فدک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
زندگی
فہرست القابات فاطمہ زہرہ · اختلاف مالی فاطمہ و عباس با خلافت · واقعہ در و دیوار · خطبہ فدکیہ · وفات فاطمہ
قرآن میں
سورہ دہر · سورہ کوثر · آیت تطہیر · آیت مباہلہ · آیت نور
مقامات
مکہ میں: محلہ بنی‌ ہاشم · شعب ابی طالب · مدینہ میں: جنت البقیع · بیت‌الاحزان · درخت کنار · سقیفہ · مسجد نبوی  · شمال حجاز میں: فدک
افراد
خاندانمحمد · خدیجہ  · علی
فرزندحسن · حسین · زینب · ام‌ کلثوم · محسن
وفدفضہ نوبیہ · ام ایمن · اسماء  · سلمان
دیگرقنفذ · مغیرہ · عمر · ابوبکر
مرتبط
تسبیح فاطمہ · مصحف فاطمہ · لوح فاطمہ · واقعہ مباہلہ · ایام فاطمیہ

فدک (عربی: فدك) ایک زمینی رقبہ ہے جو سعودی عرب کے شمال میں خیبر کے مقام پر مدینہ سے تیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ بھی کہاگیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمے اور کھجوروں کے درخت ہیں۔[1] مسلمانوں کے دو بڑے گروہ اس کی ملکیت سے متعلق جدا تاریخی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

تاریخچہ فدک

  • جنگِ خیبر کے موقع پر مئی 629ء میں یہ رقبہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملکیت میں آیا۔[2] معاہدے کے مطابق نصف علاقے پر یہود کا قبضہ برقرار رہنے دیا گیا اور نصف کا خراج یہود کو دینا پڑتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک یہی صورت حال تھی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہود کو خیبر سے نکالا تو فدک کے یہودیوں کو بھی شام بھیج دیا۔
  • حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فدک کو بطور میراث مانگا جس پر انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم انبیا کی کوئی وراثت نہیں ہوتی۔ جو مال ہم چھوڑ جائیں، وہ صدقہ ہوتا ہے۔
  • عثمان کے دور میں اسے مروان بن حکم کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دور میں فدک کی آمدنی چالیس ہزار دینار تھی۔
  • علی المرتضی اور حسن مجتبی کے دور خلافت میں اولاد فاطمہ کوفدک کی ملکیت نہ دی گئی۔ علل الشرائع
  • عمر بن عبدالعزیز نے اسے فاطمہ علیہا السلام کی آل و اولاد کو اس کا انتظامی امور اسی قاعدے پر چلانے کی شرط پر حوالہ کیا جس قاعدے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا۔ اس کی ملکیت حوالہ نہیں کی تھی۔[حوالہ درکار]
  • مگر بعد کے خلفاء نے پھر واپس لے لیا۔[حوالہ درکار]

حیثیت

  • فدک جنگ خیبر کے وقت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہبہ کیا گیا اور اس کے لیے مسلمانوں نے جنگ نہیں کی۔۔[3]شرعی لحاظ سے اسے مال فئے میں شامل کیا جاتا ہے یعنی ایسی جائداد جس کے لیے مسلمانوں نے اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے اور جنگ نہیں کی۔[4][5] بعض اہل سنت اور اکثر اہل تشیع (کل امامیہ فرقے) مکمل طور پر اسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جائداد سمجھتے ہیں[6][7][8][9][10][11][12][13][14]

اہلسنت کا نظریہ

اہلسنت کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ یعنی تحفہ نہیں کیا تھا۔ اس حوالے سے شیعہ قرآن مجید کی اس آیت کا تذکرہ کرتے ہیں " اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو " [15] اور کہتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک ہبہ کر دیا تھا۔ اہلسنت کے مطابق اس روایت کے حوالے سے جو روایات نقل ہوئی ہیں، ان میں عطیہ العوفی نامی ضعیف راوی موجود ہے۔ اور یہ آیت چونکہ مکی ہے اور فدک تو بہت بعد میں دورِ مدینہ میں مسلمانوں کے قبضے میں آیا تھا، لہذا شان نزول کے حوالے سے بھی یہ بات درست نہیں۔ دراصل فدک کا تعلق مال فئے سے تھا۔ تفسیر عثمانی میں لکھا ہے کہ "اگر قدرے جنگ ہونے کے بعد کفار مرعون ہو کر صلح کی طرف مسارعت کریں اور مسلمان قبول کر لیں۔ اس صورت میں جو اموال صلح سے حاصل ہوں گے وہ حکم "فئے" میں داخل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اموال "فئے" خالص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار و تصرف میں ہوتے تھے۔" چونکہ فدک بھی بغیر کسی جنگ و جدل کے مسلمانوں کے قبضے میں آیا تھا، لہذا اس کا تعلق بھی مال فئے سے تھا۔ اہلسنت کے مطابق انبیا کی کوئی مالی وراثت نہیں ہوتی، البتہ انبیا وراثت میں اپنا علم چھوڑتے ہیں۔ لہذا قرآن کریم میں کہیں پر بھی مالی وراثت کا تذکرہ نہیں آیا۔ جہاں پر وراثت کا تذکرہ ہے، وہ صرف اور صرف علم و نبوت سے خاص ہے۔ لہذا مستند روایت کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فدک کو بطور میراث طلب کرنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں، لیکن انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہماری وراثت نہیں ہوتی، جو مال ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے لیے ایک خادمہ مانگنے گئی تھیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خادمہ نہیں دی، بلکہ ان کو 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر کا ذکر کرنے کی ہدایت کی۔ بہرحال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت سے کوئی مال نہیں دیا اور یہی معاملہ تمام امہات المومنین کے ساتھ فرمایا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوئیں لیکن امام شعبی کی ایک صحیح مرسل روایت کے مطابق وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گئی تھیں۔ علما کا کہنا ہے کہ بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تا حیات ناراضی کا قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نہیں بلکہ امام زہری کا ادراج ہے اور ان کا ادراج ضعیف شمار ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یہ توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک ٹکڑا زمین پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی سے تمام عمر ناراض رہیں، جس نے اپنا تمام مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کر دیا تھا۔ کائنات کی بہترین خاتون سے ایسی توقع رکھنا بھی منفی سوچ ہے اور اسلام ایسی بدگمانیوں سے ممانعت کی تلقین دیتا ہے۔

اختلاف

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد فدک کی ملکیت پر فاطمہ الزہراء اور ابوبکر میں اختلافات پیدا ہوئے۔ فاطمہ نے فدک پر اپنا حقِ ملکیت سمجھا جبکہ ابوبکر نے فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیا کی وراثت نہیں ہوتی اس لیے فدک حکومت کی ملکیت میں جائے گا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق رات کو جنازہ پڑھایا گیا جس کے بارے میں ابوبکر کو خبر نہ کی گئی۔۔۔[16][17][18]
  • اہل سنت کی کچھ روایات کے مطابق ابوبکر نے بعد میں فاطمہ سے صلح کی کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ وہ ان سے ناراض نہ رہیں۔[19]
  • اس سلسلے میں اہل سنت اور اہل تشیع میں پہلا اختلاف ہے کہ
اہل سنت کے مطابق ابوبکر نے یہ فیصلہ ایک حدیث کی بنیاد پر دیا جس کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیا کے وارث نہیں ہوتے اور جو کچھ وہ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے[حوالہ درکار]۔
جبکہ اہل تشیع کے مطابق یہ حدیث ابوبکر کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور یہ فیصلہ درست نہیں تھا کیونکہ قرآن کی کچھ آیات میں انبیا کی وراثت کا ذکر ہے۔ دیگر یہ کہ فدک محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث نہیں تھی بلکہ ہبہ کی وجہ سے فاطمہ زہراء کی ملکیت ہو چکی تھی۔

یہ حدیث اہل تشیع کی معتبر کتب میں علی المرتضی اور امام جعفر صادق سے مروی ہے إن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر[20]

  • اہل سنت اور اہل تشیع میں دوسرا اختلاف یہ ہے کہ
اہل سنت کے مطابق وفات تک فاطمہ ابوبکر سے ناراض نہ تھیں اور صلح ہو چکی تھی۔[19]
جبکہ اہل تشیع کے مطابق وہ وفات تک ناراض تھیں اور تا حیات ابوبکر سے کلام نہیں کیا اور انھوں نے وصیت کی تھی کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں اور ابوبکر ان کے جنازے می شریک بھی نہیں ہو سکے۔[21]

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. لسان العرب جلد 2، صفحہ 473
  2. تاریخ طبری جلد 3
  3. سیرت رسول اللہ از ابن اسحاق
  4. تفسیر کبیر از فخر الدین رازی
  5. تفسیر مراغی از مصطفیٰ المراغی در تفسیر سورہ حشر
  6. تفسیر کبیر از فخر الدین رازی تفسیر سورہ حشر آیت 7
  7. فتوح البلدان از احمد ابن یحییٰ البلاذری
  8. معجم البلدان از یاقوت الحماوی الرومی صفحہ 139 جلد 14
  9. تاریخ طبری صفحہ 1583 جلد 3
  10. تاریخ الکامل از ابن اثیر جلد 2 صفحہ 108
  11. تاریخ خمیس از حسین دیار بکری
  12. وفاء الوفاء از علی ابن احمد السمہودی
  13. سیرت رسول اللہ معروف بہ سیرت ابن ہشام از ابو محمد عبد المالک ابن ہشام
  14. تاریخ ابوالفداء از ابوالفداء ملک حماہ
  15. قرآن مجید، سورۃ اسراء، آیت 26
  16. صحیح بخاری 59۔546
  17. صحیح بخاری اردو ترجمہ از مولانا داؤود مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند جلد 5 حدیث 4240۔4241
  18. صحیح البخاری جلد 4 53۔325
  19. ^ ا ب سنن کبریٰ از بیہقی جلد 6 صفحہ 300
  20. بحارالانوار،من لا یحضرہ الفقیہ ،کتاب الکافی
  21. صحیح البخاری جلد 4 53۔326