عرب بغاوت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عرب بغاوت
سلسلہ Middle Eastern theatre of World War I

Soldiers of the Sharifian Army in northern ینبع carrying the Flag of the Arab Revolt۔
تاریخجون 1916 – اکتوبر 1918
مقامحجاز، شرق اردن (خطہ)، سوریہ (علاقہ)، جنوبی جزیرہ نما عرب، سلطنت عثمانیہ
نتیجہ
سرحدی
تبدیلیاں
سلطنت عثمانیہ کی تقسیم
مُحارِب
 مملکت حجاز
حمایت:
 متحدہ مملکت
 فرانس

 سلطنت عثمانیہ


حمایت:
 جرمن سلطنت
کمان دار اور رہنما
مملکت حجاز کا پرچم حسین ابن علی (شریف مکہ)
مملکت حجاز کا پرچم فیصل بن حسین
مملکت حجاز کا پرچم عبداللہ اول بن حسین
مملکت حجاز کا پرچم علی بن حسین حجازی
متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ کا پرچم تھامس لارنس
متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ کا پرچم لارڈ ایلن بی
فرانسیسی جمہوریہ سوم کا پرچم Édouard Brémond [fr]
سلطنت عثمانیہ کا پرچم محمد خامس
سلطنت عثمانیہ کا پرچم Djemal Pasha
سلطنت عثمانیہ کا پرچم فخری پاشا
سلطنت عثمانیہ کا پرچم Muhittin Akyüz
امارت جبل شمر کا پرچم Saud bin Abdulaziz
جرمن سلطنت کا پرچم Otto Liman von Sanders
طاقت
30,000 (جون 1916)[1]
50,000+ (1918)[2]
May 1916:
6,500–7,000 troops[3]
ستمبر 1918:
25,000 troops
340 guns[1]
ہلاکتیں اور نقصانات
Unknown سلطنت عثمانیہ کا پرچم 47,000+
5,000 killed
10,000 wounded[4]
22,000+ captured[5][6][7]
~10,000 disease deaths

عرب بغاوت (1916ء تا 1918ء) (آغاز: 9 شعبان 1334 ہجری)(عربی: الثورة العربية الكبرى، ترکی: Arap İsyanları، عرب عصیان لری، انگریزی: Arab Revolt) کا آغاز شریف مکہ حسین ابن علی نے کیا تھا جس کا مقصد سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کر کے حلب، شام سے عدن، یمن تک ایک واحد عرب ریاست قائم کرنا تھا۔

حسین ابن علی نے برطانیوں اور تھامس لارنس کا ساتھ دیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف 1915ء میں جنگ شروع کیا جس سے سارے عرب ممالک سے عثمانی تسلّط ختم ہو گیا اور پھر مشرقِ وسطی پر دونوں برطانوی اور فرانسیسی تسلّط قائم ہو گئے۔ حسین بن علی نے مدینہ المنوّرہ کا عثمانی گورنر عمر فخرالدین پاشا کے خلاف مدینہ المنوّرہ پر قبضہ کرنے کے لیے دو سال محاصرہ کیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Murphy, p. 26.
  2. Mehmet Bahadir Dördüncü، Mecca-Medina: the Yıldız albums of Sultan Abdülhamid II, Tughra Books, 2006, آئی ایس بی این 1-59784-054-8، page 29. Number refers only to those laying siege to Medina by the time it surrendered and does not account for Arab insurgents elsewhere.
  3. Military Intelligence and the Arab Revolt: The first modern intelligence war، Polly a. Mohs, آئی ایس بی این 1-134-19254-1، Routledge, p. 41.
  4. Erickson 2001, p. 238, Appendix F.
  5. War Office (1922)۔ Statistics of the military effort of the British Empire during the Great War, 1914–1920۔ London H.M. Stationery Office۔ صفحہ: 633 : 8000 prisoners taken by the Arab insurgents in Syria-Palestine in 1918, joining 98,600 taken by the British.
  6. Parnell, p. 75: 6,000 prisoners taken by the end of 1916
  7. Süleyman Beyoğlu, The end broken point of Turkish-Arabian relations: The evacuation of Medine, Atatürk Atatürk Research Centre Journal (Number 78, Edition: XXVI, نومبر 2010) (Turkish)۔ 8000 Ottoman troops surrendered at the end of the محاصرہ مدینہ and were evacuated to Egypt afterwards.

مزید دیکھیے[ترمیم]

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔