ظفراللہ خان جمالی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ظفر اللہ خان جمالی سے رجوع مکرر)
ظفراللہ خان جمالی
تفصیل=
تفصیل=

15th وزیر اعظم پاکستان
مدت منصب
23 نومبر2002 – 26 جون2004
صدر پرویز مشرف
پرویز مشرف (بطور چیف ایگزیکٹو)
نواز شریف (بطور وزیر اعظم)
چودھری شجاعت حسین
وزیر اعلیٰ بلوچستان
مدت منصب
9 نومبر1996 – 22 فروری1997
ایکٹنگ
گورنر
ذوالفقار علی مگسی
اختر مینگل
مدت منصب
23 جون1988 – 24 دسمبر1988
گورنر
جام غلام قادر خان
وزیر اعلیٰ بلوچستان (ایکٹنگ)
معلومات شخصیت
پیدائش 1 جنوری 1944ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈیرہ مراد جمالی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 2 دسمبر 2020ء (76 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
راولپنڈی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دورۂ قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1944–1947)
پاکستان (1947–2020)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان مسلم لیگ ق  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رشتے دار A.R. Jamali (brother)
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور
ایچی سن کالج  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو،  بلوچی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

میر ظفر اللہ خان جمالی (1 جنوری 1944ء - 2 دسمبر 2020ء) پاکستانی سیاست دان اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم تھے جنھوں نے 2002ء سے لے کر 2004ء تک پاکستان کے 15 ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیا۔

ظفر اللہ جمالی صوبہ بلوچستان کی طرف سے اب تک پاکستان کے واحد وزیر اعظم تھے۔ ظفر اللہ جمالی انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو پر عبور رکھتے تھے۔

خاندانی پس منظر[ترمیم]

وہ یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے گاؤں روجھان جمالی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم روجھان جمالی میں ہی حاصل کی۔ بعد ازاں سینٹ لارنس کالج گھوڑا گلی مری، ایچیسن کالج لاہور اور 1965ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

جمالی خاندان قیام پاکستان سے ہی ملکی سیاست میں سرگرم رہے تھے۔ ظفر اللہ جمالی کے تایا جعفر خان جمالی قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ان کے علاقے میں آئیں تو ظفراللہ جمالی محافظ کے طور پر ان کے ساتھ تھے۔ جمالی خاندان کے افراد ہر دور میں صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کے چچا زاد بھائی میر تاج محمد جمالی (مرحوم) ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر رہے۔ میر عبد الرحمٰن جمالی اور میر فائق جمالی صوبائی کابینہ میں رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سن اٹھاسی کے بعد سے ان کے آبائی گاؤں روجھان جمالی سے تین وزراء اعلیٰ بلوچستانمنتخب ہو چکے ہیں جن میں تاج محمد کے علاوہ ظفراللہ کے بھتیجے جان جمالی بھی شامل ہیں۔ میر ظفراللہ کے والد میر شاہنواز جمالی پرانے مسلم لیگی رہنما میر جعفر خان جمالی کے بھائی تھے جنھوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ظفراللہ کی شادی خاندان میں ہی ہوئی جس سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ دو بیٹے، شاہنواز اور جاوید، پاک فوج میں افسر ہیں جبکہ تیسرے، فریداللہ باپ کی طرح سیاست میں ہیں اور سن ستانوے میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کے قبیلے کا ایک بڑا حصہ بلوچستان کے علاوہ صوبہ سندھ میں بھی آباد ہے۔ یوں ان کا سیاسی اور قبائلی اثر و رسوخ دو صوبوں پر محیط ہے۔[4]

عملی سیاست[ترمیم]

ذو الفقار علی بھٹو، میر جعفر خان جمالی کو اپنا سیاسی مرشد مانا کرتے تھے۔17 اپریل 1967ء کو جعفر خان جمالی کی وفات کے موقع پر جب ذو الفقار علی بھٹو روجھان جمالی گئے تو ظفر اللہ جمالی کے والد شاہ نواز جمالی سے انھوں نے کہا کہ اس گھرانے سے سیاست کے لیے مجھے ایک فرد دے دیجیئے، جس کے جواب میں شاہ نواز جمالی نے ظفر اللہ جمالی کا ہاتھ ذو الفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ یہی سے ظفر اللہ خان جمالی نے باقاعدہ عملی سیاست میں قدم رکھا۔[5]

1970ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1977ء میں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے۔ 1982ء میں وزیر مملکت خوراک و زراعت بنے۔ 1985ء کے انتخابات میں نصیرآباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔ 1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔ 29ء مئی 1988ء کو جب صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تو انھیں وزیر ریلوے لگادیا۔ 1986ء کے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بنے۔ 1988ء میں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد انھوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب تو برقرار رکھا لیکن اسمبلی توڑ دی جسے بعد میں عدالت کے حکم سے بحال کیا گیا۔ اس کے بعد نواب اکبر بگٹی وزیر اعلیٰٰ بنے۔ 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ 1993ء میں کامیاب ہو گئے۔ 9 نومبر 1996ء تا 22 فروری 1997ء دوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیر اعلیٰٰ رہے۔ 1997ء میں سینٹ کے ارکان منتخب کیے گئے ۔

مسلم لیگ (ق)[ترمیم]

1999ء نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو جمالی مسلم لیگ (ق) لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے۔ یہ جماعت نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانے والے صدر جنرل پرویز مشرف کی زبردست حمایت کر رہی تھی۔ مخالف دھڑے میں ہونے اور وزیر اعظم کی نامزدگی کے امیدوار ہونے کے باوجود وہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو وطن واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے خواہش مند تھے ۔

وزارتِ عظمٰی[ترمیم]

انتخابات 2002اکتوبر کے نتیجے میں ان کو پارلیمنٹ نے 21 نومبر 2002 میں وزیر اعظم منتخب کیا۔ وزیر اعظم کا انتخاب کئی سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیا۔ یہ مرحلہ اس وقت روبہ عمل ہوا جب پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا الگ ہو کر مسلم لیگ (ق) کی حمایت پر آمادہ ہوا۔

  • جمالی دور میں پرویز مشرف کے حمایتوں اور مخالفین کے درمیان جاری رہنے و الی رسہ کشی ایک سال کے بعد دسمبر 2003ء میں متحدہ مجلس عمل کی مدد سے ستارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد ختم ہوئی۔ متحدہ مجلس عمل اور پرویز مشرف کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ ستارہویں ترمیم منظور کرانے کے بعد پرویز مشرف 31 دسمبر 2004ء تک وردی اتارلیں گے۔ لیکن پرویز مشرف نے یہ وعدہ وفا نہ کیا۔
  • اپنے وزارت عظمیٰ میں ظفر اللہ جمالی نے کئی وسط ایشیائی، خلیجی ممالک سمیت امریکا کا بھی دورہ کیا۔ بش سینئر سے 90ء کی دہائی میں تعلق قائم تھا۔ پرانے تعلق کو استعمال کرتے ہوئے دورہ امریکا کے دوران صدر بش سے تعلق استوار کیا ۔[6]
  • ڈاکٹر عبد القدیر خان کی امریکا منتقلی کے لیے کاغذات پر دستخط سے انکار کیا۔[7]
  • جمالی اپنے دور اقتدار میں کوئی بڑا عوامی ریلیف دینے میں ناکم رہے تاہم ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ انھیں کے دور میں کوئی بڑا بحران نہیں رہا، متحدہ مجلس عمل سے مذاکرات کو چلائے رکھنا بھی ان کی بری کامیابی سمجھی گئی ۔

جمالی کابینہ[ترمیم]

وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی کی کابینہ میں خورشید قصوری،فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال، شیخ رشید احمد، عبدالستار لالیکا، ہمایوں اختر، کنور خالد یونس، نواز شکور، غوث بخش مہر، لیاقت جتوئی، اولیس لغاری، سمیر املک اور سردار یار محمد رند شامل تھے۔

استعفٰی[ترمیم]

وزیر اعظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے لگے، انھوں نے دورانِ حکومت صدر کی پالیسیوں کی مکمل حمایت بھی کی۔ ظفر اللہ جمالی ہمیشہ ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لیے کوشاں رہے اور جمہوریت کی بحالی کی طرف روبہ عمل رہنے کا وعدہ کیا تاہم وہ اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکے اور 26 جون 2004ء کو وزیر اعظم کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے ۔[8]

استعفے کی وجوہات[ترمیم]

  • وزیر اعظم جمالی کے استعفٰے کی وجہ واضح طور پر بیان تو نہیں کی گئی تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ سب چوہدری شجاعت حسین اور ظفر اللہ جمالی کے درمیان اختلافات کا نتیجہ تھا جو اس کے بعد ملک کے عبوری وزیر اعظم بنے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جنرل مشرف نے میر ظفر اللہ خان جمالی سے وعدہ لیا تھا کہ وہ تمام ایگزیکٹیو تقرریاں ان کی منظوری اور مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے مشاورت سے کرینگے تاکہ گڈ گورننس کا مقصد پورا ہوتا رہے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور میر ظفراللہ جمالی نے چند وفاقی سیکرٹریوں کے تبادلے اپنے طور پر کر دیے جس سے ابتدا ہی میں بد اعتمادی کی فضاء پیدا ہو گئی۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعظم جمالی کے لیے اقتدار پہلے دن سے ہی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوا۔ ان کی جماعت کے ارکان پارلیمنٹ میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا جن پر چوہدری برادران کی گرفت خاصی مضبوط تھی۔ مئی 2004ء تک جمالی اور شجاعت اختلافات شدت اختیار کر گئے اور اسمبلی ٹوٹنے اور وسط مدتی انتخابات کی باتیں ہونے لگیں ۔[9] [10]

  • جنرل پرویز مشرف سے انڈر سٹینڈنگ میں دوسرا فیصلہ یہ شامل تھا کہ پارٹی بالادست ہوگی یعنی وزیر اعظم اور حکومت پارٹی فیصلوں پر عمل درآمد کرے گی۔ اس اصول کا اعلان چوہدری شجاعت حسین نے مسلم لیگ ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاس عام میں کیا تھا۔ ظفراللہ جمالی نے بھی یہ اعلان کیا کہ یہ اصول کہ حکومت پارٹی کو نہیں پارٹی حکومت کو چلائے گی ہم نے مل بیٹھ کر طے کیا ہے اور وہ اس اصول پر کاربند رہیں گے۔ میر ظفر اللہ جمالی اپنے اس اعلان پر قائم نہ رہ سکے ۔
  • اختلاف کی ایک بڑی وجہ وزیر اعظم جمالی کی کابینہ میں چوہدری شجاعت کی توسیع کی خواہش پر عملدرآمد کرنے سے گریز بھی تھا ۔
  • صدر مشرف کے وزیر اعظم جمالی سے اختلاف کا ایک اہم واقعہ اپریل 2004ء میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے بل کی منظوری کے وقت پیش آیا۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کا مسودہ قانون وزیر اعظم جمالی نے کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کر دیا اور کابینہ میں کہا کہ ’ہم پر ذمہ داری آگئی ہے اور ہم اسے اس طرح منظور کریں کہ پارلیمینٹ کا وقار قائم رہے‘۔ جمالی کی کوششوں سے نیشنل سکیورٹی کونسل کا اصلی مسودہ قانون جسے صدر مشرف کے ساتھیوں نے تیا رکیا تھا اس میں تبدیلی کی گئی۔ ا س کے دائرہ کار میں سے جمہوریت، اچھا نظم ونسق اور بین الاصوبائی امور پر مشاورت کو نکال دیا گیا اور ان کی جگہ کرائسس مینجمینٹ (ہنگامی حالات سے نپٹنے) کے الفاظ شامل کیے گئے۔
  • اپریل 2004ء میں نیشنل سیکورٹی کونسل کا بل منظور ہوتے ہی پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ارکان وفاقی وزراء فیصل صالح حیات اور راؤ سکندر اقبال نے کھلے عام صدر مشرف سے کہا کہ وہ وردی نہ اتاریں اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔ بظاہر نرم مزاج جمالی اندر سے قدرے سخت سیاست دان ثابت ہوئے- انھوں نے آخر تک صدر پرویز مشرف کی وردی کے معاملے پر حمایت کرنے سے انکار کر دیا اور بطور وزیر اعظم نازک سیاسی معاملات پر اپنی آزاد رائے پر اصرار کیا۔[11] سرکاری پارٹی اور اس کے حلیفوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کو دیکھتے ہوئے صدر پرویز مشرف نے دھمکی دی کہ وہ پورا نظام لپیٹ دیں گے(ستارہویں ترمیم کے ذریعے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس مل گیا ۔) اس پر ارکان پارلیمنٹ خوفزدہ ہو گئے اور انھوں نے صدر کو کوئی درمیانی راہ نکالنے کے لیے کہا۔ اس دوران متحدہ مجلس عمل اور اے آر ڈی کی جانب سے میر ظفر اللہ خان جمالی کی حمایت میں بیان آنے لگے۔ یہ وہ صورت حال تھی جس نے صدر کو برہم کر دیا جس کے بعد ظفر اللہ جمالی پر استعفیٰ کے لیے دباؤ بڑھ گیااور وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ۔

اسپورٹس مین جمالی[ترمیم]

سیاست دان ہونے کے علاوہ جمالی ایک اسپورٹسمین بھی ہیں۔ جوانی کے دور میں انھوں نے سندھ بھر میں والی بال کے کئی ٹورنامنٹ منعقد کروائے اور یوں اس صوبے میں اس کھیل کو مقبول کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ خود والی بال کے اچھے کھلاڑی اور کرکٹ اور ہاکی کے شوقین ہیں۔ 2006ء سے 2008ء تک وہ پاکستانی ہاکی فیڈریشن کے صدر اور مختلف ادوار میں انتخابی بورڈ کے رکن بھی رہے ہیں۔

وفات[ترمیم]

نومبر 2020ء میں، ظفر اللہ خان جمالی کو دل کا شدید دورہ پڑنے کے بعد وینٹیلیٹر لگایا گیا تھا۔ 2 دسمبر 2020ء کو 76 سال کی عمر میں راولپنڈی میں ان کا انتقال ہو گیا۔[12][13][14]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000024548 — بنام: Mir Zafarullah Khan Jamali — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. Ex-PM Mir Zafarullah Khan Jamali passes away aged 76
  3. "Detail Information"۔ 21 April 2014۔ 21 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  4. "/ ظفراللہ جمالی کون ہیں؟، 21 نومبر 2002، بی بی سی اردو"۔ 19 مارچ 2005 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2009 
  5. [ /http://search.jang.com.pk/print.asp?nid=387635&param=tbl[مردہ ربط] سی ون تھرٹی تیار کھڑا تھا،آن دا ریکارڈ ..روزنامہ جنگ، 14 نومبر 2009ء]
  6. / جمالی بش ملاقات، 02 اکتوبر 2003ء
  7. سی ون تھرٹی تیار کھڑا تھا،آن دا ریکارڈ ..روزنامہ جنگ، 14 نومبر 2009ء[مردہ ربط]
  8. / جمالی نے استعفی دے دیا، بی بی سی اردو، 26جون 2004ء
  9. / بی بی سی اردو، 10مئی 2005ء
  10. / مسلم لیگ میں اختلافات برقرار،بی بی سی اردو
  11. / آخر وجہ کیا بنی؟، بی بی سی اردو، 26 جون 2004ء
  12. "Former Prime Minister Mir Zafarullah Khan Jamali has passed away"۔ News Box (بزبان انگریزی)۔ 2020-12-02۔ 31 مارچ 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2020 
  13. "Mir Zafarullah Khan Jamali, Former Premier Of Pakistan Dies"۔ Bol News۔ 2 December 2020۔ 02 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 دسمبر 2020 
  14. Tahir Naseer | Dawn.com (2020-12-02)۔ "Former PM Zafarullah Jamali passes away at 76"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 دسمبر 2020 
سیاسی عہدے
ماقبل  وزیراعلیٰ بلوچستان
1988ء
مابعد 
خدا بخش مری
ماقبل  وزیراعلیٰ بلوچستان (نگران)
1996ء   –   1997ء
مابعد 
خالی
عہدے پر پچھلی شخصیت
نواز شریف
وزیراعظم پاکستان
2002 – 2004
مابعد