فیض احمد فیض

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فیض احمد فیض
(اردو میں: فیض احمد فیض)،(تیلگو میں: ఫైజ్ అహ్మద్ ఫైజ్ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 13 فروری 1911ء[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیالکوٹ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 نومبر 1984ء (73 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ ایلس فیض  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد سلیمہ ہاشمی‎،  منیزہ ہاشمی  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور
جامعہ پنجاب
مرے کالج سیالکوٹ
اورینٹل کالج لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر،  صحافی،  مصنف،  غنائی شاعر،  نغمہ نگار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی،  اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر محمد اقبال  ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
شاخ برطانوی ہندی فوج  ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ لیفٹینٹ کرنل  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں دوسری جنگ عظیم  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
لوٹس انعام برائے ادب (1976)
لینن امن انعام  (1962)
نگار اعزاز 
 نشان امتیاز 
 ایم بی ای  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات[3]  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

فیض احمد فیض (پیدائش: 13 فروری 1911ء– وفات: 20 نومبر 1984ء) غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر ہیں۔ آپ تقسیمِ ہند سے پہلے 1911ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز اِشتراکیت سٹالنسٹ فکر کے کمیونسٹ تھے۔

فیض احمد فیض

سوانح[ترمیم]

نام[ترمیم]

فیض کا پیدائشی نام چوہدری فیض احمد تھا اور آپ ایک زمیندار جٹ گھرانے میں پیدا ہوئے اور آپ کا خاندانی گوت ’’تتلہ‘‘ تھا۔ اِس کی نشان دہی سرکاری کاغذ اور اہلِ علاقہ کیا کرتے ہیں۔ عام طور سے اپنا نام فیض احمد فیض بتاتے تھے۔ جب بحیثیتِ شاعر فیض کی شہرت اچھی خاصی پھیل گئی تو انھوں نے اپنے نام کے ساتھ تخلص کا اِضافہ کرتے ہوئے اِسے ’’فیض احمد فیضؔ‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔[4]

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

مسلمان گھرانوں میں رائج دستور کے مطابق قرآن کریم کے حفظ کرنے سے زندگی کی ابتدا ہوئی۔ چار سال کی عمر میں ابتدا فیض نے دعاؤں کے الفاظ ماں سے سن کردہرانا سیکھا اور پھر ایک سال بعد والد اُن کو ابتدائی اسکول مکتب لے گئے۔ اس مکتب کے سربراہ سیالکوٹ کے معروف و مذہبی کارکن مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی تھے۔ کئی دوسرے قرآنی مکتب کے برخلاف مولوی ابراہیم سیالکوٹی کے مکتب میں بچے نہ صرف آیاتِ قرآنی پڑھتے تھے بلکہ فارسی زبان اور عربی زبان بھی پڑھتے تھے۔ اِس اسکول میں فیض پانچ سال تک سورہ ہائے قرآن حفظ کرتے رہے، اُن کی صحیح قرأت سیکھتے رہے اور تفسیرِ قرآن سے واقفیت حاصل کی اور اِس کے علاوہ فارسی اور عربی زبانین بھی سیکھتے رہے۔فیض کو اِن زبانوں کو سیکھنے میں کوئی دِقت پیش نہ آئی ۔[5]

بچپن[ترمیم]

فیض کی کمسنی ہی سے سب کا مرکز توجہ ڈرپوک پن کی حدوں کو چھوتا ہوا اُن کا اِنتہائی شرمیلا پن تھا۔ اُن کے مزاج کی حیرت انگیز نرمی تھی، جھگڑوں سے بچنے کی اور ہر آویزش کو سبھی دستیاب ذرائع سے رفع دفع کرنے کی اُن کی تمنّا تھی۔ ظاہر ہے کہ اپنی ان فطری خصوصیات کی وجہ سے وہ اپنے چلبلے بھائیوں کے ساتھ بے قراری اور بے لطفی محسوس کرتے اور اُن کی شرارتوں میں شامل ہونے سے گریز کرتے۔خود فیض نے کہا ہے: ’’بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک بات خاص طور سے یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ہجوم تھا۔ ہم جو تین بھائی تھے، اُن میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین سے باغی ہوکر کھیل کُود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے اِن خواتین کے ہاتھ آگئے۔ اُس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ اِن خواتین نے ہم کو اِنتہائی شریفانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اُجڈ قسم کی بات اُس زمانے میں ہمارے منہ سے نہیں نکلتی تھی، اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کی لہو و لعب کی زندگی گذارنے سے ہم محروم رہے‘‘۔[6]

تھیٹر سے دلچسپی[ترمیم]

فیض کے تھیٹر کے شوق کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب وہ چودہ سال کے تھے[7]۔اسکول کے زمانے سے ہی فیض ناٹک دیکھنے کے بے حد شوقین تھے۔ لاہور اور دہلی سے یہاں تک کہ دور دراز بمبئی سے بھی ناٹک منڈلیاں اکثر سیالکوٹ آتی رہتی تھیں۔ اُس زمانے میں آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں کو غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔ جب بھی یہ اسٹیج پر کھیلے جاتے، تماش بِینوں کی بڑی تعداد اکٹھا ہوتی۔ فیض اپنے اسکول کے دوستوں کے ساتھ رات دیر گئے تک انھیں تماشوں میں غائب رہتے۔ تھیٹر سے لڑکپن کے دِنوں کی دلچسپی میں ڈراما نگاری کے بے حد شوق میں تبدیل ہوئی کیونکہ بعد میں فیض نے کئی ڈرامے ریڈیو سے نشر کیے جانے کے لیے بھی لکھے۔خود فیض نے کہا ہے کہ: ’’ میں اسٹیج پر جو کچھ دیکھتا، اُس سے ایک عرصے تک متاثر رہتا، خود کو ہیرو تصور کرتے ہوئے تناؤ سے بھرپور ڈرامائی واقعات کو ازسرِ نَو شدت سے محسوس کرتا۔ آغا حشر کے ڈراموں کا ہیرو بہادر، ٹَس سے مَس نہ ہونے والا اور اپنے عقائد کی خاطر جان پر کھیل جانے والا شخص ہوتا‘‘۔[8]

تعلیم[ترمیم]

تب وہ اسکاچ مشن اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہ اِس اسکول میں دس سال کی عمر میں 1921ء میں سیدھے چوتھی جماعت میں داخل ہوئے اور 1927ء میں امتیاز کے ساتھ یہاں تعلیم مکمل کی۔ یہ سیالکوٹ کا بہترین اسکول تھا جس میں علامہ اقبال بھی تعلیم حاصل کرچکے تھے۔عربی زبان اور فارسی زبان کے بہترین اور قابلِ قدر مُعَلَّم سید میر حسن سے تعلیم حاصل کی۔ مشن اسکول میں تکمیل تعلیم کے بعد بھی فیض نے مولانا کے زیرنگرانی السَنَّہ اور ادب کی تعلیم جاری رکھی۔ یہ اسکول ثانوی تعلیم کا وسطی دور تھا۔ ثانوی تعلیم کی تکمیل کے لیے فیض نے سیالکوٹ کے بہترین تعلیمی ادارے مرے کالج میں داخلہ لیا۔ اِس کالج کے فارغ التحصیل طلبہ کو انٹرمیڈیٹ کی سند ملتی تھی۔ مرے کالج میں بھی فیض نے تکمیل تعلیم بدرجہ امتیاز کی۔[9]

زمانہ طالب علمی اور شاعری سے شغف[ترمیم]

فیض جب لاہور میں مقیم تھے تو زمانۂ طالب علمی کے اِس دور میں یہ رومانی شاعری کے عروج کا زمانہ تھا۔ مشاعرے ہوتے تھے اور رومانی انداز کی نظمیں اور غزلیں پڑھی جاتی تھیں اور رسائل میں شائع ہوکر زیادہ وسیع حلقے تک پہنچ جاتی تھیں۔ حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی خواص و عوام میں بہت مقبول تھے۔ فیض نوجوان تھے اور نوجوانوں کے عام عشقیہ تجربات سے وہ بھی گذر رہے تھے، اِس لیے انھوں نے آغازِ شاعری رومانی نظموں سے کیا۔[10]

فیض کے گھر کے قریب ایک کتابوں کی دکان تھی جس کے مالک نہ صرف کتب فروخت کرتے تھے بلکہ محلے والوں کو تھوڑے معاوضے پر انھیں گھر لے جا کر پڑھنے بھی دیتے تھے۔ ایک بار فیض اِس دکان پر آئے اور اُس دن سے اِس انوکھے کتب خانہ میں اُن کا مستقل آنا جانا شروع ہو گیا۔ پہلے تو انھوں نے اُردو نثر میں بہت دلچسپی لی، رتن ناتھ سرشار اور عبد الحلیم شرر کی تقریباً سبھی تصنیفات پڑھ ڈالیں۔ پھر اُردو شعرا کے دواوین اُن کی توجہ کا مرکز بنے اور وہ اِس جہانِ شاعری میں مستغرق ہو گئے۔[11]

انگریزی ادب اور مشاعروں میں شمولیت[ترمیم]

اسی عرصے میں فیض کا رجحان انگریزی ادب کی جانب مبذول ہوا ۔ ابتدا میں وہ انگریزی ناولوں کے مطالعے میں مصروف ہوئے۔ ناول پڑھتے ہوئے مشکل الفاظ، محاورات اور متن کے پورے ٹکڑے نظر انداز کرجاتے اور صرف پلاٹ کی پیشرفت پر نظر رکھتے۔ رفتہ رفتہ اُن کی انگریزی بہتر ہوتی چلی گئی اور انگریزی زبان سے اُن کی واقفیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ فیض خطوط کے جواب لکھنے میں اپنے والد کی مدد بھی کیا کرتے تھے کیونکہ انھیں اُس دور میں خطوط لکھنے میں دِقَّت پیش آیا کرتی تھی۔ فیض اخبارات کا مطالعہ بھی کرتے اور اخبار پڑھ کر سنایا بھی کرتے تھے جس سے اُن کی اردو اور انگریزی کے اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے اُن کی استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔فیض کو انگریزی زبان پر اِتنا اچھا عبور حاصل تھا کہ اکثر ماسٹر کے لیکچر میں بھی غلطیوں کی نشان دہی کر دیا کرتے۔ دسویں جماعت میں انھیں سارے اسکول میں انگریزی کی سب سے زیادہ واقفیت رکھنے والا طالب علم تسلیم کیا گیا۔انگریزی ناولوں کے مطالعہ میں روز افزوں انہماک کے باوجود فیض اردو شاعری کی اُس طلسماتی دنیا کو بھول نہ پائے۔ ظاہر ہے کہ اُن کے والد کو بھی اِس شوق کا پتا چل گیا۔ بہر حال انھوں نے فیض کو اپنے ساتھ اُن مشاعروں میں لے جانا شروع کر دیا جو جاڑے کی راتوں میں اُن کے دولت مند ہندو پڑوسی پنڈت راج نارائن ارمانؔ اپنی حویلی میں بڑے شوق سے منعقد کیا کرتے تھے[12]۔1928ء میں فیض نے مرے کالج (سیالکوٹ) کے حلقہ ادب کی طرف سے کالج میں ایک مشاعرہ میں پہلی بار اپنی شاعری کے باعث داد سمیٹی۔[13]

گورنمنٹ کالج میں داخلہ[ترمیم]

1927ء میں اسکاچ مشن ہائی اسکول ‘ سیالکوٹ سے اول درجہ میں میٹرک پاس کیا اور اِس کے دو سال بعد 1929ء میں مرے کالج (سیالکوٹ) سے ایف اے کا امتحان پاس کر لیا اور اِس کے بعد تعلیمی دور کا آغاز لاہور سے شروع ہوا[14]۔انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد فیض کے والد نے مناسب سمجھا کہ انھیں لاہور کی جامعہ پنجاب سے ملحق گورنمنٹ کالج میں داخلے کے لیے بھیجا جائے[15]۔فیض کے والد سلطان محمد خاں نے علامہ اقبال سے سفارش کی کہ وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل قاضی فضل حق کے نام ایک تعارفی خط لکھ دیں کیونکہ پرنسپل قاضی فضل حق علامہ اقبال کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ 1929ء کے موسمِ خزاں میں فیض اِس تعارفی خط کے ساتھ سیالکوٹ سے لاہور روانہ ہوئے۔ قاضی صاحب سے ملاقات اور انٹرویو کے بعد جب فیض نے علامہ اقبال کے اُس تعارفی خط کو واپس لینے کا اصرار کیا تو قاضی صاحب نے وہ خط اپنے پاس رکھ لیا اور واپس نہ کیا جس کا افسوس فیض کو باقی رہا۔گورنمنٹ کالج میں داخلہ ہوجانے کے بعد بھی فیض کی سخن گوئی کو مزید شہرت ملنا شروع ہو گئی۔ یہاں پطرس بخاری اور صوفی تبسم جیسے اساتذہ کی رہنمائی کام آئی۔جنوری 1931ء میں گورنمنٹ کالج میں مشاعرہ منعقد ہوا تو موضوع ’’اقبال‘‘ کے تحت فیض نے اشعار پڑھے اوراِس کلام پر تحسین و آفرین پیش ہوئی اور یہ نظم کالج کے مجلہ ’’راوی‘‘ میں شائع بھی ہوئی۔یہ نظم سبط حسن کے پاس محفوظ تھی[16]۔گورنمنٹ کالج (لاہور) سے 1931ء میں فیض نے بی اے کے ساتھ ساتھ عربی میں بی اے آنرز کی ڈگری بھی حاصل کرلی۔ 1933ء میں انگریزی ادب میں ایم اے اور پھر 1934ء میں عربی زبان و اَدب میں بھی امتیاز کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی[17]۔

فیض اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایم اے کی ڈگری کے بعد انگلستان جاکر مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اِس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی کیونکہ جن دِنوں وہ امرتسر میں مقیم تھے تو اِس سلسلے میں کچھ پیشرفت ہوئی تھی ۔ 1939ء کے وسط میں کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا اور ایک اطالوی بحری جہاز میں جگہ بھی مخصوص کروالی گئی تھی اور ٹکٹ تک خرید لیا تھا، ملبوسات تیار کروالیے گئے تھے، بس جہاز کی روانگی کا اِنتظار تھا، جہاز کے جانے میں ابھی کوئی دس دِن باقی تھے کہ خبر آئی کہ دوسری جنگِ عظیم شروع ہو چکی ہے اور ملک سے باہر آنے جانے کے سب راستے بند ہو چکے ہیں۔ اس طرح فیض دوسرے صاحبِ حیثیت لوگوں کی طرح اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے لیے ولایت پلٹ نہ بن سکے۔[18]

خاندانی مشکلات[ترمیم]

فیض ابھی گورنمنٹ کالج (لاہور) میں زیر تعلیم ہی تھے کہ اُن کے والد کی وفات کی وجہ سے تمام گھر کو مالی مشکلات نے گھیر لیا۔ گھر میں جو کچھ باقی بچا تھا، وہ قرض داروں کی نذر ہو گیا۔ مگر فیض نے اپنے تعلیمی سلسلے کو کسی بھی طرح منقطع نہیں ہونے دیا۔ اُن کے لیے یہ مالی اعتبار سے بڑے مشکل دن تھے۔[19]

ملازمت[ترمیم]

فیض انگریزی اور عربی میں ایم اے کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ فیض لاہور میں کسی مناسب نوکری کی تلاش میں تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اِنہی دِنوں 1934ء کے آس پاس امرتسر میں وہاں کی انجمن اسلامیہ کے ایم اے او ہائی اسکول کو کالج کا درجہ مل گیا۔ کالج کو نئے اسٹاف کی ضرورت تھی۔ امرتسر سے قریب ترین شہر لاہور تھا، چنانچہ گورنمنٹ کالج کے فارغ التحصیل طلبہ کی ایک پوری کھیپ وہاں پہنچ گئی جس میں فیض بھی شامل تھے[20]۔ فیض 1935ء میں امرتسر کے ایم اے او کالج سے بطور لیکچرار منسلک ہو گئے اور 1940ء تک تقریباً پانچ سال تک یہاں رہے۔امرتسر میں قیام کے ہی دورا ن ہی فیض نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی ۔[21]

ترقی پسند مصنفین سے روابط[ترمیم]

امرتسر میں ہی فیض کی ملاقات ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر سے ہوئی۔ سجاد ظہیر انجمن ترقی پسند مصنفین کے ابتدائی کاموں میں مصروف تھے۔ اِس سلسلے میں ہم خیال ادیبوں اور شاعروں سے رابطے کے لیے ہندوستان بھر کے مختلف شہروں کا سفر کیا اور امرتسر کا سفر بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ امرتسر میں فیض کا رابطہ صاحبزادہ محمود الظفر اور اُن کی بیگم ڈاکٹر رشید جہاں سے تھا اور اِنہی دونوں کی وساطت سے ملاقات سجاد ظہیر سے ہوئی تھی[22]۔اِنہی ملاقاتوں سے فیض میں مارکسزم کے نظریات میں دلچسپی لینا شروع کی اور مارکسزم کی جانب فیض کا دھیان صاحبزادہ محمود الظفر نے کروایا تھا جس کا تذکرہ خود فیض نے اپنی کتاب ’’مہ و سال آشنائی‘‘ میں بھی کیا ہے[23]۔سجاد ظہیر سے ملاقات کے بعد فیض نے لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ قائم کروانے کا بیڑا اپنے سَر لیا۔ امرتسر سے جنوری 1936ء کی ایک صبح چار اَفراد یعنی سجاد ظہیر، رشید جہاں، محمود الظفر اور فیض پر مشتمل ایک قافلہ لاہور کی طرف بذریعہ کارروانہ ہوا اور شام ڈھلنے سے قبل لاہور پہنچ گیا۔ سجاد ظہیر نے اپنی آپ بیتی میں اِس کا ذکر کیا ہے۔[24]

ادب لطیف کی ادارت[ترمیم]

امرتسر میں قیام کے دوران ہی فیض نے لاہور سے شائع ہونے والے ادبی پرچے ’’ ادبِ لطیف‘‘ کی اِدارت بھی سنبھالی ۔ فیض کا یہ صحافت میں پہلا باقاعدہ قدم تھا۔ ادبِ لطیف نے اِن کی اِدارت کے زمانے میں جدید اور ترقی پسند ادب کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا۔[25]

ریڈیائی ڈرامے[ترمیم]

فیض نے اپنے ادبی سفر میں آل انڈیا ریڈیو کے لیے بھی کچھ ڈرامے لکھے۔ اِن میں سے کچھ تو 1938ء/1939ء کے درمیانی عرصے میں جبکہ فیض امرتسر میں ہی تھے، آل انڈیا ریڈیو ، لاہور سے نشر ہوئے۔ اِن ڈراموں میں ’’دی احباب‘‘، ’’شکست‘‘، ’’توہینِ عدالت‘‘، ’’پرائیویٹ سیکرٹری‘‘، ’’سانپ کی چھتری‘‘ اور ’’شب و روز‘‘ شامل ہیں۔[26]

ہیلی کالج ، لاہور میں ملازمت[ترمیم]

امرتسر میں پانچ سال گذارنے کے بعد 1940ء میں فیض لاہور آگئے۔ ہیلی کالج آف کامرس، لاہور میں انگریزی کی لیکچرار شپ قبول کرلی اور کم و بیش دو سال تک اِس سے منسلک رہے۔[27]

ایلس جارج سے شادی[ترمیم]

ایلس کیتھرین جارج ایک روشن خیال خاتون تھیں۔ اُن کی بڑی بہن کی شادی ڈاکٹر تاثیر سے ہوئی تھی جو اُن دِنوں امرتسر کے ایم اے او کالج میں پرنسپل تھے۔ وہیں امرتسر میں ڈاکٹر تاثیر کے یہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی تو بیگم تاثیر کی چھوٹی بہن ایلس اپنی بہن اور بہنوئی سے ملنے ہندوستان آئی ہوئی تھیں۔ یہیں ایلس جارج کی ملاقات فیض سے ہوئی۔جلد ہی دونوں نے شادی کا اِرادہ کر لیا ۔ بعد ازاں ایلس کیتھرین جارج کا اِسلامی نام ’’کلثوم‘‘ رکھا گیا اور 28 اکتوبر 1941ء کو شیخ محمد عبد اللہ نے نکاح پڑھا جبکہ رسمِ نکاح سری نگر میں سر انجام پائی تھی۔ بعد ازاں ازدواجی بندھن میں بندھنے والے اِس نو بیاہتا جوڑے نے مہاراجا ہری سنگھ کے پری محل میں اپنا ہنی مون منایا۔ اس شادی سے فیض کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ پہلی بیٹی سلیمہ ہاشمی1943ء میں دہلی میں پیدا ہوئی جبکہ دوسری بیٹی منیزہ ہاشمی 1945ء میں شملہ میں پیدا ہوئی۔ فیض کو اپنی اِن دونوں بچیوں سے بہت پیار تھا، خصوصاً جیل کے زمانوں میں لکھے گئے خطوط میں اُن کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی یاد کرتے تھے۔ فیض یہ ہمیشہ یہ دکھ رہا کہ بہت عرصہ تک جیل میں یا کسی اور وجہ سے وہ بچوں سے دور ہونے کے باعث بچوں کا بچپن اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے [28]۔ فیض کی طرح، ایلس بھی شعبۂ تحقیق سے وابستہ تھیں اور اِن کی شاعری اور شخصیت سے متاثر تھیں۔ فیض کے خاندان کو یہ بات بالکل ناپسند تھی کہ انھوں نے اپنے لیے ایک غیر ملکی عورت کا انتخاب کیا، لیکن فیض کی ہمشیرہ نے اپنے خاندان کو ایلس کے لیے آمادہ کر لیا۔

فوج میں ملازمت[ترمیم]

1942ء میں آپ نے فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔[29] دوسری جنگ عظیم سے دور رہنے کے لیے آپ نے اپنے لیے محکمۂ تعلقات عامہ میں کام کرنے کا انتخاب کیا۔ آپ فوج میں جنرل اکبر خان کے ماتحت ایک یونٹ میں بھرتی تھے۔ جنرل خان بائیں بازو کے سیاسی خیالات رکھتے تھے اور اس لیے آپ کو خوب پسند تھے۔ 1943ء میں فیض میجر اور پھر 1944ء میں لیفٹیننٹ کرنل ہوئے۔ 1947ء میں پہلی کشمیر جنگ کے بعد آپ فوج سے مستعفی ہو کر لاہور آ گئے۔

تقسیمِ ہند کے بعد[ترمیم]

1947ء میں آپ پاکستان ٹائمز اخبار کے مدیر بنے۔ ترقی پسند تحریک کے دیگر بانیان، بشمول سجاد ظہیر اور جلال الدیں عبد الرحیم، کے ہمراہ آپ نے اِشتراکیت پسند کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان‎ کی بنیاد بھی اسی سال میں رکھی۔ 1948ء میں آپ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ 1948ء تا 1950ء آپ نے پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے وفد کی جنیوا میں سربراہی کی اور دریں اثنا آپ ورلڈ پیس کونسل کے رکن بھی بن گئے۔

راولپنڈی سازش کیس[ترمیم]

لیاقت علی خان کی حکومت کشمیر کو پانے میں ناکام ہو گئی تھی اور یہ بات پاکستانی افواج، یہاں تک کہ قائد اعظم‎ محمد علی جناح، کو بھی گوارا نہ تھی۔ جناح نے خود لیاقت علی خان کی ناکامی پر ناراضی کا اظہار کیا۔ یہ بات بھی یقینی تھی کہ جنرل ڈگلس گریسی نے بھی اِس معاملے میں قائد اعظم‎ کی نہ سُنی۔ اور تو اور، امریکا سے واپسی پر لیاقت علی خان نے کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان سوشلسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی۔ مشرقی پاکستان میں البتہ، ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی فعال رہی اور دھرنے دیتی رہی۔

23 فروری 1951ء کو چیف آف جنرل سٹاف، میجر جنرل اکبر خان کے گھر پر ایک خفیہ ملاقات کا انعقاد ہوا۔ اِس ملاقات میں دیگر فوجی افسران بھی سجاد ظہیر اور فیض کے ساتھ، شامل تھے۔ یہاں موجود اِن سب لوگوں نے لیاقت علی خان کی گورنمنٹ کو گرانے کا ایک منصوبہ تجویز دیا۔ یہ سازش بعد میں راولپنڈی سازش کے نام سے جانی جانے لگی۔

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھاوہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

9 مارچ 1951ء کو فیض کو راولپنڈی سازش كیس میں معاونت كے الزام میں حكومتِ وقت نے گرفتار كر لیا۔ آپ نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی كی جیلوں میں گزارے؛ جہاں سے آپ كو 2 اپریل 1955ء كو رہا كر دیا گیا۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اِسی عرصہ میں لكھی گئیں۔ رہا ہونے کے بعد آپ نے جلاوطنی اختیار کر لی اور لندن میں اپنے خاندان سمیت رہائش پزیر رہے۔ فیض نے جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ایک شعر میں کہا:

فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرےاپنا کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

وطن واپسی[ترمیم]

1959ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں بطورِ سیکرٹری تعینات ہوئے اور 1962ء تک وہیں پر کام کیا۔ 1964ء میں لندن سے واپسی پر آپ عبد اللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔

1947ء تا 1958ء مدیر ادب لطیف مدیر لوٹس لندن، ماسکو اور بیروت.

وفات[ترمیم]

فیض دمہ کے عارضہ میں مبتلاء تھے جس نے اُن کو کافی کمزور کر دیا تھا۔1984ء کے موسم گرماء میں یورپ سے واپسی پر کچھ دِنوں بعد فیض کی طبیعت خراب ہوئی مگر وہ لاہور میں اپنا علاج کرواتے رہے۔دمہ کا عارضہ لاحق تھا جو آہستہ آہستہ شدت اِختیار کرتا چلا جا رہا تھا۔ آخری دِنوں میں سگریٹ نوشی بھی چھوڑ دی تھی لیکن سانس کے اِس عارضہ نے انھیں اِس بار اس طرح ہسپتال پہنچایا کہ وہ شفایاب نہ ہو سکے۔18 نومبر کی شب فیض کو میو ہسپتال میں داخل کروایا گیا اور اُن کو بچانے کی پوری کوشش کی گئی۔لیکن تمام کوششیں ناکام ہوگئیں اور 20 نومبر 1984ء کی دوپہر 01:15 پر لاہور کے میو ہسپتال کے ایسٹ میڈیکل وارڈ میں میں وفات پاگئے۔[30]

شاعری[ترمیم]

فیض رفتہ رفتہ ترقی پسند تحریک کے کامیاب ترین شاعر سمجھے جاتے ہیں اور ترقی پسند حلقوں سے باہر کے بھی لوگ اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں[31]۔فیض کا آغاز رومانی شاعر کے طور پر ہوا تھا۔ پھر اُن کے ہاں ترقی پسند شاعری کے موضوعات آگئے مگر اِن موضوعات کو بھی فیض نے بالعموم جمالیاتی اور فنی حسن کے ساتھ الفاظ کا پیرایہ دیا ہے[32]۔ فیض کی شاعری کا آغاز اُن دِنوں سے ہوا جب رومانی رجحان اُردو شاعری میں عروج پر تھا۔ وہ اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری کی رومانی شاعری سے متاثر تھے مگر فیض نے اِس انداز میں جو نظمیں لکھیں ‘ وہ کسی رومانی شاعر کی صدائے بازگشت ہونے کی بجائے ایک نوجوان کے عشقیہ تجربات اور واردات پر مشتمل ہیں۔ بعض انگریزی رومانی شعرا کے اثرات اُن نظموں پر موجود ہیں، جن کا انھوں نے اعتراف کیا ہے۔ ’’نقشِ فریادی‘‘ کا پہلا حصہ ایسی ہی نظموں پر مشتمل ہے۔ اُردو شاعری کی روایتی ہئیتوں کے ساتھ ساتھ انگریزی شاعری کی ’’مسٹینز افارمز‘‘ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ چند غزلیں اور قطعات بھی ہیں۔ مشہور نظم’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘سے دوسرے حصے کا آغاز ہوتا ہے جو اُن موضوعات پر مشتمل ہے جو معاصر ترقی پسند شاعری میں مُرَوَّج تھے لیکن اِس حصے کی بعض نظمیں عام ترقی پسند شاعری کی روِش سے مختلف ہیں، مثلاً: ’’رقیب سے‘‘، ’’تنہائی‘‘، ’’موجوعِ سُخَن‘‘ وغیرہ[33]۔فیض بنیادی طور پر دھیمے لہجے اور آہستگی کا شاعر ہے۔ اُن کے ہاں خودکلامی کا انداز ہے جو بجائے خود دھیمے پن سے عبارت ہے۔ اِس لیے وہ معروف معنوں میں شاعرِ انقلاب نہیں تھے اور نہ ہی اپنے فن کی نفاستوں اور باریکیوں کی وجہ سے شاعرِ عوام بن سکتے تھے ، اِس کے باوجود فیض کے کلام میں تاثیر موجود ہے اور بعض اوقات تفہیم سے پہلے ہی الفاظ ہمیں متاثر کردیتے ہیں۔ یہ فنی اور جمالیاتی حسن ہی ہے جس نے فیض کو اپنے ہم عصروں میں اونچا مقام دیا ہے اور جن میں ترقی پسند یا غیر ترقی پسند شعرا کی کوئی تفریق نہیں۔معاصرین میں فیض کو یہ تخصص بھی حاصل ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک اہم نظم نگار ہیں لیکن غزل کی صنف پر بھی ماہرانہ قدرت رکھتے تھے۔ فارسی اور اُردو غزل کی روایت سے بخوبی آگاہ ہونے کے سبب وہ جدید مضامین کو غزل کی زبان میں اداء کرنے پر قادر تھے اور غزل کی قدیم علامات کو نئے معانی پہناسکتے تھے۔[34]

فیض ترقی پسند تحریک کے شاعر تھے اور ترقی پسند تحریک کے منشور کے مطابق ترقی پسند شاعری ایک تحریک کے زیر اثر پھلی پھولی تھی اور یہ تحریک ایک واضح منشور کی پیروی کرتی رہی۔ اِس منشور کے مطابق اد ب کا مقصد طبقاتی سماج میں استحصال کا شکار ہونے والے عوام کو باشعور بنانا اور اُن کے حقوق کے جدوجہد کرنا تھا۔ اِس سماج میں سرمایہ دار اور جاگیردار بالادست تھے جو مزدوروں اور کسانوں اور دِیگر محنت کشوں کا اِستحصال کر رہے تھے، اِس لیے ترقی پسند مصنفین کا فرض تھا کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے کچلے ہوئے عوام کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کشمکش پر آمادہ کریں۔ چنانچہ اِس تحریک سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام شعرا مقصدی شاعری کو اَوَّلیت دیتے تھے اور فنی تقاضوں سے لاپروائی اِختیار کرتے تھے۔ اِس لیے اُن کی شاعری کا بہت سا حصہ پرجوش بیانات بلکہ نعروں کی شکل اِختیار کرلیتا تھا۔ سوویت یونین اور اُس کی پالیسیوں اور لیڈران پر نظمیں لکھی جاتی تھیں جن میں شاعری کا عموماً شائبہ بھی نہیں تھا۔ لہٰذا فیض کو اِس تحریک (یعنی ترقی پسند تحریک) کے اہم ترین شاعر تسلیم کرلیے گئے کیونکہ انھوں نے اپنی شاعری میں فنی اور جمالیاتی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا۔ فیض ترقی پسندانہ خیالات کو شاعری بنانے کے ہنر سے واقف تھے۔مغربی شاعروں کے اسالیبِ اظہار سے شعری محاسن اخذ کرنے کے ساتھ ساتھ فارسی اور اُردو شاعری کے کلاسیکی شاہکاروں سے بخوبی آگاہ تھے ، چنانچہ وہ سیدھے اور سپاٹ انداز میں بات کرنے کی بجائے نظم میں ایسی فضاء بنادیتے تھے جو موضوع کی مناسبت سے تیار کی جاتی ہے اور اِس کے لیے امیج بھی اِسی قسم کے استعمال کرتے تھے جو فضاء بندی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔[35]

دستِ صبا اور زنداں نامہ[ترمیم]

دستِ صبا اور زنداں نامہ کی شاعری زیادہ تر اُن چار برسوں میں لکھی گئی ہے جب فیض راولپنڈی سازش کیس 1951ء کے سلسلے میں قید تھے۔ ’’دستِ صبا‘‘ میں اسیری سے کی نظمیں بھی شامل ہیں جن میں ’’سیاسی لیڈر کے نام‘‘ اور ’’صبح آزادی اگست 1947ء‘‘ زیادہ معروف ہیں۔ اِن نظموں میں ’’ایرانی طلبہ کے نام‘‘، ’’نثار میں تری گلیوں کے۔۔‘‘، ’’زنداں کی ایک شام‘‘، ’’زنداں کی ایک صبح‘‘ وغیرہ مقبول ہوئیں۔ ’’زنداں نامہ‘‘ میں اپنے وطن کے دِگرگُوں حالات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے ممالک کے عوام کی بدحالی اور اِن ممالک میں اُٹھنے والی اِنقلابی تحریکوں کو بھی موضوع بنایا گیا ہے نیز سرمایہ دار ملکوں کے استحصالی روئیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ دنیا بھرمیں جنگ و جدل ختم کرکے امن کا پیغام دیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں ’’ آجاؤ افریقا‘‘، ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘، ’’ملاقات‘‘ ، ’’دریچہ‘‘ وغیرہ خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔[36]

دستِ تہ سنگ[ترمیم]

یہ شاعری اُس زمانے کی شاعری ہے جب فیض کی مدتِ اسیری ختم ہو چکی تھی اور وہ آزاد فضاء میں سانس لے رہے تھے۔ اُسی زمانے میں فیض کو ’’لینن پرائز‘‘ بھی ملا۔ اِس مجموعہ میں کئی نظمیں رجائیت سے بھرپور ہیں اور لگتا ہے کہ شاعر کو عوامی جدوجہد کی کامیابی کے اشارے مل رہے ہیں۔ ’’پیکنگ‘‘، ’’سنکیانگ‘‘، ’’جشن کا دِن‘‘، ’’شام‘‘، ’’آج بازار میں پابجولاں چلو‘‘ وغیرہ میں اِسی موڈ کو الفاظ میں ڈھالا گیا ہے۔ ’’ سرِ وادیٔ سیناء‘‘ ایوب اور یحییٰ خان کے مارشل لاؤں کے پسِ منظر میں تخلیق ہوئی ہیں لیکن بین الاقوامی حالات اور بعض بیرونی شعری رجحانات کی طرف بھی توجہ کی گئی ہے۔ اِس میں ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں جبرِ حالات کی عکاسی ہے اور ایسی بھی جن میں بین الاقوامی سیاسیات پر بھی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے پسِ منظر میں لکھی ہوئی نظم ’’ سرِ وادیٔ سیناء‘‘ جس کو کتاب کا عنوان بھی بنایا گیا ہے، ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھنے کی بجائے جدوجہد پر آمادہ کرتی ہے۔ اِس سلسلہ میں ’’دعا‘‘ اور ’’غم نہ کر‘‘ قابلِ ذِکر ہیں۔[31]

شام شہر یاراں[ترمیم]

اِس مجموعہ میں بہت سی متفرق چیزیں جمع کرکے بمشکل ایک چھوٹا سا مجموعہ بنایا گیا ہے۔ اِس میں خاصہ فنی انحطاط نظر آتا ہے اور یہی کیفیت اگلے مجموعے ’’مرے دِل مرے مسافر‘‘ کی ہے۔ اِن دونوں مجموعوں میں فیض کا کچھ پنجابی کلام بھی شامل ہے۔ آخری مجموعے ’’غبارِ ایام‘‘ میں بھی فن یا فکر کے لحاظ سے قابلِ ذِکر نظمیں موجود نہیں ہیں۔[31]

شاعری کے مجموعے[ترمیم]

آزاد نظم[ترمیم]

کلیات[ترمیم]

غزل[ترمیم]

کتابیات[ترمیم]

  • سید قاسم محمود: ماہنامہ طالب علم، مطبوعہ کراچی، جنوری 1985ء
  • اشفاق حسین: فیض احمد فیض، شخصیت اور فن، مطبوعہ اکادمی ادبیات، اسلام آباد، 2006ء
  • صدیقہ بیگم: ادب لطیف، فیض نمبر، جلد 51، شمارہ 4-3، نومبر، 1985ء، لاہور۔
  • لڈملا ویسیلیوا: پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات)، مطبوعہ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، لاہور، 2007ء
  • خواجہ محمد زکریا: تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، جلد 5، مطبوعہ جامعہ پنجاب، لاہور، 2012ء

مزید دیکھیے[ترمیم]

  • نمونہ کلام فیض احمد فیض

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6gq7r6v — بنام: Faiz Ahmad Faiz — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. ^ ا ب بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13540770c — بنام: Faiz̤ Aḥmad Faiz̤ — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ربط : انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس آئی ڈی  — اخذ شدہ بتاریخ: 2 اگست 2019
  4. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 13/14۔
  5. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 14۔
  6. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 15۔
  7. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 16۔
  8. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 16۔
  9. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 16۔
  10. تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: جلد 5،  صفحہ 182/183۔
  11. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 18/19۔
  12. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 20/21۔
  13. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 24۔
  14. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 20۔
  15. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 27۔
  16. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 33-30۔
  17. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 21-20۔
  18. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 50-49۔
  19. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 22۔
  20. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 37۔
  21. پرورش لوح و قلم(فیض: حیات اور تخلیقات): صفحہ 41۔
  22. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 39۔
  23. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 41۔
  24. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 42-41۔
  25. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 47۔
  26. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 47۔
  27. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 50۔
  28. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن: صفحہ 51-50۔
  29. فیض احمد فیض، شخصیت اور فن، صفحہ208۔
  30. ^ ا ب پ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: جلد 5،  صفحہ 184۔
  31. تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: جلد 5،  صفحہ 187۔
  32. تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: جلد 5،  صفحہ 183۔
  33. تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: جلد 5،  صفحہ 187۔
  34. تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: جلد 5،  صفحہ 185-184۔
  35. تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: جلد 5،  صفحہ 184۔