عبد الماجد دریابادی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(عبدالماجد دریابادی سے رجوع مکرر)
عبد الماجد دریابادی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 16 مارچ 1892ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بارہ بنکی ضلع،  اتر پردیش،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 جنوری 1977ء (85 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بارہ بنکی ضلع  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت تحریک خلافت  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی لکھنؤ یونیورسٹی
الہ آباد یونیورسٹی
علی گڑھ یونیورسٹی
سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف،  صحافی،  استاد جامعہ،  عالم،  فلسفی،  نقاد  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو،  انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں تفسیر ماجدی  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ڈاکٹر آف لیٹرز[2]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد الماجد دریابادی ( 1892ء_ 1977ء) ہندوستان کے ایک اردو ادیب، قلم کار، محقق اور مفسر قرآن تھے۔ وہ بہت سی ملی تنظیموں اور علمی، تحقیقی اور ادبی اداروں سے منسلک رہے۔ اِن میں تحریک خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی، لندن، ندوة العلماء لکھنؤ، دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، دار العلوم دیوبند، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، دائرة المعارف جامعہ عثمانیہ حیدرآباد، انجمن ترقی اردو ہند، دہلی، ہندوستانی اکیڈمی الٰہ آباد، اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ، حج کمیٹی اترپردیش، حکومت اترپردیش کی انعامی کمیٹی برائے اردو مصنفین قابل ذکر ہیں۔ عبد الماجد دریابادی نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ تفاسیر اسلام پر مسیحیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھی ہیں، مزید ان تفاسیر میں مسیحیت کے اعتراضات رد کرتے ہوئے بائبل اور دوسرے مغربی مستشرقین کی کتابوں سے دلائل دیے ہیں

ولادت[ترمیم]

مولانا دریابادی 16/ مارچ 1892ء مطابق 16/ شعبان 1309ھ کو قصبہ دریاباد، ضلع بارہ بنکی، اتر پردیش، بھارت کے ایک علمی گھرانہ "قدوائی خاندان" میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تفسیر ماجدی میں سورۃ یوسف کے آخر میں لکھا ہے کہ اٹھاونویں پشت پر جا کر ان کا شجرہ نسب لاوی بن حضرت یعقوب علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ اُن کے دادا مفتی مظہر کریم دریابادی( وفات: 1289ھ مطابق 1872ء) کو 1857ء کے معرکہ انقلاب کی حمایت اور برطانوی سرکار کے خلاف فتوائے جہاد پر دستخط کرنے کے جرم میں برطانوی حکومت نے جزائر انڈومان میں 14 برس قید کی سزا دی ـ مولانا دریابادی کے والد ڈپٹی کلکٹر مولوی عبد القادر ( وفات: 14/ ذی الحجہ 1330ھ مطابق 22/ نومبر 1912ء بمقام منٰی، مکہ مکرمہ، سعودی عرب) تھے۔

شبلی نعمانی سے ملاقات[ترمیم]

انھوں نے شبلی نعمانی سے ملاقات کے بعد اُن کی سیرت النبی کی تصنیف میں اُن کے ساتھ کام کیا۔

احباب[ترمیم]

اُن کے مولانا ابو الکلام آزاد، سید سلیمان ندوی، محمد علی جوہر، اکبر الہ بادی اور دوسرے بہت سے عظیم مصنیفین کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔

کتابیں[ترمیم]

انھوں نے قرآن، سیرت، سفر ناموں، فلسفہ اور نفسیات پر 70 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ انھوں نے اپنی سوانح حیات، بہت سے ادبی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ انھوں نے ریڈیو گفتگو کی میزبانی بھی کی اور بہت سی کتابوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ ان کی کتابوں کی کچھ تفصیل ذیل میں ہے۔

  1. فلسفہ اجتماع
  2. فلسفہ جذبات
  3. فیہ ما فیہ ـ ملفوظات محمد جلال الدین رومی و تبصرہ
  4. ذکر رسول ـ
  5. انشائے ماجد ـ
  6. محمد علی ــ ذاتی ڈائری کے چند ورق
  7. تفسیر قرآن ( انگریزی) مکمل سیٹ چار جلدیں
  8. تفسیر ماجدی ( اردو) مکمل سیٹ سات جلدیں
  9. وفیات ماجدی یا نثری مرثیے
  10. بشریت انبیا علیہ السلام
  11. حکیم الامت ـ نقوش و تاثرات
  12. آپ بیتی
  13. تاریخ اخلاق یورپ ( ترجمہ از انگریزی)
  14. معاصرین ـ
  15. نشریات ماجد ( ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ)
  16. سفر حجاز ( سفر نامہ حج)
  17. سیاحت ماجدی ـ
  18. خطبات ماجد
  19. اکبر نامہ ( اکبر الٰہ آبادی سے متعلق تحریروں کا مجموعہ
  20. مکتوبات ماجدی مکمل سیٹ سات جلدیں

وفات[ترمیم]

مولانا دریابادی کی وفات 6/ جنوری 1977ء مطابق 15/ محرم 1397ھ بروز جمعرات قبل فجر خاتون منزل، احاطہ فقیر محمد خاں پختہ حیدر مرزا روڈ گولہ گنج لکھنؤ میں ہوئی اور تدفین ان کے آبائی وطن قصبہ دریاباد ضلع بارہ بنکی میں ہوئی۔

بعد از مرگ[ترمیم]

عبد القوى دسنوى نے دریابادی پر لکھنؤ میں ایک اردو جریدے نیا دور میں ایک خصوصی نمبر شائع کیا۔ انھوں نے دریا بادی پر ایک خصوصی تبصرہ بھی معاصرین میں کیا جو ساحر بمبے والیوم 51 نمبر 7 سن 1980 میں شائع ہوا۔[3]

سنہ 2008ء میں مدراس یونیورسٹی کے ”شعبہ عربی، فارسی و اردو“ کے ایک محقق محمد شمس عالم نے دریابادی پر ”مولانا عبد الماجد دریابادی کی علمی و ادبی خدمت“ نامی ریسرچ پیپر لکھا۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب https://www.rekhta.org/authors/abdul-majid-daryabadi
  2. https://en.m.wikipedia.org/wiki/Abdul_Majid_Daryabadi
  3. "Abdul Qavi Desnavi Biography"۔ Bihar Urdu Youth Forum, Bihar۔ 16 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2013 
  4. "University of Madras: Department of Arabic, Persian and Urdu: Research Scholars"۔ University of Madras۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2013