قرۃ العين حيدر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(قرت العین حیدر سے رجوع مکرر)
قرۃ العين حيدر
معلومات شخصیت
پیدائش 20 جنوری 1927ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
علی گڑھ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 21 اگست 2007ء (80 سال)[2][1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نوئیڈا  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد سجاد حیدر یلدرم  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی لکھنؤ یونیورسٹی
اندر پرستھ کالج برائے نسواں، دہلی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہرِ لسانیات،  مصنفہ،  مترجم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 پدم بھوشن  (2005)[3]
گیان پیٹھ انعام  (1989)[4]
 پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم  (1984)[5]
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ  (برائے:پت جھڑ کی آواز) (1967)[6]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 

قرۃ العین حیدر بھارت میں مقیم اردو کی ایک خاتون ناول نگار تھیں۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

20 جنوری، 1927ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ لیکن بعد میں انھوں نے بھارت آ کر رہنے کا فیصلہ کیا۔

ادب[ترمیم]

قرۃالعین حیدر صرف ناول نگاری کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے افسانوں اور بعض مشہور تصانیف کے ترجموں کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں آگ کا دریا، آخرِ شب کے ہم سفر، میرے بھی صنم خانے، چاندنی بیگم اور کارِ جہاں دراز شامل ہیں۔

اندر پرستھ کالج دہلی[7] سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ لکھنؤ چلی گئیں اور لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ پھر ازابیلا تھبرن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی اور 1947ء میں پاکستان چلی گئیں۔ اس کے بعد کچھ دن برطانیہ میں رہیں اور پھر 1960ء میں بھارت آ گئیں اور نوئیڈا منتقل ہونے سے قبل 20 برس ممبئی میں رہیں۔ نوئیڈا میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ انھوں نے شادی نہیں کی۔

تقسیم ہند کے وقت وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان چلی گئیں۔[8] 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں[8] وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انھوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔

ناول[ترمیم]

ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔

آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انھیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انھیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔

شعور کی رو[ترمیم]

11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انھوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنسرا تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔

اعزازات[ترمیم]

انھیں ساہتیہ اکادمی اور گیان پیٹھ انعام کے اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ ساہتیہ اکیڈمی اعزاز ان کے افسانوی مجموعہ پت جھڑ کی آواز پر 1967ء میں تفویض ہوا جبکہ گیان پیٹھ اعزاز 1989ء میں آخرِ شب کے ہم سفر پر دیا گیا تھا۔ انھیں پدم بھوشن اور جنان پیٹھ اعزازت سے بھی نوازا گیا ہے۔

وفات[ترمیم]

ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔[9]

تصانیف[ترمیم]

  • آگ کا دریا
  • آخرِ شب کے ہمسفر (گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ)
  • میرے بھی صنم خانے
  • چاندنی بیگم
  • کارِ جہاں دراز ہے
  • روشنی کی رفتار
  • سفینۂ غمِ دل
  • پت جھڑ کی آواز (ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ)
  • گردشِ رنگِ چمن
  • چائے کے باغ
  • دلربا
  • اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو

مزید مطالعات[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Qurratulain-Hyder — بنام: Qurratulain Hyder — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  2. http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/6956218.stm
  3. https://www.outlookindia.com/website/story/padma-awards-2005/226328 — اخذ شدہ بتاریخ: 19 فروری 2020
  4. http://www.jnanpith.net/page/jnanpith-laureates
  5. http://www.dashboard-padmaawards.gov.in/?Year=1984-1984 — اخذ شدہ بتاریخ: 19 فروری 2020
  6. http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#URDU
  7. "Vital statistics of colleges that figure among India's top rankers"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 21 مئی 2001۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جولائی 2014 
  8. ^ ا ب Kamil Ahsan (22 جولائی 2019)۔ "The Alternate India"۔ The Nation۔ 26 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولائی 2019 
  9. Qurratulain Hyder (جون 2003)۔ River of Fire۔ Editorial Reviews: About the Author۔ ISBN 0-8112-1533-4۔ "With her unfortunate passing, the country has lost a towering literary figure.” 

بیرونی روابط[ترمیم]