فرنگی محل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فرنگی محل (برصغیر کی عظیم تاریخی درسگاہ)
مقاملکھنؤ
تعمیرسترہویں صدی
نظم و نسقعلما فرنگی محل

فرنگی محل لکھنؤ میں چوک نامی آبادی کے وسط سے گزرتی وکٹوریہ روڈ کے مغرب میں واقع ایک تاریخی عمارت ہے، جسے ماضی میں ایک عظیم درسگاہ کا درجہ حاصل رہا ہے اور اس نے برصغیر کے مسلمان حلقوں میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

وجہ تسمیہ[ترمیم]

مغل فرمانروا اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں غیر ملکی کو فرنگی کہتے تھے۔ چنانچہ اس عظیم الشان عمارت کا نام فرنگی محل اس لیے پڑا کیونکہ اس کے اولین مالک یورپ سے تعلق رکھنے والے (فرانسیسی یا ڈچ) تھے۔

تاریخی پس منظر[ترمیم]

اس عمارت کا اولین مالک مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں نیل (Niel) نامی ایک فرانسیسی یا ڈچ شخص تھا، جو دیگر غیر ملکیوں کے ساتھ یہاں رہائش پزیر تھا۔ یہ عمارت ایک شاندار رہائش گاہ تھی، جسے کسی سبب سے ایک شاہی فرمان کے تحت حکومت کی طرف سے ضبط کر لیا گیا تھا۔

اسی زمانے بھارت کے صوبہ اترپردیش کے قصبے سہالی سے تعلق رکھنے والے مغل فرمانروا اورنگزیب عالمگیر کے وزیر مذہبی امور ملا قطب الدین سہالوی انصاری خاندانی دشمنی کے زیر اثر قتل ہو گئے۔ ان کے بیٹوں نے سہالی کے نامساعد حالات کے پیش نظر بادشاہ وقت سے درخواست کی کہ انھیں لکھنؤ منتقل ہونے میں مدد دی جائے، چنانچہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر چار عمارتوں پر مشتمل کمپلیکس فرنگی محل ملا قطب الدین سہالوی کے بیٹوں ملا اسعد سہالوی، ملا سعید سہالوی، ملا نظام الدین محمد سہالوی اور ملا رضا سہالوی بن ملا قطب الدین شہید کی تحویل میں دے دیا گیا۔

یہ شاہی فرمان جمال میاں بن عبد الباری فرنگی محلی کے پاس آج بھی محفوظ ہے اور اس میں واضح طور پر ملا قطب الدین کے دونوں بڑے بیٹوں ملا سعید اور ملا اسعد کے نام درج ہیں۔[1]

آغاز علم و حکمت[ترمیم]

ملا قطب الدین کی اولاد کے فرنگی محل میں منتقل ہونے کے بعد یہ عمارت اس خاندان کے لیے صرف ایک گھر نہیں رہی، بلکہ یہ علم و ثقافت کا ایک ایسا ادارہ بن گئی، جو تین صدیوں پر محیط ہے۔ اس گھر (فرنگی محل) کا نام علم کی علامت کے طور پر ہر سو مشہور ہوا۔ فرنگی محل اسلامی ثقافت اور روایات کے تحفظ اور ترویج میں اہم حصہ ادا کرتا آیا ہے۔ ملا نظام الدین نے گھر کے ایک حصے میں قصبے کے طلبہ کو پڑھانا شروع کیا اور ایک ایسی مشہور دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی، جس نے برصغیر میں کئی اہم علما پیدا کیے۔ ان بھائیوں نے اس رہائشی عمارت کو ایک عظیم الشان اسلامی ادارے میں تبدیل کر دیا تھا۔ ملا نظام الدین نے مدرسہ نظامیہ قائم کیا، جس کا نصاب تعلیم بغداد کے مدرسہ نظامیہ سے مشابہ تھا۔ اس درسگاہ کی حیثیت اکثر انگلینڈ کی کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کے ساتھ مقابلۃً پیش کی جاتی تھی۔ علامہ شبلی نعمانی نے فرنگی محل کا آکسفورڈ سے موازنہ کیا تھا۔ [2]

نمایاں خدمات[ترمیم]

اہم شخصیات[ترمیم]

مشاہیر کی آمد[ترمیم]

گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، سروجنی نائیڈو، جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی جیسے مشاہیر فرنگی محل کی سماجی اہمیت کے پیش نظر یہاں آتے رہے تھے۔ گاندھی نے فرنگی محل میں چند دن قیام بھی کیا۔ وہ کمرہ جہاں وہ ٹھہرے تھے ان کی یاد میں وقف کیا گیا ہے۔ [5]

آزادی کے بعد[ترمیم]

حسرت موہانی کا خاندان کئی نسلوں سے فرنگی محل سے عقیدت رکھتا تھا۔ جب فرنگی محل کے حالات زیادہ ناسازگار ہو گئے تو حسرت موہانی نے اتر پردیش کے اسمبلی ممبر کی حیثیت سے اپنی تنخواہ مدرسے کو دے دی۔ تاہم آزادی ہند کے بعد جب لکھنؤ کے حالات زیادہ خراب ہو گئے تو جمال میاں فرنگی محلی نے اپنے خاندان اور مدرسے کو چلانے کے لیے اصفہانیوں کی سرپرستی میں کاروبار کے لیے ڈھاکہ چلے گئے، جو اس وقت مشرقی پاکستان کا حصہ تھا۔ وہ اپنے کاروبار کی آمدنی سے ایک خطیر رقم برسوں مدرسہ کو دیتے رہے، یوں ستر کی دہائی تک مدرسہ نظامیہ چلتا رہا۔ 1971ء میں تقسیم پاکستان کے بعد جب ڈھاکہ بنگلہ دیش بن گیا تو جمال میاں کراچی منتقل ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی مدرسہ نظامیہ تاریخ کا ایک گمشدہ حصہ بن گیا۔ [6]

موجودہ عمارت[ترمیم]

اصل عمارت اور اسکول آج تک موجود ہیں۔ آزادی کے بعد یہ زوال پزیر ہے اور اب یہ عمارت خستہ ہو چکی ہے۔ اب یہاں علمائے فرنگی محل کے خاندان کے چند افراد رہائش پزیر ہیں۔ یہاں کے تعلیمی معیار نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی اس کی وجہ سے قطب الدین انصاری کی اولاد ہندوستان میں اپنی برادری کے لیے مذہبی اور اخلاقی حجت کا ایک وسیع الاحترام استعارہ بنی ہوئی ہے۔ فرنگی محل کے احیاء نو کے لیے کام جاری ہے، عیش باغ عیدگاہ کے احاطے میں مدرسہ نظامیہ قائم کیا گیا، جہاں پر طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "FirangiMahal.com"۔ 04 اپریل 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2022 
  2. "لکھنؤ کے فرنگی محل کا آکسفورڈ یونیورسٹی سے کیوں موازنہ کیا جاتا تھا؟"۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2022 
  3. "روزنامہ دنیا"۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2013 
  4. "آرکائیو کاپی"۔ 22 نومبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2014 
  5. Firangi Mahal – Lucknow | Firangi Mahal Photos, Sightseeing -NativePlanet
  6. ممتاز علمائے فرنگی محل لکھنؤ، یس اختر مصباحی، صفحہ 58