سید صبغت اللہ شاہ راشدی اول

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(صبغت اللہ شاہ راشدی سے رجوع مکرر)

سید صبغت اللہ شاہ راشدی اول ( سندھی) تھے۔ آپ سید محمد راشد شاہ صاحب روضے دھنی کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ جبکہ چھٹے اور آٹھویں پیر پاگارا کا نام بھی سیدصبغت اللہ شاہ راشدی ہے۔

ولادت[ترمیم]

سید صبغت اللہ شاہ اول 1183ھ/1779ء کو بمقام گوٹھ رحیم ڈنہ کلہوڑ عرف پرانی درگاہ شریف تحصیل پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میر س (سندھ) میں تولد ہوئے۔

پہلے پیر پاگارا[ترمیم]

پچاس سال کی عمر میں مسند آرائے رشد و ہدایت ہوئے اور دستار سجادگی ان کے سر پر باندھی گئی۔ ا س خاندان میں یہ پہلے پیر ہیں جو پیر پاگارا (صاحب دستار) کے لقب سے مشہور ہوئے۔ [1]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

امام العارفین کی زیر سرپرسی درگاہ شریف پر مروجہ نصاب کی تعلیم حاصل کی اور حضرت سے مثنوی شریف ودیگر تصوف کی کتب کا درس لیا۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ لکھتے ہیں: آپ قرآن شریف ، حدیث شریف اور فقہی احکام پر دسترس رکھتے تھے۔ حدیث شریف کا خاص مطالعہ کیا تھا اور روزانہ بعد نماز فجر درس حدیث دینا آپ کا معمول تھا۔ حدیث شریف میںمعلومات شارح جتنی تھی لیکن آپ محض لفظی شارح نہیں بلکہ عارف شارح تھے۔[2]

بیعت[ترمیم]

اپنے والد ماجد حضور امام العارفین کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئے اور انہی کی خدمت عالیہ مین رہ کر منازل سلوک طے کی۔

علمی شغف[ترمیم]

آپ نے تعلیم و تربیت اپنے والدِ محترم سید محمد راشد شاہ سے ہی حاصل کی۔ آپ بہت بڑے علمی کتب خانہ کے بھی مالک تھے جس میں نادر و نایاب کتابیں جمع کی تھیں۔سید احمد شہید کے نواسے سید حمید الدین ان کے کتب خانہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

ان کا کتب خانہ بڑا عجیب وغریب تھا سلاطین وامراء کے پاس بھی ایسا کتب خانہ نہ ہوگا پندرہ ہزار جلد کتب معتبرہ اس میں موجود ہیں۔ سو دیوان فارسی کے ایرانی خط میں مطلا، پینسٹھ جلدیں معتبر تفسیروں کی ،شاہنامہ فردوسی کے پانچ نسخے جن میں سے تین مصور ومطلا تھے۔ حدیث کی تمام معتبر کتابیں مع شروح ، جامع الاصول تیسر الوصول ،احیاء العلوم اورفتوحات مکیہ کے تین تین نسخے اور سب جلدیں شاہانہ ہیں۔[3]

آپ کو دینی علوم اور صوفیانہ کتب سے خاص دلچسپی تھی۔ اہم و مفید کتابوں کو جمع کرنا تا حیات دستور رہا۔ اس لیے آپ کے کتب خانہ مین نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا۔

مقام و مرتبہ[ترمیم]

سید صبغت اللہ شاہ اول کی سندھ میں مقبولیت اور ان کے علمی و روحانی مراتب کا اندازہ سید حمید الدین کے اس بیان سے ہوتا ہے جو انھوں نے سید صبغت اللہ شاہ کے متعلق تحریر کیا ہے۔

’’باشندگان سندھ کے نزدیک سارے ملک (متحدہ ہندوستان) میں ان (پیر صبغت اللہ) جیسا کوئی شیخ و مرشد نہیں۔ تقریباً تین لاکھ بلوچ ان کے مرید ہیں۔ مرجع خلق عام ہیں۔ جاہ و جلال سے زندگی گزار رہے ہیں۔ جودوکرم، اخلاص و مروت میں بھی شہرہ آفاق ہیں۔ ان کا کتب خانہ بڑا عجیب و غریب کتب خانہ ہے۔ بادشاہوں اور امرا کے پا س بھی ایسا کتب خانہ نہ ہوگا۔ پندرہ ہزار (15000) معتبر کتابیں اس میں موجود ہیں ۔ [4]

وفات[ترمیم]

سید صبغت اللہ شاہ کی وفات6 رمضان المبارک 1246ھ 1831ء کو 63 سال کی عمر میں ہوئی۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الرحیم مشاہیر نمبر 1967ء
  2. مقدمہ خزانۃ المعرفۃ ص17
  3. تاریخ دعوت وعزیمت ۔ سید ابو الحسن علی ندوی ، ص : 476 حصہ ششم
  4. تذکرہ صوفیائے سندھ ص273
  5. خزانۃ المعرفہ ص32 مقدمہ

(انوارِ علماِ اہلسنت سندھ)