ظہور نیازی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ظہور نیازی

ظہور نیازی لندن کے معروف صحافی اور جنگ گروپ کے اخبار جنگ لندن کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کا پورا نام ظہور احمد خان نیازی ہے۔ وہ گذشتہ 26 سال سے جنگ لندن میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں، 1946 کو پاکستان کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ اسکول کے درجہ چہارم میں ہی تھے کہ ان کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا۔ کراچی شہر کے مقامی اسکول و کالج میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کراچی یونیورسٹی، جامعہ کراچی میں داخلہ لیا جہاں سے انھوں نے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ کراچی میں تعلیم کے دوران ہی انھوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا اس سلسلے میں ملازمت کے لیے ان کا پہلا اخباری انٹرویو روزمانہ حریت 1967میں ہوا۔ کامیاب انٹرویو کے بعد ذمہ داران نے انھیں گھر جانے کی بجائے وہیں ڈیسک پر کام کے لیے بٹھا دیا۔ ظہور نیازی بعد ازاں روزنامہ جسارت، روزنامہ آغاز، روزنامہ انجام اور ہفت روزہ زندگی کے علاوہ پاکستان سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار اسٹار سے بھی منسلک رہے۔

طلبہ سیاست میں کردار

ظہور نیازی زمانہ طالب علمی کے دوران طلبہ سیاست میں انتہائی سرگرم اور طلبہ حقوق کے لیے مختلف تحریکوں میں پیش پیش رہے۔ ایوب خان کے مارشلاء کے دوران طلبہ کی احتجاجی تحریک کے دوران انھیں گرفتار کرکے دو ہفتے کے لیے قید بھی کیا گیا۔ وہ پاکستان کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اس دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلٰی سید منور حسن تھے جو آج کل جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

ظہور نیازی اپنے دفتر جنگ لندن میں

عملی زندگی کا آغاز

ظہور نیازی نے عملی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی میں 1967 سے ہی کر دیا تھا۔ 1975 میں وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ 1981 میں انھیں لندن کے ایک اردو اخبار ملت اخبار میں ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی اور وہ ملت اخبار کے مدیر کی حیثیت سے لندن چلے آئے۔ ملت اخبار ظہور نیازی کی آمد سے قبل ہی لندن کی ایک عدالت میں چوہدری ظہور الٰہی کی جانب سے ہتھک عزت کے مقدمہ کا سامنا کر رہا تھا۔ ان ہی دنوں ملت اخبار مقدمہ ہار گیا جس کے نیتجے میں اخبار بند ہو گیا۔ اخبار کی بندش کے بعد انھوں نے اس وقت کے پاکستانی صدر محمد ضیاء الحق کے مشیر معظم علی اور جلال الدین کے ساتھ مل کر سینٹر فار پاکستان سٹدیز نامی ادارے کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ قائم کرنے کے بعد انھوں نے برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں پاکستانیوں کا پہلا سیمینار منعقد کیا۔ ظہور نیازی کچھ عرصہ انگریزی خبررساں ادارے پی پی آئی نیوز ایجنسی کے لیے کام کرتے رہے اور بعد ازاں 1983 میں جنگ لندن سے وابستہ ہو گئے اور یہ تعلق آج تک قائم ہے۔

صحافت میں کردار

بطور صحافی ظہور نیازی نے جنگ لندن کو بے حد ترقی دی، اخبارسے کمیونٹی کے تعلق کو مضبوط کیا اور خبروں کے حصول کے لیے انھوں نے برطانیہ کے تمام شہروں اور یورپی ممالک کے دورے کیے اور ان شہروں میں نمائندے تعینات کیے۔ ظہور نیازی نے برطانیہ اور یورپ میں پاکستانی کمیونٹی کے اتحاد اور ان میں شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔

چاند کے دیرینہ مسئلہ پر کردار

ظہور نیازی برطانوی مسلمانوں کے مسائل پر ایک واضع نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ برطانوی مسلمانوں کے معروف مسئلہ چاند پر انھوں نے اپنی تحریروں اور دلائل سے کمیونٹی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ان کا ملک برطانیہ ہے جس کے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے حساب سے وہ نمازیں ادا کرتے اور روزہ کے دورانیئے کا تعین کرتے ہیں، لہٰذا برطانیہ کے مسلمانوں کو اپنے مطلع کے مطابق چاند دیکھنا اور اسی کے آبزرویٹری رپورٹ کے مطابق روزہ اور عید کا فیصلہ کرنا چاہے۔ ظہور نیازی کی مہم اور تحریر کے بعد یہ مسئلہ جو طویل عرصے سے حل طلب تھا صرف ایک سال میں تقریبا حل ہو گیا۔ اب برٹش پاکستانیوں کی اکثریت برطانوی مطلع کے مطابق چاند کی رویت کا فیصلہ کرتی ہے اور برطانوی مسلمانوں کی اکثریت اس بات کی قائل ہو گئی کہ ہمیں اپنے ملک کے مطلع یا آبزرویٹری کے مطابق چاند کی رویت کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

عالمی کانفرنسوں میں شرکت

بطور صحافی انھوں نے برطانیہ سے باہر کئی دورے کیے جن میں معاہدہ فلسطین 94/95 کے وقت اسرائیل کا دورہ بھی شامل ہے، اس وقت تک یہ کسی بھی پاکستانی صحافی کا اسرائیل کا پہلا باقاعدہ دورہ تھا۔ اس دوران انھوں نے اسرائیلی یہودیوں اور سیاست دانوں سے مسئلہ فلسطین پر انٹرویو کیے۔ یورپ بھر میں ہونے والی کئی کانفرنسوں کے علاوہ انھوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے منعقد ہونے والی جنیوا کانفرنس اور افغانستان کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ ان کے صحافتی دوروں میں کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران سائوتھ افریقہ کا دورہ بھی شامل ہے۔

مسلمانوں کے بارے میں ان کی رائے

برٹش پاکستانیوں سے ان کے ذاتی سطح پر تعلقات ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ مسلمانوں کی برطانیہ اور مغرب میں آمد اور سکونت اخیار کرنے میں حکمت پوشیدہ ہے، ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر مسلمانوں کو آئندہ اسپین جیسے سانحے سے بچنا ہے تو انھیں مقامی کمیونٹی یعنی سفید فام لوگوں سے تعلق کو مضبوط بنانا ہوگا۔