عبید اعظم اعظمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


عبید اعظم اعظمی
عبید اعظم اعظمی
عبید اعظم اعظمی
ادیب
پیدائشی نامعبید الرحمٰن
قلمی نامعبید اعظم اعظمی
تخلصعبیداعظم
ولادت6فروری، 1970ء
اصناف ادبشاعری
عروض
ذیلی اصنافغزل
نظم
رباعی
ویب سائٹOBAID AZAM AZMI


عبید اعظم اعظمی (Ubaid Azam Azami ) کا شمار اردو کی نئی نسل کے چند اہم شعرائے کرام میں ہوتا ہے۔ وہ اردو کے ایک اہم ماہر عروض بھی ہیں۔ عبید اعظم اعظمی ممبئ ( بمبئی ) میں رہتے ہیں۔

عبید اعظم اعظمی6فروری، 1970ء میں اعظم گڑھ، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ روضۃ العلوم پھول پور ضلع اعظم گڑھ میں حاصل کی بعد میں بمبئ کے مولانا آزاد ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہے۔ انھوں نے صابو صدیق پالی ٹیکنک بمبئی سے ہائی اسکول پاس کیا۔ مہاراشٹر کالج میں انٹر میں داخلہ لیا۔ بعد میں میسور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ اپنے خیالات کوچابک دستی کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھال لینے کے ساتھ ساتھ انھیں فن عروض پر بڑی دسترس حاصل ہے۔ عبید اعظم اعظمی نے 28 نئی سالم بحریں ایجاد کی ہیں[حوالہ درکار]۔ اس کے علاوہ انھوں نے رباعی کی بھی اٹھائیس (28) بحریں ایجاد کی ہیں[حوالہ درکار]۔ ان بحور و اوزان کے علاوہ عبید اعظم اعظمی نے ایک ایسی بحر بھی ایجاد کی ہے جس میں خلیل ابن احمد کے زمانے سے لے کر آج تک ایجاد ہونے والی بحروں کے تمام اوزان موجود ہیں۔ ایجاد شدہ بحروں کے علاوہ اس ایک بحر میں بہت ساری بحریں موجود ہیں۔ غالبا” اسی مناسبت سے اس بحر کا نام " بحر اعظم " رکھا گیا ہے۔ گویا بحر اعظم سابقہ تمام بحور کا مجموعہ اور لا تعداد نئی بحروں کا مخزن ہے۔ ان تمام بحور کے متعلق ماہنامہ اردو چینل ممبئی اور ماہنامہ شاعر بمبئی میں سیر حاصل مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ عبید اعظم اعظمی کی یہ اختراعات عنقریب کتابی شکل میں بھی منظر عام پر آجائیں گی۔ عبید اعظم اعظمی کا اولین شعری مجموعہ " لازوال " طباعت کے مراحل میں ہے عبید اعظم اعظمی مشاعروں میں بھی بے انتہا مقبول ہیں۔ انھوں سیکڑوں قومی اور بین الاقوامی مشاعروں میں شاعر کی حیثیت سے شرکت کی ہے اور کامیاب بھی رہے ہیں۔ ان کے بہت سے مشاعرے ای ٹی وی اردو (ETV URDU ) پر بھی دکھائے جاچکے ہیں۔ عبید اعظم اعظمی وودھ بھارتی، آل انڈیا ریڈیو، دوردرشن ETC ای ٹی سی ،،یو ٹی این وغیرہ ٹی وی چینلوں اور ریڈیو اسٹیشنوں پر متعدد بار اپنا کلام پیش کرچکے ہیں۔

نمونہء کلام[ترمیم]

عبید اعظم اعظمی کا نمونہء کلام

جن سے کبھی ملنے کو طبیعت نہیں کہتی

اکثر اُنہی لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے

آپ بھی ‘ عبید اعظم اعظمی ‘ سے ملیے گا

کام کچھ مراحل میں شاعری بھی آتی ہے

دل میں نہ رکو خواہشو تیزی سے گذر جا و

حسّا س علاقے میں ٹھہرنا نہیں اچھا

تم نے سنی تو ہوگی کہانی "عبید " کی

سورج تھا ایک شمع کی حسرت میں بجھ گیا

دل نے کچھ اتفاق کی مٹی کو گوندھ کر

اپنے لیے بہت سے کھلونے بنائے ہیں

بخت اپنا بھی آفتاب سا ہے

ہم بھی جانے گئے غروب کے بعد'

جو لوگ گزرتے ہیں مسلسل رہ دل سے

دن عید کا ان کو ہو مبارک تہ دل سے

جو مزاج داں تھے زمین کے، وہ زمیندار چلے گئے[ترمیم]

از قلم عالم نظامی

معزز قارئین کچھ ادبی شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے لیکن چند شخصیتیں ایسی ہو تی ہیں جو اپنی زندگی میں ہی ادب کا حصہ بن جایا کرتی ہیں استاذالشعرا جناب عبید اعظم اعظمی کا شمار عصر حاضر کے ایسے ہی ان چند شعرا میں ہوتا ہے جن کی فنی و ادبی حیثیت کا احاطہ کرنا مجھ جیسے طالب علم کے لیے بے حد مشکل امر ہے- زمانہ طالب علمی میں ہی اپنے بیان کی لذت اور ندرت خیال کہ وجہ سے انھوں نے ادبی حلقوں کو نہ صرف چونکایا بالکہ مختصر وقت میں اپنی تخلیقات سے ایک عہد کو متاثر کیا موصوف کو فن عروض پر بھی بڑی دسترس حاصل ہے میری معلومات کے مطابق 28 نئی سالم بحریں اور 28 رباعی کی نئ بحریں انھوں نے ایجاد کی ہیں ان بحور و اوزان کے علاوہ عبید اعظم اعظمی نے ایک ایسی بحر بھی ایجاد کی ہے جس میں خلیل ابن احمد کے زمانے سے لے کر آج تک ایجاد ہونے والی تمام بحروں کے اوزان موجود ہیں ایجاد شدہ بحروں کے علاوہ اس ایک بحر میں بہت ساری بحریں موجود ہیں اس لیے اس کا نام بحر اعظم رکھا گیا ہے ان تمام بحور کے متعلق ماہنامہ شاعر اور اردو چینل میں مضامین شائع ہو چکے ہیں میرے خیال میں عصر حاضر کے بہت کم شعرا کو یہ اعزاز حاصل ہے جنھوں نے ساٹھ سے زائد نئ بحروں کو ایجاد کرکے قابل ستائش کار نامہ انجام دیا ہے اس لیے فن عروض کی معلومات پوری اردو دنیا کے ادبی منظر ناموں میں عبید اعظم اعظمی کے تعارف کا قوی حوالہ بن چکی ہے، ان کی فکر کی گہرائی شعری اظہار اور لفظوں کے انتخاب سے ظاہر ہے کہ ان کا شعری مطالعہ بہت وسیع ہے نیز وہ فن شاعری کے تمام اصولوں سے مکمل طور پر واقف ہیں ان کا شعری مجموعہ لازوال طباعت کے مراحل میں ہے انشاء اللہ بہت جلد زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر ہوگا علاوہ ازیں عبید اعظم اعظمی اردو اخبارات مختلف رسائل و جرائد سے بھی مستقل مزاجی کے ساتھ وابستہ ہیں - اپنی نوک قلم اور اپنے اعجاز سخن کے ذریعے اردو زبان و ادب کی بقا کے لیے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کوشاں ہیں بحیثیت انسان بھی عبید اعظم اعظمی کا کوئی ثانی نہیں ہے اس لیے ان کی شاعری میں انسانی رشتوں کی پاسداری امید کی کرنیں خیالات کی گہرائی اور اظہار کا خوبصورت انداز نمایاں نظر آتا ہے وہ اپنی شاعری میں اپنے جذبوں کی بھر پور انداز میں عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اس کے علاوہ لفظوں کا رکھ رکھاؤ اس کا انتخاب بھی ان کے کلام کے حسن میں اضافہ کرتا ہے جناب عبید اعظم اعظمی یوں بھی مجھے بہت عزیز ہیں کہ ان کے دل میں اردو زبان و ادب کی محبت اور فروغ اردو کا جذبہ بدرجئہ اتم موجود ہے جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ نئ نسل کے سیکڑوں شعرا کی طویل عرصے سے وہ رہنمائی فرما رہے ہیں ممبئ یونیورسٹی میں بہت سے طلبہ ان کے زیر سایہ شاعری میں ڈپلوما کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں انھوں نے کرلا کے ممتاز سیاست داں جناب اشرف اعظمی کی درخواست پر مجھے بھی اپنی شاگردی میں قبول فرمایا نیز بغیر کسی مفاد کے ادب کے سچے مبلغ کی طرح نہایت خلوص و دیانت داری کے ساتھ میری رہنمائی فرمائ عبید اعظم اعظمی کی دعائیں ان کی محبتیں ان کی یادیں ان کے زیر سایہ گزارے ہوئے ادبی لمحات مری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں یہ میری خوش بختی ہے کہ ان کے ساتھ ہندوستان کے درجنوں مشاعروں میں شرکت کی سعادت حاصل کر چکا ہوں سولا پور کا ایک تاریخ ساز مشاعرہ ہمیشہ میرے حافظے میں محفوظ رہے گا جس نے عبید اعظم اعظمی کی شاعرانہ عظمتوں کو میری نظر میں بہت بلند کر دیا تھا-اس مشاعرے کی مختصر روداد یہ ہے کہ میں اپنے شعری سفر کے ابتدائی دور میں عبید اعظم اعظمی کی شفارش پر ان کے ہمراہ سولا پور غالب اکیڈمی کے ایک با وقار ادبی مشاعرے میں شریک ہوا اس وقت ممبئ مہاراشٹر کے کچھ عوامی مشاعروں میں اپنے سینئر شعرا سے میں زیادہ کامیاب ہو رہا تھا لہذا مجھے خوش فہمی تھی کہ سولا پور کا مشاعرہ بھی میرے نام سے منسوب ہوجائے گا -لیکن عبید اعظم اعظمی کے ساتھ سولا پور اسٹیشن پہنچ کر ان کے شاندار استقبال کو دیکھ کر مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ عبید اعظم اعظمی سولا پور کی ادبی فضا میں بیحد مقبول ہیں - بعد ازیں ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر میں نے دیکھا عبید اعظم اعظمی سے ملنے جلنے والے ادبا شعرا کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے مقامی اخبار کے نمائندے ان کا انٹرویو کر رہے تھے مشاعرے میں مدعو شعرا کے علاوہ علاقائی شعرا بھی بطور اصلاح انھیں اپنا کلام سناکر مشورہ لے رہے تھے عبید اعظم اعظمی کی قدر ومنزلت دیکھر مجھے ان کا شاگرد اور اپنے شاعر ہونے پر بے پناہ فخر محسوس ہو رہا تھا، تاہم احساس کمتری سے ایک ڈرے سہمے طفل کی طرح میں خاموش بیٹھ کر سب کی باتیں بغور سماعت کر رہا تھا احساس کمتری میں مبتلا پاکر مثبت اور حوصلہ افزا جملوں سے استاذ گرامی عبید اعظم اعظمی مجھے دولت اعتماد سے نواز رہے تھے یہ ان کی اعلیٰ ظرفی و کشادہ دلی تھی ،اب میرا اعتماد بھی مجھے یہ یقین دلا رہا تھا کہ مجھے سماعت کرنے کے بعد یہ تمام لوگ میرے مرید ہوجائیں گے بہر کیف مشاعرے کا آغاز ہوا چاہتا تھا تمام شعرا کے ہمراہ بڑے حوصلے کے ساتھ میں مشاعرہ گاہ پہنچا تو نوجوان شاعر آصف اقبال ابتدائی نظامت فرما رہے تھے شمع فروزی اور رسم گل پوشی کے بعد ممبئ کے معروف شاعر قاسم امام کی نظامت میں غزل کے دور کا خوبصورت آغاز ہوا ابتدا میں ہی مشاعرے کے پہلے شاعر آصف اقبال نے اپنے خوبصورت کلام سے مشاعرے کو آسمان پر پہنچا دیا درمیان میں ناظم مشاعرہ نے مختصر تعارف کے ساتھ مجھے مائک پر آنے کی دعوت دی- پڑھے لکھے باشعور اہل علم و دانش سامعین نے مری غزل کے کسی شعر پر کچھ خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا اس لیے چند شعر پڑھنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی نشست لے لینی چاہیے چنانچہ میں اپنی آبرو بچاکر بیٹھ گیا لیکن مشاعرے کے جس حصے میں جناب عبید اعظم اعظمی کے نام کا اعلان کیا گیا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا سامعین کرام کھڑے ہوکر ان کے تئیں اپنی عقیدت و محبت کا ثبوت پیش کر رہے تھے میں اپنی نشست پر بیٹھا حیرت و استعجاب میں ڈوب کر بہت متحیرانہ انداز میں یہ روح پرور مناظر دیکھ رہا تھا عبید اعظم اعظمی شعر پڑھ رہے تھے ان کا ہر شعر اور اس پر سامعین کا رد عمل لمحہ لمحہ تاریخ رقم کر رہا تھا ہر طرف ماشاء اللہ سبحان اللہ واہ واہ مکرر ارشاد کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں حسب فرمائش عبید اعظم اعظمی دیر تک اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کرتے رہے مشاعرے کے اختتام پر بھی لوگ عبید اعظم اعظمی سے مصافحہ کرکے گلے مل کر آٹو گراف لے کر انھیں اپنی محبتوں سے نواز رہے تھے مشاعروں میں خالص ادبی شاعری سناکر اس طرح سرمایئہ داد_و تحسین وصول کرتے ہوئے میں نے بہت کم شعرا کو دیکھا ہے, دعا ہے اللہ مجھے ان کی سرپرستی سے کبھی محروم نہ کرے، نمونئہ کلام حاضر ہے

زندگی جینے کی ترکیب بدل جاتی ہے

دل بدل جانے سے تہذیب بدل جاتی ہے


دنیا شکار گاہ ہے لیکن ہمارے کام

دس نے کیے خراب تو سو نے بنائے ہیں

دل نے کچھ اتفاق کی مٹی کو گوندھکر

اپنے لیے بہت سے کھلونے بنائے ہیں


کون سی بات رکھا کرتی ہے مصروف سفر

کس کی دریافت میں چہروں پہ نظر دوڑتی ہے


ابھی سمیٹ نہ خود کو تو اے صدائے جنوں

کسی کسی کو جگانے میں وقت لگتا ہے


طے کتنے ابھی کرنے ہیں ظلمات کے صحرا

اے دشت الم اور ابھی رات ہے کتنی


ہمیں گذرنا ہے اس پل سے احتیاط کے ساتھ

ہمارے بعد بھی کچھ لوگ آنے والے ہیں


رہ اعتبار کے ہم سفر پس اعتبار چلے گئے

جنہیں کانٹے چننے تھے راہ کے، وہ بچھاتے خار چلے گئے

یہ ربیع کیا ہے خریف کیا نئے کاشت کاروں کو کیا پتہ

جو مزاج داں تھے زمین کے وہ زمیندار چلے گئے


عقل سو بار دکھاتی ہے گزرگاہ خرد

عشق سو بار در یار تلک لاتا ہے

وقت ہی کرتا ہے بیگانئہ اقدار جنوں

وقت ہی کیفر کردار تلک لاتا ہے


حرف سوال واسطہ بنتا چلا گیا

پھر یوں ہوا کہ راستہ بنتا چلا گیا

اک واقعہ ہوا کہ محبت ہوئ ہمیں

پھر واقعے سے واقعہ بنتا چلا گیا


رکھا رہا شعور نظر بات مان لی

لب کیا کھلے اودھر کہ ادھر بات مان لی

جادو وہ لفظ لفظ سے کرتا چلا گیا

اور ہم نے بات بات میں ہر بات مان لی


عشق کے باب میں نقصان لیا جاتا ہے

غم سہے جاتے ہیں احسان لیا جاتا ہے

ہم وہ رسوائے زمانہ ہیں کسی بھیس میں ہوں

دور ہی سے ہمیں پہچان لیا جاتا ہے


عشق میں آئے خسارے کا کریں کیا افسوس

کون سے کام میں نقصان نہیں ہوتا ہے

کیے ٹکڑے بھی تونے دل کے تو آخر کیے کیسے

نہ تو تیرے ہی کام آیا نہ تو میرے ہی کام آیا


دل جوڑنے والے بھی محسن ہیں مرے لیکن

دل توڑنے والوں کے احسان زیادہ ہیں


دل کے معاملات بھی دلی سے کم نہیں

جو بھی گیا ادھر سے اسے لوٹتا گیا


جن سے کبھی ملنے کی طبیعت نہیں کہتی

اکثر انھیں لوگوں سے ملاقات ہوئ ہے


قدم رکے ہیں کہاں پہ آکر کہ لمحہ لمحہ شمار میں ہے

میرا تعین ہے بے ٹھکانا تری توقع قطار میں ہے


یہ راکھ تیزی سے اپنی ہیئت بدل رہی ہے

یہیں کہیں سے دھواں اٹھے گا مجھے پتہ ہے

میں دل کو بچپن سے جانتا ہوں ہزار غم ہوں

کسی سے کچھ بھی نہیں کہے گا مجھے پتہ ہے


محکوم جنوں ہوکے ہم خانہ خرابوں نے

جو لمحہ گزارا ہے شاہانہ گزارا ہے


ہماری بے بسی اک دفتر تفسیر رکھتی ہے

ہمارا اضطراب درد عالم گیر ہوتا ہے


کہ دو کہ ہے اک غم غم دوراں کے سوا بھی

دنیا مری مستی کا سبب پوچھ رہی ہے


دل میں نہ رکو خواہشو تیزی سے گذر جاؤ

حساس علاقے میں ٹھہرنا نہیں اچھا


ہو نہ مایوس اگر کوس کڑے آتے ہیں

بڑے لوگوں پہ مصائب بھی بڑ ے آتے ہیں

آپ آئے ہیں تو کہ سکتے ہیں کہنے والے

بڑے لوگوں کے یہاں لوگ بڑے آتے ہیں


پہلے سنسان یوں ہوتی نہ تھی رشتوں کی سرائے

کچھ نہ کچھ جذبئہ ایثار پڑے رہتے تھے

وقت پڑنے پہ وہی کام جہاں کے آئے

ترے کوچے میں جو بیکار پڑے رہتے تھے


عرصئہ دہر میں کس سے نہیں ہوتی لغزش

کوئی چاہے جو سنبھلنا تو سنبھلنے دینا


میں بھی نہیں ہر شعر میں موجود یہ سچ ہے

غالب بھی ہر اک شعر میں غالب نہیں لگتا


آپ بھی عبید اعظم اعظمی سے ملیے گا

کام کچھ مراحل میں شاعری بھی آتی ہے

حوالہ جات[ترمیم]

  • ماھنامہ شاعر بمبئی اپریل 2008
  • ماہنامہ اردو چینل بمبئی مئی 2003
  • روزنامہ انقلاب بمبئی
  • روزنامہ راشٹر یہ سہارا لکھنئو
  • رونامہ ہندوستان بمبئی
  • روزنامہ اردو ٹائمز بمبئی
  • ماہنامہ سب رس حیدرآباد
  • ماہنامہ پرواز لندن
  • ماہنامہ عوامی منشور پاکستان
  • ماہنامہ کتاب نما دہلی Dec. 1994
  • ماہنامہ ایوان اردو دہلی جنوری 2004

بیرونی روابط[ترمیم]