صارف:Shaukat041

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

٧== القرآن ==

  1. یعنی مومن صرف وہ ہیں۔جو خدا اور رسول ﷺ پرایمان لائے۔اور جب کبھی کسی معرکہ میں نبی ﷺ کے ساتھ ہوئے۔ تو بغیر اجازت کے کبھی وہاں سے نہ ہٹے۔(القرآن۔۔24-62)
  2. سلیمانُ بیٹا اپنے باپ داؤد کا وارث ہوا۔۔(16..27 القرآن)
  3. یعنی زکریاُ نے کہا کہ (اے پالنے والے) میں اپنے بعد بنی اعمام کے تصرف ناجائز سے ڈرتا ہوں۔ تو مجھے باوجودیکہ میں نہایت بوڑھاہوں اورمیری زوجہ بھی بانجھ ہےمگر اپنی قدرت سے بیٹا دے دےجو میرا اور میرے بزرگوں کا وارث ہو۔(مریم۔۔16--5)
  4. یعنی اللہ تمہاری اولاد میں وراثت جاری کرنے کی وصیت کرتا ہے۔ لہذا مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔(4-11)
  5. یعنی ہم نے والدین اور اقرباء کے ترکہ میں ہر ایک کے بلا استثنا وارث قرار ديئے ہیں۔(4-33)
  6. یعنی جان لو کہ جو چیز بھی تم لوگ بطور غنیمت پاءو۔اس کا پانچواں حصہ اللہ کا اور رسولﷺ کا اور رسول ﷺ کے اقرباء کا اور ان کے یتیموں ،مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔۔(القرآن 41-8)
  7. اے رسول ﷺ کہہ دو کہ انفال صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی چیز ہے۔تم لوگ خدا سے ڈرو ،اپنی اصلاح کرو۔اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو۔اگر تم مومن ہو۔( سورۃ انفال 1-8) یعنی وہ شے ہے جو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو دلائی ہے۔اسی وجہ سے اس کو انفال اور فے کہا جاتا ہے)
  8. یعنی گاؤں والوں سےجو جائیداد بغیر جنگ کے اللہ نے اپنے رسول کو کفار سے دلائی ہے۔پس وہ اللہ کے لیے ہے۔اور رسول ُ کے لیےاور رسول ُ کے قرابت داروںاور ان کے گھرانہ کے یتیموں ،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔تاکہ وہ دولت تمہارے مالداروں میں گھومتی نہ رہے۔ اور دیکھو جو چیزتم کو رسول ُ دیںوہ لے لو ۔اور جس چیز سے تمہیں روکیںاس سے الگ تھلگ رہو ۔اور خدا سے ڈرو۔یقیناََ اللہ کی سزا بڑی سخت ہوتی ہے۔۔(7-59)
  9. ماں باپ اور اقرباءکسی کے بھی ہوں۔ ہم نے ہر مرنے والے کے وارث قرار دیئے۔ (القرآن)
  10. آیا وہ رہبری کا حق رکھتا ہے کہ جو لوگوں کو راہ حق کی طرف ہدایت کرے یا وہ کہ جو ہدایت نہیں کرتا بلکہ خود محتاج ہدایت ہے۔(القر آن)
  11. اے پیغمبر ُ کی اہل بیت ، خدا تو بس یہ چاہتا ہے۔ کہ تم سے( ہر طرح) کی برائی دور رکھے اور جو پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے۔ (القرآن)
  12. اور جب کوئی سودا بکتا دکھائی دیتا ہے۔ یا کوئی تماشا نظر آجاتا ہے۔تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں۔آپ ان سے کہہ دیجیئے۔ کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ اس کھیل اور تجارت سے بہتر ہے۔اور اللہ بہترین روزی دینے والا ہے۔(القر آن)
  13. ایک مرتبہ رسول ُ نماز جمعہ کا خطبہ ارشاد فر رہے تھے۔ کہ کسی نے خبر دی کہ ایک تجارتی قافلہ آیا ہے۔یہ سن کر لوگ اطراف پیغمبر ُ سے اُٹھ کر قافلہ کی طرف دوڑ گئے۔اور آنحضرت ُ کو تنہا چھوڑ دیا۔
  14. حضرت محمد ُ اکثر حضرت فاطمہ علیہ السلام کو سونگھ کر کہتے تھے۔ کہ اس خاتون جنت سے بہشت کی خو شبو آتی ہے۔کیونکہ یہ اس میوہ جنت سے پیدا ہوئی ہے۔ جو جبرائیل نے مجھے شب معراج کھلایا تھا۔
  15. وہ لڑائیاںاور جھگڑےجواصحاب کے درمیان پیش آئے۔جو کتب تواریخ میں مذکور اور ثقہ حضرات کی زبانوں پر مشہور ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ صحابہ میں سے بعض لوگ راہ حق سے ہٹ گئے تھے۔اور ظلم و فسق کی حد میں پہنچ گئے تھے۔جس کا باعث یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے سے کینہ اور دشمنی رکھتے تھے۔باہم حسد تھا۔مخاصمت تھی۔حکو مت اور اقتدار کی طمع تھی۔دنیا کی لذتوں اور خواہشوں پر جھک گئے تھے۔لیکن کیوں۔اس لیے کہ ہر صحابی معصوم نہیں۔اور ہر وہ شخص جس کو لقاء نبی ُ نصیب ہوا۔یہ ضروری نہیں کہ اس کو ہمیشہ کے لیے نیکی کا نشان مل گیا۔یعنی تمام صحابہ معصوم نہ تھے۔
  16. یہاں تک کہ جب تم نے ہمت ہار دی اور نبوی حکم کے بارہ میں مخا لفت کی اور عین اس وقت تم نے نافرمانی کی جب کہ اللہ تم کو تمہاری پسندیدہ چیز (فتح)دکھا چکا تھا۔ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طلبگار رہتے ہیں۔ اور کچھ لوگ آخرت کے طلبگار رہتے ہیں۔ (العمران ۔ ۳۔۱۵۲)
  17. جب کہ تم اوپر (پہاڑ پر)چڑھےچلے جاتے تھے۔ اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے۔حالانکہ تمہارے پیچھے سے رسول ُ تم کو پکار رہے تھے۔ (العمران ۔ ۳۔۱۵۲)
  18. یعنی تم میں سے جو لوگ جنگ احد سے بھاگ گئے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی۔ کہ ان کو شیطان نے ان کے ماضی کے کچھ اعمال کی وجہ سے نیک راستہ سے ہٹا دیا تھا۔ (العمران ۔ ۳۔۱۵۲)
  19. اصحاب رسول اس وقت (جنگ احد میں)چار قسم پر ہو گئے۔ ایک نے تو جنگ کی، دوسرے وہ لوگ جو شہید ہو گئے۔تیسرا وہ گروہ تھاجو بھاگ کر پہاڑ کی گھاٹیوں میں چھپ گیا۔ چوتھا گروہ شہر پہہنچ گیا۔ اور وہیں ٹھہرا رہا۔اور عثمان بن عفان اسی چوتھے گروہ میں سے تھے۔
  20. جنگ خیبر میں خلیفہ اول و خلیفہ ثانی ہر دو حضرات علم لشکر لے گئے تھے۔اور یہ مسلم ہے۔ کہ دونوں حضرات فتح نہ کر سکے۔اور بے نیل و مرام واپس آئے۔۔ آخر کار سرکارُ نے علی المرتضی کو طلب فرمایا۔ جو اس وقت تک آشوب چشم کی شدید تکلیف میں مبتلا تھے۔ سرکار ُ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا ۔ اور اس سے ان کے صحب یاب ہونے پر علم دے کر بھیجا۔ تو یہ مہم سر ہوئی۔ سرکار ُ نے علی المرتضی کو علم دیئے جانے کا ذکر ایک روز پہلے فر دیا تھا۔ لیکن اس ذکر میں علی کا نام نہیں لیا تھا۔ بلکہ علم پانے والے کی صفات و علامات بتاتے ہوئے فرمایاتھا۔ کہ (یعنی کل میں رایت(سب سے بڑا علم)ضرور ضرور دوں گا۔ ایک مرد کو جو کرار، غیر فرار ہےاور اللہ اور اس کے رسولُ کو دوست رکھتا ہے۔اور اللہ اور اللہ کا رسول ُ اس کو دوست رکھتے ہیں۔ وہ فتح کئ بغیر واپس نہیں آئے گا۔)
  21. یعنی جنگ احد میں لشکر کفار نے اتنی سخت کار زار کی کہ مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور حضرت رسول ُ کو تنہا چھوڑ گئے۔ حضرت اس پر غضبناک ہوئے۔ ایسے کہ ان کی مبارک پیشانی سے پسینہ کے قطرے ٹپکنے لگے۔ اسی حالت میں سرکار نے علی بن ابی طالب کی طرف نظر فرمائی۔ جو نبی ُ کے پہلو میں کھڑے ہوئے تھے۔ سرکار ُ نے فرمایا۔کہ علی تم اپنے بھائیوں سے کیوں نہ ملحق ہوئے۔ یعنی تم نے کیوں نہ فرار کیا۔ علی نے جواب دیا۔ کیا میں ایمان کے بعد کفر اختیار کرتا۔ میں تو آپ کا فرمانبردار ہوں۔مجھے بھاگنے والوں سے کیا واسطہ اسی اثنا میں کفار کا ایک گروہ آں حضرت کی طرف بڑھا۔ سرکار ُ نے فرمایا۔ اے علی اس گروہ مخالف سے میری حفاظت کرو۔ اور میری خدمت کا حق بجا لاؤ۔ کہ یہ نصرت کا وقت ہے۔
  22. پس علی نے اس مقام پر ایسا سخت حملہ کیا۔ اور ان کا ایسا قلع قمع کیا۔ کہ بہت سے ان میں سے دوزخ پہنچ گئے۔ اور باقی ماندہ لوگ متفرق ہو گئے۔ کہتے ہیں۔ کہ اس روز حضرت امیر (علی)کے جسم پر سولہ زخم آئے تھے۔ جن میں چار زخم اتنے شدید تھے۔ کہ ان کے پہنچنے کی وقت جناب امیر ہر مرتبہ زین سے زمین پر گر جاتے تھے۔ اور ہر مرتبہ جبرائیل امین ان کو اٹھا کر سوار کرتے تھے۔ اور کہتے تھے۔کہ اے علی جنگ کیجئے۔ جبکہ خدا اور خدا کے رسول ُ تم سے خوشنود ہیں۔جب جبرائیل امین نے علی کی ایسی جان فشانی دیکھی تو حضرت رسول ُ سے اس جان فشانی کا ذکر کیا۔ تو آنحضرت ُ نے جبرائیل امین سے فرمایا۔ علی کیوں نہ ایسی جان فشانی کرے (کہ وہ مجھ سے ہے۔اور میں اس سے ہوں۔جبرائیل امین نے کہا کہ میں آپ ُ اور علی دونوں سے ہوں۔)منقول ہے کہ اسی جنگ میں (رضوان)(خازن جنت)علی کی منقبت میں پڑھتے تھے۔ کہ ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں۔اور حیدر قرار کے سوا کوئی بہادر نہیں۔ اسی جنگ میں نادِ علیا مظہرالعجاءب کا نازل ہونا۔ بیان فرمایا ہے۔ (یعنی اے رسول علی کو پکارو جن سے عجاءبات کا ظہور ہوتا ہے۔)

الحدیث[ترمیم]

1[ترمیم]

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے۔کہ میں پیغمبر اسلام کے پاس تھا۔حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں سوال کیا گیا آنحضرت نے فرمایا۔حکمت دس حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ان میں سے نو حصے حضرت علی علیہ السلام کودیئے گئے ہیں۔اور ایک حصہ دوسرے لوگوں کو دیا گیا ہے۔اور حضرت علی علیہ السلام اس دسویں حصہ میں بھی ان سے اعلم ہیں۔

2[ترمیم]

رسول خدا ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص حضرت نو ح کو ان کے پختہ ارادہ میں اور حضرت آدم کو ان کے علم میں اور حضرت ابراہیم کو ان کے زہد میں دیکھنا چاہتا ہے۔ تو اسے چاہیے کہ حضرت علی علیہ السلام بن ابی طالب کی طرف دیکھے۔

3[ترمیم]

ہر نبی کے لیےوصی اور وارث ہوتا ہے۔اور میرے وصی و وارث حضرت علی علیہ السلام بن ابی طالب ہیں۔

4[ترمیم]

میرے بعد میری امت میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے علی علیہ السلام بن ابی طالب ہیں۔

5[ترمیم]

اپنی مجلسوں کو حضرت علی علیہ السلام کے زکر سے زینت دو۔ (ابن مغازلی جناب عائشہ سے نقل کرتے ہیں)

6[ترمیم]

ایک عورت کو جس نے زنا کیا تھا۔عمر کے پاس لایا گیا۔عمر نے حکم دیا کہ اسے سنگسارکر دیا جائے۔لوگ اسے سنگسار کرنے کے لیے لے کر جانے لگے۔علی علیہ السلام کی ان سے ملاقات ہوئی۔تو مولا نے پوچھا ۔اس عورت کا کیا قصور ہے۔لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے ماجرا بیان کیا ۔حضرت علی علیہ السلام نے سنگسار کرنے سے منع کیا ۔اور عمر کے پاس آئے۔عمر نے کہا ۔آپ نے حکم جاری کیوں نہیں ہونے دیا۔حضرت علی علیہ السلام نے کہا۔یہ عورت کم عقل ہے۔جو فلاں قبیلہ سے ہے۔بے شک رسول خدا نے فرمایا۔تین طرح کے لوگوں سے تکلیف اٹھا لی گئی ہے۔ ۔۔اس شخص سےجو سویا ہوا ہے۔جب تک کے اٹھ نہ جائے۔ ۔۔بچہ سے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے۔ ۔۔دیوانہ سے جب تک کہ وہ صحیح نہ ہو جائے۔ یہ سن کر عمر نے کہا۔اگر علی علیہ السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔

7[ترمیم]

علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی علیہ السلام کے ساتھ ہے۔

8[ترمیم]

علی علیہ السلام مومنوں کے امیراور مسلمانوں کے سید و آقا ہیں۔

9[ترمیم]

ام المومنین ام سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے علی علیہ السلام ، فاطمہ ، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا: پروردگار! یہ میرے اہلبیت ہیں۔ (طبرانی؛ العجم الکبیر ج 3 - طبری جامع البیان فی تفسیر القراآن ج 22) 10 ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا : حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام جننتی جوانوں کے سردار ہیں ۔ ( حاکم ؛ امستدرک ج 3 - سیوطی ؛ الدرالمنثور )

11[ترمیم]

انس بن مالک فرماتے ہیں نبی اکرم سے عرض کیا گیا: آپ کو اہلبیت میں سے سب سے زیادہ کس سے محبت ہے ؟ آپ نے فرمایا حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام سے۔ (ترمذی - ابولمناقب - درالسحابة فی مناقب القرابة و الصحابة)

12[ترمیم]

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے :نبی اکرم نے فرمایا جس نے حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام سے دشمنی رکھی اُس نے مجھ سے دشمنی رکھی ۔ (ابن عدی ، الکامل )

13[ترمیم]

قرآن کی ایک آیت نازل ہوئی (سورہ الاحزاب آیت 33) جسے آیت تطہیر کہا جاتا ہے۔ اس روایت کو بے شمار علما نے اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں بھی نقل کیا ہے۔ آیت کا ترجمہ ہے کہ خدا نے ارادہ کر لیا ہے کہ آپ لوگوں سے رجس کو دور رکھے اے اہل بیت اور آپ کو پاک و پاکیزہ رکھے۔ یہ روایت صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح منقول ہے جس میں انہوں نے یمنی چادر کی جگہ اونٹ کے بالوں سے تیار کردہ سیاہ چادر کا ذکر کیا ہے

14[ترمیم]

حدیث کساء

  • حدیث کساء (حديث الكساء) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک مشہور حدیث ہے جس کی مستند روایات بے شمار کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ حدیث حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے اور بے شمار لوگوں نے اسے مزید روایت کیا ہے جن میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نمایاں ہیں۔ یہ حدیث صحیح مسلم، صحیح ترمذی، مسند احمد بن حنبل، تفسیر طبری، طبرانی، خصائص نسائی اور دیگر کتابوں میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اسے ابن حبان، حافظ ابن حجر عسقلانی اور ابن تیمیہ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ یہ حدیث قرآن کی ایک آیت کی وجہ نزول بھی بتاتی ہے جسے آیہ تطہیر کہتے ہیں۔ تمام حوالوں کی فہرست نیچے درج کی جائے گی۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے۔ وہ ایک بڑی یمنی چادر اوڑھ کر آرام فرمانے لگے۔حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح نورانی تھا۔ تھوڑی دیر میں نواسہ رسول حضرت حسن علیہ السلام بن علی علیہ السلام گھر آئے تو انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ بعد میں انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا اور انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ کچھ دیر بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے نواسے حضرت حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام آئے۔ انہوں نے بھی نانا کی موجودگی محسوس کی سلام کیا اور چادر اوڑھ لی۔ کچھ دیر کے بعد حضرت علی علیہ السلام ابن ابوطالب کرم اللہ وجہہ تشریف لائے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا جنہوں نے انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں بھی اجازت لے کر چادر میں داخل ہو گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چادر پکڑی اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے خدا یہ ہیں میرے اہل بیت ہیں، یہ میرے خاص لوگ ہیں، ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے۔ جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔ جو ان سے لڑے میں بھی ان سے لڑوں گا اور جو ان سے صلح کرے میں ان سے صلح کروں گا۔ میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمتیں اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے لیے اور ان کے لیے قرار دے۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک کر بہت ہی پاک

15[ترمیم]

حضرت مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

16[ترمیم]
  • حضرت عبداللہ بن زبیر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔ حضرت ابو حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔
  • حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ ہوتیں۔
  • ایک اور مشہور حدیث (جو حدیث کساء کے نام سے معروف ہے) کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک یمنی چادر کے نیچے حضرت فاطمہ، حضرت علی علیہ السلام و حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ بے شک اللہ چاہتا ہے کہ اے میرے اہل بیت تجھ سے رجس کو دور کرے اور ایسے پاک کرے جیسا پاک کرنے کا حق ہے۔
17[ترمیم]

ایک روایت کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر حضرت فاطمہ کو سونگھ کر کہتے تھے کہ اس خاتونِ جنت سے بہشت کی خوشبو آتی ہے کیونکہ یہ اس میوۂ جنت سے پیدا ہوئی ہے جو جبرائیل نے مجھے شبِ معراج کھلایا تھا

18[ترمیم]

حضرت فاطمہ کے بارے میں احادیث۔ ان میں سے کچھ ہی یہاں درج کی جارہی ہیں۔ حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں

19[ترمیم]

اے فاطمہ بے شک کل قیامت میں علی علیہ السلام اور ان کا اتباع کرنے والے نجات پائیں گے۔اور انہیں خدا کی نعمتیں نصیب ہوں گی۔

20[ترمیم]

احمد بن حنبل ، سعید بن زبیر ابن عباس سے نقل کرتے ہیں۔کہ انہوں نے کہا ۔جس وقت آیہ مودت نازل ہوئی۔تو لوگوں نے پوچھا۔ اے رسول خدا ُ جن حضرات کی محبت ہم پر واجب ہے۔وہ کون لوگ ہیں۔۔آنحضرت ُ نے فرمایا۔علی و فاطمہ اور ان کے دو فرزند۔ اس جملہ کی حضور اکرم ُ نے تین مرتبہ تکرار کی۔(بخاری۔سیوطی۔طبرانی۔محب طبری)

  1. ہرنبی کاایک وصی و وارث ہوتا ہے اور بے شک میرے وصی و وارث علی علیہ السلام بن ابی طالب ہیں۔
  2. علی علیہ السلام کا دوست خدا کا دوست اورعلی علیہ السلام کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔
  3. علی علیہ السلام حجت خدا اور بندوں پر خلیفہ ہیں
  4. علی علیہ السلام سے محبت ایمان اور علی علیہ السلام سے دشمنی کفر ہے۔
  5. علی علیہ السلام قر آن کے ساتھ ہیں اور قر آن علی علیہ السلام کے ساتھ ہے۔
  6. علی علیہ السلام مو منوں کےامیر اور مسلمانوں کے سید و آقا ہیں۔
  7. علی علیہ السلام کے شیعہ قیا مت میں کامیاب ہیں۔
  8. علی علیہ السلام جنت اور جہنم کے تقسیم کرنے والے ہیں۔
  9. جو علی علیہ السلام سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا اور جو مجھ سے جدا ہوا وہ خدا سے جدا ہوا۔۔
  10. علی علیہ السلام انسانوں میں سب سے بہتر ہیں۔جو ان کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
  11. اپنی مجلسوں کو حضرت علی علیہ السلام کے ذکر سے زینت دو۔ ابن مغازلی جناب عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔
  12. میرے بعد میری امت میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے علی علیہ السلام بن ابی طالب ہیں۔ (کنزالعمال)
  13. حضرت علی علیہ السلام نیک لوگوں کے امام اور فاسق و فاجر افراد کو قتل کرنے والے ہیں۔جو ان کی مدد کرے گا اس کی مدد کی جائے گی۔اور جو انہیں رسوا کرے گا اسے ذلیل و رسوا کیا جائے گا۔ (کنزالعمال)
  14. اے فاطمہ بے شک کل قیامت میں علی علیہ السلام اور ان کا اتباع کرنے والے نجات پائیں گے۔اور انہیں خدا کی نعمتیں نصیب ہوں گی۔
  15. جو شخص بغض آل محمد پر مرے گا ۔وہ کفر کی موت مرے گا۔
  16. جو شخص بغض آل محمد پر مرے گا ۔وہ جنت کی بو نہیں سونگھ سکتا۔
  17. علی علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں علی علیہ السلام سے ہوں۔(جابر بن عبداللہ انصاری)
  18. علی علیہ السلام کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی علیہ السلام سے تھی۔(جابر بن عبداللہ انصاری)
  19. جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی علیہ السلام مولا ہیں۔(جابر بن عبداللہ انصاری)
  20. علی علیہ السلام خود میری طرح ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی نا فر مانی میری نافرمانی ہے۔(جابر بن عبداللہ انصاری)
  21. علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنا خدا کے ساتھ جنگ کرنا ہے اور علی علیہ السلام کے ساتھ صلح کرنا خدا کے ساتھ صلح کرنا ہے۔۔(جابر بن عبداللہ انصاری)
  22. علی علیہ السلام کا لشکر خدا کا لشکر ہے اور علی علیہ السلام کے دشمن کا لشکر شیطان کا لشکر ہے۔۔(جابر بن عبداللہ انصاری)
  23. علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہیں اور حق علی علیہ السلام کے ساتھ ہےدونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔جہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے۔
  24. احمد بن حنبل ۔سعید بن زبیر ، ابن عبا س سے نقل کرتے ہیں۔کہ انہوں نے کہا جس وقت آیہ مودت نازل ہوئی۔تو لوگوں نےپوچھا۔اے رسول ُ جن حضرات کی محبت ہم پر واجب ہے ۔وہ کون لوگ ہیں۔آنحضرت ُ نے فرمایا ۔علی علیہ السلام و فاطمہ اور ان کے دو فرزند۔اس جملہ کی حضور اکرم ُ نے تین مرتبہ تکرار کی۔(بخاری۔سیوطی۔طبرانی۔محب طبری)
  25. جو محبت آل محمد پر مرے گا۔وہ مومن اور ایمان کامل کے ساتھ مرے گا ۔
  26. جو محبت آل محمد پر مرے گا ۔وہ توبہ و مغفرت کے ساتھ مرے گا۔
  27. جو محبت آل محمد پر مرے گا ۔وہ شہید مرے گا۔
  28. جو لوگ جنگ احد سے بھاگ گئے تھے۔ان میں عثمان بن عفان بھی تھے۔موضع اعوض میں جا کر قیام کیا ۔اور وہاں سے تین دن کے بعد رسو اکرم ُ کی خدمت میں واپس آئے۔جن کو دیکھ کر آنحضرت ُ نے فرمایا ۔کہ تم لوگ بہت ہی دور چلے گئے تھے۔
  29. اہل سنت ۔۔اگر خدا کا عذاب نازل ہو تو عمر کے علاوہ کوئی نہیں بچ سکتا۔
  30. مامون کے کہا۔۔(اے پیغمبر ُ جب تک آپ امت میں ہیں تب تک خدا وند عالم ان پر عذاب نہیں کرے گا۔( القرآن)
  31. میرے بعد ان دونوں (ابو بکر و عمر )کی اقتداو پیروی کرنا۔
  32. عقیدہ کے اعتبار سے دونوں میں اختلاف تھا۔ عمر نے ابو بکر سے کہا ۔خالد بن ولید کو مالک بن نویرہ کے قتل کے جرم میں معزول کر کے اسے قتل کر دیجیئے۔ لیکن ابو بکر نے قبول نہیں کیا۔ ابو بکر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا۔ اور عمر کو اپنی جگہ قرار دیا۔ لیکن عمر نے خلافت کے مسئلہ کو چھ آدمیوں کی کمیٹی کے سپرد کیا۔ وغیرہ
  33. اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر نبوت کے لیے مبعوث ہوتے۔
  34. ہم نے ہر نبی کو بھیجنے سے پہلے اس سے نبوت کا عہدہ پیمان باندھا۔ (القرآن)
  35. اگر میں اپنے لیے کسی کو دوست و خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا۔۔
  36. آنحضرت ُ نے صحابہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔اور فرمایا میں نےتمہیں خود اپنے لیے بھائی بنایا ہے۔۔
  37. ابو بکر و عمر جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔
  38. جنت میں بوڑھے نہیں ہوں گے۔مگر یہ کہ وہ جوان ہو جائیں گے۔(حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام جوانان جنت کے سردار ہیں)
  39. رسول خدا نے گواہی دی ہے کہ عمر ان دس افراد میں سے ہیں۔جو اہل جنت ہیں۔
  40. اگر ایسا ہے تو پھر عمر نے حذیفہ یمانی کو قسم کیوں دی کہ میں بھی منافقین میں سے ہوں۔تو اس سے معلوم ہوتا ہے ۔کہ عمر کو رسول خدا کی بات پر اعتماد نہیں تھا۔ اور آنحضرت ُ پر اعتماد نہ ہونا۔ خود عمر کے کفر کی دلیل ہے۔ اور کفر و جنت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔
  41. آپ ُ نے انبیاء کی میراث کا نہ ہونا دوسروں سے تو بیان کر دیا لیکن جو بیٹی وارث ہو سکتی تھی۔اس کے لیے کچھ بھی نہ فرمایا۔علی المرتضی علیہ السلام کو شہر علم نے علم کا سرمایا دے کر باب علم بنایا۔مگر جس مسئلہ کا علی علیہ السلام سے نہایت ہی قریبی واسطہ تھا۔وہ مسئلہ ان کو بھی نہ بتایا۔چوتھی طرف صحاح ستہ جیسی کتب حدیث کو حرف غلط قرار دینا۔اور ان کے بیانات کو کالعدم قرار دینا ۔یہ سب کچھ کس لیے۔ محض اس لیے کہ حضرات خلفاء پر کسی قسم کا کوئی الزام نہ آئے۔ میں پوچھتا ہوں۔کہ اس مسئلہ فدک میںاگر آپ نے یہ مان بھی لیا ۔کہ فاطمہ زہرا کی طلب غلط تھی۔اور حضرات شیخین کا فیصلہ صحیح تھا۔ تو کیا اس سے ان حضرات کو عصمت و طہارت کا درجہ مل گیا۔اور وہ معصوم ثابت ہو گئے۔ ہرگز نہیں۔۔
  42. یہ بھی کہا جاتا ہے ۔ کہ فدک آنحضور ُ کی ملکیت نہ تھا ۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے۔ کہ نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔
  43. یعنی عروہ ابن زبیر سے منقول ہے۔کہ عائشہ نےان کو خبر دی ہے۔کہ فاطمہ بنت رسول ُ نے بعد وفات رسول ُ ابو بکر سے سوال کیا۔ کہ رسول للہ سے جو میراث مجھ کو پہنچتی ہے۔وہ مجھے دو۔ ابو بکر نے کہا کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ہمارا متروکہ صدقہ ہے۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ ابو بکر پر غضبناک ہوئیں۔ اور مرتے دم تک فاطمہُ نے ان سے صاحب سلامت تک نہ کی۔(صحیح بخاری و مسلم جلد 2صفحہ 91 سطر 15 ،امام احمد بن حنبل
  44. علی علیہ السلام و فاطمہ کا شرف صحابیت پر ختم نہیں ہوتا بلکہ صحابیت ان کےشرف کا نقطہ آغاز ہے۔ )
  45. کیا سیدہ کا دعوی فدک پر صرف تولیت حاصل کرنے کے لیے تھا۔
  46. کیا سیدہ کے دعوی کا مقصد صحابہ کی غیر جانب داری کو نمایاں کرنا تھا۔
  47. کیا سیدہ حکومت کے فیصلہ پر راضی اور مطمئن ہو گئی تھیں۔
  48. فیصلہ حکومت پر سیدہ کا غضبناک ہونا صیحین میں مرقوم ہے۔
  49. ابو بکر کی پیغمبر ُ کے ساتھ پہلی مخالفت۔
  50. ابو بکر نے پیغمبرُ اسلام کی پہلی مرتبہ مخالفت اس وقت کی جب آپ ُ قبا، میں توقف کر کے حضرت علی علیہ السلام کے منتظر تھے۔ابو بکر آنحضرت ُ کے اس فعل سے کافی دل تنگ اور ناراض تھے۔لہذا آپ ُ پر اعتراز کیا۔ ابو بکے نے آنحضرت ُ سے کہا چلیئے مدینہ چلتے ہیں۔کیوں کہ وہاں لوگ آپ کے پہنچنے سے بہت خوش ہوں گے۔اور آپ کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔لہذا آپ ُ حضرت علی علیہ السلام کےانتظار میں توقف مت کیجیئے۔اور چليئے مجھے گمان نہیں ہے۔کہ وہ ایک مہینہ میں بھی یہاں پہنچ پائیں گے۔رسول خدا ُ نے فرمایا۔ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ وہ عنقریب یہاں پہنچ جائیں گے۔ میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا۔ جب تک کہ میرے بھائی جو کہ مجھے خاندان میں سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہیں۔نہ پہنچ جائیں۔ کیوں کہ وہی ہیں۔کہ جنہوں نے مشرکین سے بچانے میں اپنی جان کو میرے لیئے سپر قرار دیا۔ لہذا ابو بکر آپ ُ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔اور رسول خدا ُ حضرت علی علیہ السلام کے انتظار میں قباء رہ گئے۔ ابو بکر کا یہ عمل حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی کی علامت تھی۔ جو کہ پیغمبر اسلام ُ کے سامنے ظاہر ہوئی۔۔
  51. گیارہویں ہجری کے شروع میں پیغمبر اسلام ُ نے لوگوں کواسامہ بن زید کی سرداری کی دعوت دی۔تاکہ لوگ لشکر اسامہ کے ساتھ روم کی طرف جائیں۔ نیز آپ ُ نے فرمایا۔ خدا لعنت کرے اس شخص پر جو اسامہ بن زید کے لشکر سے مخالفت کرے۔اور شاید آپ ُ کا مقصد یہ تھا ۔چوں کہ آپ ُ کی وفات کا وقت قریب تھا ۔ لہذا مدینہ میں کوئی منافق نہ رہے۔تا کہ علی علیہ السلام کی خلافت کے سلسلہ میں کوئی اختلاف نہ ہو۔البتہ بعد منافقین سمجھ گئے۔کہ پیغمبر اسلام ُ سخت بیمار ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر آنحضرت ُ کی وفات ہو گئ ۔ اور ہم مدینہ میں نہ رہیں ۔تو حضرت علی علیہ السلام خلیفہ بن جائیں گے۔لہذا انہوں نے اسامہ کے لشکر سے مخالفت کی اور اس بیچ آنحضرت ُ نے دنیا سے رحلت فرمائی۔
  52. اس طرح سعد بن عبادہ نے جو کہ قبیلہ خزرج کا ریئس تھا۔ قبیلہ خزرج کی ایک جماعت کے ساتھ ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔اور قیس بن سعد بن عبادہ نے کہا ۔اگر خلافت ابو بکر کا حق تھا ۔تو پیغمبر اسلام ُ نے اسامہ بن زید کو ابو بکر اور عمر پر امیر و حاکم کیوں بنایا تھا۔ سب سے پہلے ابو بکر کی عمر نے بیعت کی ۔اس کے بعد ابی عبید بن جراح نے، اس کے بعد قبیلہ اوس نے ، اس کے بعد اعلان کر دیا گیا ۔کہ ابو بکر کی خلافت پر امت نے اجماع کر لیا ہے۔ابو بکر کے خلیفہ مقرر ہونے کے بعدبارہ صحابیوں نے علانیہ طور سے ابو بکر کی خلافت کا انکار کیا ۔جب کہ ان بارہ میں سے چھ آدمی مہاجرین میں سے تھے۔اور چھ انصار میں سے تھے۔ جن کے اسماء اس طرح ہیں۔۔۔
  53. خالد بن سعد بن العاص۔ ۲۔سلمان فارسی۔ ۳۔ ابو زرغفاری۔ ۴۔ مقدار بن اسود۔۵ ۔عمار بن یاسر۔ ۶۔بریدہ بن الخصیب اسلمی۔ ۷۔ابو الھیثم بن تیہان۔ ۸ ۔خزیمہ بن ثابت (ذی شہادتین)۔۹۔سہل بن حنیف۔۱۰۔ عثمان بن حنیف۔۱۱۔ابی بن کعب ۔ ۱۲۔ ابو ایوب انصاری
  54. ان بارہ افراد نے ابو بکر کی خلافت کا اعلانیہ طور پر انکار کیا اور بنی ہاشم و زبیر بن عوام و عتبہ بن ابی لہب اور براء بن عازب نے بھی ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔ یہ سبھی حضرت علی علیہ السلام کی طرف مائل تھے۔
  55. جو محبت آل محمد پر مرے گا۔ اسے ملک الموت جنت کی بشارت دے گا۔ پھر منکر و نکیر اس کو بشارت دیں گے۔
  56. جو محبت آل محمد پر مرے گا۔اسے احترام کے ساتھ اس طرح جنت میں لایا جائےگا۔ جس طرح دلہن کو شوہر کے گھر لاتے ہیں۔
  57. جو محبت آل محمد پر مرے گا۔ اس کی قبر میں جنت کی طرف دو دروازے کھول دئیے جائیں گے۔
  58. جو محبت آل محمد پر مرے گا۔ خداوند عالم اس کی قبر کو فرشتوں کی زیارت گاہ قرار دے گا۔
  59. جو شخص بغض آل محمد پر مرے گا۔ قیامت کے دن وہ اس صورت میں محشور کیا جاءے گا۔ کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا ۔ کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔
  60. ابو سعید خدری اور انس بن مالک حضرت رسول خدا ُ سے حدیث بیان کرتے ہیں۔ کہ آنحضرت ُ نے فرمایا۔ اے علی علیہ السلام تم میرے بعد میری امت میں وہ چیزیں بیان کرو گے۔ جن میں لوگ اختلاف کریں گے۔اے علی علیہ السلام تم ہی میرے بدن کو غسل دو گے۔ اور میرے دین کی تبلیغ کرو گے ۔ اور مجھے قبر میں اتارو گے۔ اور میرے وعدوں کو پورا کرو گے۔ اور تم ہی دنیا و آخرت میں میرے علمبردار ہو۔
  61. عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے۔ کہ میں پیغمبر اسلام ُ کے پاس تھا۔ حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں سوال کیا گیا۔ آنحضرت ُ نے فرمایا ۔حکمت دس حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ ان میں سے نو حصے حضرت علی علیہ السلام کو ديئے گئے ہیں۔ اور ایک حصہ دوسرے لوگوں کو دیا گیا ہے۔ اور حضرت علی علیہ السلام اس دسویں حصہ میں بھی ان سے اعلم ہیں۔
  62. جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ُ نے فرمایا۔ خداوند عالم نے علی علیہ السلام اور ان کی زوجہ اور ان کے فرزندوں کو اپنی طرف سے لوگوں پر حجت قرار دیا۔ اور وہ میری امت میں میرے علم کا دروازہ ہیں۔ جو ان کے زریعہ ہدایت حاصل کرے گا ۔ اسے صراط مستقیم کی ہدایت حاصل ہو جائے گی۔
  63. جو شخص اس درخت سے جو کہ سرخ یاقوت کا ہے ۔ فاءدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ جسے خداوند عالم نے جنت عدن میں اگایا ہے ۔ تو اسے چاہیے کہ علی علیہ السلام سے محبت و دوستی کرے۔۔
  64. اے علی علیہ السلام تمہیں حلال زادہ کے علاوہ کوئی دوست نہیں رکھے گا۔ اور ناپاک مولود (حرام زادہ)کے سوا کوئی دشمنی نہیں رکھے گا۔
  65. رسول خدا ُ نے فرمایا ۔جو شخص حضرت نوح کو ان کے پختہ ارادہ میں اور حضرت آدم کو ان کے علم میں اور حضرت ابراہیم کو ان کے حلم میںاور حضرت موسی کو ہوش میں اور حضرت عیسی کو ان کے زہد میں دیکھنا چاہتا ہے۔تو اسے چاہیے کہ حضرت علی علیہ السلام بن ابی طالب کی طرف دیکھے۔۔۔
  66. کیا میں تمہیں ایسے شخص کی طرف راہنمائی نہ کروں۔کہ اگر اس کی باتوں پر عمل کرو گے۔ تو کبھی بھی گمراہ و ہلاک نہیں ہو سکتے۔ سب نے کہا کیوں نہیں۔ یا رسول اللہ ُ۔ آنحضرت ُ نے فرمایا۔ وہ شخص یہ ہیں۔ اور پھر حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا ۔ ان کے ساتھ بھائی چارگی قائم رکھو۔ اور ان کی نصرت و مدد کرو۔ ان سے سچی محبت و سچی دوستی رکھو۔ اور ان کی نصیحتوں پر عمل کرو۔ میںنے جو کچھ بھی کہا ہے۔ اس کے بارے میں مجھے جناب جبرائیل نے خبر دی ہے۔
  67. اے لوگو اپنی اولاد کا امتحان علی علیہ السلام کی محبت کے زریعہ کرو۔ کیونکہ علی علیہ السلام کسی کو بھی گمراہی کے راستہ پر نہیں لے جائیں گے۔ اور کسی کو بھی راہ راست سے دور نہیں کریں گے۔ جو فرزند بھی انہیں دوست رکھے گا۔ وہ تم سے ہے۔اور جو بھی اس سے دشمنی کرے گا وہ تم سے نہیں ہے۔
  68. مومن کے نامہ( اعمال) کا عنوان حضرت علی علیہ السلام کی محبت ہے۔
  69. پیغمبر اکرم ُ نے فرمایا ۔حضرت علی علیہ السلام کی محبت برائیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے۔ جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔
  70. حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی جوان بہادر نہیں اور سوائےذوالفقار کے کوئی شمشیر نہیں۔حضرت علی علیہ السلام کی شان اقدص میں میدان احد میں جناب جبرائیل کی زبان پر یا جنگ بدر میں جناب رضوان کی ذبان پر جاری ہوئی۔اور دونوں صورتوں میں میدان جنگ سے متعلق حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت و بہادری کا اعلان ہے۔۔
  71. خدایا اپنے محبوب ترین بندہ کو میرے پاس بھیج۔ تاکہ اس پرندے کو میرے ساتھ کھائے۔ خدایا کسی کو بھیج کہ اس کھانے کو کھائے جسے تو دوست رکھتا ہے۔ اور وہ تجھے دوست رکھتا ہو۔نیز تیرے پیغمبر ُ کو دوست رکھتا ہو۔اور تیرا پیغمبر ُ اسے دوست رکھتا ہو۔(ابن مغازلی)
  72. حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام ُ کے پاس تشریف فرما ہوئے۔پھر دونوں نے ایک ساتھ اس پرندہ (مرغ) کو کھایا۔ الحدیث
  73. رسول خدا ُ نے حضرت علی علیہ السلام کو بلا کر فرمایا۔اے علی علیہ السلام آپ سے صلح و آشنی کرنا مجھ سے صلح و آشنی کرنا ہے۔ اور آپ سے جنگ کرنا گویا مجھ سے جنگ کرنا ہے۔اور آپ میرے بعد میرے اور میری امت کے درمیان پرچم ہیں۔
  74. رسول خدا ُ نے فرمایا جو شخص میرے قرض اور وعدوں کی ضمانت لے گا ۔وہ میرا خلیفہ اور وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔
  75. رسول خدا ُ نے فرمایا۔ پل صراط سے کوئی نہیں گذر سکتا۔ سوائے اس کے کہ جسے علی علیہ السلام پروانہ (عبور)لکھ دیں۔
  76. ابن عباس کہتے ہیں ۔ میں نے پیغمبر اسلام ُ سے عرض کیا۔ آپ کے اقرباء جن سے محبت کرنا واجب ہے۔کون ہیں۔
  77. آپ ُ نے فرمایا۔ علی علیہ السلام و فاطمہ زہرااور حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام ہیں۔
  78. رسول خدا ُ نے فرمایا۔ میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔جب تک ان سے متمسک رہو گے۔ میرے بعد گمراہ نہیں ہو سکتے۔ان میں ایک دوسرے سے بزرگ ہے۔ ایک خدا کی کتاب جو آسمان سے زمین تک ہے۔ دوسرے میری عترت و اہل بیت ہیں۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔
  79. رسول خدا ُ نے فرمایا۔ اے علی علیہ السلام تم قیامت کے دن جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والے ہو۔
  80. جناب ابو زر غفاری سے منقول ہے۔ کہ رسول خدا ُ نے فرمایا۔ میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے۔ جو اس میں سوار ہو گا ۔نجات پائے گا۔ اور جو اس سے دوری اختیار کرے گا۔ ہلاک ہو جائے گا۔
  81. رسول خدا ُ نے فرمایا ۔ میرے بعد بہت فتنہ و فساد برپا ہو گا۔پس جب بھی اس طرح کا فتنہ و فساد پھیل جائے۔ تواس وقت حضرت علی علیہ السلام سے متمسک رہنا۔ اس لیے کہ علی علیہ السلام مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ بے شک وہ قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سےملاقات کریں گے۔اور سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ وہ(علی) صدیق اکبر اور اس فاروق امت ہیں۔ کہ حق و باطل کوجدا کرنے والے ہیں۔اور وہ مومنین کے پیشوا و امیر ہیں۔اور مال دنیا منافقین کا پیشوا ہے۔
  82. جناب سلمان فارسی سے روایت ہے۔کہ میں حضرت رسول خدا ُ کی خدمت میں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسین آپ کے زانوئے اقدس پر بیٹھے ہیں۔ اور آپ ان کی چشم مبارک اور ہونٹوں کا بوسہ لے رہے ہیں۔ اور کہہ رہے ہیں۔ کہ تم سید کے فرزند سید ہو۔تم امام کے فرزند امام ہو۔ تم حجت خدا کے فرزند حجت خدا ہو ۔اور نو حجت خدا کے والد ہو۔ جن میں سے نویں قائم ہیں۔
  83. رسول خدا ُ نے فرمایا۔ میں انبیاء کا سید و سردار ہوں۔ اور علی علیہ السلام اوصیا کے سید و سردار ہیں۔ اور میرے بعد بارہ اوصیا ہوں گے۔ ان میں سے پہلے علی علیہ السلام ہیں۔اور آخری قاءم و مہدی ہیں۔(میرے بعد میرے بارہ خلیفہ ہوں گےنقباء بنی اسرائیل کے برابر اور وہ سب کے سب قریش سے ہیں )(اس دین کی عزت و بقا ہمارے بارہ خلفاء سے متمسک رہنے میں ہے۔اورپوری امت کو چاہیے۔کہ ان کی پیروی کرے۔بخاری و مسلم و ترمذی اور ابو داءود)
  84. میں خدا کا بندہ اور رسول خدا کا بھائی ہوں۔ میں صدیق اکبر ہوں۔ جو بھی میرے بعد اس کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہے۔ اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز ادا کی ہے۔ (ثعلبی۔ عبادہ بن عبداللہ سے روایت)
  85. رسول خدا ُ نے فرمایا۔ صدیقون تین افراد ہیں ۔حبیب بن موسی نجاراور وہ مومن آل یٰس ہیں۔ حزقیل مومن آل فرعون اور علی علیہ السلام بن ابی طالب کہ وہ ان میں سب سے افضل ہیں۔ (بخاری۔ ابن عباس کے حوالہ)
  86. یوشع بن نون نے جناب موسی کی طرف سبقت کی۔ اور صاحب یٰس نے جناب عیسٰی کی طرف سبقت کی۔ اور علی علیہ السلام نے محمد ُ کی طرف سبقت کی۔(فقیہہ شافعی ابن مغازلی)
  87. خداوند عالم نے ہر نبی کی نسل و اولاد اس کے صلب میں قرار دی لیکن میری نسل و اولاد علی علیہ السلام بن ابی طالب کے صلب میں قرار دی۔(طبرانی جابر۔خطیب ابن عباس)
  88. حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا۔ حضرت رسول خدا ُ نے مجھے علم کے ہزار باب سکھائے۔ اور میں نے ان میں سے ہر ایک باب سے ہزار ہزار باب پیدا کیے۔
  89. میں اور آپ ایک درخت سے پیدا ہوئے ہیں۔ میں اس کی جڑ اور آپ اس کی فرع (تنا) ہیں۔ اور حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام اس کی شاخیں ہیں۔ جو بھی ان میں سے کسی ایک سے متمسک ہو گا۔ خدا وند عالم اسے جنت میں داخل کرے گا۔
  90. حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا۔ مجھ سے پوچھو اس سے پہلے کہ میں تمہارے درمیان سے رخصت ہو جاؤں ۔کتاب خدا قرآن مجید کے بارے میں مجھ سے سوال کرو۔ قرآن مجید میں کوئی آیت نہیں ہے۔ مگر یہ کہ میں اس کے بارے میں جانتا ہوں۔ کہ کہاں نازل ہوئی ہے۔ پہاڑ کی تہہ میں نازل ہوئی ہے۔ یا نرم زمین پر ، مجھ سے فتنوں کے بارے میں سوال کرو۔ اس لیے کہ کوئی فتنہ نہیں ہے۔ مگر یہ کہ میں جانتا ہوں۔ کہ کس نے اسے پھیلایاہے۔ اور کون اس میں قتل ہو گا۔ ۔۔
  91. رسول خدا ُ نے حضرت فاطمہ زہرا سے فرمایا۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ خداوند عالم نے اہل زمین کی طرف دیکھا ۔اور ان میں سے تمہارے بابا کو منتخب فرمایا۔ اور نبی قرار دیا۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ دیکھا۔ اور تمہارے شوہر کو منتخب کیا۔ اور مجھ پر وحی نازل فرمائی۔ کہ میں ان سے (تمہارا)عقد کروں۔ اور اپنا جانشین قرار دوں ۔ (ابو ایوب انصاری)
  92. میں نے تمہارے گھروں کے دروازے بند نہیں کیے۔ اور علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑا۔البتہ خداوند عالم نے تمہارے گھروں کے دروازوں کو بند اور علی علیہ السلام کے دروازہ کو کھلا چھوڑا ہے۔ جب ابو بکر و عمر و عباس بن عبد المطلب وغیرہ کے گھروں کے دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ بند ہو گئے۔ اور حضرت علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رہا۔ تو جناب عباس بن عبدالمطلب نے اس کی وجہ دریافت کی۔ (اے علی علیہ السلام کسی کے لیے جائز نہیں ہے ۔ کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں داخل ہو۔ ترمذی۔ ابو سعید خدری)
  93. رسول خدا ُ نے فرمایا۔ جس نے میری اطاعت کی گویا اس نے خدا کی اطاعت کی۔ اور جس نے میری نافرمانی کی۔گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی۔اور جس نے علی علیہ السلام کی اطا عت کی ۔گویا اس نے میری اطاعت کی۔ اور جس نے علی علیہ السلام کی نا فرمانی کی گویا اس نے میری نافرمانی کی۔
  94. علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ ہیں۔ اور قرآن علی علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے۔
  95. اے علی علیہ السلام آپ کی دوستی ایمان ہے۔اور آپ کی دشمنی کفر و نفاق ہے۔اور جنت میں سب سے پہلے آپ سے محبت کرنے والا داخل ہو گا۔ اور جہنم میں سب سے پہلے آپ سے دشمنی رکھنے والا داخل ہو گا۔ (ابو سعید خدری)
  96. اے علی علیہ السلام آپ سب سے پہلے ایمان اور اسلام کا اظہار کرنے والے ہیں۔اور آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے۔ جو ہارون کو موسٰی سے تھی۔
  97. حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ حق کے ساتھ ہیں ۔اور حق حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ (عمر نے متعدر بار کہا۔ اگر علی علیہ السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتے۔)
  98. رسول خداُ نے فرمایا۔ جس نے علی علیہ السلام کو دوست رکھا۔ اس نے مجھے دوست رکھا ۔ اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی رکھی۔ اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔ اور جس نے علی علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی۔ اس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔ اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔ اس نے خدا کو تکلیف پہنچائی۔(احمد بن حنبل۔حافظ جسکافی)
  99. میں علم کا شہر ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں۔پس جو علم لینا چاہتا ہے۔ وہ دروازہ سے آئے۔ ۔
  100. میرے بھائیوں میں میرے نزدیک سب سےزیادہ محبوب علی علیہ السلام ہیں۔ اور میرے چچاؤں میں سب سے زیادہ محبوب جناب حمزہ ہیں۔۔
  101. رسول خداُ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا۔ تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (ترمذی۔ ابن عمر سے نقل)
  102. علی علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں علی علیہ السلام سے ہوں۔اور انہیں میرے بعد ہر مومن پر حق ولایت حاصل ہے۔ (ترمذی۔ حاکم)
  103. اے علی علیہ السلام تم میرے داماد اور میرے فرزندوں کے باپ ہو۔ تم مجھ سے ہو۔ اور میں تم سے ہوں۔ (ابن مغازلی)
  104. ہر پیغمبر کا جانشین اور وارث ہے۔ البتہ میرے جانشین اور وصی علی علیہ السلام ہیں۔ (ابو بکر کی خلافت کی دلیل لوگوں کا بیعت کرنا تھا۔ اور عمر کی خلافت کی دلیل ابو بکر کی وصیت تھی۔اور عثمان کی خلافت کی دلیل شٰوری تھی۔ کہ جس کا عمر نے حکم دیا تھا۔لیکن حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر دلیل نص پیغمبر تھی۔ اور نص پیغمبر کے ہوتے ہوئے۔لوگوں کی بیعت اور وصیت ابو بکر اور شٰوری کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ ۔ )
  105. علی علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں علی علیہ السلام سے ہوں۔اور وہ میرے بعد تمام مومنوں کے ولی ہیں۔اور میرا دین علی علیہ السلام کے سوا کوئی ادا نہیں کرے گا۔(ترمذی۔نسائی۔ابن ماجہ۔احمد)
  106. جس کی جان پر میں اولیت رکھتا ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام اس کی جان پر اولیت رکھتے ہیں۔ اس وقت عمر بن خطاب نے کہا ما شا اللہ مبارک ہو۔ اے علی علیہ السلام آپ میرے اور تمام مومنین کے مولا ہو گئے۔
  107. جس جس کا میں مولا ہوں۔ اس اس کے علی علیہ السلام مولا ہیں۔
  108. خدایا تو علی علیہ السلام کے دوست کو دوست رکھ۔ اور علی علیہ السلام کے دشمن کو دشمن رکھ۔ (غدیر خم)(نسائی۔ خصائص۔ بحرانی)
  109. مہدی میری اولاد میں فاطمہ زہراسے ہیں۔ (الجمع بین الصحا ح الستہ)
  110. ہم میں سے ہر ایک نے کھبی بھی بتوں کو سجدہ نہیں کیا۔ پس خداوند عالم نے مجھے اپنا نبی اور علی علیہ السلام کو وصی قرار دیا۔
  111. حضر ت فاطمہ زہرا ناراضگی کی حالت میں ابو بکر سے علیحدہ ہوئیں۔ اور ان پر اس طرح ناراض رہیں۔کہ وقت شہادت تک کلام نہیں کیا۔ (بخاری)
  112. پیغمبر اسلام ُ نے فرمایا۔ مہدی مجھ سے ہیں۔ ان کی پیشانی روشن(چوڑی)اور ناک ستوا ہو گی۔ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ جس طرح ظلم و جبر سے بھر چکی ہو گی۔ اور سات سال حکومت کریں گے۔(صحیح ابن داءود)
  113. اے فاطمہ زہرا خداوند تمہارے ناراض ہونے سے ناراض اور تمہارے خوش ہونے سے خوش ہوتا ہے۔
  114. اے ابو بکر خدا کی قسم ہر نماز میں تیرے لیے بد دعا کروں گی۔پس یہ آپ کا بد دعا کرنا ناراض ہونے ہی کی دلیل ہے۔(تاریخی خطبہ۔ حضرت فاطمہ)
  115. سب کا علی علیہ السلام کی طرف ضرورت مند ہونا اور ہر ایک سے ان کا بے نیاز ہونا اس بات کی دلیل ہے ۔کہ وہ سب کے امام و پیشوا ہیں۔
  116. (سلونی سلونی قبل ان تفقدون)جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو ۔پوچھ لو ۔اس سے پہلے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں۔
  117. پیغمبر اسلام ُ فرماتے ہیں۔ خندق میں حضرت علی علیہ السلام کی ضربت (کی جزا)ثقلین (جن و انس)کی عبادت سے افضل و برتر ہے۔
  118. حضرت علی علیہ السلام کو بارہا جبر و دھمکی کے ساتھ بیعت کے لیے ابو بکر کے پاس لے جایا گیا ۔حتی کہ حضرت فاطمہ کی حیات میں بھی لیکن حضرت علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی۔۔
  119. ابو بکر نے فدک کوچھین کیا۔اور مزدوروں کو باہر نکال دیا۔اور عمر نے حضرت فاطمہ کے دروازہ پر آگ لگائی اور آپ کے گلی میں بر سر عام طمانچہ مارا۔۔
  120. اگر حضرت علی علیہ السلام چوتھے خلیفہ تھے۔ لہذا خلیفہ رسولُ پرسب وشتم کرنا۔گویا خود رسول خدا ُ پر سب وشتم کرنا ہے۔ اور آنحضرت ُ پر سب وشتم کرنا کفر کی دلیل ہے۔ لہذا نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ معاویہ اور اس کے ساتھی کافر تھے۔
  121. کیا آپ اس بات سے راضی نہیں ہیں ۔کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے۔ جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔۔
  122. عمر نے ابو بکر سے کہا۔ کیا اپنے اس مخالف سے بیعت نہیں لیں گیں۔ ابو بکر نے قنفذ سے کہا جاؤ۔ اور حضرت علی علیہ السلام سے کہو کہ آپ کو امیر المومنن نے بیعت کے لیے بلایا ہے۔ قنفذ گیا اور اس نے بلند آواز میں حضرت علی علیہ السلام کو بیعت کے لیے پکارا۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا۔ (سبحان اللہ اب اس چیز کا دعوی کر رہا ہے۔ جو اس کا حق نہیں ہے۔) یہ سن کر ابو بکر رونے لگے۔اس کے بعد عمر نے کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کے دروازہ پر آ کر دستک دی۔ حضرت فاطمہ زہرا نے بلند آواز سے کہا۔ اے ابا جان۔ اے رسول خدا ُ آپ کے بعد ابن خطاب(عمر)ابن ابی قحافہ(ابو بکر)کی طرف سے کتنے عظیم مظالم ہم پر ہو رہے ہیں۔(ابن قتیبہ ۔الامامہ والسیاسہ)
  123. میری امت میں میرے بعد سب سے زیادہ علم رکھنے والے حضرت علی علیہ السلام ہیں۔
  124. اے علی علیہ السلام تم میرے بعد میری امت کے اختلافات کو بیان کرو گے۔
  125. یعنی میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے۔ جو سب قریش سے ہیں۔ (بخاری۔مسلم شریف) (بعد روایات یعنی سب بنی ہاشم سے ہیں)
  126. میں علم کا شہر ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں۔۔
  127. حسن و حسین جوانان اہل جنت کے سردار ہیں۔
  128. اورآئمہ طاہرین بھی عترت نبی سے۔۔ان سب باتوں کے باوجود عظیم خاندان اہل اطہار کو چھوڑ کر ابو حنیفہ و مالک و شافعی و احمد کی پیروی کیوں کرتے ہیں۔اور اصول میں ابی الحسن بن اسمائیل اشعری کی اتباع کیوں کرتے ہیں۔پیغمبر اسلامُ نے ان میں سے کسی ایک کی بھی پیروی کا حکم نہیں فرمایا۔ جب کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں صریح طور پر نص موجود ہے۔
  129. جب ثقیفہ میں حضرت ابو بکر کو بیعت سے فراغت ہوئی۔ تو مسجد میں آکر منبر پر بیٹھ گئے۔ اور لوگ شام تک ان کی بیعت کرتے رہے۔ اور اس وجہ سے یہ حضرات رسول ُ کے دفن میں شریک نہ ہو سکے۔ (تاریخ الخمیس)
  130. حضرت ابو بکر و عمر دفن نبی ُ میں مطلقاََ شریک نہیں ہوئے۔ دو دونوں حضرات مجمع انصار کے ساتھ تھے۔ آنحضرت ُ ان دونوں کی واپسی سے پہلے ہی مدفون ہوئے۔ (کنزل العمال۔ شیخ علی متقی القادری الچشتی)
  131. فاطمہ زہرا نے اپنے دروازہ پر کھڑے ہو کر فرمایا۔ کہ تم لوگوں نے نعش مقدس رسول ُ کو ہمارے ہاتھوں میں چھوڑ دیا۔اور امر خلافت کو باہم طے کر لیا۔ اور یہ مطلقاََ نہ دیکھا کہ یہ ہمارا حق ہے۔
  132. یعنی صحابہ کی ایک جماعت جو علی علیہ السلام بن ابی طالب کی طرف دار تھی۔ بیعت ابی بکر سے کنارہ کش تھی۔ یہ لوگ بنی ہاشم کے علاوہ زبیر۔ مقدار۔ سلمان فارسی۔ ابو ذر۔ عمار بن یاسر۔ براا بن عازب وغیرہ ہم تھے۔ (تاریخ الفداء)
  133. حضرت عمر آگ اور لکڑیاں لے کر خانہ سیدہ پر آئے۔ اور کہا کہ تم لوگ یہاں سے نکل کر ابو بکر کی بیعت کرو۔ورنہ میں اس گھر کو جلا دوں گا۔ لوگوں نے کہا کہ اس گھر میں تو فاطمہ زہرا بھی ہیں۔حضرت عمر نے کہا کہ ہوں۔ حضرت فاطمہ زہرا نے دروازہ پر آ کر کہا : اے پسر خطاب۔ کیا تو میرے گھر کو جلانے کے لیے آیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا ہاں۔اس مرحلہ پر کسی طرح بھی علی علیہ السلام نے بیعت نہ کی۔ اور یہی کہتے رہے۔کہ (میں تمھاری بیعت نہ کروں گا۔البتہ تم کو میر ی بیعت کرنا چاہیے)(تاریخ الفداء، طبری)
  134. ابو سفیان اور ان کا خاندان جو روز اول سے اسلام اور بانی اسلام کا دشمن جان رہا۔ اور بدر سے لے کر فتح مکہ تک آنحضور ُ سے نبرد آزما رہا اور جب طاقت اور ہمت نے بالکل جواب دے دیا ۔ اور آنحضور ُ سے لڑائی لڑنے کا دم باقی نہ رہا۔ بالآخر انہوں نے اور ان کے خاندان نے کلمہ پڑہ لیا۔ وہ بھی اس حالت میں کہ تلوار سر پر تھی۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی دین اسلام کے بارے میں سوائے عداوت شدیدہ کے اور کیا خدمات تھیں۔ ان کی کلمہ گوئی کا زمانہ نبوی زندگی کا بالکل آخری زمانہ تھا۔لیکن ان لوگوں نے خلافت کو تسلیم کرنے کا فوری انعام پا لیا۔ ابو سفیان کے دونوں بیٹے یزید بن ابی سفیان اور معاویہ بن ابی سفیان یکے بعد دیگرے پانچ پانچ ہزار دینار ماہوار پر صوبہ شام کے گورنر رہے۔ اور ایسے رہے کہ یزید بن ابی سفیان کے مرنے کے بعد حضرت معاویہ خلیفہ ثانی اور خلیفہ ثالث کے زمانہ میں شام کے مستقل گورنر رہے۔ اس کے ادل بدل کا بھی کوئی سوال نہ آیا۔۔۔
  135. فدک خاص رسول ُ کا تھا۔ کیونکہ اس پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائےتھے نہ اونٹ اور مالک بن جعونہ سے روایت ہے۔جو انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے۔ کہ فاطمہ زہرا نے ابو بکر سے کہاکہ فدک مجھ کو میرے باپُ دے گئے ہیں۔لہذا وہ مجھے دو۔ فاطمہ زہرا کی شہادت علی علیہ السلام نے دی۔حضرت ابو بکر نے دوسرا گواہ طلب کیا۔ تو ام ایمن نے گواہی دی۔ تو ابو بکر نے فرمایا۔ کہ اے بنت رسول ُ آپ جانتی ہیں۔ کہ شہادت نہیں چلتی لیکن دو مردوں کی۔ یہ ایک مرد اور دو عورتوں کی۔(علامہ شبلی۔فتوح البلدان بلاذری)
  136. فدک کو فاطمہ زہرا سے چھین لئے جانے کے بعد حضر ت ابو بکر نے اپنے ليے مخصوص کر لیا تھا۔اسی طرح اپنے زمانے میں حضرت عمر نے بھی اپنے ليے مخصوص رکھا۔ اس کے بعد حضرت عثمان کا زمانہ خلافت آیا۔حضرت عثمان نے فدک کی جاگیر مستقل طور پر مروان کو عطا کر دی تھی۔ (علامہ شبلی۔ الفاروق)
  137. جن باتوں نے لوگوں کو حضرت عثمان پر مشتعل کیا وہ یہ تھیں۔کہ انہوں نے حکم بن عاص کو مدینہ واپس بلا لیا۔جس کو رسول ُ نے مدینہ سے نکال دیا تھا۔ اور حضرت ابو بکر و عمر نے بھی اس کو نکالے ہی رکھا تھا۔ (تاریخ ابو الفداء سے تاریخ احمدی) (عثمان کے داماد مروان) مروان کے بعد یہ جائیداد اولاد مروان میں منتقل ہوتی رہی۔یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز تک پہنچی۔ اسی خلیفہ نے اپنے عہد خلافت میں پہلی بار فدک بھی اولاد سیدہ کو واپس کیا۔
  138. جس وقت حضرت رسول خدا ُ نے اپنے اصحاب کے درمیان عقد اخوت قرار دیا۔ تو حضرت علی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔آپ نے رسول اکرم ُ کے پاس آ کر کہا۔اے رسول خدا ُ آپ نے اپنے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔ اور مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔رسول خدا ُ نے فرمایا۔تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔ ( صحیح ترمذی)
  139. کل میں علم اس کو دوں گا۔جو خدا اور رسول ُ کو دوست رکھتا ہو گا۔ اور خدا اور رسول ُاس کو دوست رکھتے ہوں گے۔
  140. مرحوم سید بن طاؤس کہتے ہیں۔ایک حدیث کو سن کر مجھے بہت تعجب ہوا۔ کہ جب کوفہ کی رہنے والی عورت نے عائشہ سے کہا۔ اے ام المومنین۔ آپ اس عورت کے بارے میں کیا فرماتی ہیں۔ کہ جس نے اپنے مومن فرزند کو جان بوجھ کر قتل کر دیا ہو۔عائیشہ نے کہا وہ عورت اپنے فرزند کو قتل کرنے کی وجہ سے کافر ہو گئی۔ اس کے لیے خدا وند عالم فرماتا ہے۔ (جو شخص بھی جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے گا۔ اس کی سزا جہنم ہے۔ کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ خدا اس سے ناراض ہے۔اور اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔) کوفہ کی رہنے والی اس عورت نے کہا۔آپ اس ماں کے بارے میں کیا فرماتی ہیں۔جس نے اپنے فرزندوں میں سے سولہ ہزار افراد کو قتل کرا دیا ہو۔ جب کہ وہ سب کے سب مومن تھے۔جناب عائشہ سمجھ گئیں۔چوں کہ جنگ جمل میں سولہ ہزار افراد کے قتل کا باعث بنی تھیں۔
  141. جنگ خندق میں عمر کا اصرار تھا۔ کہ پیغمبر اسلام ُ مشرکین مکہ سے صلح کر لیں۔انہوں نے کہا کہ عمر بن عبدود فارس یلیل (عظیم بہادر)ہے۔اور اس سے جنگ نہیں کی جا سکتی۔ بجاءے اس کے کہ وہ دشمن کا دفاع و مقابلہ کرتے۔ ڈر کر اس کی تعریف کرنے لگے۔ اور مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کر دیا۔ لیکن حضرت علی نے صرف عمر بن عبدود ہی کو ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ اپنی خالص نیت کو بھی ظاہر کیا۔
  142. فدک سات قطعہ زمین مخیر یق نامی یہودی کی ملکیت تھی۔ جسے اس نے شخصی طور پر حضرت پیغمبر اکرام ُ کو بطور ہدیہ دیا تھا۔ اور وہ جنگ میں شہید ہوگیاتھا۔بعض نے لکھا ہے۔ کہ وہ طبیعی موت مرا۔اور اس نے ایک نوشتہ اور وصیت تحریر کی۔ کہ پیغمبر اسلام ُ اس ملکیت میں ہر ظرح کا تصرف کر سکتے ہیں۔( سمہودی ،مدینہ)
  143. پیغمبر اسلام ُ کا حجرہ آپ ُ کی وفات کے بعد ابو بکر کے حکم سے عائشہ کے سپرد کیوں کیا گیا۔اگر یہ حجرہ میراث سے متعلق تھا تو عائشہ کا حق آٹھویں سے نواں حصہ۔یعنی بہتر72 حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے۔اگر یہ فرض کیا جائے کہ ان کا میراثی حصہ تھا۔ تو 9 ازدواج میں سے صرف عائشہ کوہی میراث کیوں ملی۔اور بقیہ ازدواج اپنے حجروں کی مالک کیوں نہیں ہوئیں۔ پس اس طرح جناب فاطمہ زہرا کو آیات میراث کے برعکس باپ کی میراث سے محروم کیا گیا۔ لیکن اس کے برعکس اپنی بیٹی عائشہ کو پیغمبر اکرمُ کا حجرہ دیا گیا۔
  144. ہم اہل سنت حضرات سے پوچھتے ہیں کہ اگر آپ کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کے اجماع کو خلیفہ مقرر کرنا چائیے۔تو پھر عمر کو مسلمانوں کے اجماع نے خلیفہ مقرر کیوں نہیں کیا۔ بلکہ وہ ابو بکر کی وصیت سے خلیفہ مقرر ہوئے۔ (اگر شوری صحیح تھی تو پھر ابو بکر نے خلافت کے مسئلہ کو شوری کے سپرد کیوں نہیں کیا۔اور عمر کو بغیر شوری کے مسند خلافت پر کیوں بٹھایا۔دوسری بات یہ کہ عمر نے خلیفہ کے انتخاب کو صرف چھ افراد کے سپرد یہ کیوں کیا۔ اور مخالفت کرنے والوں کے قتل کو جائز کیوں سمجھا۔وفات پیغمبر ُ کے وقت عمر وصیت لکھنے میں مانع کیوں ہوئے۔اور آپ نے کیوں کہا کہ ہمارے لیے کتاب خدا کافی ہے۔نیز آپ نے پیغمبر اسلام ُ کی طرف نا سزا باتیں منسوب کیوں کیں۔اور کیوں کہا کہ وصیت کی ضرورت نہیں ہے۔اگر وصیت ضروری نہیں تھی۔ تو پھر ابو بکر اور عمر نےخلیفہ کے سلسلہ میںوصیت کیوں کی۔ دوسری صورت یہ کہ اگروصیت کی ضرورت تھی۔ تو پھر عمر و ابو بکر نے پیغمبر اسلام ُ کو وصیت کیوں نہیں کرنے دی۔ خلیفہ کا انتخاب چھ افراد کریں گے۔اور جو بھی ان کی مخالفت کرے اسے قتل کر دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے۔کہ نہ اجماع تھا ۔ اور نہ ہی اکثریت کی آرا و افکار کا احترام)
  145. اگر اہل سنت کے مطابق کسی صحابی کی توہین نہیں کرنا چاہیے۔ تو کیا حضرت امام علی وامام حسن و امام حسین علیہ السلام عادل صحابی نہیں تھے۔پس معاویہ نے جو حضرت امام حسن علیہ السلام کو زہر دغا سے شہید کیا۔ اور یزید نےحضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا۔ ان کا حکم کیا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے دونوں فرزند عادل صحابی ہیں۔ پس چونکہ صحابہ میں سے ہیں۔ لہذا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ کہ ان کی توہین کرے یا ان پر لعن طعن اور شب وشتم کرے۔ اور اگر کوئی شخص ایسا کام کرے تو وہ زندیق (کافر) ہے۔۔
  146. بہت سی حدیثیں گواہ ہیں۔کہ عمر نے صحابہ کو پیغمبر ُ کی حدیث لکھنے سے منع کیا اور سلسلہ ابو بکر کے زمانہ سے شروع ہوا اور دس سال سے زیادہ تک جاری رہا۔ اور عمر نے بہت سی جمع شدہ احادیث نظر آتش کیں۔ اور بہت سے بزرگوں کو احادیث نقل کرنے کے جرم میں قید کیا۔ قریش کے بزرگوں (ابو بکر۔ عمر ۔ عثمان۔ عبدالرحمن بن عوف۔ ابو عبیدہ۔ طلحہ۔ زبیر)نے عبداللہ بن عمر کو پیغمبر کی احادیث لکھنے سے منع کیوں کیا۔ حالانکہ خود پیغمبر اسلامُ نے عبداللہ بن عمر کو حدیث لکھنے کا حکم دیا تھا۔ قریش نے عبداللہ بن عمر سے کہا کہ پیغمبر کیوں کہ بشر ہیں۔ کبھی غصہ اور کبھی خوشی کی حالت میں بولتے ہیں۔لہذا ان کا کلام نہ لکھا کرو۔جبکہ پیغمبر اسلام نے خود فرمایا۔ لکھيئے اور آپ نے اسے لکھنے سے کبھی منع نہیں کیا۔ (یہ پیغمبر وحی الہی کے مطابق بولتا ہے۔ القرآن) خود آنحضرت ُ کی حیات میں حدیث لکھنے سے روکنا۔ خود ایک عظیم جسارت ہے۔ (مسدرک الحاکم۔ سنن ابی داءود۔ سنن دارمیمسند احمد بن حنبل)
  147. عبداللہ بن عمر کہتے ہیں۔ میں حضرت رسول خدا سے جو کچھ سنتا تھا۔ اسے لکھ لیتا تھا۔ تو مجھے قریش نے منع کیا۔ اور کہا۔ تم رسول خدا ُ سے جو کچھ سنتے ہو لکھ لیتے ہو۔ حالانکہ وہ بشر ہیں۔ کبھی غصہ کی حالت میں بولتے ہیں۔اور کبھی خوشی کی حالت میں۔عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے لکھنا بند کر دیا۔ اور یہ بات رسول خداُ سے بیان کی۔ آپ نے منہ کی طرف ہاتھ کر کے فرمایا۔ تم لکھو۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ جو میرے منہ سے نکلتا ہے۔ وہ حق ہے۔
  148. یعنی فاطمہ بنت نبی ُ نے ابو بکر کے پاس کسی کو بھیج کر اپنی اس میراث کا جو رسول اللہ ُ سے پہنثچتی تھی۔ سوال کیا۔ یہ چیزیں کچھ مدینہ میں تھیں۔ اور فدک تھا۔ اور خیبر کا مابقی خمس تھا۔ آگے چل کر کہتے ہیں۔کہ پس ابو بکر نے فاطمہ زہرا کو کچھ بھی دینے سے انکار کر دیا۔ پس فاطمہ زہرا ابو بکر پر ایسی رنجیدہ اور نا خوش ہوئیں۔ کہ مرتے دم تک انہوں نے ابو بکر سے کلام نہ کیا۔ اور وہ بنی ُ کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہو گئی۔ تو ان کے شوہر علی المرتضی علیہ السلام نے ان پر نماز پڑھ کر شب کے وقت ان کو دفن کر دیا۔ اورابو بکر کو شرکت جنازہ کی اجازت نہ دی۔ (صحیح بخاری)
  149. عجیب بات ہے کہ جناب عائشہ خود کو پیغمبر اسلام ُ کے حجرہ کی مالک سمجھتی تھی۔ لہذا جب حضرت امام حسن علیہ السلام کے جنازہ کو پیغمبر اسلام ُ کے حجرہ میں دفن کرنا چاہا۔ تو جناب عائشہ نے کہا ۔ یہ میرا گھر ہے۔ اس میں کسی کو بھی دفن کرنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ جب حضرت امام حسن علیہ السلام کے جنازہ کو دفن کرنا چاہتے تھے۔ تو جناب عائشہ خچر پر سوار ہوئیں اور بنی امیہ و بنی مروان سے مدد کی درخواست کی۔ محمد بن ابو بکر نے کہا۔ اے پھو پھی جان۔ ابھی تو ہم نے وہ سر بھی نہیں دھوئےجو جنگ جمل میں خون سے رنگین ہوئے۔ کیا آپ یہ چاہتی ہیں۔ کہ لوگ کہیں کہ لو جنگ جمل کے بعد اب جنگ قاطر (خچر کی جنگ)کے دن آ گئے۔ ( کیا زو جہ میراث لینے میں بیٹی پر اولیت رکھتی ہے۔اگر میراث لی گئی تھی۔ تو پھر بیٹی کو باپ کی میراث کیوں نہیں دی گئی۔ ) (تاریخ یعقوبی۔ ابو الفرج اصفہانی)
  150. حضرت عمر نے کہا کہ جب نبی ُ بیمار ہوئے تو فرمایا۔ کہ مجھے کاغذ اور دوات دو۔تو میں تمہارے لیے وہ نوشتہ تحریر کروں۔ جس سے تم میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو۔(لیکن اس کی تعمیل نہ ہوتے دیکھ کر)پردہ سے مستورات نے کہا۔ کہ کیا تم لوگ نہیں سن رہےہو ۔ جو رسول اللہ ُ کہہ رہے ہیں۔تو میں نے ان مستورات سے کہا۔ کہ تم صواحب یوسف ہو۔(یعنی فریب دینے والی ہو)۔ تمہارا حال یہ ہے کہ جب نبی بیمار ہوتے ہیں ۔ تو تم ٹسوے(آنسو) بہاتی ہو۔ اور جب نبی ُ اچھے ہوتے ہیں۔ تم ان کی گردن پر سوار ہو جاتی ہو۔ اس پر رسول اللہ ُ نے فرمایا۔ کہ ان (ازواج نبی) تعرض نہ کرو۔یہ تم سے بہتر ہیں۔ (صحیح بخاری۔مسلم۔مسند امام احمد بن حنبل)
  151. آنحضرت ُ کے اس فرمان پر حاضرین کے دو گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ اس تحریر کے مخالف تھا۔اور ایک گروہ اس تحریر کے حق میں تھا۔ ان دونوں گروہوں میں تو تو میں میں اور لڑائی جھگڑا ہونے کی نوبت آگئی۔ تو سرکارُ نے فرمایا۔کہ میرے پاس یہ لڑائی جھگڑا کرنا سزاوار نہیں ہے۔ یہ مسلم ہے کہ حضرت عمر اس تحریر کے سخت مخالف تھے۔ مخالفین تحریر کی بات یہاں تک پہنچ گئی۔ کہ انہوں نے رسول اللہ ُ کی بات کو بے حواسی اور ہذیان تک قرار سے دیا۔جس کے معنی یہ ہیں۔ کہ اس تحریر کی مخالفت کوئی معمولی اور سطحی مخالفت نہ تھی۔ بلکہ اس پر پوری قوت صرف کی جا رہی تھی۔ کہ تحریر عمل میں نہ آئے۔ اس تحریر کے مخالفین میں عمر سب سے آگے تھے۔۔۔

اہل بیت[ترمیم]

اہلِ بیت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "گھر والے" کے ہیں۔ انہیں پنج تن پاک بھی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کفار سے مباہلہ کرنے کے لیے نکلے تو یہی حضرات آپ کے ساتھ تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ان حضرات کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا (اے اللہ ، یہ میرے اہل بیت ہیں۔)

  • اہل تشیع یا شیعہ (عربی: شيعة) اہل سنت کے بعد مسلمانوں کا دوسرا سب سے بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا قائل ہیں اور صرف انھیں رسول اللہ کا جانشین مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع پہلے تین خلفاء کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ نے دعوت ذوالعشیرہ اور خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "جو میری مدد کرے گا وہ میرا وزیر میرا وصی اور خلیفہ ہوگا"۔ تینوں دفعہ امام علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور کہا کہ اگرچہ میں چھوٹا ہوں اور میری ٹانگیں کمزور ہیں مگر میں آپ کی مدد کروں گا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ "اے علی علیہ السلام تم دنیا اور آخرت میں میرے وزیر اور وصی ہو"۔ اس کے علاوہ حضور نے حجۃ الوداع کے بعد غدیر خم کے علاقے میں ایک خطبہ میں فرمایا کہ "جس کا میں مولا ہوں اس کے علی علیہ السلام مولا ہیں"
  • عربی زبان میں شیعہ کا لفظ دو معنی رکھتا ہے۔ پہلا کسی بات پر متفق ہونا اور دوسرا کسی شخص کا ساتھ دینا یا اس کی پیروی کرنا۔ قرآن میں کئی جگوں پر یہ لفظ اس طرح سے آیا ہے جیسے سورہ قصص کی آیت 15 میں حضرت موسی کے پیروان کو شیعہ موسی کہا گیا ہے اور دو اور جگہوں پر ابراہیم کو شیعہ نوح کہا گیا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں شیعہ کا لفظ کسی شخص کے پیروان کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت معاویہ کے اختلافات کے زمانے میں ان کے حامیوں کو بالترتیب شیعان علی علیہ السلام ابن ابو طالب اور شیعان معاویہ بن ابو سفیان کہا جاتا تھا۔ صرف لفظ شیعہ اگر بغیر تخصیص کے استعمال کیا جائے تو مراد شیعانِ علی علیہ السلام ابن ابو طالب ہوتی ہے، وہ گروہ جو اس اختلاف میں حضرت علی علیہ السلام ابن ابی طالب کا حامی تھا اور جو ان کی امامت کا عقیدہ رکھتا ہے
  • ۔شیعہ عقائد کے مطابق شیعیت کا آغاز پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور حیات میں اس وقت ہوا جب پہلی بار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آیہ [اولئک هم خیر البریه] کے تفسیر میں علی علیہ السلام سے خطاب کرکے کہا "تو اور ترے شیعان قیامت کے دن سرخرو ہونگے اور خدا بھی تو اور تیرے شیعوں سے راضی ہوگا۔[حوالہ درکار] اس وقت صحابہ میں سے چار لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام کا شیعہ کہا جاتا تھا: سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد بن اسود اور عمار بن یاسرظ‍‍‌[ح

حضرت محمد ﷺ[ترمیم]

والدہ[ترمیم]

۔حضرت آمنہ بنت وہاب

اولاد[ترمیم]

۔۔فاطمہ زہراء۔طاہر۔طیب۔قاسم۔ابراہیم۔

ولادت[ترمیم]

۔۔12 تا 17 ربیع الاول۔۔1 عام الفیل۔شعیب ابی طالب۔۔ مکہ معظمہ

وفات[ترمیم]

۔۔28 صفر 11 ہجری۔۔مدینہ منورہ۔۔ 63 سال

حضرت علی علیہ السلام[ترمیم]

والد[ترمیم]

ابو طالب بن عبدالمطلب

والدہ[ترمیم]

فاطمہ بنت اسد

بہنیں[ترمیم]

ام ہانی بنت ابی طالب جمانہ بنت ابی طالب

شریک حیات[ترمیم]

فاطمہ ۔ امامہ بنت زینب ۔ ام البنین ۔ لیلٰی بنت مسعود ۔ خولہ بنت جعفر ۔ شعبہ بنت ربیعہ

بیٹے۔۔11 پسر۔[ترمیم]

۔ محسن ۔ حسن ۔ حسین ۔ ہلال ۔ العباس ۔ عبداللہ ۔ جعفر ۔ عثمان ۔ عبید اللہ بن علی ۔ ابی بکر بن علی ۔ محمد ۔ عمر بن علی

بیٹیاں۔۔16 دختر۔[ترمیم]

زینب بنت علی ۔ ام کلثوم بنت علی

عہد[ترمیم]

656ء (35ھ) – 661ء (40ھ)

پیدائش[ترمیم]

23 اکتوبر 598 خانہ کعبہ۔ مکہ معظمہ، عرب(13 رجب 30عام الفیل)

وفات[ترمیم]

جنوری 28, 661 (عمر 63 سال) (21 رمضان 40 ہجری ) کوفہ۔۔نجف اشرف۔۔ عراق

مقام تدفین[ترمیم]

روضہ حیدریہ، نجف، عراق حضرت علی علیہ السلام (599ء (24 ق‌ھ) – 661ء (40ھ) ) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب علیہ السّلام اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد السلام اللہ علیہا ہے۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی ۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی ۔حضرت علی علیہ السلام پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا ۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی

غذوات[ترمیم]

آپ کے ساتھ تعدادبہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ آدمی تھے , ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی. جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے . اس لڑائی میں زیادہ رسول نے اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوئے . علی علیہ السلام ابن ابو طالب علیہ السلام کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا . 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا حضرت علی علیہ السلام کے سر رہا .جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میں سے آدھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے . تقریباًان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو تنہا بھیجا اورانھوںنے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمّل اور شرافت ُ نفس سے کام لیاجس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا . آپ کو غصہ آگیااور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے . صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا , اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی . چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر ائی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر اگیا کہ اس کا قاتل حضرت علی علیہ السلام سا شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔

حالات ذندگی[ترمیم]

زمانہ آپ کی خالص مذہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا , آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہوگئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا , آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا اور جمل اور صفین# اور نہروان# کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں . جن میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر واحد و خندق وخیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسا دل چاہتا تھا اس طرح اصلاح فرمائیں . پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی , مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردیئے آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے , پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے , غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے . جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے , یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہوسکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے . مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں , انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے اکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے . آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے . آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے۔۔۔

وفات[ترمیم]

حضرت علی علیہ السّلام کو 19 رمضان40ھ (660ء) کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک حضرت علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔ حضرت حسن علیہ السلام و حضرت حسین علیہ السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔

  • Bulleted list item

آپ کے بچوں کی تعداد 28 سے زیادہ تھی۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سے آپ کو تین فرزند ہوئے۔ حضرت محسن علیہ السّلام، امام حسن علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام، جبکہ ایک صاحبزادی حضرت زینب علیہ السّلام بھی حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے تھیں۔ باقی ازواج سے آپ کو جو اولاد ہوئی، ان میں حضرت حنفیہ، حضرت عباس بن علی علیہ السّلام شامل ہیں۔ علی علیہ السلام ابن طالب علیہ السلام کی اولاد یہ ہیں : ۔ سیدنا حسن علیہ السّلام ۔ سیدنا حسین علیہ السّلام ۔ زینب علیہ السّلام ۔ ام کلثوم علیہ السّلام ۔ عباس علیہ السّلام ۔ عمر ابن علی ۔ جعفر ابن علی ۔ عثمان ابن علی ۔ محمد الاکبر ( محمد بن حنفیہ) ۔ عبداللہ ۔ ابوبکر ۔ رقیہ ۔ رملہ ۔ نفیسہ ۔ خدیجہ ۔ ام ہانی ۔ جمانی ۔ امامہ ۔ مونا ۔ سلمیٰ

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ[ترمیم]

والد[ترمیم]

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

والدہ[ترمیم]

حضرت خدیجہ علیہا السلام بنت خویلد (595 ..619 عیسوی)

تاریخ ولادت[ترمیم]

  • 608ء سے لے کر 615ء
  • 20 جمادی الثانی 5 بعثت بروز جمعہ صبح صادق مکہ

تاریخ وفات[ترمیم]

  • 633...623 عیسوی جنت البقیع ۔۔مدینہ منورہ( 18 سال 9 ماہ 15 دن )
  • 13 جمادی الاول ۱۱ ہجری ( 3 جمادی الثانی 11ھ ہے۔ )
  • بدھ 5 اگست 632 عیسوی
  • اپنے باپ کی وفات کے 90 دن بعد 11 ہجری
بھائی[ترمیم]
  • قاسم
  • طیب
شادی[ترمیم]

حضرت علی و فاطمہ کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔

القاب اور کنیت[ترمیم]

آپ کے مشہور القاب میں زھرا اور سیدۃ النساء العالمین (دنیا و جہاں کی عورتوں کی سردار اور بتول ہیں۔ مشہور کنیت ام الائمہ، ام السبطین اور ام الحسنین ہیں۔ آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ النساء العالمین ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ ( سردار) ہیں۔ اس کے علاوہ خاتونِ جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ، العذراء وغیرہ بھی القاب کے طور پر ملتے ہیں۔۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کے اختلافات حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے بوجہ خلافت و مسئلہ فدک کے ہوئے۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ کچھ اعتقادات کے مطابق یہ وفات طبعی تھی اور کچھ روایات کے مطابق یہ وفات نہیں بلکہ شہادت تھی چونکہ ان کے مطابق آپ کی شہادت ان زخموں سے ہوئی جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گھر کے باہر ان لوگوں کے دروازہ گرانے کی وجہ سے ہوئے۔ جو خلافت کے جھگڑے کے دوران حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بیعت لینے کے لیے اکٹھا ہوئے تھے آپ کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ایک عظیم سانحہ تھا۔ اس نے حضرت فاطمہ کی زندگی تبدیل کر دی۔ آپ شب و روز گریہ کیا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث میں سے بھی انہیں بوجوہ کچھ نہ مل سکا جس سے مالی پریشانیاں بھی ہوئیں۔ مسئلہ فدک و خلافت بھی پیش آیا۔ اہلِ مدینہ ان کے رونے سے تنگ آئے تو حضرت علی علیہ السلام نے ان کے لیے مدینہ سے کچھ فاصلے پر بندوبست کیا تاکہ وہ وہاں گریہ و زاری کیا کریں۔ اس جگہ کا نام بیت الحزن مشہور ہو گیا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد آپ نے مرثیہ کہا جس کا ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ 'اے ابا جان آپ کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دنوں پر پڑتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے'۔ مسئلہ فدک فدک (عربی میں فدك ) ایک زمین کا ٹکرا ہے جو سعودی عرب کے شمال میں خیبر کے مقام پر مدینہ سے تیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ جنگِ خیبر کے موقع پر مئی 629ء یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملکیت میں آیا ان کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ علیہا السلام اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان اس کی ملکیت پر اختلاف پیدا ہوا۔ یہی اختلاف شیعہ اور سنی حضرات میں موجود ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اسے مروان بن الحکم کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دور میں فدک کی آمدنی چالیس ھزار دینار تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی آل کو دے دیا مگر بعد کے خلفاء نے واپس لے لیا۔ فدک جنگ خیبر کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہبہ کیا گیا اور اس کے لیے مسلمانوں نے جنگ نہیں کی۔۔ شرعی لحاظ سے اسے مال فئی میں شامل کیا جاتا ہے یعنی ایسی جائیداد جس کے لیے مسلمانوں نے اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے اور جنگ نہیں کی۔ اہل سنت کی اکثریت اور اہل تشیع مکمل طور پر اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جائیداد سمجھتے ہیں تاہم ابن تیمیہ نے اس سے انکار کیا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوسعدی الخدری اور حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں فدک حضرت فاطمہ کو اس وقت ہبہ کر دیا جب سورہ حشر کی آیت 7 نازل ہوئی۔[16] دیگر تفاسیر میں سورہ حشر کی آیت 7 کی ذیل میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک حضرت فاطمہ الزھراء کو ہبہ کر دیا۔ شاہ عبدالعزیز نے فتاویٰ عزیزیہ میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزھراء کو فدک سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم شاہ ولی اللہ اور ابن تیمیہ نے اس بات سے انکار کیا ہے۔ صحیح البخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد فدک کی ملکیت پر حضرت فاطمہ الزھراء اور حضرت ابوبکر میں اختلافات پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ نے فدک پر اپنا حقِ ملکیت سمجھا جبکہ حضرت ابوبکر نے فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی اس لیے فدک حکومت کی ملکیت میں جائے گا۔ اس پر حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد رات کو جنازہ پڑھایا گیا جس کے بارے میں حضرت ابوبکر کو خبر نہ کی گئی۔

  • اہل سنت کی کچھ روایات کے مطابق حضرت ابوبکر نے بعد میں حضرت فاطمہ سے صلح کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ وہ ان سے ناراض نہ رہیں۔

اس سلسلے میں اہل سنت اور اہل تشیع میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کے مطابق حضرت ابوبکر نے یہ فیصلہ ایک حدیث کی بنیاد پر دیا جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء کے وارث نہیں ہوتے اور جو کچھ وہ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ جبکہ اہل تشیع کے مطابق یہ حدیث حضرت ابوبکر کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور یہ فیصلہ درست نہیں تھا کیونکہ قرآن کی کچھ آیات میں انبیاء کی وراثت کا ذکر ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع میں ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ اہل سنت کے مطابق وفات تک حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض نہ تھیں اور صلح ہو چکی تھی[26] جبکہ اہل تشیع کے مطابق وہ وفات تک ناراض تھیں اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں۔

  • فدک ایک باغ تھا جو جنگ خیبر کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہبہ کیا گیا اور اس کے لیے مسلمانوں نے جنگ نہیں کی ۔ شرعی لحاظ سے اسے مال فئی میں شامل کیا جاتا ہے یعنی ایسی جائیداد جس کے لیے مسلمانوں نے اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے اور جنگ نہیں کی۔اہل سنت و اہل تشیع کی اکثریت اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جائیداد مانتی ہے۔ لیکن ابن تیمیہ نے اس سے انکار کیا ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت ابوسعدی الخدری اور حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں فدک حضرت فاطمہ کو اس وقت ہبہ کر دیا جب سورہ حشر کی آیت 7 نازل ہوئی۔ دیگر تفاسیر میں سورہ حشر کی آیت 7 کی ذیل میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فدک حضرت فاطمہ الزھراء کو ہبہ کر دیا۔ شاہ عبدالعزیز نے فتاویٰ عزیزیہ میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزھراء کو فدک سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم شاہ ولی اللہ اور ابن تیمیہ نے اس بات سے انکار کیا ہے۔ صحیح البخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد فدک کی ملکیت پر حضرت فاطمہ الزھراء اور حضرت ابوبکر میں اختلافات پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ نے فدک پر اپنا حقِ ملکیت سمجھا جبکہ حضرت ابوبکر نے فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی اس لیے فدک حکومت کی ملکیت میں جائے گا۔ اس پر حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد رات کو جنازہ پڑھایا گیا جس کے بارے میں حضرت ابوبکر کو خبر نہ کی گئی۔

  • اہل سنت کی کچھ روایات کے مطابق حضرت ابوبکر نے بعد میں حضرت فاطمہ سے صلح کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ وہ ان سے ناراض نہ رہیں۔

اس سلسلے میں اہل سنت اور اہل تشیع میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کے مطابق حضرت ابوبکر نے یہ فیصلہ ایک حدیث کی بنیاد پر دیا جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء کے وارث نہیں ہوتے اور جو کچھ وہ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ جبکہ اہل تشیع کے مطابق یہ حدیث حضرت ابوبکر کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور یہ فیصلہ درست نہیں تھا کیونکہ قرآن کی کچھ آیات میں انبیاء کی وراثت کا ذکر ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع میں ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ اہل سنت کے مطابق وفات تک حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض نہ تھیں اور صلح ہو چکی تھی جبکہ اہل تشیع کے مطابق وہ وفات تک ناراض تھیں اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں۔ بیہقی کے مطابق صلح ہوئی لیکن امام بخاری اور ابن ابی قیتبہ کے مطابق صلح نہ ہوئی اور حضرت فاطمہ نے تا زندگی حضرت ابوبکر و حضرت عمر سے کلام نہ کیا۔ جبکہ ابن ابی قیتبہ کے مطابق صلح کی کوششوں کے دوران حضرت فاطمہ نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں تازندگی نماز کے بعد تم دونوں پر بددعا کرتی رہوں گی۔ وفات میں اختلافات

  • آپ کی وفات کے بارے میں مؤرخین اور نتیجتاً اہل تشیع ، اہل سنت و اہل حدیث میں شدید اختلافات ہیں۔ اس لیے یہاں انہی واقعات کا تذکرہ کیا جائے گا جو مختلف تواریخ میں لکھے ہوئے ہیں۔ ان کی صحت پر رائے قائم کرنا پڑھنے والوں پر محصر ہے۔

تواریخ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے بشمول حضرت علی کے بیعت نہیں کی۔ حضرت علی گوشہ نشین ہو گئے اس پر حضرت عمر آگ اور لکڑیاں لے آئے اور کہا کہ گھر سے نکلو ورنہ ہم آگ لگا دیں گے۔ حضرت فاطمہ نے کہا کہ اس گھر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسنین موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہونے دیں حضرت علی کے باہر نہ آنے پر گھر کو آگ لگا دی گئی۔ حضرت فاطمہ دوڑ کر دروازہ کے قریب آئیں اور کہا کہ ابھی تو میرے باپ کا کفن میلا نہ ہوا۔ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس پر ان پر دروازہ گرا دیا اسی ضرب سے حضرت فاطمہ شہید ہوئیں۔۔ کچھ روایات کے مطابق ان کے بطن میں محسن شہید ہوئے۔ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ محسن کا ذکر کسی معتبر تاریخ میں نہیں اس لیے اس بات کو نہ ماننا چاہئیے۔ لیکن کچھ کتابوں میں یہ ذکر موجود ہے۔ لوگ جب گھر میں گھسے تو حضرت فاطمہ نے کہا کہ خدا کی قسم گھرسے نکل جاؤ ورنہ سر کے بال کھول دوں گی اور خدا کی بارگاہ میں سخت فریاد کروں گی۔۔ اس مکمل واقعہ کی روایت بشمول آگ لگانا اور دروازہ گرانے کے ابن قیتبہ، ابوالفداء، ابن عبدربہ وغیرہ نے بھی کی ہے۔۔ علامہ شبلی نعمانی نے ان واقعات کی صحت کی تصدیق کرتے ہوئےلکھا ہے کہ روایت کے مطابق اس واقعہ سے انکار کی کوئی وجہ نہیں اور حضرت عمر کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمر نے تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کاروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنو ھاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا اور وہی خانہ جنگیاں برپا ہو جاتیں تو آگے جا کر حضرت علی اور معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں پیدا ہوئیں۔۔۔ شاہ عبدالعزیز نے لکھا ہے کہ یہ قصہ افترا ہے اور اس کی کچھ اصل نہیں اگر جلانے کی دھمکی دی گئی تھی تو اس کا مقصد صرف ڈرانا تھا کیونکہ ایسے لوگ اس گھر میں پناہ لیے ہوئے تھے جو حضرت ابوبکر کی خلافت لوٹ پوٹ کرنے کے واسطے صلاح و مشورہ کرتے تھے۔ ۔ ۔ یہ فعل حضرت عمر سے مطابق فعل معصوم وقوع میں آیا (کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی ترک نماز کرنے والوں کے گھر کو آگ سے پھونکنے کی دھمکی دی تھی) اس لیے طعن کیوں ہو۔ 3 جمادی الاخر 11ھ کو انتقال ہوا اور صحیحین کے مطابق بوجہ حضرت فاطمہ کی وصیت کے انہیں رات کے وقت دفنایا گیا۔ جنازے میں حضرت علی، حضرت حسن و حسین،حضرت عقیل ابن ابی طالب، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوذر غفاری، حضرت مقداد ابن اسود، حضرت عمار ابن یاسر اور حضرت بریدہ شریک تھے۔ دیگر روایات میں حضرت حذیفہ یمانی، حضرت عباس، حضرت فضل، حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا ذکر ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن زبیر کا ذکر بھی آتا ہے

  • اکثر اور مشہور روایات کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ چالیس دیگر قبریں بھی بنائی گئیں تاکہ اصل قبر کا پتہ نہ چل سکے۔ جبکہ کچھ روایات کے مطابق گھر میں دفن ہوئیں۔ جب حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو گھر مسجد میں شامل ہو گیا

حضرت امام حسن ُ۔۔8 ۔پسر۔7 ..دختر[ترمیم]

ولادت[ترمیم]

15 رمضان 3 ہجری۔ مدینہ منورہ(1 مارچ 625 عیسوی)

وفات[ترمیم]

28 صفر 50 ہجری۔۔ جنت البقیع ۔۔مدینہ منورہ۔۔669 عیسوی۔۔۔۔۔47 سال

حضرت امام حسین ُ۔۔6 ۔پسر۔5 ..دختر[ترمیم]

ولادت[ترمیم]

3 شعبان 4 ہجری۔مدینہ منورہ۔۔ 8 جنوری626 عیسوی

وفات[ترمیم]

10 محرم 61 ہجری۔۔کربلا معلی۔۔عراق۔۔10 اکتوبر 680 عیسوی۔۔۔۔۔۔57 سال

ذیلی فرقے[ترمیم]

اثنا عشری[ترمیم]

اثناعشریہ(یعنی بارہ امام)،اہل تشیع (یعنی شیعہ) کا سب سے بڑہ گروہ ماننا جاتا ہے۔ قریبا 80 فیصد شیعہ اثنا عشریہ اہل تشیع ہیں۔ ایران، آذربائجان، لبنان، عراق، اور بحرین میں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ھیں۔ پاکستان میں اہل سنت کے بعد اثنا عشریہ اہل تشیع کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اثنا عشریہ کی اصطلاح بارہ آئمہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کا سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد اور داماد علی علیہ السلام سے شروع ہوتا۔ یہ خلافت پر یقین نہیں رکھتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان کے جانشین امام علی علیہ السلام ہیں اور کل بارہ امام ہیں جن کا تذکرہ احدیث میں آتا ہے۔ کم و بیش تمام مسلمان ان آئمہ کو اللہ کے نیک بندے مانتے ہیں تاہم اثنا عشریہ اہل تشیع ان آئمہ پر اعتقاد کے معاملہ خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ ان بارہ آئمہ کے نام یہ ہیں:

  1. حضرت امام علی علیہ السلام
  2. حضرت امام حسن علیہ السلام
  3. حضرت امام حسین علیہ السلام
  4. حضرت امام زین العابدین علیہ السلام (حضرت شہر بانو بنت یزد جرد)(۱۱ پسر)(ولادت۔۱۵ جمادی الاول ۳۸ ہجری۔مدینہ منورہ)(وفات۔ ۲۵ محرم ۹۵ ہجری۔جنت البقیع ۔مدینہ منورہ)(57 سال)
  5. حضرت امام محمد باقر علیہ السلام (حجرت فاطمہ بنت امام حسن )(7 پسر۔3 دختر)(ولادت۔ یکم رجب 57 ھجری۔مدینہ منورہ)(وفات۔ 7 ذی الحجہ 114 ہجری۔جنت البقیع ۔مدینہ منورہ)(57 سال)
  6. حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام (حضرت ام فروہ بنت قاسم ۔بن محمد )(7 پسر۔ 3 دختر)(ولادت۔ 17 ربیع الاول۔ 83 ہجری۔مدینہ منورہ)(وفات۔ 15 شوال۔ 148 ہجری۔ جنت البقیع ۔ مدینہ منورہ۔)(65 سال)
  7. حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام (حضرت حمیدہ خاتون)(18 پسر۔ 12 دختر)(ولادت۔ 7 صفر128 ہجری۔ ابواء مابین۔مکہ و مدینہ)(وفات۔ 25 رجب۔ 183 ہجری۔ کاظمین ۔عراق۔)(55 سال )
  8. حضرت امام علی رضا علیہ السلام (حضرت ام البنین )(۱۔پسر امام محمد تقی)(ولادت۔ ۱۱ ذیقعد 153 ہجری۔مدینہ منورہ)(وفات۔۔23 ذیقعد 203 ہجری۔مشہد مقدس ایران)(50 سال)
  9. حضرت امام محمد تقی علیہ السلام (حضرت خیزران خاتون)(2 پسر ۔ 3 دختر)(ولادت ۔ 10 رجب ۔ 195 ہجری۔مدینہ منورہ)(وفات۔ 29 ذیقعد ۔220 ہجری ۔کا ظمین ۔عراق)(25 سال ۳ ماہ ۱۲ دن)
  10. حضرت امام علی نقی علیہ السلام (حضرت سمانہ خاتون )(۵۔ پسر)(ولادت۔ 5 رجب ۔214 ہجری۔حوالی۔ مدینہ منورہ)(وفات۔۔3 رجب ۔254 ہجری ۔سرمن راءے عراق)(40 سال)
  11. حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام (حجرت حدیثہ خاتون)(حضرت صاحب العصر)(والادت۔ 10 ربیع الاول۔ 232 ہجری )(مدینہ منورہ)(وفات۔۔8 ربیع الاول ۔260 ہجری۔سرمن راءے ۔عراق)(28 سال 2 ماہ)
  12. حضرت امام مھدی علیہ السلام (حضرت نر جس خاتون) (العلم عنداللہ) (ولادت۔ 15 شعبان۔ 256 ہجری ۔سرمن راءے ۔عراق)(وفات۔۔بحکم خدا زندہ ہیں۔ جاءے غیبت ۔سرمن راءے ۔عراق)(ماشااللہ)
اثنا عشریہ[ترمیم]

اہل تشیع اور دوسرے مسلمانوں میں ان کے وجود کے دور اور ظہور کے طریقوں کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

اسماعیلی[ترمیم]

چھٹے امام جعفر صادق کی وفات پر اہل تشیع کے گروہ ہو گئے۔ جس گروہ نے ان کے بیٹے اسماعیل کو ، جو کہ والد کی حیات میں ہی وفات پا گئے تھے ، اگلا امام مانا وہ اسماعیلی کہلائے۔ اس گروہ کے عقیدے کے مطابق اسماعیل بن جعفر ان کے آخری امام ہیں۔ جس گروہ نے حضرت موسی کاظم علیہ السلام کو اگلا امام مانا وہ اثنا عشری کہلائے کیونکہ یہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔

زید[ترمیم]

حدیث[ترمیم]

تاریخ[ترمیم]
  1. جب فدک حضور نے حضرت فاطمہ الزہرہ سلام اللہ علیہ کو بطور عطیہ دے دیا۔اور اس کی سند لکھ دی۔ اسی سال حضرت ابو ہریرہ مسلمان ہوءے۔انہوں نے ساڈھے 3 سال حضور کا زمانہ دیکھا۔ اور اس میں بھی 2 سال بحرین میں رہے۔ مگر 5304 احا دیث کے راوی ہیں۔
  2. جس سال سریہ ذات السلاسل واقع ہوا۔ اسی سال عاءشہ انصاریہ نے حضور ص کے لیے تین درجے کا ایک منبر بنوا کر پیش کیا،۔۔
  3. جنگ فدک میں جب کفار نے حضور ص پر حملہ کر دیا مگر جانثار سینہ سپر ہو گءے۔ حضرت علی علیہ السلام نے بڑھ کر علم بردار لشکر ابو جردل کو قتل کر دیا۔ اور شدید لڑاءی کے بعد کافروں کو شکست ہو گءی۔ صرف 4 مسلمان شہید ہوءے۔ 70 کافر مارے گءے۔ جن میں سے 40 حضرت علی علیہ السلام نے قتل کیے۔۔
  4. ایک دن علی علیہ السلام ہوازن و ثقیف کے بتوں کو توڑ کر نواح طاءف سے پلٹے تو حضور ص آپ کو تنہاءی میں لے گءے۔اور باتیں کرنے لگے۔جب اس خلوت و تنہاءی کا زمانہ طویل ہو گیا۔ تو صحابہ کہنے لگے۔ کہ عجب ہے۔ دور دراز کی باتیں چچا کے فرزاند سے کرتے ہیں۔اور دوسروں سے نہیں کہتے۔ رسول اللہ نے فرمایا۔ میں ان کے ساتھ راز کی باتیں نہیں کرتا۔ بلکہ اللہ تعالی ان کے ساتھ راز کی باتیں کرتا ہے۔
  5. حضور ص جب منزل تبوک سے واپسی پر عقبہ ذی فتق نام کی ایک گھاٹی پڑتی تھی۔ جو سواری کے لیے خطر ناک تھی۔اس لیے حزیفہ نے ناقے کی مہار تھامی۔ اور عمار اس کو ہنکاتے ہوءے چلے۔ ناگاہ بجلی کی چمک میں تھوڑے فاصلے سے چند نقاب پوش سوار نظر پڑے۔ حضور ص نے حذیفہ سے فرمایا کہ یہ منافق ہیں۔ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ نے ان کے نام بھی بتا دیےء۔ اور کہا کہ اس راز کو ظاہر کرو گے۔تو وہ لوگ کھل کر سامنے آ جاءیں گے۔
  6. وادی الرمل عرب کے کافر جمع ہو گءے تھے۔ آپ نے پہلے ابو بکر کو بھیجا وہ شکست کھا کر واپس آءے۔ پھر عمر کو بھیجا انہیں بھی کامیابی نہیں ہوءی۔ پھر عمر عاص کو روانہ کیا۔ان کا انجا م بھی پہلوں جیسا ہوا،آخر میں حضرت علی کو علم دے کر روانہ کیا۔ جنگ مخدوش تھی۔حضرت علی نے عام راستہ چھوڑ کر صرف رات میں سفر کیا۔ اور نہایت خاموشی سے دشمن کے سر پر جا پہنچے۔وہ فوج جو ابتداَََ تین بہادروں کو بھاگنے پر مجبور کر چکی تھی۔ وہ خود میدان سے منہ موڑنے پر مجبور ہو گءی۔ اور علی مظفر و منصور واپس ہوءے۔ جاتے وقت بھی حضور نے خود کھڑے ہو کر رخصت کیا۔واپسی پر بھی استقبال کیا اور خوشنودی کی سند عطاکی۔
  7. حجتہ الوداعاس سفر کا التزام حضور نے خاص طور پر کیا تھا۔ جناب سیدہ اور تمام امہا ت المومنین ہمرکاب تھیں۔اصحاب کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتاءی جاتی ہے۔
  8. 14 ذی الحج کو مکے سے چل کر 18 ذی الحج کو خم غدیر میں اقامت پزیر ہوءے۔ جہاں آیت بلغ کا نزول ہوا۔ حضور نے پا لا ن شتر سے ایک منبر بنوایا۔اور حضرت بلال سے کہا ۔کہ اصحاب کو جمع کریں۔ حضرت بلال نے آواز لگاءی۔ ( حی علی خیر العمل)ایک لاکہ چوبیس ہزار صحابہ دیکھتے ہی دیکھتے جمع ہو گءے۔ آپ نے سر منبر پہنچ کر حضرت علی کو اپنے برابر کھڑا کیا۔ اور خطبہ دینا شروع کر دیا۔ فصاحت و بلاغت کے چشمے ابل رہے تھے۔ اور وصیت کے طور پر آپ مسلمانوں سے فر ما رہے تھے ( میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔جو ایک دوسرے سے بزرگ تر ہیں۔ ایک ہے قرآن کریم، دوسرے میرے اہل بیت دیکھو میرے بعد ان دونوں چیزوں میں احتیاط کرنا کہ کس طرح تم ان سے سلوک کرتے ہو۔اور کیسے ان کے حقوق ادا کرتے ہو۔یہ دونوں چیزیں میرے بعد ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہوں گی۔جہاں تک کہ تم حوض کوثر کے کنارے مجھ سے آکر ملو۔حق تبارک و تعالی میرا مولا ہے۔ اور میں تمام مسلمانوں کا مولا ہوں۔) پھر آپ نے علی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بلند کیا۔اتنا بلند کہ پورا مجمع دیکھ لے۔ آپ نے فرمایا۔ جس کا میں مولا ہوں۔یہ علی بھی اس کے مولی ہیں۔اے خدا تو بھی اسے دوست رکھ جو اس کو دوست رکھے۔اور تو اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔۔۔۔مدد کر اس کی جس نے علی کی مدد کی اور ذلیل کر اسے جس نے علی کو چھوڑااور حق کو علی کے ساتھ لازم کر جس طرف علی ہوں۔۔۔پھر حضور منبرسے اترے علی کے سر پر سیاہ عمامہ باندھا اوران لوگوں کے لیے چھوڑ دیا۔جو مبارک باد دینے کے لیے بڑہ رہے تھے۔جبرءیل بھی عرش سے ہدیہ تبریک پیش کرنے کو آءے تھے۔آپ نے آنحضرت کو تکمیل دین اور اتمام نعمت کا مزدہ سنایا۔۔۔۔


۔

  1. جنگ صفین۔۔۔ یہ جنگ دریائے فرات کے کنارے اس علاقے میں ہوئی جو اب ملک شام میں شامل ہے اور الرقہ (اردو میں رقہ) کہلاتا ہے۔جو حلب سے 160 کلومیٹر دور دریائے فرات پر آباد ہے۔جنگ صفین جولائی 657 عیسوی میںلڑی گءی۔ اس جنگ میں شامی افوج کے 45000 اور خلیفہ کی افواج کے 25000 افراد مارے گئے ۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔ اس جنگ کی پیشینگوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی تھی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو بتایا تھا کہ اے عمار تجھ کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔ حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ یہ دونوں اصحاب رضی اللہ عنہ حضرت علی کی فوج میں شامل تھے۔ اسی جنگ میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فوج کے امیر حضرت مالک اشتر اور دوسری طرف عمرو ابن العاص تھے۔
  2. جنگ جمل

سالار ورہنما حضرت علی رضی اللہ عنہ مالک بن حارث رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سالار ورہنما عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مروان اول ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ 10 جمادی الثانی 36 ھ مطابق 4 دسمبر 656ء۔ مسلمانوں کے درمیان قصاص عثمان پر لڑی جانے والی جنگ ام المومنین حضرت عائشہ حج کی غرض سے مکہ تشریف لے گئی تھیں۔ وہاں انھیں معلوم ہوا کہ حضرت عثمان شہید کر دیئے گئے ہیں۔ اور حضرت علی خلیفہ ہوگئے ہیں۔ تو انھوں نے حضرت عثمان کے قصاص کے لیے آواز اٹھائی اور پھر بصرہ چلی گئیں۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی آپ کے ساتھ ہوگئے۔ یہ بزرگ اس لیے ناراض تھے کہ حضرت علی نے قاتلوں سے قصاص عثمان کیوں نہیں لیا۔ جب یہ لوگ بصرہ پہنچے تو وہاں کے گورنر عثمان بن حنیف نے انھیں روکا مگر عثمان کو شکست ہوئی اور حضرت عائشہ کے ساتھیوں نے بصرہ پر قبضہ کر لیا ۔ حضرت علی کو پتہ چلا تو وہ بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کوفہ سے بھی ایک فوج آپ کی مدد کے لیے آگئی۔ حضرت عثمانؓ اسلام کے تیسرے خلیفہ مقرر ہوئے تو آپؓ کے دور میں یہودیوں نے "منافقت " کا راستہ بڑے پرعزم طریقے سے اختیار کیا اور "عبداﷲ بن سبامنافق"کو اس کام کے لئے تیار کیا ۔ اس نے مسلمان کا روپ ڈھال کر یہودیوں کے لئے کام کیا اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ جب اس نے دیکھا کہ علیؓ نبیﷺ کے بہت قریبی رشتدار ہیں اگر ان کے نام پر عثمانؓ کے خلاف کام کیا جائے تو بڑا کامیاب ہوگا۔ عرب میں عبداﷲ بن سبا اپنا کام نہ کرسکا کیونکہ یہاں صحابہ ؓ کی کافی بڑی تعداد موجود تھی اسلئے اس نے عراق کے علاقے کا انتخاب کیا کیونکہ یہ علاقہ مسلمانوں نے فتح کرلیا تھا لیکن یہاں پر اب بھی وہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایرانی بادشاہ کی محبت اور مسلمانوں کے خلا ف نفرت تھی۔ وہاں جاکر عبداﷲ بن سبا نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ یہ کیا بات کہ نبیﷺ کے رشتداریعنی علیؓ تو یوں ہی بیٹھے رہیں اور اِدھراُدھر کے لوگ خلیفہ بن جائیں۔ابھی وقت ہے کہ عثمانؓ کو ہٹا کر علیؓ کو خلیفہ بنادو۔لیکن چونکہ بصرہ عراق میں صحابہؓ کی بہت ہی تھوڑی تعداد تھی جو نہ ہونے کے برابر تھی اسلئے کوئی عبداﷲ بن سبا کی باتوں کا جواب نہ دے سکتا اگر وہ ہوتے تو جواب دیتے کہ نبیﷺ اپنے خاندان کو خلافت دلانے نہیں بلکہ دین کو پھیلانے آئے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور لوگ آہستہ آہستہ ا س کی باتوں سے متاثر ہوکر عثمانؓ کے خلاف ہوتے گئے۔ جب بصرہ کے گورنر عبداﷲ بن عامر کو عبدا ﷲ بن سبا کی منافقت کی خبر ملی تو اس کو بصرہ سے نکال دیا اور یہ پھر کوفہ پہنچ گیا۔وہاں سے بھی نکلوادیا گیا پھر یہ شام پہنچا لیکن وہاں معاویہ ؓ گورنر تھے جنھوں نے اس کو وہاں سے بھی نکال دیا۔ عبداﷲ بن سبا کو چونکہ تمام اسلام دشمن لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی اسلئے وہ اس کام کو چلانے کے لئے پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ عبداﷲ بن سبا شام سے نکالے جانے کے بعد مصر پہنچا اور وہاں کام شروع کیا اور ایک اچھی خاصی جماعت بنالی جو عثمانؓ کے خلاف ہوگئے۔ حضرت عثمان غنیؓ بڑے نرم طبیعت کے صحابی تھے۔عثمانؓ کو یہ منافقین عبداﷲ بن سبا کے اشارے پر مختلف علاقوں سے خطوط بھیجتے اور ان علاقوں کے گورنروں اور قاضیوں کی خراب کارکردگی بیان کرتے جو کہ سراسر جھوٹ ہوتی اس طرح آپؓ کو پریشان کرتے اور آپؓ کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے۔ چونکہ عبداﷲ بن سبا منافق اپنے ساتھ دوسرے منافقوں کو بھی شامل کرتے جارہے تھے اور تعداد بڑھاتے جارہے تھے۔ اس طرح عثمان ؓ کے لئے انھوں نے ایک بڑا فتنہ کھڑا کردیا- آخر کار عثمان ؓ کو 22 دن کے محاصرہ کے بعد 18 ذی الحجہ سن 35 ہجری کو شہید کردیا ۔آپؓ نے 8 سال تک حکومت کی جس میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا دونوں اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ پہلے امن و امان قائم ہوجائے پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قصاص لیا جائے۔ مگر جن لوگوں کو ان کی مصالحت کی وجہ سے اپنی جان کا خطرہ تھا، وہ دونوں کو لڑانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ لڑائی کوفہ کے باہر خریبہ کے مقام پر ہوئی اس میں حضرت طلحہ و حضرت زیبر شہید ہوئے اور کوئی دس ہزار مسلمان کام آئے ۔ اس جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک اونٹنی پر سوار تھیں۔ (جمل کا مطلب ہے اونٹ اور اسی لیے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں) ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جلال میں آنے کے بعد اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ وہ بلبلا کر بیٹھ گی ۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فوج کو شکست ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بڑے احترام کے ساتھ مدینے روانہ کر دیا۔ اس جنگ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بیٹے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی کے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قریبی اور پیارے صحابی تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف سے لڑے۔ جنگ جمل وہ جنگ تھی جو منافقین اور باغیوں نے بھڑکائی یہ باغی جو حضرت علیؓ کی فوج میں موجود تھے انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما اور حضرت علیؓ کے درمیان ہونے والی رضامندی کو جنگ میں بدل دیا۔ اس رضامندی کے بعد علیؓ قاتلان عثمان ؓ کو سزا دینے اور عائشہؓ ، طلحہ ؓ اور زبیرؓ اور دیگر صحابہؓ علیؓ کی بیعت کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ لیکن منافقین نے جب یہ اتحاد دیکھا تو آپس میں منصوبہ بنایا کہ دونوں طرف باغی ایک دوسرے پر تیر پھینکیں گے اور علیؓ کی فوج میں شامل باغی شور مچادینگے کہ عائشہؓ کے لوگوں نے تیر پھینکے اور عائشہؓ کی فوج کی طرف تیر پھینکے جائینگے تو جو باغی یہاں سے وہاں گئے وہ شور مچادینگے کہ یہ علیؓ کی فوج نے پھینکے۔ انھوں نے پھراسی طرح کیا اور اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے اور جنگ جمل ہوئی۔ اس جنگ میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی باغی فوج مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے میں کامیاب ہوءی اور جنگ جمل مسلمانوں کے درمیان لڑی جانے والی پہلی جنگ ہوئی جس میں بھائی نے بھائی کا خون بہایا۔ اس جنگ کے شعلے مزید بھڑکے اور حضرت امیر معاویہ نے قصاص عثمان کا مطالبہ کر دیا۔ اور شام میں بغاوت کی۔ جس کی سرکوبی کے لیے جنگ صفین لڑی گئی۔ یوں مسلمانوں کی عظیم ریاست باغیوں کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اور اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔ حضرت علیؓ کی اپنے فوجیوں کے بارے میں رائے حضرت علیؓ کی فوج میں ایک بڑی تعداد باغیوں اور قاتلان عثمانؓ کی تھی اسلئے وہ خود بھی بے بس تھے کہ ان سے کس طرح جان چھڑا سکیں ۔ان فوجیوں اور باغیوں کے بارے میں علیؓ کے الفاظ سنیے جو انہوں نے ـ"نہج البلاغہ "میں لکھیں ہیں۔ "میں روز اول سے تمھاری غداری کے انجام کا انتظار کررہا ہوں اور تمھیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں"(صفحہ 45) "میں تو تم میں سے کسی کو لکڑی کے پیالہ کا بھی امین بناؤں تو یہ خوف رہے گا کہ وہ کنڈا لے بھاگے"(صفحہ 69) "اپنے اصحاب کو سرزش کرتے ہوئے(قوم)کب تک میں تمھارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں خد ا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مددگار ہونگے(مدد)۔خدا تمھارے چہروں کو ذلیل کرے۔"(صفحہ 119) "خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے کہ تم میں سے دس لے کر ایک دیدے۔(صفحہ 189) اس طرح کے کئی اقوال جو علیؓ سے منسوب ہیں نہج البلاغہ میں بکھرے پڑے ہیں ۔ ان کو پڑھ کر بخوبی اندازا ہوتا ہے کہ علیؓ بھی اپنی فوجوں سے تنگ تھے اور ان کا مکروفریب اور ان کے باغی اور قاتلان عثمان ؓ ہونے کو خوب جانتے تھے لیکن بے بس تھے۔ ان کی اسی بے بسی کی وجہ سے معاویہ ؓ ان کی بیعت نہ کرتے تھے۔

تاریخ[ترمیم]
  1. حجتہ الوداع سے واپسی پر حضور ص کی طبیعت زیادہ خراب ہو گءی۔ یہودی عورت نے خیبر میں جو زہر دیا تھا۔ اس کے اثرات اب نمایاں ہو رہے تھے۔آہستہ آہستہ آپ کی بیماری کی خبر عام ہو گءی۔ نتیجہ عرب کے مختلف علاقوں میں مدعیان نبوت بھی پیدا ہو گءے۔ اور قیصر روم کی طرف سے حملے کا خطرہ بھی بڑہ گیا۔لہذا آپ ص نےاسامہ بن ذید کی سرکردگی میں ایک لشکر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اور حکم دیا کہ علی کے علاوہ انصارو مہاجرین میں سے ہر شخص اسامہ کے ساتھ جاءے گا۔ جو اس جنگ میں نہ جاءے گا۔ اس پر خدا کی لعنت ہو گی۔۔۔
  • اس کے بعد آنحضرت ص نے اسامہ کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے روانہ کیا۔ اور اسامہ مدینے سے تین میل فاصلے پر بمقام جرف مجاہدین کو جمع کرنے لگے۔بڑی کثرت سے لوگ جمع ہو گءے۔ لیکن حضرت ابو بکر، عمر، عثمان، سعد بن ابی وقاص ، ابو عبیدہ بن الجراح وغیرہ میں سے کوءی نہیں آیا۔ اسامہ نے ان کا انتظار کیا۔اور آخر آگے کی طرف چل پڑے۔مگر وہ بہت دور نہیں گءے تھے۔ کہ حضور کا وقت آخر ہونے کی خبر سنی لہذا اسی مقام پر رک گءے۔۔محدث دہلوی نے اس نا فرمانی کا بھی تزکرہ کیا ہے۔اور اس کا سبب بھی لکھا ہے۔ کہ اسامہ کم سن تھے۔ اور یہ لوگ جہاندیدہ، اور جنگ آزمودہ،پھر ایک غلام زادے کی امارت پر بھی انھیں اعتراض تھا۔ جس کی تلافی بعد میں کر دی گءی۔ عذر گناہ بد تراز گناہ۔ محدث دہلوی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ اصل اعتراض علی کے روک لینے پر تھا۔ اور وہ حالات پیش نظر تھے۔ کہ حضور ص کا رشتہ حیات کسی وقت بھی منقطع ہو سکتا ہے۔ اگر ان سب کی عدم موجودگی میں ایسا ہوتا تو جو منصوبہ ذہنوں میں ترتیب پا رہا تھا۔ اس پر عمل نہ ہو سکتا۔ لہذا ایک منظم گروہ کا کوءی فرد جانے پر تیار نہیں ہوا۔۔۔
تاریخ[ترمیم]

جب رسول اللہ کے مرض الموت میں زیادتی ہوءی۔تو فرمایا کہ مجھے دوات اور کاغذ دو تاکہ میں تمہارے لءے

تاریخ[ترمیم]
تاریخ[ترمیم]

شیعہ نکتہ نظر سے[ترمیم]

  • شیعہ نکتہ نظر سے اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد اور داماد حضرت علی اور ان کے صاحبزادے حضرت امام امام حسن رضی اللہ عنہ اورحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔ یہ تمام افراد اصحاب کساء کے نام سے بھی مشہور ہیں
فرقہ کے لفظی معنی[ترمیم]

فرقہ کا لفظ فرق سے بنا ہے جس کے معنی مختلف یا الگ کرنے یا تمیز کرنے کے ہوتے ہیں ، مگر جب بات مذہب کی ہو تو اس سے مراد اختلاف ، قطع یا منحرف کی لی جاتی ہے یعنی کسی ایک مذہب میں اسکے ماننے والوں میں ایسے گروہ واقع ہونا کہ جن میں آپس میں متعدد یا چند امور یا ارکان یا خیالات میں (واقعتاً یا مجازاً) اختلاف پایا جاتا ہو اور وہ ایک دوسرے سے انحراف رکھتے ہوں ، اس مذہب کے فرقے کہلاتے ہیں اور یہ عمل فرقہ بندی کہلاتا ہے۔ فرقہ کی جمع ؛ فرقے یا فرقات کی جاتی ہے

معاویہ بن ابو سفیان جب اسلام لائے تو زند گی کے 25 برس میں تھے۔فتح مکہ کے بعد آنحضور ُ نے انہیں کاتب وحی مقرر کیا۔اس کے علاوہ بیرون ملک سے آنے والے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال کا کام بھی آپ کے سپرد تھا۔یہ دور نبی کریم ُ کی زندگی کا آخری حصہ تھا۔اس لیے معاویہ زیادہ عر صہ آستانہ نبوت سے منسک نہ رہ سکے۔ابو بکر نے ان کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو شام کے محاز پر بھیجا تو معاویہ ان کے ساتھ تھا۔عہد فاروقی میں یزید کی وفات کے بعد آپ کو ان کی جگہ دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا۔رومیوں کے خلاف جنگوں میں سے قیساریہ کی جنگ آپ کی قیادت میں لڑی گئی۔جس میں 80 ہزار رومی قتل ہوئے تھے۔حضرت عثمان نے آپ کو دمشق اردن اور فلسطین کا تینوں صوبوں کا والی مقرر کیا۔اور اس پورے علاقے کو شام کا نام دیا گیا۔حضرت عثمان آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔اور آپ کا شمار عرب کے چار نامور مدبرین میں ہوتا تھا۔اس کا دور حکومت 24 سال تک محیط ہے۔معاویہ نے حضرت علی سے یہ مطالبہ کیاکہ آپ پہلے قاتلان عثمان سے قصاص لیں۔حضرت علی نے جواب میں فرمایا کہ ابھی ہر طرف شورش اور ہنگامہ ہے۔ یہ فرو ہو جائے اس کے بعد حساب لیں گے۔۔ حضرت علی کو اپنے دور خلافت میں خوارج کا مقابلہ کرنا پڑا۔حضرت علی کی شہادت کے بعد اہل کوفہ نے امام حسن کی بیت کر لی۔۔۔۔لیکن آپ کے اعلان خلافت کے فوراَََ بعد معاویہ نے عراق پر فوج کشی کر دی۔۔کوفی قابل اعتماد نہ تھے اس کے علاوہ امام حسن کی پوزیشن بھی مستحکم نہ تھی۔ اس لیے آپ نےبہتر یہی سمجھا کہ امت مسلمہ کو مزید خونریزی سے بچانے کے لیئےمعاویہ کے حق میں دست بردار ہو جائیں۔۔دستبرداری کے بعد 661 ء میں معاویہ نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔۔ مخالفین بنو امیہ میں سب سے زیادہ خطرناک اور منظم گروہ خوارج کا تھا۔۔کوفہ میں مغیرہ بن ابی شعبہ اور بصرہ زیاد بن ابیہ کو مورر کیا۔۔

  • حضرت حجر بن عدی حضرت علی کے فدائیوں میں سے تھے۔ جب معاویہ نے اپنے عہد اقتدار میں قاتلان عثمان پر سب و شتم کی بنیاد رکھی اور تمام صوبوں کے والیوں اور اعمال حکومت کو حکم دیا کہ وہ بھی جمعہ کے خطبہ میں قا تلان عثمان کو برسر منبر برا بھلا کہیں (خلافت و ملوكيت تصنيف مولانا مودودى) معاویہ نے حضرت علی RAZI.PNG کو برسر منبر برا بھلا کہنے کا حکم دیا۔ ۔ حضرت علی کو برا بھلا کہنے کی روایت حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ختم کروائی۔ اس بنا پر حجر بن عدی میں معاویہ اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا ۔زیاد نے کوفہ کی امارت کے زمانہ میں حجر بن عدی اور ان کے چند ساتھیوں کو قتل کرا دیا۔ حجر بن عدی بڑے مرتبہ کے صحابی تھے ۔ آپ کے قتل نے دنیائے اسلام پر بہت برا اثر چھوڑا۔ (حوالہ خلافت و ملوکیت از مولانا مودودی)

مغیرہ بن شعبہ نے 50 ھ میں پہلی بار معاویہ کے سامنے خلافت کو ان کے خاندان میں منتقل کرنے اور یزید کو ولی عہد مقرر کرنے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ : ’’عثمان کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں میں جو اختلاف اور خونریزی قائم ہوئی ہے وہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے اس لیے میری رائے میں یزید کی ولی عہدی کی بیعت لے کر اسے جانشین بنا دینا چاہیے۔ تاکہ جب آپ کا وقت آخر آئے تو مسلمانوں کے لیے ایک سہارا اور جانشین موجود ہو اور ان میں خونریزی اور فتنہ و فساد پیدا نہ ہو۔

MY PERSONAL DOCUMENTS[ترمیم]

اللھم انی نفسدو

  1. مرغی کے پر سے 7 بار کاغذ پر لکھیں۔ پھر اس کا نام لکھیں۔جس کی تلاش ہے۔کام سے آنے کے بعد اس کو پانی میں بہا دیں۔

اللھم انی

  1. صبح نماز کے بعد 51 دفعہ تین سانس میں ہر دعا قبول ہو گی۔

یقینی عمل شربت صندل نسخہ 1شربت صندل قرشی ۱ بوتل 2 چھلکا اسبغول صبح نہار 2 گلاس پانی 2 چمچ چھلکا اس میں حسب ضرورت شربت صندل ملا لیں۔ صبح نہار 2 گلاس ، 3 سے 4 بجے سہ پہر 2 گلاس

  1. ۲

گڑ ۱ سال پرانا۔ ۱۰ گرام املی ۔ ۱۰ گرام آلو بخارا ۔ ۱۰ گرام سوڑی چنا ۔ ۱۰ گرام شکر حسب ذائقہ استعمال کریں۔ تیار کرنے کا طریقہ سب کو لے کر کورے پیالے میں رات کو بھگو دیں۔صبح اٹھ کر مل لیں۔اور چھان کر پی لیں۔نہار ۱ گھنٹہ بعد روٹی۔ استعمال کا طریقہ صبح نہار منہ ایک گلاس استومال کریں۔ تقریباََ ایک ماہ ہڑیڑاں دا مربہ ہڑیڑاں دا مربہ رات کو گرم دودہ کے ساتھ۔ اولے دا مربہ اولے دا مربہ صبح نہار منہ دودہ کے ساتھ