عامر چیمہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عامر عبد الرحمن چیمہ 4دسمبر 1977ء کی صبح اپنے ننھیال حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام عامر جبکہ والد نے عبد الرحمٰن تجویز کیا۔ چنانچہ دونوں ناموں کو ملا کرعامر عبد الرحمٰن رکھ دیا گیا۔ لیکن مختصر نام عامر مشہور ہوا۔

ابتدائی دن[ترمیم]

آپ کی والدہ نے بچپن سے ہی آپ کی نگرانی شروع کر دی تھی۔ تاکہ آوارہ بچوں سے الگ تھلگ رہیں۔ چنانچہ بچپن سے یہ آپ بچوں سے بہت مختلف اور منفرد تھے۔

تعلیم[ترمیم]

آپ نے گورنمنٹ پرایٔمری اسکول ڈھوک کشمیریاں، راولپنڈی سے پرائمری کیا۔ 1993ء میں جامع ہائی اسکول ڈھوک کشمیریاں، راولپنڈی سے میٹرک کیا۔ 1996 ء میں ایف جی سر سید کالج مال روڈ راوالپنڈی سے ایف ایس سی کی۔ نیشنل کالج آف انجینرٔنگ فیصل آباد سے بی ایس سی ٹیکسٹائل انجینرٔنگ کی ڈگری حاصل کی۔آپ تعلیم کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ سے بھی منسلک رہے۔ کچھ عرصہ یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہورمیں لیکچرار رہے۔ ماسٹر ٹیکسٹائل ملز رائے ونڈ اور الکریم ٹیکسٹائل ملز کراچی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ نومبر 2004ء میں جرمین روانہ ہوئے اور جرمنی کے شہر مونس گلاڈباخ میں واقع اوخشو لے فیڈر یا ئن یوینورسٹی میں ماسٹر آف ٹیکسٹائل اینڈ کلوزنگ منیجمنٹ میں داخلہ لے لیا۔ اس میں چھ سالہ کورس چھ چھ ماہ کہ چار مراحل (سمسٹرز) پر مشتمل ہوتا ہے۔ آپ نے کامیابی کے ساتھ تین سمسٹرز مکمل کر لیے تھے۔ اب ان کا آخری سمسٹر چل رہا تھااور جولائی 2006 ء میں تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹنا تھا۔

مذہبی اور تاریخی کتب مطالعہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ جب وہ یورپ کے توبہ شکن اور کافرانہ ماحول میں گئے تو تب بھی اپنے دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا اور نہ ہی اپنی کردار پر کوئی حرف آنے دیا۔

گستاخانہ خاکے[ترمیم]

یورپی اخبارات نے رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقداس کے خلاف اہانت آمیز کارٹون شائع کیے۔ جس سے علم اسلام میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان سڑک پے آئے۔ مظاہرے ہوئے، جلسے منعقد ہوئے، جلوس نکالے گئے۔ لیکن نوجوان عامر عبد الرحمن چیمہ نے انوکھے انداز میں احتجاج کا فیصلہ کیا۔ جرمن میں گستاخانہ خاکے کے شائع کرنے والے اخبار ڈائی ولٹ کے مرکزی دفتر میں داخل ہوئے۔ اور تیز قدموں سے چلتے ہوئے اخبار کے ایڈیٹر Henryk Broder کے کمرے کی طرف بڑھے اور اپنے کپڑوں میں چھپایا ہوا ہنٹر نائف نامی خاص شکاری خنجر نکال کر اس پر پے د رپے وار کر دیے۔ جس کے نتیجہ میں وہ شدید زخمی ہو گیا۔ اتنے میں دفتر کا عملہ اور سیکورٹی اہلکار جمع ہو گئے۔ انھوں نے آپ کو پکڑ لیا اور آپ کو جرمن پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ تین دن کے بعد جرمن پولیس نے آپ کے تحریری بیان کے ساتھ آپ کو عدالت میں پیش کر دیا۔ عدالت میں آپ نے کہا تھا کہ اقرار کرتا ہوں کہ میں اخبار ڈائی ولٹ کے ایڈیٹر Henryk Broder پر حملہ کیا۔ یہ شخص ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کا ذمہ دار تھا۔ اگر مجھے آئندہ موقع ملا تو میں ایسے ہر شخص کو قتل کر دوں گا۔

شہادت[ترمیم]

آپ کے ایسے جرأت مندانہ اقبال کے بعد کسی ریمانڈ یا تحقیق و تشدد کی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن حقوق انسانی کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں اور ہٹلر کے جا نشینوں نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ آپ جیل میں مردہ پائے گئے۔ رپورٹ میں آپ کی ہلاکت کی وجہ گردن کی ہڈی کی ٹوٹنے کی وجہ بتائی گئی لیکن سینٹ کی انسانی حقوق کی فیکشن کمیٹی میں جرمنی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی طارق کھوسہ نے انکشاف کیا کہ آپ کی ہلاکت گردن کی ہڈی ٹوٹنے سے نہیں بلکہ شہ رگ کٹنے سے ہوئی۔ جرمن حکام نے پاکستانی تحقیقاتی کمیٹی ٹیم کو جرمن جیل کے سیل میں آپ کے ساتھی پوچھ گوچھ اور واقعہ کی تحقیقات کے متعلق دستاویزات اور متعلقہ افسران سے بات چیت کرنے کی اجازت نہ دی ۔

جنازہ[ترمیم]

تمام دینی جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں نے آپ کے جسد مبارک کا شاندار استقبال کیا۔ آپ کے جسد مبارک کو اسلام آباد کی بجائے لاہور ائرپورٹ پر اتارا گیا۔ وہاں سے آپ کے جسد مبارک کو آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے آپ کے آبائی گاؤں ساروکی چیمہ پہنچایا گیا۔ وہاں پر آپ کا جنازہ آپ کے والد پروفیسر نذیراحمد چیمہ کی اجازت سے ڈاکٹر کرنل محمد سرفراز محمدی سیفی نے پڑھایا۔ آ پ کے جنازے میں 50 °C ڈگری کی تپتی دھوپ میں دور درازسے لگ بھگ 500000 سے 1000000 لوگوں نے شرکت کی۔ [1][2][3][4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "South Asia | Huge crowds at Pakistani funeral"۔ BBC News۔ 2006-05-13۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2013 
  2. "Thousands mourn Pakistani student – Archive"۔ Al Jazeera English۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2013 
  3. "Amir Cheema's dead body to reach Lahore airport"۔ PakTribune۔ 13 مئی, 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2013 
  4. "Amir Cheema's dead body to reach Lahore airport"۔ Paktribune.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2013