماحول ہے اسکو کس طرح سے اندازہ ہو سکتا ہے اس شخص کی زندگی کے بارے میں جو سب سے اوپر والی منزل میں رہتا اور قدرت کے نظارے ، صبح سورج طلوع ہونے کا منظر ، بادلوں کا آنا جانا ، غروب ہونا کا منظر وغیرہ دیکھتا ہے۔ غرض اپنے ہی اندر کوئی عذاب میں مبتلا ہے اور کوئی سکون کی لذت سے مالامال ہے۔ یعنی یہ کئی منزلہ عمارت ہمارے اپنے اندر (ذہن ) میں بنے ہوئے ماحول (Mind Set ) ہیں جن میں ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں اور کبھی تکلیف نہیں کرتے کہ اسکے بارے میں معلوم کریں؟ بچن سے اب تک جو کچھ ہم دیکھتے آئے ہیں، سنتے آئے میں سب کا سب ہمارے ذہن کا حصہ بن چکا ہے مگر اس سب کو ہم باہر سے اندر غیر جانب دار ہو کر ریکارڈ نہیں کرتے بلکہ اپنے عقیدہ (Belief System)کے تحت مرضی کی اشیاء اپنے ذہن کا حصہ بناتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ذہن میں شاندار طریقے سے ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ ہم تہہ در تہہ اس کو ذخیرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ سب ہماری زندگی پہ براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ خودی (SELF ) ہر فرد کے اندر سے اس دنیا ( زندگی )کی ہر چیز کا مشاہدہ کررہی ہے؟ اس دنیا کی ہر چیز تبدیل ہوتی ہے ہمارے نظریات تبدیل ہوتے ہیں، ہماری ذات، اردگرد کا ماحول ملک خاندان غرض ہر شے تبدیل ہوتی ہے مگر یہ مشاہدہ کرنے والی اکائی (میں - SELF ) کبھی تبدیل نہیں ہوتی بلکہ شہادت دیتی ہے کہ اب بچپن ہے اور یہ جوانی ہے اور یہ بڑھاپا ہے ہر چیز پہلے اسطرح تھی اور اب اس طرح ہو گئی غرض ہمارے اندر سے اس دنیا کی ہر تبدیلی پہ یہ اکائی (میں Self) شہادت دینے والی بن جاتی ہے۔ مراقبہ اپنے آپ کو جاننے کا ایک عمل ہے کہ دراصل ہم میں کون ہیں؟ اور ہمارے اندر کبھی نہ تبدیل ہونے والی اس (Self )سے رابطہ کیسے کیا جائے جبکہ اسکے ثمرات سے استفادہ حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے۔ (جاری)

لمحوں میں زندگی[ترمیم]

زندگی کے لمحے نہ گنو بلکہ لمحوں میں زندگی تلاش کرو کیونکہ یہ تو وہ شمع ہے جو اِک بار جل جائے تو بجھتی نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ دیے سے دیا جلائے بٹتی (Travel) چلی جاتی ہے۔ یہ روشن چراغ اگرچہ تمام دنیا کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے مگر اپنے اِرد گرد اندھیرا بھی نہیں ہونے دیتے۔ خودی (میں، Self) کا دیا تو عاجزی کی لو سے روشن ہوتا ہے۔ بلندوبالا پہاڑیوں کی کوکھ سے جنم لینے والے ہزاروں، لاکھوں چشمے، ندیاں، نالے اور دریا آخر سمندر کی گود میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں کیونکہ سمندر انکے مقابلے میں ہمیشہ پستی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم سیل رواں پر بہتے ہوئے کائی کے تنکے نہیں کہ حالات کی موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پہ رہیں اور جانے کب کوئی انجانی موج اُڑے اور اُٹھا کر کہیں پھینک دے یا پھر حالات کے گرداب میں پھنس کے اپنا وجود کھو بیٹھیں بلکہ ہم تو کامیابی اور سکون کے وہ سفینے ہیں جو عافیت کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ہم موت کے منہ میں ایک اور نوالہ نہیں ہیں بلکہ ہم تو وہ جلتی شمعیں ہیں جو دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشنی بانٹتی چلی جا رہی ہیں اور جہالت کی تاریکی کے سامنے ہم تو وہ چراغ ہیں جو دُنیا کو سورج کی طرح روشن نہ کر سکے مگر اپنے ارد گرد کو تو روشن رکھتے ہیں اور ہم تو وہ ٹھنڈی چھاﺅں ہیں جو تپتی دھوپ میں سایہ بنتے ہیں۔ ہم وہ جوہڑ نہیں ہیں جو زندگی کو فنا کا درس دیتے ہیں اور بقا کا خاتمہ کرتے ہیں بلکہ ہم تو علم و فن کے وہ چشمے ہیں جو زندگی کو بقاء کا درس دیتے ہیں جہاں سے ہر کوئی سیراب ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ اِسی وقت ممکن ہے کہ جب ہمارے اندر خودی (میں، Self) کا دیا جلتا ہے اور ہمارا رابطہ ازل سے جڑ جاتا ہے۔ اس کائنات میں کوئی شے بے مقصد پیدا نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی واقعہ حادثہ ہوتا ہے بلکہ ہر شے خاص مقصد کیلئے ہے اور ہر واقعہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے جبکہ ہماری سوچنے کی طاقت ہمارے معاملاتِ زندگی کے لیے ہدایتکار (Director) کا درجہ رکھتی ہے اور جو خیال ذہن میں ایک مرتبہ پیدا ہو جاتا ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا جبکہ وہ اپنی قوت اور مماثلت کے حساب سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ قلم جس سے میں لکھ رہا ہوں اور یہ پنکھا جس کی ہوا میں میں بیٹھا ہوں اور وہ کرسی جس نے مجھے بیٹھنے کی سہولت دی ہے اور وہ میز جس کے مرہون منت اِس تحریر کو لکھنے کی معاونت مل رہی ہے اور وہ بلب جس کی روشنی میں مجھے سب کچھ دکھائی دے رہا ہے اور یہ کاغذ جس پہ میں لکھ رہا ہوں اِن میں سے کوئی بھی بے مقصد نہیں بلکہ ہر شے اپنا مقصد پورا کر رہی ہے۔ اِن میں سے اگر کوئی بھی ایک شے اپنا مقصد پورا نہ کرے تو ہم فوراً اِس کو ردی کی ٹوکری یا کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیں گے کیونکہ جو اپنے مقصد سے ہٹ جائے وہ ہمارے لیے بے کار ہے۔ اب اگر قلم (Pen)میں سیاہی ختم ہو جائے یا میز کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا پھر پنکھا ہوا دینا بند کر دے یا بلب روشنی دینا بند کر دے (Fuse) تو کیا خیال ہے اِن کو ہم ایک لمحہ مزید برداشت کریں گے؟ جی ہاں ایک لمحہ بھی نہیں کیونکہ اِس سے ہماری روانی میں خلل آتا ہے اور ہمارے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو بھی چیز (چاہے وہ بے جان ہی کیوں نہ ہو) اگر اپنے کام اور مقصد سے ہٹ جائے گی تو وہ بالکل بے کار اور بے مقصد ہو جائے گی اور ہم اِسے ضائع کر دینا پسند کرتے ہیں، تو کیا خیال ہے ہم بغیر کسی مقصد کے پیدا ہوئے ہیں؟ ہم جو اِس کارخانہ قدرت کے عظیم شاہکار ہیں کِس کام پر لگے ہوئے ہیں، آیا ہم کارآمد ہیں یا بے کار ہو چکے ہیں؟اگر بے کار ہو چکے ہیں تو قدرت نے ابھی تک ہمیں ردی کی ٹوکری میں کیوں نہیں پھینکا؟ قدرت نے کائنات کی ہر شے ہمارے لیے تخلیق کی ہے جس طرف بھی نظر دوڑائیں کائنات کی ہر شے آپکے آ پنے لیے نظر آئے گی او ر اپنے وجود کے ہونے کا مقصد کو پورا کر رہی ہوگی۔ پھولوں میں خوشبو ہمارے لیے ہے اور پھلوں میں رس ہمارے لیے ہے، آبشاروں کے گیت ہمارے لیے ہیں، سرسبز و شاداب پہاڑوں کی بلند چوٹیاں جو دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں وہ بھی ہمارے لیے ہیں حتیٰ کہ کائنات کی سب مخلوق (Creature) ہمارے لیے مسخر کر دی گئی ہے مگر ہمیں معلوم نہیں کہ ہم کِس لیے ہیں۔ کائنات کی ہر شے دوسروں کے فائدے کیلئے ہے (نہ کہ اپنے لیے) جبکہ ہر چیز دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہے اور ہمیں درس دیتی ہے کہ ہم اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ازل سے ادیانِ عالم اِس کا درس دیتے آئے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے روابط کس طرح رکھنا ہے اور انکے لئے کس طرح فائدہ مند ہونا ہے اور لوگوں میں رہتے ہوئے زندگی کس طرح گزارنی ہے، وگرنہ اگر انسان نے اکیلے جنگل میں رہنا ہوتا پھر اس سب کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے سب کے ساتھ اِن روابط سے رہنا ہے جن کے باعث ایک صحت مند معاشرہ جنم لے اور زندگی کے ثمرات بحیثیت مجموعی حاصل کرنے ہیں ورنہ ایک شخص کی زندگی کے ثمرات اُس کیلئے بے معنی ہیں جب تک کہ وہ دوسروں کو اِس میں شامل نہ کرے۔ ہم کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟

آپ اگر گھڑی کو سامنے رکھ کر بیٹھ جائیں اور وقت کا گزرنا ملاحظہ کریں تو یقینا آپ گھنٹوں بھی بیٹھیں رہیں گے مگر آپ کو گھنٹوں اور منٹوں والی سوئیاں ساکن نظر آئیں گی جبکہ وقت گزرتا رہے گا یہ برف کی طرح پگھلتی زندگی کے ماہ سال صرف کسی اچھے وقت کے انتظار میں نہ گزار دیں بلکہ وہ لمحہ جو ہمیں بیدار کرتا ہے دراصل اِسی میں زندگی ہے اور باقی وہ لمحے اور پل ہیں جو ہمیں نیم خوابیدہ کرتے ہیں اور یہ وہ خود رو سلسلہ زندگی ہے کہ جہاں وقت کو ضائع کر رہے ہیں، وقت کو ہم اِسی طرح قید (Save) کر سکتے ہیں کہ اپنے پل زندگی کے بیدار لمحوں سے سیراب کر دیں۔

اسلام ا ور جدت پسندی[ترمیم]

اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور تمام انسانیت کو سلامتی ، عروج ، امن و عالمی بھائی چارہ کی کھلی دعوت دیتا ہے۔یہ خود سند و حجت ہے، جبکہ نا تو کسی مخصوص مکتبہ فکر اور مخصوص شعبہءزندگی کا مرہون منت ہے کہ اس کے پیمانے پہ پورا اترے او ر نا ہی اسے ہم اپنی کم علمی اور محدود سوچ کا پابند کر سکتے ہیں ۔ اکیسویں صدی میں اگر سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسلام کو سائنس کے پیمانے پہ تولیں بلکہ اگر تمام سائنسی پیش رفت کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ جو انکشافات آج سے چودہ سو سال پہلے ہو چکے ہیں ، آج سائنس کو صرف ان حقائق تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ جوں جوں انکشافات بڑھتے جا رہے ہیں ، اقوام عالم کی رغبت اسلام کیطرف بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ آج دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب صرف قرآن ہے جوکہ اسلام کی عالمگیریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔البتہ سائنسی علوم کا حصول اور تحقیق کا عمل مسلمان کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ قرآن ہمیں غوروفکر کی کھلی دعوت دیتا ہے- تمام الہامی ذرائع ایک اٹل حقیقت بیان کر گئے ہیں جو تبدیل نہیں ہو سکتی مگر انسان ابھی شعوری بالیدگی کے عمل سے گزر رہا ہے اور عقلِ کل نہیں بنا، لہذا جب انسانی ذہن اپنی خود ساختہ حد بندیاں توڑ کر آگے کی طرف بڑھتا ہے تو اسے روشنی کی نئی دنیائیں اور سوچوں کے نئے زاویے اور رابطے (Angles & Channels) دریافت ہوتے ہیں جبکہ الہامی باتیں ازل سے انتہا تک کی خبر دیتی ہیں۔کچھ لوگ جو فقط علمی اور فلسفیانہ جھمیلوں میں پڑے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ الہامی اور مذہبی علم کے آگے عقل کو استعمال نہےں کرنا چاہئے کیونکہ یہ دھوکا کھا جاتی ہے۔ انکی خدمت میں عرض ہے کہ علم کسی بھی لمحے کے لیے محدود نہیں کردیا گیا ، بلکہ ابھی تک کن فیکون کی صدا آ رہی ہے اور کائنات جو کہ مسلسل پھیل رہی ہے اور اپنے مرکز ( Zero Point ) سے دور ہوتی جارہی ہے جبکہ ہر لمحہ ہم ایک نئی جگہ پہ دریافت ہوتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں عقل جیسے انعام سے نوازا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ حقیقت سے کروا دیتا ہے ، لہذا علم کے باعث عقل کو وہ ترو تازگی حاصل ہوتی ہے جو کہ کائنات کے اس پھیلاﺅ سے ہم آہنگی اور سنت خداوندی سے روشناس کرواتی ہے اور ایک محدود ذہن کو وسعت دیتی ہے۔ اگر ایک لمحہ کیلئے مان لیا جائے کہ جدت سے ہماری درشتگی اپنی جگہ پہ درست ہے اور عقل کو پس پشت ڈال دیں ، تو پھر ہم بلب، ٹیوب لائٹ ، فریج ، ایرکنڈیشن ، گاڑی ، الیکٹرانکس آلات، ہوائی جہاز، سمندری جہاز، ٹیلی فون، موبائل ، کمپیوٹر وغیرہ وغیرہ جو کہ بنی نوع انسانیت کیلئے ناگزیر ہو چکے ہیں ان کو اپنی زندگی میں شامل کیوں کرتے ہیں؟

ع ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے؛ ”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں ) اللہ کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے) ہیں کہ اے پرور د گار تو نے اِس(مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔ تُو پاک ہے، تو (قیامت کے دن)ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو“ (آل عمران آیت:190-191 )

”اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کئے اور ہر طرح کے میوں کی دو د و قسمیں بنائیں وہ رات کو دن کا لباس پہنا تا ہے۔ غور کرنے والوں کیلئے ان میں بہت سی نشانیاں ہیں“ (سورت الرعد آیت:3)

” وہ جس کو چاہتا ہے ، دانائی بخشتا ہے اور جس کو دانائی ملی بے شک اس کو بڑ ی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں“(سورت البقرہ آیت: 2 69 )

یعنی قرآن پکار پکار کر عقل استعمال کرنے کو کہہ رہا ہے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور فکر کی کھلی دعوت دے رہا ہے۔اور اسی کے باعث زندگی میں تسلسل، اور عروج حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ انسان کی ترقی کے مدارج بھی یہی ہیں اور انہیں اعمال کے باعث ا نسان دائمی سکون، خوشی اور صحت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ قدرت نے کائنات کی ہر شے انسان کے لیے تخلیق کی ہے جس طرف بھی نظر دوڑائیں کائنات کی ہر شے آپکے آ پنے لیے نظر آئے گی او ر اپنے وجود کے ہونے کا مقصد کو پورا کر رہی ہوگی۔ پھولوں میں خوشبو ہمارے لیے ہے اور پھلوں میں رس ہمارے لیے ہے، آبشاروں کے گیت ہمارے لیے ہیں، سرسبز و شاداب پہاڑوں کی بلند چوٹیاں جو دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں وہ بھی ہمارے لیے ہیں حتیٰ کہ کائنات کی سب مخلوق (Creature) ہمارے لیے مسخر کر دی گئی ہے ۔ ازل سے ادیانِ عالم اِس کا درس دیتے آئے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے روابط کس طرح رکھنا ہے، انسانیت کیلئے فائدہ مند کیسے ہونا ہے، اور لوگوں میں رہتے ہوئے زندگی کس طرح گزارنی ہے، وگرنہ اگر انسان نے ا کیلئے جنگل میں رہنا ہوتا پھر اس سب کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے سب کے ساتھ اِن روابط سے رہنا ہے جن کے باعث ایک صحت مند معاشرہ جنم لے اور زندگی کے ثمرات بحیثیت مجموعی حاصل کرنے ہیں ورنہ ایک شخص کی زندگی کے ثمرات اُس کیلئے بے معنی ہیں جب تک کہ وہ دوسروں کو اِس میں شامل نہ کرے۔

بے شک تجسس انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور اس کے بل بوتے پر انسانی ذہن نے مختلف ادوار میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اور اسی باعث امکانات کے اسرار کھلتے ہیں اور انسانی سوچ کو بلند فضاؤں میں پرواز کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اب جبکہ شعوری بالیدگی کا دور دورہ ہے اور نئے نئے انکشافات نے پرانے اور دقیانوسی تصورات کی جگہ لے لی ہے دور حاضر کے مسلسل سائنسی انکشافات نے حقائق بیان کر کے شعوری پستی کی آنکھیں چکا چوند کر دی ہیں ۔ اگر پچھلی ابتدائی صدیوں کے انسان کو آج کے دور کے سلسلہء زندگی کو دیکھنے کا موقعہ ملے تو وہ سو فیصد غیر یقینی حالت میں چلا جائے گا کیونکہ پرانے وقتوں میں ایک انسان کیلئے ہوا میں اڑنا ،سمندر کے پانی میں سفر کرنا دور دراز کے فاصلے گھنٹوں میں طے کرنا یا پھر لاکھوں کلو میٹر دور بیٹھے شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہ صرف دیکھنا بلکہ بات بھی کر لینا یا پھر زمین کے کسی بھی کو نے سے دوسرے کو نے میں پلک جھپکتے میں بات کر لینا یا پھر اسے پیغام م بجھوا دینا کسی حیرت انگیز بات سے کم نہیں۔مگر آج کے انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یہ زمین ساری کی ساری اس کی دسترس میں آ گئی ہے اور یہ دنیا اب ایک چھوٹے سے بچے کے آگے صرف Mouse کی ایک Click کے فاصلے پہ ہے۔جبکہ فاصلے سمٹ چکے ہیں اور دنیا ایک Global Villageکی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ یہاں تک کہ دنیا کے ایک کونے میں سرکنے والے پتھر کی بازگشت دوسرے کونے میں سنای دیتی ہے۔مگر ہمارے دنیا کو ماپنے اور جاننے کے پیمانے وہی صدیوں پرانے ہیں؟

اس زمین پر ظہور انسانی سے ہر دور کے لوگو ں کا چند ایک سوالات سے واسطہ پڑتا رہا ہے جیسا کہ اس کائنات کا بنانے والا کون ہے؟ زمین پر زندگی کا آغاز کسیے ہوا ؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہم کیوں پیدا ہوئے اور کیو ں مر جاتے ہیں؟ آیا ان سب معا ملات کے پس پردہ کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے یا پھر سارا عمل خود بخود ہو رہا ہے ۔ہر دور کے لوگوں میں کائنات کے خالق کو جاننے کا جوش و خروش پایا جاتا ہے (یہاں ایک اصول واضح کرتا چلوں کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلے کا حل تلاش نہ کر سکے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے جانچے ۔ یعنی تمام امکانات کا جائزہ لے) ا کثر اوقات دیانتداری سے مسئلہ کو حل کرنے کی کاوش خودبخود ہی مسئلہ کو آسان بنا دیتی ہے ۔لہذا انہی خطوط پر چلتے ہوئے لوگوں میں معاملات زندگی کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو گئی ہے ۔یہ جاننے کیلئے کہ اس کائنات کا خالق کو ن ہے لوگوں نے اس کائنات (آفاق)کی تخلیق سے متعلق تحقیق کرنا شروع کر دی۔ کائنات کے راز کو جاننے کیلئے مختلف روش اختیار کی گیں۔

لوگو ں کے ایک گروہ نے آفاق کو اپنا مرکز چن کر کائنات کے اسرار کو جاننے کیلئے اسکا ظاہری مطالعہ شروع کر دیا نتیجہ نا صرف قوانین اور مظاہر قدرت کو جانا بلکہ انتہائی مفید مشینری الیکٹرانکس کے آلات و دیگر ایجادات کا ایک ڈھیر لگا دیا ۔ان تحقیقات کی بدولت سائنس نے ترقی کی اور نت نئی ایجادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا لہذا مستقل جستجو نے طبعی (Physical) اور زیستی (Biological) قوانین کے راز فاش کرنے شروع کر دیئے۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے باعث آجکا جدید دور ان لوگوں کی مستقل تحقیقات اور جدو جہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے اس کائنات کا ظاہری مطالعہ کیا ۔یہ تحقیق اپنی مسلسل پیش رفت کے باعث قدرت کے رازوں کو مسخر کرنے پر گامزن ہے ۔

پرانے وقتوں میں لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ یہ دنیا صر ف چار عناصر سے ملکر بنی ہے ۔زمین، پانی اور آگ اور ہوا، پھر سائنسی ایجادات کا سلسلہ چلا اور زیادہ سے زیادہ انکشافات سامنے آنے لگے اور یہ طے پایا کہ کائنات108 عناصر سے ملکر بنی تھی ۔پھر ان 108عناصرکی پیچیدگیوں کے مطالعہ کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ یہ تمام عناصر صرف ایک ذرہ ایٹم (ATOM) سے ملکر بنے ہیں اور ان عناصر میں صرف فرق ایٹم کی ترتیب کا ہے۔

اسکے بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم ہی بنیادی ذرہ نہیں بلکہ الیکٹران ہی وہ بنیادی ذرہ ہے جو تمام دنیا کی اساس ہے۔ تاہم الیکٹران کی دریافت ایک مسئلہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔الیکٹران اگرچہ بنیادی ذرہ کہلایا مگر یہ مطلق ذرہ والی فطرت ظاہر نہ کر پایا یعنی ایک وقت میں وہ متحرک بھی تھا اور غیر متحرک بھی۔ کبھی یہ ذرہ کا کردار ادا کرتا اور کبھی ایک لہر کی شکل میں ہوتا۔ یہ معاملہ سائنسدانوں کیلئے انتہائی پیچیدہ ہو گیا کہ وہ الیکٹران کی اصل تعریف کیسے کر سکیں ۔لہذا ایک نئی اخترا ع سا منے آئی اور الیکٹران دوہری خصوصیت کا حامل ٹھرا جو کہ لہر کے ذرات ا ور کبھی صرف ذرہ کی خصوصیت کا اظہار کرتا ۔ مگر جب اس الیکٹران پر مزید تحقیق جاری رکھی تو یہ کھوج ایک انتہائی درجے پر پہنچی کہ الیکٹران صرف اور صرف ایک کمترین توانائی کا ذرہ (Energy Particle)ہے اور یہ توانائی ہی کی خصوصیت ہے جو کہ اپنے آپ کو الیکٹران میں تبدیل کرتی ہے اور بعد میں اس مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مشہور سائنسدان البرٹ آئینسٹاین کی مساوات ۲ E= MC بھی تمام مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہونے کے عمل کہ تقویت دیتی ہے۔ سائنسدانوں کی تمام تحقیق اب تک ہمیں یہاں تک لانے میں یقینی طور پہ کامیاب ہوئی ہے کہ یہ درخشاں توانائی اپنے بنیادی درجہ پر اس کائنات میں جاری و ساری ہے جبکہ ہر چیز ایک مخصوص جگہ گھیرتی ہے اور پھر توانائی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

یہ تو بات ہو رہی تھی ا ن لوگوں کے بارے میں جنہوں نے مسلسل آفاق کی تحقیق سے زندگی کے چند اسرار کا اندازہ لگایا اور ہمیں ہستی کے نئے میدان میں لاکھڑا کیا۔ ان لوگوں کی سوچ تھی کہ اگر اس ظاہری کائنات کا کوئی خا لق ہے تو انکے وجود (جسم ) کا بھی کوئی خالق ہو گا ؟

لہذا اس سوچ سے وہ بھی اس تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہیں ، انہوں نے اپنی تو جہ کائنات کے ظاہری وجود سے ہٹا کر اپنے وجو د (نفس) کے اسرار کی کھوج میں لگا دی ۔ اس طرح انہوں نے آفاق سے ہٹ کہ مطالعہ نفس میں دلچسپی لی اور اپنی ذات پہ تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا تا کہ اپنے اندر کے رازِ حقیقت کو سمجھا جائے اس طرح سے علم نورانی کے سلسلے نے وجود پکڑا یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ تمام تجربات انسان کے اپنے (Software ) یعنی ذہن (MIND ) پہ کئے گئے نہ کہ جسم پہ۔ لہذا انہوں نے نفس کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا اور اپنے جسم و ذات پر یہ تحقیق شروع کر دی او اپنی توجہ اپنے ا ند ر مرکوز کر دی جسکے نتیجہ میں نفوذ کرنے کے بہت سے طریقہ کار دریافت کیے تا کہ ا پنے اندر کا سفر کرکے اس اکائی (جز) کو تلاش کیا جا سکے جو کے انکو اس کائناتی حقیقت سے مربوط کرتا ہے ۔ اس کوشش نے علم نورانی (علم مراقبہ) کے عمل کو تقویت دی ۔ تمام طریقہ کار جو کہ مختلف طرح سے مراقبہ کے عمل میں نظر آتے ہیں وجود پائے۔ جس کا عمل دخل کم و بیش ہر مذہب کی اساس معلوم ہوتا ہے۔ آ ج مراقبہ کے عمل میں جو جدت اور انواع و اقسام کے طریقہ کار نظر آتے ہیں انہی لوگوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے اپنے نفس کو تحقیق کیلئے چنا۔ ان تحقیقات اور مراقبہ کی مختلف حالتوں میں لوگوں نے محسوس کیا کہ اس سارے نظام عالم وجود میں شعوری توانائی کا نفوذ اور منسلکہ رشتہ ہے ۔

مراقبہ کی گہری حالتوں میں اب ہر فرد واحد کا واسطہ ایک ا ہم گہرا احساس دلانے وا لے وجود یعنی خودی ( میں،SELF) سے پڑا اور یہ اخذ کیا گیا کہ یہ جو سلسلہ کائنات میں توانائی کا عمل دخل نظر آتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک اعلی حس آگاہی (Supreme Consciousness) ہے جس کا اس کائنات میں نفوذ ہے ۔ اب ان تحقیقات مراقبہ اور سائنس میں کبھی کبھی ہم آہنگی ہونے کے ممکنات موجو د ہیں ۔ اس فطرت کی ہر شے کچھ نہیں سوائے ایک مطلق حس آگاہی کے ۔یہ ایک اعلی مطلق خبر آگاہی جسکا ہر طرف نفوذ ہے اور یہی وہ اللہ ہے جو کائنات میں ہمیں اپنی ذات کے اندر اور باہر محسوس ہوتا ہے

" اللہ نور السمٰوات ولارض"

"ھو اول و آخر ظاہر و باطن" کبھی اپنی ذات (خودی) سے تعلق ہمیں ایک رابطہ ملتا ہے کہ ہم اپنے اللہ کو جانیں

"من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ"

جدت پسندی (Modernism) ، جدیدت ( Modernity) اور کلیسائی جدیدت (Modernism -Roman Catholicism) کے مثلث (Triangle) کے فرق کو سمجھتے ہوئے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جدت پسندی ایک فطری عمل ہے اور انسانی زندگی کے ارتقائی عمل کا جمود توڑنے کا باعث بھی ہے۔ جبکہ جدیدیت اور کلیسائی جدیدیت کو اس فطری عمل سے مدغم نہیں کرنا چاہئے


بندگی[ترمیم]

بندگی یا عبادت سے مراد آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے یعنی بندہ اپنے رب کے سامنے جس عاجزی و تعظیم کی آخری حد کو چھو جاتا ہے اسکا نام بندگی ہے جو کہ تمام جن و انس کا مقصد حیات بھی ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی کریں “(الذر ےٰت 51 ،آیت 56 ) انسان کا مقصدِ حیات

اس کائنات میں جو بھی مخلوقات موجود ہیں وہ اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں اور ہر ایک کو اپنی عبادت کا طریقہ معلوم ہے اور اس میں غرق ہے ۔ جمادات(Minerals, Stoneبے حرکت کوئی نشونما نہیں، کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ)، نباتات ( Plant نشونما تو ہے مگر کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ) اور حیوانات (Animalسب کچھ ہے مگر محدود سمجھ بوجھ اور جبلت کے پابند) اور ایک ہم اللہ تعالیٰ کی شاندار مخلوق جسے اِرادہ (Freedom of Choice) اور خود مختاری دی گئی ہے اور ہم جبلت کے بھی غلام نہیں جبکہ ہمیں عقل جیسے اِنعام سے نوازا گیا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ کائنات کی اصل سے کروا دیتا ہے۔اور یہ علم کا ہی کمال ہے کہ ہم اپنی دنیا کی حد بندی کرتے ہیں۔ اسی علم کی بدولت انسان عروج و کمال کی اس منزل تک جا پہنچتا ہے جہاں اللہ کا نائب کہلانے کا حق دار کہلاتا ہے ۔ جبکہ اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بھی انسان کے پاس ہے ۔

مخلوقات اور بندگی

دوسری مخلوقات جو اس کائنات میں موجود ہیں ان کے بارے میں ربّ العزت فرماتے ہیں ۔

  • ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور پر پھیلا تے ہوئے پرندے بھی (اسکی تسبیح کرتے ہیں) اور ہر ایک (اللہ کے حضور ) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیں“ (نور 24 ،آیت41 )
  • ”سورج اور چاند (اسی کے) مقررہ حساب سے چل رہے ہے“ (الرحمن 55 ، آیت 5 )
  • ”اور زمن پر پھیلنے والی بوٹیاں اور سب درخت (اسی کو) سجدہ کررہے ہیں“(الرحمن 55 ، آیت 6 )

ربّ العزت کو بندے سے عبادت کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی

اگر ایک طرف دُعا مانگنا عبادت ہے تو دوسری طرف نماز ، روزہ، حج، عمرہ، ذکر، قربانی، جہاد، تبلیغ، ہجرت بھی عبادات کے زمرے میں آتے ہیں۔ عبادات ظاہری ہوں یا باطنی مقصد ایک ہے جبکہ دونوں طرح کی عبادت کے جداگانہ ضرورت بھی اہم ہے یعنی ظاہری عبادت کے اپنے ثمرات ہیں اور باطنی کے اپنے اب یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ آیا ربّ العزت کو بندے سے عبادت کروانے کی ضرورت کیو ں پیش آئی حالانکہ ربّ العزت کو اس کی ضرورت نہیں۔ اس کائنات میں جاری اللہ کی سنت کو سمجھتے ہوئے زندگی گزارنے کا عمل ہی عبادت کی روح ہے ،جبکہ بندہ اپنے ربّ کے سامنے عاجزی و انکساری کرتے وقت اس کےفےت سے گزرہا ہوتا ہے کہ جیسے گویا اپنے آپ کو تروتازہ (Neutralise) کررہا ہوتا ہے۔ کیونکہ معاملات زندگی میں سے گزرتے وقت ہم حالات واقعات پر دو اقسام کی رسائی (Approach ) رکھتے ہیں یعنی مثبت ( Optimistic )اور منفی (Pasimistic ) اور اگر ہم کسی شے تک منفی نقطہ نظر یا رویہ سے پہنچ کرتے ہیں تو یہ عمل ہمارے لئے ایک بُرا بیج (Seed ) ثابت ہوتا ہے اور اگر اس کو ختم نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ ایک تنا آور درخت بن کر ساری زندگی پر محیط پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ ہماری بد عملیاں اور منفی جذبے اور رویے (حسد، لالچ، مکر، فریب، دھوکہ دہی، نفرت اور خوامخواہ کے خوف وغیرہ) وہ زنگ ہیں جو ہمارے من (قلب) پہ زنگ کی ملمع کاری کی طرح تہہ در تہہ چڑھتے رہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ باہر کی روشنی اندر دکھائی نہیں دیتی اکثر اوقات خوش بختی، سکون اور راحت باہر سے دستک دیتے ہیں اور اندر آنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں مگر اندر کے یہ دُشمن اِنہیں گھسنے نہیں دیتے۔

ہر فرد کی اپنی دنیا اور اپنا زندگی کا تجربہ ہے مگر یہ اس بات پر انحصار کرتاہے کہ آپ کا علم کتنا ہے؟ یعنی جتنا علم زیادہ ہو گا اتنی دنیا بڑی ہو گی اور علم کے مطابق عمل پذیر ہوگا۔البتہ اگر علمِ نافع ہو تو عمل صالح ہو گا اور اگر علم اس کے تضاد میں ہو گا تو عمل بھی بد عملی کی شکل اختیار کر جائے گا۔ تمام وہ بداعمال جو ایک انسان سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ان سے وہ طرح طرح کی پریشانیوں اور بیماریوں میں مبتلا رہتاہے۔ جوکہ نتیجہ میں زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں۔ لہذا ان ملاوٹوں (Impurities ) سے چٹکارا پانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے طرح طرح کے عبادات کے انعامات(Gifts)بھیجے ہیں کہ میرا بندہ اگر انجانے میں مشکلات میں گھر گیا ہے تو وہ اپنی اصلیت اور نارمل حالت میں واپس آ جائے ۔ جبکہ عبادات وہ اچھے بیج، زاویے اور رابطے ہیں جو ہمیں خوشبختی کی نئی دنیاؤں سے روشناس کرواتے ہیں اور یہ بیج ہمارے اپنے اعمال کے باعث اپنا وجود پاتے ہیں۔ دراصل عبادت میں انسان اپنے اندر کے کل (Thermostat )کو درست کر رہا ہوتاہے۔ اگر ایک طرف نفرت کے کل کو درجہ صفر(Zero Value ) پہ لارہا ہوتاہے تو دوسری طرف محبت کو 100 کے درجے پہ لاگو(Set )کر رہا ہوتا ہے ۔اسی طرح غم کو اگر صفر درجہ پہ باندھ (Fix ) رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف خوشی کو 100 کے درجہ پہ لےجا رہا ہوتا ہے اور اس طرح جذبوں اور رویوں کےThermostat اپنی اعلیٰ حےثےت پہ قائم ہو جاتے ہیں۔

جدید سائنس اور عبادات

آج کی جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی ذہن ایک مقناطیس (Magnet )کیطرح سے کام کرتا ہے اور ہر وہ شئے اپنی طرف کھینچتا ہے جس کے بارے میں انسان سوچ رہا ہوتا ہے۔جیسا کہ خوشی کے مواقع پر انسان کو ہر طرف خوشی نظر آتی ہے جبکہ غم و پریشانی کے عالم میں دنیا بھر میں کرب اور تکلیف دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ در اصل اسی قانون کے مطابق ہے کہ انسانی ذہن جس سوچ و فکر میں مگن ہے وہ اپنے اردگرد اسی طرح کے حالات و واقعات اکٹھا کرتا جارہا ہے ۔آپ اسکو ایک ایسا ہی عمل کہہ سکتے ہیں جیسے آپ انٹر نیٹ پر سرچ انجن جیسے Google میں جا کر کچھ تلاش کرنا چاہیں تو سرچ انجن ویب سائٹ آ پکو لاکھوں نئی ویب سائٹس لاکر آپ کے سامنے رکھ دے گا مگر یہ تمام ویب سائٹس اس سے ملتے جلتے ہوں گے ۔جو کچھ آپ سرچ باکس میں لکھیں گے اور ملتی جلتی معلومات کا ڈھیر لگ جائے گا۔اسکو تلازمہ(Like Attracts Like)بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تلازمہ خیال اس وقت کام کرتا ہے جب کسی بات ،لفظ ،فکرکو ذہن میں تصور (imagine, Visualize) کرکے بے خیال (Free Mind) ہو جائیں یا پھر اسکی تکرار کرتے ہیں اور نتیجہ میں اسکے ثمرات حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ ایک صفاتی نام السلام (The Source of Peace) جب کسی زبان سے ادا ہوتا ہے یا ذہن سے تصور کیا جاتا ہے تو کائنات سے سلامتی ،امن کا رجوع اس انسان کی طرف رابطہ (Channal)بنتا ہے جبکہ اس کے ثمرات صحت و سلامتی کے باعث بنتے ہیں۔

بندگی کے ثمرات

عبادات میں دراصل انسان کے اندر Read/Write کا عمل وقوع پذیر ہورہا ہو تا ہے اگر ایک طرف توبہ گناہوں اور بد عملیوں کے اثرات کا قلع قمع کررہی ہوتی ہے تو دوسری طرف مثبت جذبے اور رویے اپنے اعلیٰ درجوں پہ (Optimum Level ) پہ قیام پذیر ہو رہے ہوتے ہیں۔اور ان کے ثمرات ہماری زندگی کو حالت مثبت(Optimism ) کی طرف لےجا رہے ہوتے ہیں۔ انسان کی تمام پریشانیاں اور تکالیف اسکے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں جبکہ عبادت ایک ایسا عمل ہے جو کہ انسان کو واپسی کی طرف لانے کا موجب بنتا ہے جس کے باعث ایک انسان اپنے قلب و سوچ کو شفاف کرتا ہے جو کہ منفی سوچ اور عمل کے باعث زنگ آلودہ ہو چکا ہوتا ہے۔ جب زندگی کے تسلسل کا عمل چلتا ہے تو انسان خیر و شر دونوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے اور عبادات جو کہ اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہیں ایک انسان کو اس کے زندگی کے تسلسل کو قدرتی انداز میں رکھنے کا باعث بنتی ہیں.جبکہ بندہ اپنے ربّ کے سامنے عجزو انکساری کررہا ہوتا ہے اور اس کے اندر کی حالت بھی تبدیل ہورہی ہوتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ انسان اپنے ربّ کی نعمتوں کا شکر ادا کرکے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر تاہے۔ اور چاہتا ہے کہ اللہ بندے کے گناہوں کو بخش دے ، صالحین میں شامل کرے اور د نیا میں خاتمہ ایمان پہ ہو اور آخرت میں بخشش عطا فرما دے۔

لذت آشنائی - فنا و بقا[ترمیم]

آنکھوں میں چھپا ہوا انتظاراور یاسیت کا عالم، لگتا ہے زندگی یہاں سے سسکتی ہوئی گزر رہی ہے۔مکمل سکوت اور ہو کا عالم ہے، جیسے پت جھڑ کے موسم میں کچھ باقی ماندہ پتے ہلکی سی ہوا چلے تو اپنا دامن شاخوں میں چھپا لیتے ہیں کہ شاید پھر بہار آئے اور پھر سے ہرے بھرے ہو جائیں ، مگر یہ سردوخشک ہوا پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتی اور اپنی لپیٹ میں سب کچھ اڑا لیجاتی ہے۔

ان نیم واوں آنکھوں میں کونسا انتظار چھپا ہے؟ زندگی کتنے رنگ و زاویے بدلتی ہے، کبھی مثلث بناتی ہے تو کبھی دائرہ مگر انجام سے بے خبر نہیں اور اپنی انتہا کو ضرور چھوتی ہے، جبکہ ہراک ابتدا کا ایک انجام مقدر ہے جو ٹل نہیں سکتا ۔ اگر یہ زندگی مثلث میں سفر کرتی ہے تو اک اٹھان سے شناسا ہوتی ہے اور عروج کا مقام دیکھتی ہے مگر اچانک اسے ڈھلان کا احساس ہوتا ہے اور آخر زوال سے ناطہ جوڑ لیتی ہے۔ اور جب کبھی دائرہ میں سفر کرتی ہے تو پھر ہر لحظہ کروٹیں بدلتی ہے اور وہی سفر دوہراتی ہے اور آخر زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ہر بہار پت جھڑ کوچھوتی ہے اور اپنا انجام خزاں میں دیکھتی ہے یہ صرف اور صرف قدرت کا نظام ہے جو ازل سے رواں دواں اور فنا و بقا کا تسلسل ہے۔

شجر پہ آخر ی لٹکتا پتہ بھی اس امید میں ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بہار آجائے اور وہ پھر سے ہرا بھرا ہو جاوں ، مگر فنا اسے اپنی اٹل حقیقت سے روشناس کرواتی ہے جو کہ اسکی اصل منزل اور انجام ہے۔ کیا فنا اتنی ظالم ہے کہ اسکا ہر درس تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں؟ ایسا نہیں ہے! بلکہ حقیقت شناس زاویہ تو ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ہر فنا اک نئی بقا کا نقطہ آغاز ہے ۔ ایک ایسا لاثانی آغاز کہ جیسے ہر نئے روزکا چڑہتا ہوا سورج اک نئے دن کی نوید سناتا ہے اور گزشتہ رات کی فنا کا شاندار نظارہ پیش کرتا ہے۔ مگر اکثر ہم اس گزشتہ رات کے دامن میں لپٹی ہو ئی نئی صبح کی صدا سننے سے قاصر رہتے ہیں اور رات کی گمنامی میں گم ہو جاتے ہیں۔

زندگی اپنا سفر کبھی نہیں روکتی ، کبھی سسکتے صحراوں سے گزرتی ہے تو خزاں کا نظارہ پیش کرتی ہے اور کبھی سرسبزوشاداب وادیوں سے گزرتی ہے تو لطف و کرم کا منظر پیش کرتی ہے اور بہار کا سما ں بندہ جاتا ہے یہ سماں بھی کتنا دلربا ہے کہ لمحات مسرتوں سے لبریز ہوجاتے ہیں اور لذت کا چشمہ قلب سے جاری ہو جاتا ہے جسکا ادراک صرف اور صرف اس تجربہ سے گزرنے والوں کو ہو سکتا ہے ۔ہر آواز موسیقی کی طرح پرد ہ سماعت پر وارد ہوتی ہے،زندگی اٹھکھیلیاں کرتی نظر آتی ہے ،خوشبو کی طرح فضاﺅں میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے ۔ ممکنات کے دروازے کھلے نظر آتے ہیں جبکہ قاہ او ر آہ بھی لذت سے معمورہوتے ہےں ۔

اور کبھی زندگی کا گزر سنگلاخ چٹانوں سے ہو تو نئی امنگو ں اور توانائیوں کو جنم دیتی ہے اور کبھی ریتلے اور تپتے صحراوں سے ہو تو ہر طرف ہو کا عالم چھا جاتا ہے اور کبھی اسکا گزر گاتی ہوئی آبشاروں سے ہو تو لطف و کرم کے جام انڈیلتی ہے اور کبھی برفیلے پہاڑوں کاسفر درپیش ہو توسست روی اور تکان کا منظر دیکھائی دیتا ہے اور ہر حال میں اپنا سفر جاری وساری رکھے ہوئے ہے۔

مگر ایک بار تو اسے تپتی دھوپ میں اک سایہ دار درخت کے نیچے روکا دیکھا !!!! کہیں آنکھوں کا دھوکا تو نہیں !!!! وقت بھی رک چکا تھا !!!! یہاں زندگی کو وصل و قربت کی لاثانی لذتوں سے سرشار ہوتے اور الفتوں کے جام انڈھیلتے دیکھا۔لمحوں کو اس لذت آشنائی کے صدف میں گوہر ہوتے دیکھا۔ صدیوں بعد وقت کوسستانے کا موقع حاصل ہوتے دیکھا۔اجنبی راہوں نے مدت بعد اک شناسا چہرہ دیکھا جبکہ ہرطرف بہار ہی بہار تھی ۔ لمحے اپنی موج میں غرق تھے کہ اچانک زندگی نے جست بھری اور رخت سفر باندہ لیا ، پھر کبھی نفرتوں کی شاموں میں اور کبھی خوشیوں کے ہنگاموں میں اپنا سفر جاری رکھا۔

وہ لمحے جو زندگی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے چلتے ہیں ، وہ بھی کب تک ؟ آخرکہیں تو انکا سفر ختم ہونا ہے۔کبھی تو یہ لمحے مسرتوں سے لبریز ہوتے ہیں اور کبھی دکھوں اور اذیت کا مزہ چکھتے ہیں، تو کبھی لطف و کرم کا!!! کیا یہ لمحے پانی کی سطح پہ تیرتے بلبلے کیطرح اپنا وجود ختم کر دیں گے؟ نہیں !! یہ تو جلتی شمیں ہیں جو دیئے سے دئیا جلائے رکھتی ہیں ، یہ تو بدلتی رتیں ہیں جو بہاروں کو اپنے اند ر سمیٹے ہوئے ہیں ۔ توڑ دو ذھن کی ان حدوں کو جو فنا میں لپٹی بقا کا تصور کرنے سے قاصر ہیں !!! توڑ دوں ان خود ساختہ حد بندیوں کو جو اس آشنائی کے دور میں بھی شناسا ہونے سے روکتی ہیں !!! اس موڑ سے آگے منزل ہے ، مایوس نا ہو درتا جا

ایک نوید سحر ، اک نئی کونپل آخر کس طرح ممکن ہے؟ اگر زندگی اپنا سفر جاری نہ رکھے تو کچھ بھی ممکن نہیں۔اگر اک نئی صبح کی آمد آمد ہے تو اک رات بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی۔ ہررات اک نئی صبح دیکھتی ہے اور ہر اندھیرا روشنی کا منہ چومتا ہے ۔ ہر لمحہ اک نئی کروٹ بدلتا ہے کیونکہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور ہم ہر لمحہ اک نئی جگہ پہ دریافت ہوتے ہیں۔ہر ماضی اک نئے حال سے روشناس ہوتا اور ہر حال ایک مستقبل کا ادراک کرتا ہے ، ہر بقا اپنی فنا دیکھتی ہے اور ہر فنا کے دامن سے اک بقا کا نمو ہوتا ہے ، یہی قانون قدرت ہے اور یہی درس کائنات کے ذرے ذرے کو معلوم ہے ۔

[ترمیم]